ابوبکر کی خلافت نماز کی امامت سے ہرگز ثابت نہیں

ابوبکر کی خلافت نماز کی امامت سے ہرگز ثابت نہیں

2025-02-18

165 بازدید

کپی کردن لینک

پیغمبر اسلام (ص) کے بعد امت کی قیادت کا موضوع گزشتہ چودہ صدیوں سے عقائد اور مذاہب کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مسلسل مورد بحث قرار پاتا رہا ہے۔ لیکن آج تک ایک محقق بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ توجیہ پیش کرے کہ ابوبکر کی خلافت پیغمبر اسلام (ص) کی واضح اور یقینی حکم کے مطابق عمل میں آئی ہے اور یہ کہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے ابوبکر کی خلافت کے بارے میں اپنی حیات میں لوگوں کو وصیت کی تھی۔

ابوبکر کی خلافت قرآن و حدیث سے ثابت نہیں

ابوبکر کی خلافت کے بارے میں سنی علماء کے تمام دلائل مہاجرین و انصار کی بیعت اور خلافت پر اتفاق نظر تک محدود ہیں اور یہ امر کہ ابوبکر کی خلافت پیغمبر اکرم (ص) کی نص (فقه کی اصطلاح میں ایسا واضح اور یقینی عبارت جس سے صرف اور صرف ایک ہی معنی سمجھ میں آئے) کے مطابق نہیں تھی، یہ بات خود سقیفہ میں ابوبکر اور ان کے ہم فکر افراد کے بیانات سے بالکل ظاہر اور واضح ہوجاتی ہے۔

اگر ابوبکر کی خلافت کے بارے میں پیغمبر (ص) کی طرف سے کوئی نص موجود ہوتی تو وہ خود سقیفہ میں عمر اور ابوعبیدہ کا ہاتھ پکڑ کر ہرگز یہ نہ کہتے کہ: "قَد رَضيتُ لَكُم هذَينِ الرَّجُلَينِ” میں ان دو افراد کو خلافت کے لئے صالح اور شائستہ جانتا ہوں اور ان دونوں کے انتخاب پر راضی ہوں۔

اس کے علاوہ اگر ابوبکر کی خلافت کے سلسلے میں کوئی الٰہی نص موجود ہوتی، تو سقیفہ میں قریش کی، پیغمبر اسلام (ص) سے قرابت اور ان کی اسلام میں سبقت کے ذریعے استدلال نہیں کیا جاتا اور ان کے دوست و ہم فکر کبھی ابوبکر کے، پیغمبر (ص) کے ساتھ غار ثور میں ہم سفر ہونے اور نماز میں پیغمبر (ص) کی جانشینی جیسے مسائل سے اپنے استدلال کو تقویت نہ بخشتے۔

خود ابوبکر نے سقیفہ کے دن انصار کے امیدوار کی تنقید کرتے ہوئے کہا:

”و إنّ العرب لا تعرف هذا الأمر إلّا لقريش أوسط العرب دارا و نسبا“ عرب معاشرہ قریش کے علاوہ جو حسب و نسب کے لحاظ سے دوسروں پر برتری رکھتا ہے کسی کو خلافت کے لئے شائستہ نہیں جانتا۔

اگر ابوبکر کی خلافت کے حق میں رسول اللہ (ص) سے ایک لفظ بھی بیان ہوا ہوتا تو ان کمزور دلائل سے استدلال کرنے کے بجائے اس کا سہارا لیکر خود ابوبکر کہتے: اے لوگو! پیغمبر اسلام (ص) نے فلاں سال اور فلاں روز مجھے مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔

یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ابوبکر کی خلافت کو پیغمبر (ص) نے معین فرمایا ہے جبکہ وہ خود بیماری کی حالت میں تمنا کرتے تھے، کہ کاش میں نے پیغمبر اسلام (ص) سے یہ پوچھ لیا ہوتا کہ ”امت کی قیادت“ کا حقدار کون ہے؟

امت کی قیادت کے بارے میں ابوبکر کا سوال

عالم اسلام کے مشہور مورخ، طبری اس واقعہ کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جب ابوبکر بیمار ہوئے اور قریش کا ایک معروف سرمایہ دار ’’عبدالرحمٰن بن عوف‘‘ ان کی عیادت کے لئے آیا تو مقدماتی گفتگو کے بعد ابوبکر نے انتہائی افسوس کے ساتھ لوگوں کی طرف رخ کرکے کہا:

میری تکلیف کی پہلی وجہ وہ تین چیزیں ہیں جن کو میں نے انجام دیا ہے، کاش میں نے انہیں انجام نہ دیا ہوتا! اور تین چیزیں اور ہیں کہ کاش میں نے ان کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا ہوتا۔

وہ تین چیزیں جنہیں کاش میں نے انجام نہ دیا ہوتا حسب ذیل ہیں:

۱۔ کاش فاطمہ کا گھر نہ جلوایا ہوتا چاہے جنگ و جدال کی نوبت آ جاتی۔

۲۔ کاش میں نے سقیفہ کے دن خلافت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لی ہوتی اور اسے عمر یا ابوعبیدہ کے سپرد کرکے خود وزیر و مشیر کے عہدے پر رہتا۔

۳۔ کاش ’’ایاس بن عبد اللہ‘‘ کو جو راہزنی کرتا تھا، آگ میں جلانے کی بجائے تلوار سے قتل کرتا۔

اور وہ تین چیزیں جن کے بارے میں کاش میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھ لیا ہوتا یہ ہیں:

کاش میں نے پوچھ لیا ہوتا کہ خلافت و قیادت کا حقدار کون ہے؟ اور خلافت کا لباس کس کے بدن کے مطابق ہے؟

کاش میں نے سوال کرلیا ہوتا کہ کیا اس سلسلے میں انصار کا کوئی حق بنتا ہے؟

کاش میں نے پھوپھی اور بہن کی بیٹی کی میراث کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) سے دریافت کرلیا ہوتا![1]

ابوبکر کی خلافت کے استدلال کا رد

اہل سنت کے بعض علماء اور دانشوروں نے پیغمبر اسلام (ص) کی بیماری کے دوران نماز میں ابوبکر کی خلافت اور جانشینی کے موضوع کو بڑی شد و مد سے نقل کیا ہے اور اسے ایک بڑی فضیلت یا خلافت کے لئے سند شمار کرکے یہ کہنا چاہا کہ جب پیغمبر (ص) نماز میں ان کی جانشینی پر راضی ہوں تو لوگوں کو ان کی خلافت اور حکمرانی پر اور بھی زیادہ راضی ہونا چاہئے جو ایک دنیوی امر ہے۔

۱۔ ابوبکی کی خلافت اور تاریخ سے رد

تاریخی لحاظ سے کسی بھی صورت میں ثابت نہیں ہے کہ نماز میں ابوبکر کی خلافت و جانشینی پیغمبر (ص) کی اجازت سے انجام پائی ہو۔ بعید نہیں ہے کہ انہوں نے خود یا کسی کے اشارے پر یہ کام انجام دیا ہو۔ اس امر کی تائید اس واقعے سے ہوتی ہے کہ ابوبکر نے ایک بار اور پیغمبر (ص) کی اجازت کے بغیر آپ کی جگہ کھڑے ہوکر نماز کی امامت خود شروع کردی تھی۔

اہل سنت کے مشہور محدث بخاری اپنی صحیح میں نقل کرتے ہیں: ایک دن پیغمبر (ص) ’’قبیلہ بنی عمرو بن عوف‘‘ کی طرف گئے تھے۔ نماز کا وقت ہوگیا ابوبکر، پیغمبر (ص) کی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور نماز کی امامت شروع کردی جب پیغمبر (ص) مسجد میں پہنچے اور دیکھا کہ نماز شروع ہوچکی ہے تو نماز کی صفوں کو چیرتے ہوئے محراب تک پہنچ گئے اور نماز کی امامت خود سنبھال لی اور ابوبکر پیچھے ہٹ کر بعد والی صف میں کھڑے ہوئے۔[2]

۲۔ نماز میں امامت ہرگز خلافت کی دلیل نہیں

اگر ہم فرض کرلیں کہ ابوبکر نے پیغمبر (ص) کے حکم سے آپ کی جگہ پر نماز پڑھائی ہوگی تو نماز میں امامت کرنا ہرگز حکومت اور خلافت جیسی انتہائی اہم ذمہ داری کی صلاحیت کے لئے دلیل نہیں بن سکتا۔

نماز کی امامت کے لئے قرائت کے صحیح ہونے اور احکام نماز جاننے کے علاوہ کوئی اور چیز معتبر نہیں ہے (اور اہل سنت علماء کی نظر میں تو عدالت تک کی شرط نہیں ہے) لیکن خلافت اسلامیہ کے حاکم کے لئے سنگین شرائط ہیں۔ جن میں سے کسی ایک شرط کو نماز کی امامت کے لئے ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے، جیسے: اصول اور فروع دین پر مکمل دسترس اور کامل آگاہی رکھنا۔ احکام اور حدود الہی کے تحت مسلمانوں کے امور کو چلانے کی پوری صلاحیت رکھنا۔

اس استدلال سے پتا چلتا ہے کہ استدلال کرنے والے نے امامت کے منصب کو ایک معمولی منصب تصور کرلیا ہے اور اس سے پیغمبر (ص) کی جانشینی کو ایک عام حکمرانی کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا ہے اسی لئے وہ کہتا ہے کہ: جب پیغمبر نے ابوبکر کو دینی امر کے لئے منتخب کرلیا تو لازم اور ضروری ہے کہ ہم ان کی خلافت پر اور بھی زیادہ راضی ہوں، جو ایک دنیوی امر ہے۔

اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والے نے اسلامی حکمرانی سے وہی معنی مراد لیا ہے جو دنیا کے عام حکمرانوں کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ پیغمبر کا خلیفہ ظاہری حکومت اور مملکت کے امور کو چلانے کے علاوہ کچھ ایسے معنوی منصبوں اور اختیارات کا بھی مالک ہوتا ہے جو عام حکمران میں نہیں پائے جاتے۔

۳۔ بخار کی حالت میں پیغمبر کا خود نماز پڑھانا

اگر نماز کے لئے ابوبکر کی امامت پیغمبر اسلام (ص) کے حکم سے انجام پائی تھی، تو پیغمبر اکرم (ص) بخار اور ضعف کی حالت میں ایک ہاتھ کو حضرت علی (ع) کے شانے پر اور دوسرے ہاتھ کو ”فضل بن عباس“ کے شانے پر رکھ کر مسجد میں کیوں داخل ہوئے اور ابوبکر کے آگے کھڑے ہوکر نماز کیوں پڑھائی؟ پیغمبر (ص) کا یہ عمل امامت کے لئے ابوبکر کے تعین سے میل نہیں کھاتا۔ اگر چہ اہل سنت علماء نماز میں پیغمبر اسلام (ص) کی شرکت کی اس طرح توجیہ کرتے ہیں کہ ابوبکر نے پیغمبر اکرم (ص) کی اقتداء کی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی۔ اسی صورت میں نماز پڑھی گئی۔[3]

واضح ہے کہ یہ توجیہ بہت بعید اور ناقابل قبول ہے، کیونکہ اگر یہی مقصود تھا تو کیا ضرورت تھی کہ پیغمبر اکرم (ص) اس ضعف و بخار کی حالت میں اپنے چچیرے بھائیوں کا سہارا لیکر مسجد میں تشریف لاتے اور نماز کے لئے کھڑے ہوتے؟ بلکہ اس واقعہ کا صحیح تجزیہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی اس کاروائی سے ابوبکر کی امامت کو توڑ کر خود امامت کرنا چاہتے تھے۔

۴۔ ابوبکر کا نماز پڑھانا پیغمبر کی اجازت سے ثابت نہیں

بعض روایتوں سے پتا چلتا کہ کہ نماز کے لئے ابوبکر کی امامت ایک سے زیادہ بار واقع ہوئی ہے اور ان سب کا پیغمبر (ص) کی اجازت سے ثابت کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے بیماری کے آغاز میں ہی اسامہ بن زید کے ہاتھ میں پرچم دے کر سب کو رومیوں سے جنگ پر جانے اور مدینہ ترک کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اور لوگوں کے جانے پر اس قدر مصر تھے کہ مکرر فرماتے تھے: جهزوا جيش أسامة اسامہ کے لشکر کو تیار کرو۔

اور جو افراد اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کررہے تھے، آپ ان پر لعنت بھیج کر خدا کی رحمت سے محروم ہونے کی دعا فرماتے تھے۔[4]

ان حالات میں پیغمبر (ص) ابوبکر کو امامت کے فرائض انجام دینے کی اجازت کیسے دیتے؟!

۵۔ ابوکر کی نماز میں امامت اور محدثین کا اقرار

مؤرخین اور محدثین نے اقرار کیا ہے کہ جس وقت ابوبکر نماز کی امامت کرنا چاہتے تھے، پیغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر کی بیٹی عائشہ، سے فرمایا: فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ ”تم مصر کی عورتوں کے مانند ہو جنہوں نے یوسف (ع) کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھ‘‘ اب دیکھنا چاہئے کہ اس جملے کا مفہوم کیا ہے، اور اس سے پیغمبر (ص) کا مقصد کیا تھا؟

یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ہے کہ عائشہ پیغمبر اکرم (ص) کی تنبیہ کے باوجود اسی طرح خیانت کی مرتکب ہوئی تھیں، جس طرح مصر کی عورتیں خیانت کی مرتکب ہوئیں تھی اور زلیخا کو عزیز مصر سے خیانت کرنے پر آمادہ کرتی تھیں۔

جس خیانت کے بارے میں یہاں پر تصور کیا جا سکتا ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ عائشہ نے پیغمبر اکرم (ص) کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کو پیغام بھیجا تھا کہ پیغمبر (ص) کی جگہ پر نماز پڑھائیں۔

اہل سنت علماء، پیغمبر اسلام (ص) کے اس جملے کی دوسرے انداز میں تفسیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں:پیغمبر (ص) اصرار فرماتے تھے کہ ابوبکر آپ کی جگہ پر نماز پڑھائیں، لیکن عائشہ راضی نہیں تھیں، کیونکہ وہ کہتی تھیں کہ لوگ اس عمل کو فال بد تصور کریں گے اور ابوبکر کی نماز میں امامت کو پیغمبر (ص) کی موت سے تعبیر کریں گے اور ابوبکر کو پیغمبر (ص) کی موت کا پیغام لانے والا تصور کریں گے“۔ کیا یہ توجیہ پیغمبر اسلام (ص) کے عمل (مسجد میں حاضر ہوکر امامت کو سنبھالنے) سے میل کھاتی ہے؟!

نتیجہ

اگر ابوبکر کی خلافت کو رسول (ص) نے متعین فرمایا ہوتا تو اس کا کوئی واضح اور قطعی ثبوت ہوتا۔ اور ابوبکر خود اس بات کا دعویٰ کرتے۔ تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نماز میں ابوبکر کی امامت پیغمبر (ص) کی اجازت سے ہوئی۔ اور بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ ابوبکر کو پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی جگہ امامت کرانے کا کہا ہو گا پھر بھی، نماز کی امامت کے لئے صرف قرائت اور احکام نماز کی معرفت کافی ہے، جبکہ خلافت کی اہلیت کے لئے بہت سی شرائط ہیں۔ اس لئے نماز کی امامت اور خلافت کے لئے مختلف معیار ہوتے ہیں۔

حوالہ جات

[1]۔ طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۳۴۔

[2]۔ بخاری، صحیح بخاری، ج۲، ص۲۵۔

[3]۔ بخاری، صحیح بخاری، ج۲، ص۲۲۔

[4]۔ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج۶، ص۵۲۔

فہرست منابع

1۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، قم، مکتبة آیة الله العظمی المرعشي النجفي، ۱۳۶۳ھ ش۔

2۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، صحيح البخاري، بیروت، دار ابن کثير ۱۴۲۳ھ ق۔

3۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخُ الرُسُلِ و الاُمَمِ و المُلوک، بیروت، مؤسسة عزالدين، ۱۴۱۳ھ ق۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

 سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، تیرہویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے