- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/11/02
- 0 رائ
قرآن کریم، خداوند عالم کی جانب سے انسانوں کے لئے عظیم ترین تحفہ ہے جو سعادت جاودانی کی طرف ان کی ہدایت کرتا ہے۔
قرآن مجید، اسلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی رسالت کی حقانیت پر بہترین دلیل ہے جو ہمیشہ اپنے اعجاز آفرین بیان سے تمام انسانوں کے لئے حجت تمام کردیتا ہے۔
قرآن حکیم، اسلامی احکام و معارف کے اثبات کی معتبر ترین سند ہے خداوند متعال نے جس کی بقا کی ضمانت لی ہے۔ اور ہر طرح کی تحریف سے اس کو محفوظ و مصئون رکھا ہے۔
قرآن شریف، تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا محکم ترین محور ہے جس میں تمام فرقوں اور گروہوں کے درمیان اختافات مٹانے کا منبع ووسیلہ بننے اور تمام حق کے متلاشیوں کے سامنے دین کے اصل خطوط واضح کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ان سب کے باوجود مسلمانوں نے حقائق کی شناخت اور اس کے اصول و قوانین کی اطاعت کے سلسلہ میں ضروری اہتمام سے کام نہیں لیا ہے اسی بنا پر رحمت الہٰی کا پیغام لانے والا بارگاہ پروردگار میں شکایت کرتا نظر آتا ہے: ۔
“وَقال الرسول یارب انَّ قومی اتَّخذوا هذا القرانَ مهجوراً”
(اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کہا: اے میرے پالنے والے ! بے شک میری اس قوم نے اس قرآن کو مہجور و تنہا چھوڑ دیا ہے) ۔ فرقان/۳۰
ہمارے عصر کی جلیل القدر ہستی علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ نے حوزہٴ علمیہ قم میں قرآن کے احیاء کا پرچم بلند کیا اور اپنے دروس نیز “المیزان” جیسی تفسیر لکھ کر اس راہ میں ایک عظیم قدم اٹھایا کہ انشاء اللہ خداوندعالم انہیں اس کا اجر عطاکرے گا اس جذبہ سے سرشار ہوکر ہم نے قرآنی افکار سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے اس کے مطالب کو چند عنوانات کے تحت جدید پیرائے میں اختصار کے ساتھ درس کے عنوان سے رواں و عام فہم زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
جیسا کہ امیرالمونین صلوات اللہ علیہ نے فرمایاہے کہ قرآن ایک بے کراں سمندر ہے جس کی گہرائیوں تک پہنچنا معصومین صلوات ا للہ علیہم اجمعین کے علاوہ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اس کے باوجود خود قرآن نے بھی اور حضرت ائمہٴ طاہرین علیہم السلام نے بھی لوگوں کو قرآنی آیات کے بارے میں غور و فکر سے کام لینے کی دعوت دی ہے قرآن کہتا ہے: ۔
“كِتَاب اَنزلناه الیک مبارک لیدّبروا آیاته ” (سورہٴ ص آیت ۲۹)
ہم نے برکتوں سے معمور کتاب تم پر اس لئے نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غوروفکر کریں۔
قرآن اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ جو قرآن میں فکر و تدبر سے کام نہیں لیتے ان کو مورد مواخذہ قرار دیتا ہے: ۔
“اَفَلا یَتَدَبّرونَ القرآن اَم عَلیٰ قُلُوب اَقضَالُها” (سورہٴ محمد آیت ۲۴)
آیا وہ قرآن کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہٴ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کی آیتوں پر غور و فکر کرنے کی بڑی شدّت کے ساتھ تاکید کی ہے، خصوصاً جبکہ معاشرہ کی فکر ظلمبت و آشفتگی کا شکار ہو اور مسلمانوں کے درمیان ایسے شکوک و شبہات سر اٹھارہے ہوں جوان کو فکری و عقیدتی انحرافات میں مبتلا کرنے کا سبب ہوں تو ایسے حالات میں قرآن کی طرف رجوع کرنے کی شدید لہجہ میں تاکید کی گئی ہے: ۔
اِذّا التَبَسَت علیکم الفتن کقطع اللیل المظلم فعلیکم بالقرآن (1)
جب فتنے اندھیری رات کے ٹکڑوں کی مانند تم کو گھیر لیں تو قرآن کی جانب رجوع کرو۔
اگر چہ بہت سی روایت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کا کامل علم محض پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے پاس ہے اور وہی قرآن کے حقیقی معلم و مفسّر ہیں (جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بارے میں قرآن کہتا ہے، قرآن کے معلم اور اس کو بیان کرنے والے خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں)(2) اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ اطہار علیہ السلام نے بھی قرآن کی طرف رجوع کرنے کی تاکید کی ہے حتیٰ فرمایا ہے: اگر ہم سے منقول روایات کے بارے میں شک پیدا ہو تو انہیں قرآن کی روشنی میں پرکھ لو”
روایات میں “عرض علیٰ الکتاب”(3) کے عنوان سے ایک مستقل باب موجود ہے اور جس کا ذکر اصول کی کتابوں میں بھی تعاول و ترجیح کے عنوان سے مذکور باب میں ملتا ہے کہ روایتوں کے درمیان ترجیح یا ان کے قابل اعتبار ہونے کی شرطوں میں سے ایک شرط ان کی قرآن کے ساتھ موافقت یاعدم مخالفت بھی ہے۔
لہٰذا جب ہم کسی روایت کا اعتبار برقرار رکھنے یا کم از کم اس کو دوسری روایت پر ترجیح دینے کے لئے قرآن کے ساتھ اس کی مطابقت کریں تو آیت کا مفہوم ہم پر واضح و روشن ہونا چاہیئے تاکہ روایت کی اس کے ساتھ تطبیق کرسکیں اور اگر یہ صورت ہو کہ آیت کا مفہوم بھی روایت کے ذریعہ سمجھا جائے تو دور لازم آتا ہے لہٰذا یہ اشتباہ کہ کوئی شخص روایت کی طرف رجوع کئے بغیر قرآن کے بارے میں فکر و تدبر اور استفادہ کا حق نہیں رکھتا ایک خیال خام ہے ہم کو خود قرآن میں خداوندمتعال نے بھی حکم دیا ہے اور پیغمبر اکرم و ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی قرآنی آیات میں غور و فکر کی تاکید کے ساتھ دعوت دی ہے۔ مگر افسوس گذشتہ دور میں اس جانب کوتاہی سے کام لیاگیا یہاں تک کہ قرآن اور تفسیر قرآن کے دروس حتی دینی علمی مراکز میں بھی ضعف و اضمحلال کا شکار بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے۔
اور پھر حوزہٴ علمیہٴ قم میں علامہ طباطبائی رضوان الله علیہ کو یہ توفیق حاصل ہوئی کہ انہوں نے حوزہٴ علمیہٴ قم میں تفسیر قرآن کو حیات نو بخشی اور یہ عظیم افتخار ان کے نصیب میں آیا ہم سب کو ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ آج اسلامی معارف کی شناخت کے سلسلہ میں عظیم ترین مآخذ و مدرک یہی تفسیر المیزان ہے جو آپ نے تالیف فرمائی ہے۔
بہر حال، وہ ذمہ داری جو ہم پر خداوند عالم اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی جانب سے مقرّر کی گئی ہے اس کے تحت ہمیں قرآن کے بارے میں غور و فکر اور تدبر و تعقل سے کا م لے کر ان گراں بہا موتیوں سے استفادہ کرنا چاہیئے جو خدا وند عالم نے لوگوں کے لئے اس میں ذخیرہ کردیئے ہیں۔
آج بحمداللہ قرآن کریم کی تعلیم و تفسیر کی اہمیت ہمارے عوام پر بڑی حد تک روشن و واضح ہوچکی ہے ان کے درمیان تفسیر قرآن کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے بے نظیر ہے عوام کے درمیان اس کا استقبال اور ان کی گرم جوشی اگر چہ دل کو شادمانی عطا کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات سے خوف زدہ رہنا چاہیئے کہ کہیں قرآن کی تفسیر کجروی کا شکار نہ ہو جائے کیونکہ یہ چیز نہ صرف یہ کہ معاشرہ کو حقائق سے قریب نہیں کرسکتی بلکہ شیطانی مقاصد کے لئے راہ کھول دے گی اور افسوس یہ کام ہوا بھی ہے، آج مختلف ناموں سے ایسے گروہ موجود ہیں جو بزعم خود قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی افکار کو قرآنی آیات سے ثابت کرنے کے دعویدار ہیں ان میں سے بعض کا چہرہ تو بالکل پہچانا جاچکا ہے لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو گویا ابھی اچھی طرح پہچانے نہیں جاسکے ہیں لیکن اس میدان میں ان کی سرگرمی بہت بڑھی ہوئی ہے لہٰذا اگر چہ قرآ ن کو سمجھنے کے سلسلہ میں عوام خصوصاً نوجوانوں کی بے پناہ دلچسپی ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں خبردار رہنا چاہیئے کہ تفسیر قرآن کے سلسلہ میں انحراف کی وہ روش پیدا نہ ہونے پائے جو خدانخواستہ معاشرہ کو غلط راہ پر لگا دے۔
اور یقیناً اس منزل میں بھی، یہ بھاری ذمہ داری علما کے دوش پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن سے شغف رکھنے والوں کے لئے صحیح راہ مشخص و معین کریں کیونکہ تمام کے تمام منحرفین جان بوجھ کر کسی غرض کے تحت اسلام اور اسلامی حکومت کے دشمن نہیں بن گئے ہیں بلکہ ان کی بڑی تعداد… شاید اکثریت … اشتباهات اور غلط تعلیمات و تلقینات کا شکار ہو کر اس راہ پر لگ گئی ہے اور کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ان میں سے بعض کو ماضی میں بعض علماء کی تاٴیید بھی حاصل رہی ہے۔
بہر حال ہمیں ان مسائل سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ نپٹنا چاہئیے اور خیال رکھنا چاہیئے کہ ہمیں تعلیم قرآن کی وہ درست راہ حل کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے نشان دہی کردی ہے اپنانا چاہیئے اور تمام تر خود غرضانہ مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر قرآن کو خود اپنے مقاصد و افکار سے تطبیق کرنے کے بجائے کوشش کرنا چاہئے کہ اپنے افکار کو قرآن کی روشنی میں درست کریں کیونکہ یہ وہ بلا ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی رائج تھی اور نہج البلاغہ میں حضرت علیہ السلام نے اپنے جن دردوں کی فریاد کی ہے ان میں سے ایک یہی ہے کہ بعض لوگ قرآن کو خود اپنے افکار پر منطبق کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
————————–
حواله جات
1. اصول کافی جلد ۲ ص۴۳۸
2. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ خدو اند عالم آپ نے بارے میں، “یتلوا علیھم اٰیاتہ وَیُزكّیھم” کے بعد فرما تا ہے: “وَیعَلِمُھُم الکتاب وَالحِکمۃ” (سورہ جمعہ آیت:۲) یعنی تلاوت اور لوگوں کا تزکیہ کرنے کے بعد تعلیم قرآن کی نوبت آتی ہے معلوم ہوا قرآن کی تعلیم آیات کی تلاوت سے الگ ایک چیز ہے لہٰذا پیغمبر کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ جب آپ پر قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں تو آپ لوگوں کے سامنے ان آیات کی تلاوت فرماتے تھے تاکہ لوگ قرآن کے الفاظ یاد کرلیں اور اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تزکیہ نفس فرماتے تھے، اور پھر نبی کی ذمہ داری یہ ہوتی تھی کہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور یہ تعلیم محض قرآن کے الفاظ دہرانا نہیں ہے کیونکہ یہ تو وہی تلاوت قرآن ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ قرآن کے مطالب و مفاہیم سے عوام کو آگاہ کریں، یعنی جو چیزیں لوگ خود سمجھنے سے قاصر ہیں اس کا سمجھانا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذمہ داری ہے چنانچہ قرآن میں بھی یہ وضاحت موجود ہے: “یُعلّمکم مَالم تکونو تعلمون” (سورہ بقرہ آیت: ۱۵۱) اور وہ (پیغمبر اسلام) تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: “وانزلنا الیک الذکر لتبین للنّاس مانزل الیھم” ہم نے تم پر یہ قرآن نازل کیا ہے تاکہ تم اس کی آیتیں لوگوں کو سمجھاؤ اور بیان کرو۔ (سورہٴ نحل آیت ۴۴) پتہ چلا قرآن کی آیتیں بعض وقت تبئین ووضاحت کی محتاج ہوتی ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو سمجھائے، یقینی طور پر تبئین، تلاوت سے الگ ایک چیز ہے اور ہم شیعوں کا عقیدہ ہے کہ یہ تبئین۔ بیان وفصاحت (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مقام و منصب میں سے ہے) ائمہ معصومین علیہم السلام کے لئے بھی ثابت ہے، نیز دیگر دلیلوں کے مطابق (کہ اس وقت جس کے ذکر کا محل نہیں ہے) قرآن کی معلّمی کا منصب پیغمبر اسلام اور ائمہٴ اطہار علیہ السلام کے خصوصیات سے ہے۔
3. وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص۷۸، ۸۹ حدیث: ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۹، ۳۵، ۳۷، ۴۰، ۴۷،