- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 13 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2024/01/17
- 0 رائ
قرآن اور ديگر آسمانی کتابوں کے نزول کا فلسفہ
ہمارا عقیدہ ہے کہ الله نے عالم انسانیت کی ہدایت کے لئے بہت سی آسمانی کتابیں بھیجیں جیسے صحف ابراہیم ، صحف نوح، توریت، اور ان میں سب سے جامع قرآن کریم ہے۔ اگر یہ کتابیں نازل نہ ہوتیں تو انسان الله کی معرفت اور عبادت میں بہت سے غلطیوں کا شکار ہو جاتا اور اصول تقویٰ ،اخلاق و تربیت اور سماجی قانون جیسی چیزوں سے دور ہی رہتا۔
یہ آسمانی کتابیں دل کی سرزمین پر باران رحمت کی طرح برسیں اور دل میں پڑے ہوئے الله کی معرفت، تقویٰ، اخلاق و علم و حکمت کے بیج کو نمو عطا کیا <آمن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون کل آمن بالله وملائکتہ وکتبہ ورسلہ یعنی پیغمبر وںپر جو کچھ الله کی طرف سے نازل ہواوہ اس پر ایمان لائے اور مومنین بھی الله ،اس کے رسول، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لائے۔
افسوس ہے کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جاہل و نااہل افراد کی دخالت کی بنا پر بہت سی آسمانی کتابیں تحریف کا شکار ہوگئیں اور ان میں بہت سی غلط فکریں داخل کردی گئیں۔ لیکن قرآن کریم اس تحریف سے محفوظ رہتے ہوئے ہر زمانہ میں چمکتے ہوئے آفتاب کی طرح دلوں کو روشن کرتا رہا<قد جائکم من الله نوروکتاب مبین یہدی بہ الله من اتبع رضوانہ سبل السلام> یعنی الله کی طرف سے تمھارے پاس نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے۔
قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم پیغمبر اسلام کا سب سے بڑا معجزہ ہے اور یہ فقط فصاحت و بلاغت ،شیریںبیا نی اور معنی کے رسا ہونے کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ دیگر پہلوؤں سے بھی معجزہ ہے۔ ان تمام پہلوؤں کی شرح عقائد و کلام کی کتابوں میں مفصل طریقہ سے بیان کر دی گئی ہے۔
اسی وجہ سے ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قرآن کا جواب نہیں لاسکتا یہاں تک کہ لوگ اس کے ایک سورہ کے مثل سورہ نہیں لاسکتے۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کو جو اس کے کلام خدا ہونے کے بارے میں شک و تردد میں مبتلا تھے کئی مرتبہ اپنے مقابلہ کی دعوت دی مگر وہ ا س کے مقابلہ کی ہمت نہ کرسکے<قل لئن اجتمعت الانس والجن علیٰ یاٴتوا بمثل ہٰذا القرآن لا یاٴتون بمثلہ ولوکان بعضہم لبعض ظہیراً> یعنی اے رسول کہہ دو کہ اگر جن وانس مل کراس بات پر متفق ہو جائیں کہ قرآن کے مانند کوئی کتاب لے آئیں تو بھی اس کے مثل نہیں لاسکتے، چاہے وہ اس کام میں ایک دوسرے کی مدد ہی کیوں نہ کریں <وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاٴتوا بسورة من مثلہ وادعوا شہدائکم من دون الله ان کنتم صادقین> یعنی اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جس کو ہم نے اپنے بندے (رسول) پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور الله کے علاوہ تمھارے جتنے بھی مددگار ہیں سب کو بلا لو اگر تم سچے ہو۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے ویسے ویسے قرآن کے اعجاز کے نکات پرانے ہونے کے بجائے اور زیادہ روشن ہوتے جارہے ہیں اور قران کی عظمت تمام دنیا کے سامنے روشن و آشکار ہو رہی ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ ”ان الله تبارک وتعالیٰ لم یجعلہ لزمان دون زمان ولناس دون ناس فہو فی کل زمان جدید وعند کل قوم غض الیٰ یوم القیامة“ یعنی الله نے قرآن کریم کو کسی خاص زمانہ یا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے اسی وجہ سے یہ ہرزمانہ میں نیا اور قیامت تک ہر قوم کے لئے تزوتازہ رہے گا۔
قرآن میں تحریف نہیں
ہمارا عقیدہ ہے کہ آج جو قرآن کریم امت مسلمہ کے ہاتھوں میں ہے یہ وہی قرآن ہے جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہواتھا، نہ اس میں سے کچھ کم ہوا ہے اور نہ ہی اس میںکچھ اضافہ کیا گیا ہے۔
پہلے دن سے ہی کاتبان وحی کے ایک بڑے گروہ کا آیتوں کے نزول کے بعد ان کو لکھنا اور مسلمانوں کا ذمہ داری کے ساتھ رات دن ان کی تکرار کرنا اور اپنی پنجگانہ نمازوں میں ان کی تلاوت کرنا، اصحاب کے ایک بڑے گروہ کا آیات قرآن کو حفظ کرنا، یہ سب باتیں اس بات کا سبب بنیں کہ قرآن کریم میں کوئی معمولی سی بھی تحریف واقع نہ ہوسکی، الحمد لله حافظان و قاریان قرآن کا اسلامی سماج میں ہمیشہ سے ہی ایک اہم مقام رہا ہے اور آج بھی ہے۔
اس کے علاوہ الله نے اس کی حفاظت کی خود ضمانت لی ہے۔ لہٰذا الله کی ضمانت کے بعد اس میں تحریف نہ ممکن ہے <انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون> یعنی ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرتے ہیں۔
تمام علماء اسلام چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ۔دونوں طرف کے صرف چند افراد ہی ایسے ہیں جنھوں نے قرآن کریم میں تحریف کے وجود کو روایتوں کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن دونوں گروہ کے جید علماء نے اس نظریہ کی تردید کی ہے اور تحریف سے متعلق روایات کو جعلی یا پھر تحریف معنوی سے منسوب مانا ہے۔ تحریف معنوی یعنی قرآن کریم کی آیات کی غلط تفسیر۔
وہ کوتاہ فکر افراد جو قرآن کریم کی تحریف کے سلسلہ میں مصر ہیں اور شیعہ یا سنی مذہب کی طرف تحریف کی نسبت دیتے ہیں ان کا نظریہ دونوں مذہبوں کے مشہور وبزرگ علماء کے نظریوں کے خلاف ہے۔ یہ لوگ نادانی میں قرآن کریم پر وار کرتے ہیں اور نا روا تعصب کی بنا پر اس عظیم آسمانی کتاب کے اعتبار کو ہی زیر سوال لے آتے ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ دشمن کو تقویت پہونچاتے ہیں۔
قرآن کریم کی جمع آوری کی تاریخ کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے ہی مسلمانوں نے قرآن کریم کی کتابت، حفظ، تلاوت اور حفاظت کے فوق العادہ انتظامات کئے تھے۔ خاص طور پر پہلے دن سے ہی کاتبان وحی کا وجود ہمارے لئے اس بات کو روشن کر دیتا ہے کہ قرآن کریم میں تحریف ناممکن ہے۔
ہمارا عقیده ہے کہ اس مشہور قرآن کے علاوہ کسی دوسرے قرآن کا وجود نہیں ہے۔ اس کی دلیل بہت ہی روشن ہے سب کے لئے تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا ہے، جس کا دل چاہے آکر تحقیق کرے آج ہمارے گھروں میں، مسجدوں میں اور ہمارے عمومی کتاب خانوں میں قرآن کریم موجود ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم کے کئی کئی سو سال پرانے خطی نسخے بھی ہمارے عجائب گھروں میں موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو آج تمام اسلامی ممالک میں رائج ہے۔ اگر ماضی میں ان مسائل پر تحقیق ممکن نہیںتھی تو آج تو سب کے لئے تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا ہے ایک مختصر سی تحقیق کے بعد اس ناروا نسبت کا بے اساس ہونا ظاہر ہو جائے گا۔
< فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ> یعنی میرے بندوں کو خوش خبری دو ، ان بندوں کو جو باتوں کو سن کر ان میں سے نیک باتوں کی پیروی کرتے ہیں ۔آج کل ہمارے حوزات علمیہ میں علوم قرآن کی وسیع پیمانہ پر تدریس ہورہی ہے اور ان دروس میں سب سے اہم بحث عدم تحریف قرآن کریم ہے ۔
قرآن اور انسان کی مادی ومعنوی ضرورتیں
وہ تمام چیزیں جن کی انسان کو اپنی مادی و معنوی زندگی میں ضرورت ہے ان کے اصول قرآن کریم میں بیان کر دئیے گئے ہیں چاہے وہ حکومت چلانے کے قوانین ہوں یا سیاسی مسائل، دوسری اقوام سے رابطہ کے معاملات ہوں یا باہمی زندگی بسر کرنے کے اصول، جنگ و صلح کے مسائل ہوں یا قضاوت اقتصاد کے اصول یا ان کے علاوہ اور کوئی معاملات تمام کے قواعد کلی کو اس طرح بیان کردیا گیا ہے کہ ان پر عمل پیرا ہونے سے ہماری زندگی کی فضا روشن ہو جاتی ہے <ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شیٴ وہدیً ورحمةً وبشریٰ للمسلمین> یعنی ہم نے اس کتاب کو آپ پر نازل کیا جو تمام چیزوں کو بیان کرنے والی ہے اور مسلمانوں کے لئے رحمت، ہدایت اور بشارت ہے۔
اسی بنا پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ” اسلام “ ”حکومت وسیاست“سے ہرگز جدا نہیں ہے۔بلکہ مسلمانوں کو فرمان دیتا ہے کہ زمام حکومت کو اپنے ہاتھوں میں سنبھالو اور اس کی مدد سے اسلام کی ارزشوں زندہ کرو اور اسلامی سماج کی اس طرح تربیت کرو کہ عام لوگ قسط و عدل کی راہ پر گامزن ہوجائےں، یہاں تک کہ دوست و دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے کام لیں<یاایہاالذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء لله ولو علیٰ انفسکم اوالوالدین والاقربین > یعنی اے ایمان لانے والو عد ل وانصاف کے ساتھ قیام کرو اور الله کے لئے گواہی دو چاہے وہ گواہی خود تمھارے یا تمھارے والدین کے یا تمھارے اقرباء کے ہی خلاف کیوں نہ ہو<ولا یجر منکم شنئان قوم علیٰ ان لا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ> خبردار کسی گروہ کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کو ترک کردو ،انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔
قران کریم کی تلاوت، تدبر اور عمل
قرآن کریم کی تلاوت افضل ترین عبادتوں میں سے ایک ہے اور بہت کم عبادتیں ایسی ہیں جو اس کے پایہ کو پہونچتی ہیں۔ کیونکہ یہ الہام بخش تلاوت قرآن کریم میں غوروفکر کا سبب بنتی ہے اور غوروفکر نیک اعمال کا سرچشمہ ہے ۔
قرآن کریم پیغمبر اسلام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ <قم اللیل الا قلیلاً نصفہ او انقص منہ قلیلاً او زد علیہ ورتلل القرآن ترتیلاً> یعنی رات کو اٹھو مگر ذرا کم، آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر غور کے ساتھ پڑھو۔
اور قرآن کریم تمام مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ <فاقرؤا ما تیسر من القرآن > یعنی جس قدر ممکن ہو قرآن پڑھا کرو۔
لیکن اسی طرح جس طرح اوپر کہا گیا ہے کہ قرآن کی تلاوت اس کے معنی میں غوروفکر کا سبب بنے اور یہ غوروفکر قرآن کریم کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا سبب بنے <افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفالہا > کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں <ولقد یسرناالقرآن للذکر فہل من مدکر> یعنی اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کردیا تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے <ہٰذا کتاب انزلنا ہ مبارک فاتبعوہ> یعنی ہم نے جو یہ کتاب نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے لہٰذا اس کی پیروی کرو۔ لہذا جو لوگ صرف تلاوت وحفظ پر ہی قناعت کرتے ہیں اور قرآن پر ”تدبر “ و”عمل“ نہیں کرتے اگرچہ وہ تین رکنوں میں سے ایک رکن کو تو انجام دیتے ہیں لیکن دو اہم رکنوں کو چھوڑدیتے ہیں جس کے سبب انھیں بہت بڑا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
انحرافی بحثیں
ہمارا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو قرآن کریم کی آیتوں پر عمل اور تدبر سے روکنے کے لئے ہمیشہ ہی سازشیں ہوتی رہی ہیں ان سازشوں کے تحت ہی بنی امیہ وبنی عباس کے دور حکومت میں الله کے کلام کے قدیم یا حادث ہونے کی بحثوں کو ہوا دے کر مسلمانوں کو دو گروہ میں تقسیم کیا گیا جس کے سبب بہت سی خونریزیاں ہوئیں۔ جب کہ آج ہم سب جانتے ہیں کہ ان بحثوں میں نزع اصلاً مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر الله کے کلام سے حروف، نقوش، کتابت و کاغذ مراد ہے تو بیشک یہ سب چیزیں حادث ہیں اور اگر اس سے علم پروردگار مراد ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ذات کی طرح یہ بھی قدیم ہے۔ لیکن ستم گر حکام اور ظالم خلفاء نے مسلمانوں کو برسوں تک اس مسئلہ میں الجھائے رکھا اور آج بھی مسلمانوں کو قرآنی آیات پر تدبر وعمل سے روکنے کے لئے ایسی ہی سازشیں ہو رہی ہیں اور حصول مقصد کے لئے مختلف طریقے اپنائے جارہے ہیں۔
قرآن کریم کی تفسیر کے ضوابط
ہمارا مانناہے کہ جب تک آیت میں مجازی معنی کے لئے کوئی عقلی یا نقلی قرینہ موجود نہ ہوتو قرآن کریم کے الفاظ کو ان کے لغوی اور عرفی معنی میں ہی استعمال کرنا چاہئے(لیکن مشکوک قرینوں کا سہارا لینے سے بچنا چاہئے اور قرآن کریم کی آیات کی تفسیر حدس یا گمام کی بنا پر نہیں کرنی چاہئے۔
جیسے قرآن کریم فرماتا ہے کہ <ومن کان فی ہذہ اعمیٰ فہو فی الآخرة اعمیٰ> یعنی جو اس دنیا میں نابینا رہا وہ آخرت میں بھی نابینا ہی رہے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہاں پر”اعمیٰ“ کے لغوی معنی نابینا مراد نہیں ہوسکتے اس لئے کہ بہت سے نیک لوگ ظاہراً نابینا تھے بلکہ یہاں پر باطنی کور دلی ونابینائی ہی مراد ہے۔ یہاں پر عقلی قرینہ کا وجود اس تفسیر کا سبب ہے۔
اسی طرح قرآن کریم اسلام دشمن ایک گروہ کے بارے میں فرمارہا ہے<صم بکم عمی فہم لا یعقلون> یعنی وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اس وجہ سے کوئی بات نہیں سمجھ پاتے۔ یہ بات روز روشن کی طرح آشکار ہے کہ وہ ظاہری طور پر اندھے، بہرے اور گونگے نہیں تھے۔ بلکہ یہ ان کے باطنی صفات تھے (ہم یہ تفسیر قرینہ حالیہ کے موجود ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں)
اسی بنا پر قرآن کریم کی وہ آیتیں جو الله تعالیٰ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ <بل یداہ مبسوطتان> یعنی الله کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ یا <واصنع الفلک باعیننا> یعنی اے نوح ہمارے آنکھوں کے سامنے کشتی بناؤ۔ ان آیات کا مفہوم یہ ہر گز نہیں ہے کہ الله کے آنکھ، کان اور ہاتھ پائے جاتے ہیں اور وہ مجسم ہے۔ کیونکہ ہر جسم میں اجزاء پائے جاتے ہیں اور اس کو زمان، مکان و جہت کی ضرورت ہوتی ہے اور آخر کار وہ فنا ہو جاتا ہے، الله اس سے برتر و بالا ہے کہ اس میں یہ صفات پائے جائیں۔
لہٰذا ”یداہ “یعنی ہاتھوں سے مراد الله کی وہ قدرت کاملہ ہے جو پورے جہان میں نافذ ہے اور ”اعین“ یعنی آنکھوں سے مراد اس کا علم ہے ہرچیز کی نسبت۔ اس بنا پر ہم اوپر بیان کی گئ تعبیرات کو چاہے وہ الله کے صفات کے بارے میں ہو یا غیر صفات کے بارے میں عقلی یا نقلی قرینوں کے بغیر قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ تمام دنیا کے سخنوروں کی روش انھیں دو قرینوں پر منحصر رہی ہے اور قرآن کریم نے بھی اس روش کو قبول کیا ہے <وماارسلنا من رسول الا بلسان قومہ>یعنی ہم نے جن قوموں میں رسولوں کو بھیجا انھیں قوموں کی زبان عطا کرکے بھیجا۔لیکن یہ بات یادر ہے کہ یہ قرینے روشن ویقنی ہونے چاہئے جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا جاچکا ہے ۔
تفسیر بالرای کے خطرات
ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کے لئے سب سے خطرناک کام اپنی رائے کے مطابق تفسیر کرنا ہے۔ اسلامی روایات میں جہاں اس کام کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہیں یہ کام الله کی بارگاہ سے دوری کا سبب بھی بنتا ہے۔ ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ الله نے فرمایا ”ما آمن بی من فسر برائیہ کلامی“ یعنی جو میرے کلام کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق کرتا ہے وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایمان پختہ ہو تو انسان کلام خدا کو اسی حالت میں قبول کرے گا جس حالت میں ہے نہ یہ کہ اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالے گا۔
صحیح بخاری، ترمذی، نسائی اور سنن داؤد جیسی مشہور کتابوں میں بھی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ والہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے کہ”من قال فی القرآن برائیہ اوبما لایعلم فلیتبوء مقعدہ من النار“ یعنی جو قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے یا علم نہ ہوتے بھی قرآن کے بارے میں کچھ کہے تووہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کے لئے تیار رہے۔
تفسیر بالرای یعنی اپنے شخصی یا گروہی عقیدہ یا نظریہ کے مطابق قرآن کریم کے معنی کرنا اور اس عقیدہ کو قرآن کریم سے تطابق دینا جب کہ اس کے لئے کوئی قرینہ یا شاہد موجود نہ ہو۔ ایسے افراد در واقع قرآن کریم کے تابع نہیں ہیں بلکہ وہ قرآن کریم کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ اگر قرآن کریم پر مکمل طور پر ایمان ہو تو ہر گز ایسا نہ کریں۔ اگر قرآن کریم میں تفسیربالرای کا باب کھل جائے تو یقین ہے کہ قرآن کریم کا اعتبار کلی طور پر ختم ہو جائے گا، جس کا بھی دل چاہے گا وہ اپنی پسند سے قرآن کریم کے معنی کرے گا اور اپنے باطل عقیدوں کو قرآن کریم سے تطبیق دے گا۔ اس بنا پر تفسیر بالرای یعنی علم لغت، ادبیات عرب و اہل زبان کے فہم کے خلاف قرآن کریم کی تفسیر کرنا اور اپنے باطل خیالات و گروہی یا شخصی خواہشات کو قرآن سے تطابق دینا ،قرآن کریم کی معنوی تحریف کا سبب ہے۔
تفسیر بالرای کی بہت سی قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم یہ ہے کہ انسان کسی موضوع پر جیسے ” شفاعت“ ” توحید“ ”امامت“ وغیرہ کے لئے قرآن کریم سے صرف ان آیتوں کا انتخاب کرے جو اس کی فکر سے میل کھاتی ہوں اور ان آیتوں کو نظر انداز کردے جو اس کی فکر سے هماهنگ نہ ہوں جب کہ وہ دوسری آیات کی تفسیر بھی کرسکتی ہوں۔
خلاصہ یہ کہ جس طرح قرآن کریم کے الفاظ پر جمود، عقلی و نقلی قرینوں پر توجہ نہ دینا ایک طرح کا انحراف ہے اسی طرح تفسیر بالرای بھی انحراف کی ایک قسم کا ہے اور یہ دونوں قرآن کریم کی عظیم تعلیمات سے دوری کا سبب ہے۔ اس مسئلہ پر توجہ دینا نہایت ضروری ہے۔
سنت، الله کی کتاب سے نکلی ہے
ہمارا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ ” کفانا کتاب الله“ یعنی ہمیں الله کی کتاب کافی ہے اور حدیث و سنت نبوی (جو کہ قرآن کریم کی تفسیر و اس کے حقائق کو بیان کرنے، قرآن کریم کے ناسخ و منسوخ، عام و خاص کو سمجھنے اور اصول و فروع میں اسلامی تعلیمات کو جاننے کا ذریعہ ہے) کی ضرورت نہیں ہے۔”اس عبارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاریخ میں ایسا کسی نے نہیں کہا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی سنت کے بغیر تنہا کتاب کے ذریعہ اسلام کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(مترجم)
کیونکہ قرآن کریم کی آیات نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو چاہے وہ لفظی ہو یا عملی مسلمانوں کے لئے حجت قرار دیا ہے اور آپ کی سنت کو احکام کے استنباط و مفہوم اسلام کو سمجھنے کے لئے ایک اصلی منبع مانا ہے <ما اتیکم الرسول فخذوہ ومانہا کم عنہ فانتہوا> رسول جو تمھیں دے لے لو (یعنی جس چیز کا حکم دے اسے انجام دو) اور جس بات سے منع کرے اس سے پرہیز کرو۔
<و ما کان لموٴمن ولامؤمنة اذا قضیٰ الله ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرة من امرہم ومن یعص الله ورسولہ فقد ضل ضلا لاًمبیناً> یعنی کسی بھی مومن مرد یا عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جب کسی امر میں الله یا اس کا رسول کوئی فیصلہ کردے تو پھر وہ اس امر میں اپنے اختیار سے کا م لے اور جو بھی الله اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے۔
جو سنت پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی پرواہ نہیں کرتے درحقیقت انھوں نے قرآن کریم کو نظر انداز کر دیا ہے۔ لیکن سنت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ معتبر ذرائع سے ثابت ہو، ایسا نہیں ہے کہ جس نے بھی حضرت کی سیرت کے متعلق جو کچھ کہہ دیا سب قبول کرلیا جائے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”ولقد کذب علیٰ رسول الله (ص) حتیٰ قام خطیباً فقال‘ من کذب علیّ متعمداً فالیتبوٴ مقعدہ من النار“ یعنی پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہت سے جھوٹی باتوں کو پیغمبرا سلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت دی گئ تو پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ جو عمداً کسی جھوٹی بات کو میری طرف منسوب کرے وہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کے لئے آمادہ رہے۔
اس مفہوم سے ملتی جلتی ایک حدیث صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
سنت ائمہ اہل بیت علیہم السلام
ہمارا عقیدہ یہ بھی ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث بھی واجب الاطاعت ہے کیونکہ:
الف) مشہور ومعروف و متواتر حدیث جو کہ اہل سنت و شیعہ دونوں مذہبوں کی اکثر کتابوں میں نقل کی گئی ہے اس میں بھی اس معنی کی تصریح ہے۔ صحیح ترمذی میں پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث موجود ہے کہ آپ نے فرمایا : ” یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب الله وعترتی واہل بیتی“
ب) ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنی تمام حدیثیں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں یہ پیغمبر اسلام سے ہمارے باپ دادا کے ذریعہ ہم تک پہونچا ہے۔
ہاں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طبیہ میں ہی مسلمانوں کے مستقبل و ان کی مشکلات کو اچھی طرح محسوس کر لیا تھا لہٰذا امت کو ان کے حل کا طریقہ بتایا اور فرمایا کہ قیامت تک پیش آنے والی تمام مشکلات کا حل قرآن کریم واہل بیت کی پیروی میں ہے۔
کیا اتنی اہم اور قوی السند حدیث کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ اسی لئے ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن کریم و اہل بیت علیہم السلام کے مسئلہ پر توجہ دی جاتی تو آج مسلمان عقائد، تفسیر اور فقہ کی بعض مشکلوں میں گرفتار نہ ہوتے۔