- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/09/13
- 0 رائ
حضرت حسن بن علی بن ابی طالب (علیهم السلام) شیعوں کے دوسرے امام، سبط اکبر اور ریحانه رسول خدا (صلی الله علیه وآله)، سید جوانان اهل جنت اور اصحاب کساء میں سے هیں، آپ شیعه و سنی مفسرین و محدثین کے اتفاق کی بنا پر اهل بیت علیهم السلام اورآیه تطهیر و آیه مباهله کے مصداق هیں که خداوندعالم نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی هے، اور پیغمبر اکرم (ص) نے ان کے اور ان کے برادر (امام حسین ع) کے بارے میں فرمایا: “حسن و حسین دونوں امام هین چاهے وه کهڑے هوں یا بیٹھے هوں” یعنی حسن و حسین علیهما السلام هر حال میں امام اور پیشوا هیں، چاهے کهڑے هوں (یعنی قیام کریں، یا بیٹھ جائیں، (اور صلح کریں)
امام حسین علیه السلام کی زندگی ایک اهم حصه، معاویه کے ساته آپ کی صلح هے، اس سلسله میں گفتگو کرنے سے پهلے اس نکته کی طرف توجه کرنا ضروری هے که امام حسن علیه السلام نے معاویه کی بیعت نهیں کی بلکه مخصوص شرائط کے تحت صلح کی، چونکه بیعت میں کبهی بهی بیعت کرنے والا شرائط نهیں رکهتا، جبکه اس صلح میں تمام شرائط حضرت امام حسن علیه السلام نے طے کئے، اور اس کے بعد اس صلح نامه پر طرفین نے دستخط کئے، هم اب یهاں پر اس صلح نامه کے اسباب و علل کو بیان کرتے هیں:
1- امام علیه السلام کا علم
امام معصوم علیه السلام لوگوں پر خدا کی حجت هوتا هے، اسی وجه سے ان کی رفتار و گفتار حجت هوتی هے، اس بنیاد کی بنا پر امام حسن (علیه السلام) کی صلح ایسا عمل هے جو حجت خدا کی طرف سے انجام پایا هے، اور اس کو بهت سے قطعی اور مضبوط دلائل کے تحت انجام دیا هے، اگرچه دیگر افراد کو یه معلوم نه هو، چنانچه خود امام حسن (علیه السلام) نے اس کی طرف اشاره کیا هے، شیخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساته ابی سعید عقیصا سے روایت کی هے که انهوں نے کها:
«جب میں حضرت امام حسن (علیه السلام) کی خدمت میں پهنچا اور آپ سے عرض کی: اے فرزند رسول خدا! جب آپ کو معلوم هے که حق آپ کے ساته هے، پهر کیوں آپ نے گمراه اور ظالم کے ساته صلح کی هے، تو امام علیه السلام نے فرمایا: اے ابو سعید! معاویه کے ساته میری صلح کے علل و اسباب وهی هیں جو رسول خدا (ص) کے مکه والوں اور بنی ضمره کے ساته صلح کے تهے، اهل مکه کافر هیں، تنزیل (قرآن کریم کی ظاهری آیات) کی بنا پر، اور معاویه اور اس کے اصحاب بهی کافر هیں تاویل (قرآن کریم کے آیات کے باطن) کی بنا پر.
اے ابوسعید! کیا تم نے جناب خضر (ع) کے واقعه کو نهیں سنا که اس لڑکے کو کشتی میں سوراخ کرنے کی وجه سے قتل کر ڈالا، اور اس گری هوئی دیوار کی مرمت کردی، جناب موسی علیه السلام نے ان کے کاموں پر اعتراض کیا، کیونکه انهیں ان کاموں کا راز معلوم نهیں تها، لیکن جس وقت ان کاموں کی علت کو سمجه لیا تو اس پر راضی هوگئے، اسی طرح میری صلح هے اور چونکه تمهیں اس کا راز معلوم نهیں هے اس وجه سے اس پر اعتراض کرتے هو».
2- دین کا تحفظ
حضرات ائمه علیهم السلام کے نزدیک ، دین کی حفاظت، اور اهل بیت(ع) کی تعلیمات کا زنده کرنا سب سے بنیادی عنصر هے، چنانچه حضرت امام علی علیه السلام فرماتے هیں: «سلامة الدین احبّ الینا من غیره.» یعنی دین کا تحفظ، همارے نزدیک دوسری تمام چیزوں سے زیاده محبوب هے.
اس بنا پر حضرت امام حسن (علیه السلام) کی صلح کی ایک اهم علت «دین کا تحفظ» قرار دیا جاسکتا هے،کیونکه اسلامی معاشره کے حالات اس طرح تهے که معاویه کے ساته جنگ کرنے میں اصل دین هی ختم هوجاتا ، اس کے علاوه اسلامی معاشره کے بیرونی حالات اس بات کی عکاسی کررهے تهے که مشرقی روم، مسلمانوں پر فوجی حمله کرنے کے لئے تیار تها.
دوسری طرف سے اس وقت کے مسلمان بهی ثقافتی لحاظ سے ایسے حالات میں تهے جو جنگ و خونریزی کو دین اور مقدسات کے سلسله میں ایک قسم کی بدبینی سمجه رهے تهے، جیسا که حضرت امام حسن (علیه السلام) نے اپنے چاهنے والوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: «انّی خشیت أن یجتثّ المسلمون عن وجه الارض فاردت ان یکون للدّین ناعی؛ میں اس بات سے خوف زده هوں که کهیں زمیں سے مسلمانوں کی جڑوں کا خاتمه نه کردیا جائے، اور کوئی بهی مسلمان باقی نه رهے، اسی وجه سے میں صلح کرکے دین خدا کی حفاظت کی هے».
3- مصالح عمومی
عام مصلحتوں کی رعایت کرنا، سب سے زیاده عقلمندی اسٹراٹیجک هوتی هے، جو دلسوز اور آزادی خواه رهبروں خصوصا الهی رهبروں کی طرف سے هوتی هے، چونکه وه حضرات عام مصلحتوں کو ذاتی یا کسی خاص گروه کی مصلحتون پر قربان نهیں کرتے، حضرت امام حسن(علیه السلام) نے بهی خونریزی سے روک تهام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کی پیش نظر صلح کی، جیسا که آپ نے فرمایا:
«میں نے صلح قبول کی هے تاکه خونریزی سے روک تهام کرسکوں اور اپنی اور اپنے اهل خانه اور اپنے اصحاب کی جان کی حفاظت کی هے.»
آپ کو معلوم تها که کچه لوگ مجھے مذل المومنین کهیں گے اور بعض لوگ آپ کی بے احترامی اور توهین کریں گے، لیکن آپ نے ان تمام سختیوں کو برداشت کیا تاکه عام مصلحتیں خطره میں نه پڑجائیں، کیونکه معاویه سے جنگ کرنا، نه کوفیوں کے فائده میں تهی، نه شام والوں کے مفاد میں، بلکه اس سے رومیوں کے عالم اسلام پر حمله کا راسته فراهم هوتا، چنانچه ابن واضح یعقوبی تحریر کرتے هیں:
«معاویه سن 41هجری میں شام واپس آیا اور جب اسے معلوم هوا که رومیوں کا ایک بڑا لشکر حمله کے لئے آگے بڑھ رها هے… تو اس نے ایک لاکھ دینار بهیج کر صلح کرلی… ».
شاید اسی دلیل (عام مصلحتوں کی رعایت) کی وجه سے پیغمبر اکرم (ص) نے حضرت امام حسن علیه السلام کے لئے فرمایا تها: «بے شک یه میرا بیٹا مسلمانوں کا امام هے، امید هے که خداوندعالم اس کے ذریعه دو مسلمانوں کے بڑے گروه کے درمیان صلح کرائے گا».
حضرت امام حسن (ع) کی صلح، حضرت حضرت امام حسین (ع) کے قیام کا راسته هموار کرنے والی شئیے هے، جیسا که علامه سید عبد الحسین شرف الدین صاحب تحریر کرتے هیں:
«حضرت امام حسن (علیه السلام) کو اپنی جان کی قربانی دینے سے دریغ نهیں تها، اور حضرت امام حسین (علیه السلام) راه خدا میں آپ سے زیاده قربانی دینے والے نهیں تهے، آپ نے اپنی جان کو خاموش اور آرام آرام جهاد کے لئے روک رکها تها، شهادت کربلا، قبل اس کے که حسینی هو، حسنی هے، صاحب نظر دانشوروں کی نظر میں امام حسن (علیه السلام) کا دن فداکاری کے مفهوم میں بهت زیاده آمیخته تها روزعاشوره امام حسین علیه السلام کے نسبت، کیونکه حضرت امام حسن (علیه السلام) نے اس دن، فداکاری کے موقع پر، ایک خستگی ناپذیر اور پائیدار قهرمان کے کردار کو ایک مظلومانه صورت میں مغلوب کے انداز میں ادا کیا، شهادت عاشورا، اس دلیل کی بنا پر پهلے حسنی هے، اس کے بعد حسینی هے، که امام حسن (علیه السلام) نے اس کی راه هموار کی، اس کے وسائل کو تیار کیا، امام حسن (علیه السلام) کی مکمل کامیابی اس بات پر متوقف تهی که آپ اپنے حکیمانه صبر و پائیداری کی بنا پر حقیقت کو واضح کریں اور اس روشنی کی نور میں حضرت امام حسین (علیه السلام) نصرت اور پرشکوه و ابدی کامیابی کو حاصل کریں، گویا یه دونوں گوهر پاک راسته پر چلنے کے لئے ایک زبان هوگئے تهے، که حکیمانه پائیداری کا کردار حضرت امام حسن علیه السلام کا هو اور انقلابی اور شجاعانه قیام حضرت امام حسین علیه السلام کا هو».
4- شیعیوں کی حفاظت
شیعوں کی حفاظت اگرچه عام مصلحتوں میں سے هے، لیکن چونکه شیعه حضرات، دین کے محافظ و پاسدار اور اهل بیت علیهم السلام کی موالی تهے ان کی جان کی حفاظت ایک خاص اهمیت رکهتی تهی، حضرت امیر المومنین (علیه السلام) کے خاص شیعه، جنگ جمل، جنگ صفین، اور جنگ نهروان میں شهید هوگئے تهے اور ان میں سے بهت کم تعداد باقی بچی تهے اور اگر جنگ هوجاتی، تو عراق (کوفه) کے لوگوں کی کمزوری کی وجه سے حضرت امام حسن (علیه السلام) اور شیعوں کو ناقابل تلافی نقصان هوتا، کیونکه اس صورت میں معاویه ان کو نیست و نابود کردیتا. اسی وجه سے حضرت امام حسن (علیه السلام) نے صلح کی ایک وجه اپنے شیعوں کی حفاظت قرار دیتے هوئے فرمایا:
«شیعوں کی حفاظت نے مجهے صلح پر مجبور کردیا، اور اس موقع پر میں نے مناسب سمجها که جنگ کو کسی دوسری دن کے لئے چهوڑ دیا جائے».
5- لوگوں کی طرف سے حمایت نه هونا اور سرداروں کا خیانت کرنا
حکومت کا تشکیل دینا اوراس کا دفاع کرنا، عوام کی حمایت کا محتاج هوتا هے، اگر کوفه کے لوگ آپ کی حمایت کرتے اور آپ کی لشکر کے سرداران آپ کے ساته خیانت نه کرتے، تو آپ کبهی صلح نه کرتے، چنانچه آپ فرماتے هیں: «خدا کی قسم! میں نے اس وجه سے صلح کی هے که میرا کوئی مددگار نه تها، اگر میرے مددگار هوتے تو معاویه سے رات و دن جنگ کرتا یهاں تک که خداوندعالم اس کے اور همارے درمیان حکم کرتا».
معاویه، حضرت امام حسن (علیه السلام) کے لشکر میں همیشه مخفی طریقه سے منافقوں سے خط و کتابت برقرار کئے هوئے تها که اگر حسن بن علی (ع) کو قتل کر ڈالو تو هر ایک کو 2 لاکه دینار دونگا، اور ان کو لشکر شام کے کا سردار بنا دونگا، چنانچه اس طریقه کار سے معاویه نے اکثر منافقوں کو اپنی طرف متوجه کررکها تها یهاں تک که وه حضرت امام حسن علیه السلام کو قتل کردینے کے درپه هوگئے تهے.
جنگ کے واقعه میں بهی امام علیه السلام نے «حکم» کو 4000 افراد کے ساته معاویه کے لشکر کی طرف بهیجا اور حکم دیا که منزل انبار میں قیام کرنا یهاں تک که میرا حکم پهنچے، ادهر سے معاویه نے بهی «حکم» کے پاس ایک ایلچی بهیجا که اگر تو حسن بن علی(ع) کو چهوڑ کر ادهر چلے آئے تو میں تمهیں شام کی کوئی ولایت دید ونگا اور 5 لاکه درهم اس کو فوری دیدئے، چنانچه وه شخص امام علیه السلام کو چهوڑ کر اپنے قبیله والوں اور دوستوں میں سے 200 لوگوں کو ساته معاویه سے جا ملا. اس کے بعد امام علیه السلام نے قبیله بنی مراد سے ایک شخص کو 4000 افراد کے ساته انبار کی طرف روانه کیا لیکن وه بهی معاویه کا دهوکه کهاکر اس سے ملحق هوگیا.
امام حسن (علیه السلام) کے لشکر میں بعض منافقین جو خوارج میں سے تهے، انهوں نے بعض لوگوں کو امام حسن علیه السلام کے خلاف بھڑکا رکها تها، جو آپ کے خیمه پر حمله بول کر وهاں سب کچه غارت کرچکے تهے، یهاں تک که انهوں نے آپ کے نیچے سے جانماز بهی کهینچ لی تهی، جب امام علیه السلام کے سامنے ایسے حالات پیش آئے، تو آپ اپنے چند باوفا اصحاب کے ساته مدائن کی طرف روانه هوگئے، رات کی تاریکی میں «جرّاح بن سنان» نامی شخص امام علیه السلام کے پاس آیا اور آپ کے گهوڑے کی لگام کو پکڑتے هوا بولا: اے حسن! تم کافر هوگئے هو، جس طرح تمهارے باپ بهی کافر هوگئے تهے! اور اس نے خنجر سے آپ کی ران مبارک پر حمله کردیا اور آپ زخمی هوگئے.
حضرت امام حسن (علیه السلام) نے لوگوں کا امتحان لینے کے لئے معاویه سے جنگ کے بارے میں فرمایا:«اگرتم لوگ جنگ کے لئے تیار هو تو میں صلح کو قبول نهیں کرتا اور اپنی تلواروں پر بهروسه کرتے هوئے نتیجه کو خدا پر چهوڑتے هیں، لیکن اگر تم زنده رهنے کو پسند کرتے هو تو صلح قبول کرلوں اور تمهارے لئے امان لے لوں»، اس موقع پر مسجد کے هر گوشه سے آواز بلند هورهی تهی: «البقیه، البقیه» هم باقی رهنا چاهتے هیں، هم باقی رهنا چاهتے هیں،اور صلح پر دستخط کرتے هیں، (الکامل فی التاریخ، جلد 3، صفحه 406؛ تذکرة الخواص، صفحه 199.) اس کے بعد امام علیه السلام نے فرمایا: «خدا کی قسم! اگر میں معاویه سے جنگ کرون تو یه لوگ میری گردن پکڑ کر اسیر بنا کر معاویه کے حواله کردیں گے.»
لهذا گزشته مطالب کے پیش نظر یه کها جائے: حضرت امام حسن (علیه السلام) کی صلح، ایک شجاعانه ورزش تاریخ تهی جو موقع و محل اور حالات کے پیش نظر وجود میں آئی.
حضرت امام حسن (علیه السلام) نے صلح کو اس وجه سے قبول نهیں کی که آپ موت سے ڈرتے تهے یا معاویه کے ساته سازباز کرنا چاهتے تهے، چونکه آپ اسی علی(ع) کے بیٹے تهے که جن کی شجاعت کی توصیف کرتے هوئے جناب جبرئیل نے اعلان کیا: لافتی الا علی لاسیف الا ذوالفقار.
اور اس طرح عبید الله بن زبیر کو صلح پر اعتراض کا جواب دیا: «وائے هو تجه پر! تو کیا کهتا هے؟ مگر یه کیسے ممکن هے که میں جو عرب میں سب سے بهادر شخص کا بیٹا هوں، اور فاطمه زهرا، سیدة نساء العالمین کا لخت جگر هوں، میں کسی سے ڈروں، وائے هو تجه پر! میرے اندر خوف اور ناتوانی نهیں پائی جاتی، میری صلح کی وجه تم جیسے مددگار تهے جو مجه سے محبت اور دوستی کا دم بهرتے تهے لیکن دل میں میری نابودی کی تمنا لئے هوئے تهے… .»
صلح امام حسن علیه السلام کی قرارداد
بند نمبر1- معاویه اپنی حکومت کے زمانه میں کتاب خدا اور سنت پیغمبر(ص) کے مطابق عمل کرے گا.
بند نمبر2- معاویه اپنے بعد کے لئے خلیفه معین کرنے کا حق نهیں رکهتا اور خلافت حسن بن علی (علیهما السلام) کی هوگی، لیکن کچه هی دن گزرے تهے که لالچ اور بعض لوگوں کو دهمکیوں اور قتل و غارت کے ذریه یزید کو لوگوں پر مسلط کردیا ، اور عملی طور پر صلحنامه کے بند کو پامال کرڈالا.
بند نمبر3- معاویه کو اس بات کا حق نهیں هے که وه حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب (علیه السلام) کے سلسله میں ذرا بهی بے احترامی اور اهانت کرے، لیکن معاویه نے مدینه کی طرف اپنے پهلے سفر میں هی حضرت علی (ع) پر سبّ و ناسزا گوئی کا حکم دیدیا، اس روایت کو صحیح مسلم میں کتاب الفضائل، باب فضائل علی بن ابی طالب علیه السلام نقل کیا گیا هے که معاویه نے سعد بن ابی وقاص سے کها: تم کیوں علی کو ناسزا نهیں کهتے؟[1]
بند نمبر4- حضرت امیرالمومنین (علیه السلام) کے شیعوں کو آزار واذیت نه کرنا اور انهیں مالی و جان نقصان نه پهنچانا، چاهے وه جهاں کهیں بهی هوں، جبکه ابن ابی الحدید کهتا هے: معاویه نے حکم دیا که شیعیان علی جهاں کهیں بهی ملیں انهیں قتل کردو، اگر دو لوگ گواهی دیں که یه شخص، علی (علیه السلام) سے رابطه رکهتا هے تو اس کی جان ومال مباح هے، اسی طرح ابن حجر کهتے هیں: معاویه نے حکم دیا که اگر اسلامی حکومت میں کوئی بچه پیدا هو اور اس کا نام علی رکها گیا تو اس نومولود بچه کو قتل کردیا جائے.( تهذيب التهذيب ،ج 7 ، ص 281.)
پس حضرت امام حسن مجتبی (علیه السلام) کی صلح میں ایسے بند پائے جاتے هیں که جن سے معلوم هوتا هے که آپ نے مصلحت کی خاطر اور معاویه کی مکاری و دهوکه بازی کو آشکار کرنے کے لئے اس سے وقتی صلح کی تهی تاکه تاریخ اس کی عهد شکنی کا مشاهده کرے اور اس کو همیشه بیان کرتی رهے.
ترجمه: اقبال حیدر حیدری
حواله جات:
[1] ملاحظه روایت: عن عَامِرِ بن سَعْدِ بن أبي وَقَّاصٍ عن أبيه قال أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بن أبي سُفْيَانَ سَعْدًا فقال ما مَنَعَكَ ان تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ، صحيح مسلم، ج 4 ص 1871، مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري الوفاة: 261 ، دار النشر : دار إحياء التراث العربي- بيروت ، تحقيق : محمد فؤاد عبد الباقي