- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
آیة اللّٰہ العظمی الخوئی
۱۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری هے ۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی هے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کیا جائے گا تو قرآن کے نسخے متروک هو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب هو جائیں گے بلکہ بعید نہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں ۔
۲۔ دوسری وجہ یہ هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی هے مثلاً معصوم نے فرمایا : ”مَتَّعَ بِبَصَرِہِ” یعنی۔ ۔ ۔ یہ بڑا جامع کلمہ هے اس کا مطلب یہ هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا هے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رهے یا یہ مراد هو سکتی هے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر هو جاتا هے ۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند هو تو اس کانفس خوشحال هو جاتا هے اوروہ اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا هے ۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی هے اور وہ اسکے علوم و معانی میں فکرکرتا هے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا هے اور اس کی روح ہشاش بشاش هو جاتی هے ۔
۳۔ بعض روایات میں گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی هے اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوتِ قرآن کا چرچا هے کیونکہ جب انسان اپنے گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام هو جاتا هے لیکن اگرقرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کر سکتا اور یہ تبلیغ اسلام کا بہت بڑا سبب هے ۔
شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی هو کہ اس سے شعائر ِ الہیٰ قائم هو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند هو گی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری هو جائے گا ۔
گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں :
اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰایُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی اور ذکرِ خدا کیا جاتا هو اس کی برکتوں میں اضافہ هوتا هے اس میں فرشتوں کا نزول هوتا هے شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں هوتی اور ذکر خدا نہیں هوتا اس میں برکت کم هوتی هے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں ۔ ”
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا هے روایات میں اتنی هے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں رسول اکرم نے فرمایا :
مَنْ قَرَء حَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔
” جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی هے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا هے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف هے بلکہ ’الف‘ ایک حرف هے ’ل‘ دوسرا حرف هے اور ’م‘ تیسرا حرف هے ۔
اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا هے ۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر ۱ میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا هے، کلینی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی هے ۔ اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انهوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑ لیں جن کی نہ تو وحی نازل هوئی هے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر هے ۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصتمہ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمد بن عبداللہ جویباری شامل ہیں ۔ ابو عصتمہ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا هے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں تو اس (ابو عصتمہ) نے جواب دیا ۔
اِنِیّٰ رَاَیْتُ النّٰاسَ قَدْاِعْرَضُوا عَنِ الْقُرْآنَ وَاشْتَغَلُوا بِفِقْہِ اِبی حَنِیْفَةِ وَمَغٰازي مُحَمَّد بنْ اِسْحٰقَ فَوَضَعْتُ ہٰذَا الْحدیثُ حسبةً۔
جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف هو گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور مغازی محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں نے قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربة الی اللہ گھڑ لیں ۔
ابو عمرعثمان بن صلاح، اس حدیث کے بارے میں جواُبی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول هے لکھتا هے :
قَدْ بَحَثَ بٰاحِثٌ عَنْ مَخْرَجِہِ حَتّٰی اِنْتَھٰی اِلٰی مَنْ اِعْتَرَفَ بِاَنَّہُ وَجَمٰاعَةٌ وَضَعُوْہُ۔ وَقَدْ اَخْطَا الوٰاحِدي وَجَمٰاعَةٌ مِنْ الْمُفَسَّرِینَ حَیْثُ اَوْدَعُوْہُ فی تَفٰاسِیْرِھِمْ۔ ( ۱۱ )
اس حدیث کے بارے میں جوقرآن کے ہر سورہ کے فضائل میں نقل کی گئی هے جوتحقیق کی گئی وہ اس نیتجہ پر پہنچی هے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی هونے کا اعتراف کر لیا هے(میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر اسے گھڑا ے)۔
واحدی اور دیگر مفسرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کر کے غلطی کا شکار هوئے ہیں ۔
دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرات کی هے کہ رسولِ خدا کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی هے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب ِ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہیں ۔
کَذَلِکَ زَیَنَّ لِلْمُسّرِفِیْنَ مَاکَانَُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ ( ۱۰:۱۲ )
جو لوگ زیادتی کرتے ہیں انکی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر دکھائی گئی ہیں ۔
قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر :
قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی ٴقرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی هے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد هے :
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا ( ۴۷:۲۴ )
تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے هوئے) ہیں ۔
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی هے ۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے نقل کیا هے، آنحضرت نے فرمایا :
اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ
قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں :
حَدَّثَنٰا مَنْ کٰانَ یَقْرَئُنٰامِنَ الصَّحٰابَةِ اِنَّھُمْ کٰانُواَ یاْخُذُوْنَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ عَشَرَآیٰاتٍ فَلاٰ یَأْخُذُونَ فی الْعَشَرِ اْلاُخْریٰ یَعْلَمُوْا مٰافي ھٰذِہِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلْ۔
صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کر لیتے ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں ۔ ۱
عثمان ابن مسعود اور اُبیّ کہتے ہیں :
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کٰانَ یَقْرَئُھُمُ العَشَرَ فَلاٰ یُجٰاوِزُوَنْھٰا اِلٰی عَشَرٍ اُخْریٰ حَتّٰی یَتَعَّلَمُوْا مٰا ِفیھٰا مِنَ الْعَمَلِ فَیَعُلَمَھُمُ القُرْآنْ وَالْعَمَلُ جمیعا ۔ ( ۱۲ )
رسول خدا قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے ہیں ۔
ایک دن امیرالمومنین نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کی تعریف کی توکسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم هونے کے باوجود ) جابر کی تعریف کر رهے ہیں؟ آپ نے فرمایا :
تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:اِنََّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ ( ۲۸:۸۰) کی تفسیر سمجھتے تھے ۔ ( ۱۳ )
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔ چنانچہ بحا ر الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں ۔ لیکن یہ ایسی حقیقت هے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں هے ۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب هے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا هے ۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں هو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے ۔ یہ ایسی حقیقت هے جس کا فیصلہ عقل کرتی هے ۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید هے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی هے ۔
زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی هے، آپ نے فرمایا :
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا ۔ ( ۱۳ )
قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا و )
حواله جات
( ۱ ) بحارالانوار ج ۱۹ ، ص۔ صحیح ترمذی ابن عربی ج ۱۱ ۔ ص ۴۷ ۔ ابواب فضائل۔
( ۲ ) ترمذی ۱۳ /۲۰۰ ۔ ۲۰۱ مناقب اہل بیت۔
( ۳ ) سنن وارمی۔ ج ۲ ۔ ص ۴۳۵ ، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود هے ۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱ ، ۳۰ ، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود هے ۔ بحار۔ ج ۹ ، ص ۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول هے ۔
( ۴ ) بحار الانوار، ج ۱۹ ، ص ۶ ۔
( ۵ ) حدیث ثقلین کا حوالہ میں ۱۸ میں ذکر کیا گیا ۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا هے: قرآن اور عترت، رسول کے دو جانشین ہیں ۔
( ۶ ) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶ ۔
( ۷ ) مراة الانور، ص ۳ ۔ ۴ ۔
( ۸ ) ریاض روضہ کی جمع هے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ هو۔ غدران جمع هے غدیر کی، اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی هے ۔
( ۹ ) ثانی جو امانی کے وزن پر هے، اثفیہ کی جمع هے ۔ اثفیہ اس پتھر کو کہا جاتا هے جس پر دیگچی رکھی جاتی هے ۔
( ۱۰ اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبة عین الدولہ۔ ج ۱ ، ص ۳۷۰ ۔
( ۱۱ ) اصول کافی کتاب فضل القرآن۔
( ۱۲ ) تفسیر قرطبی، ج، ص ۷ ، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
( ۱۳ ) تفسیر قرطبی، ج، ۱ ،ص ۷۸ ۔ ۷۹ ، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
( ۱۴ ) تفسیر القرطبی ج ۱ ص ۲۶ ۔
( ۱۵ ) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔