- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/22
- 0 رائ
شیعہ وسنی علما کے یھاں مشھور و معروف یھی ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، اور موجودہ قرآن کریم وھی قرآن ھے جو پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ھوا، اور اس میں ایک لفظ بھی کم و زیاد نھیں ھوا ھے۔
قدما اور متاخرین میں جن شیعہ علما نے اس حقیقت کی وضاحت کی ھے ان کے اسما درج ذیل ھیں:
۱۔ مرحوم شیخ طوسی(رہ) جو ”شیخ الطائفہ“ کے نام سے مشھور ھیں، موصوف نے اپنی مشھور و معروف کتاب ”تبیان“ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا ھے۔
۲۔ سید مرتضیٰ (رہ) ، جو چوتھی صدی کے عظیم الشان عالم ھیں۔
۳۔ رئیس المحدثین مرحوم شیخ صدوق محمد بن علی بن بابویہ (رہ) ، موصوف شیعہ عقیدہ بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے“۔
۴۔ جلیل القدر مفسرقرآن مرحوم علامہ طبرسی، جنھوں نے اپنی تفسیر (مجمع البیان) کے مقدمہ میں اس سلسلہ میں ایک واضح اور مفصل بحث کی ھے۔
۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو علمائے متاخرین میں عظیم مرتبہ رکھتے ھیں۔
۶۔ مرحوم محقق یزدی(رہ) نے اپنی کتاب عروة الوثقیٰ میں قرآن میں تحریف نہ ھونے کے اقوال کو اکثر شیعہ مجتھدین سے نقل کیا ھے۔
۷۔ نیز بہت سے جید علماجیسے ”شیخ مفید(رہ)“، ”شیخ بھائی“، قاضی نور اللہ“ اور دوسرے شیعہ محققین نے اسی بات کو نقل کیا ھے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اھل سنت کے علما اور محققین کا بھی یھی عقیدہ ھے کہ قرآن کریم میں تحریف نھیں ھوئی ھے۔
اگرچہ بعض شیعہ اور سنی محدثین جو قرآن کریم کے بارے میں زیادہ معلومات نھیں رکھتے تھے، اس بات کے قائل ھوئے ھیں کہ قرآن کریم میں تحریف ھوئی ھے، لیکن دونوں مذھب کے عظیم علما کی روشن فکری کی بنا پر یہ عقیدہ باطل قرار دیا گیا اور اس کو بھُلادیا گیا ھے۔
یھاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ھیں: ”قرآن کریم کی نقلِ صحت اتنی واضح اور روشن ھے جیسے دنیا کے مشھور و معروف شھروں کے بارے میں ھمیں اطلاع ھے، یا تاریخ کے مشھور و معروف واقعات معلوم ھیں“۔
مثال کے طور پر کیا کوئی مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے مشھور و معروف شھروں کے وجود میں شک کرسکتا ھے؟ اگرچہ کسی انسان نے ان شھروں کو نزدیک سے نہ دیکھا ھو، یا انسان ایران پر مغلوں کے حملے، یا فرانس کے عظیم انقلاب یا پھلی اور دوسری عالمی جنگ کا انکار کرسکتا ھے؟!
پس جیسے ان کا انکار اس لئے نھیں کر سکتے کہ یہ تمام واقعات تواتر کے ساتھ ھم نے سنے ھیں، تو قرآن کریم کی آیات بھی اسی طرح ھیں، جس کی تشریح ھم بعد میں بیان کریں گے۔
لہٰذا جو لوگ اپنے تعصب کے تحت شیعہ اور اھل سنت کے درمیان اختلاف پیدھا کرنے کے لئے تحریف قرآن کی نسبت شیعوں کی طرف دیتے ھیں تو وہ اس نظریہ کو باطل کرنے والے دلائل کیوں بیان نھیں کرتے جو خود شیعہ علما کی کتابوں میں موجود ھيں؟!
کیا یہ تعجب کی بات نھیں ھے کہ ”فخر الدین رازی“ جیسا شخص (جو ”شیعوں“ کی نسبت بہت زیادہ متعصب ھے) سورہ حجر کی آیت نمبر ۹ کے ذیل میں کہتا ھے کہ یہ: آیہ ٴ شریفہ <إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ> شیعوں کے عقیدہ کو باطل کرنے کے لئے کافی ھے ،جو قرآن مجید میں تحریف (کمی یا زیادتی) کے قائل ھیں۔
تو ھم فخر رازی کے جواب میں کہتے ھیں: اگر ان کی مراد بزرگ شیعہ محققین ھیں تو ان میں سے کوئی بھی ایسا عقیدہ نھیں رکھتا ھے، اور اگران کی مراد بعض علما ء کا ضعیف قول ھے تو اس طرح کا نظریہ تو اھل سنت کے یھاں بھی پایا جاتا ھے، جس پر نہ اھل سنت توجہ کرتے ھیں اور نہ ھی شیعہ علما توجہ کرتے ھیں۔
چنانچہ مشھور و معروف محقق ”کاشف الغطاء“ اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں فرماتے ھیں: ”لارَیبَ اٴنَّہُ (اٴی القرآن) محفوظٌ مِنَ النُّقْصَانِ بحفظِ الملک الدَّیان کما دَلَّ علَیہِ صَریحُ القُرآنِ وَإجمَاع العلماء فِی کُلِّ زمان ولا عبرة بنادر“[1]
”اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ قرآن مجید میں کسی بھی طرح کی کوئی تحریف نھیں ھوئی ھے، کیونکہ خداوندعالم اس کا محافظ ھے، جیسا کہ قرآن کریم اور ھر زمانہ کے علما کا اجماع اس بات کی وضاحت کرتا ھے اور شاذ و نادر قول پر کوئی توجہ نھیں دی جاتی“۔
تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی غلط نسبتیں موجود ھیں جو صرف تعصب کی وجہ سے دی گئی ھیں جبکہ ھم جانتے ھیں کہ ان میں سے بہت سی نسبتوں کی علت اور وجہ صرف اور صرف دشمنی تھی، اور بعض لوگ اس طرح کی چیزوں کو بھانہ بنا کر کوشش کرتے تھے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کر ڈالیں۔
اور نوبت یھاں تک پھنچی کہ حجاز کا مشھور و معروف موٴلف ”عبد اللہ علی قصیمی“ اپنی کتاب ”الصراع“ میں شیعوں کی مذمت کرتے ھوئے کہتا ھے: ”شیعہ ھمیشہ سے مسجد کے دشمن رھے ھیں! اور یھی وجہ ھے کہ اگر کوئی شیعہ علاقے میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک دیکھے تو بہت ھی کم مسجدیں ملتی ھیں“ !![2]
ذرا دیکھے تو سھی! کہ شیعہ علاقوں میں کس قدر مساجد موجود ھیں، شھر کی سڑکوں پر، گلیوں میں اور بازاروں میں بہت زیادہ مسجدیں ملتی ھیں، کھیں کھیں تو مسجدوں کی تعداد اتنی ھوتی ھے کہ بعض لوگ اعتراض کرنے لگتے ھیں کہ کافی ھے، ھمارے کانوں میں چاروں طرف سے اذانوں کی آوازیں آتی ھیں جن سے ھم پریشان ھیں، لیکن اس کے باوجود مذکورہ موٴلف اتنی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ رھے ھیں جس پر ھمیں ھنسی آتی ھے چونکہ ھم شیعہ علاقوں میں رہ رھے ھیں، لہٰذا فخر الدین رازی جیسے افراد مذکورہ نسبت دینے لگیں تو ھمیں کوئی تعجب نھیں ھونا چاہئے۔[3]
حواله جات
[1] تفسیر آلاء الرحمن صفحہ ۳۵۔
[2] موصوف کی عربی عبارت یہ ھے: ”والشّیعة ھم اٴبداً اٴعدَاء المساجد ولھذا یقل اٴَن یشاھد الضارب فی طول بلادھم و عرضھا مسجداً (الصراع ، جلد ۲، صفحہ ۲۳، علامہ امینی (رہ) کی نقل کے مطابق الغدیر، جلد ۳، صفحہ ۳۰۰)
[3] تفسیر نمونہ ، جلد۱۱، صفحہ ۱۸۔