- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/09
- 0 رائ
قرآن کریم میں حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شان میں بہت سی آیتیں نازل ہوئی ہیں ان میں سے بعض کی طرف ہم اس مقالہ میں اشارہ کررہے ہیں۔
1) سورہٴ دہر
شیعہ و سنی دونوں فرقوں کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک مرتبہ حسنین علیہما السلام بیمار ہوئے، پیغمبر اسلام ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور ان کی حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے۔ آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا اچھا ہوگا کہ اگر ان بچوں کی صحت کے لئے نذر مانی جائے!
حضرت علی علیہ السلام نے بچوں کے صحت یاب ہونے پر تین روز روزہ رکھنے کی نذر مانی، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور گھر کی کنیز نے بھی یہی نذر کی۔
حسنین علیہما السلام کے شفایاب ہونے پر نذر کو پورا کیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، حضرت زہرا سلام الله علیہا اور فضہ نے روزہ رکھا۔ حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں افطار کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت کا ایک پڑوسی اون کا کاروبار کرتا تھا لوگ اس سے کچا مال لے جاتے اور اون تیار کرکے دیتے تھے اور اس کام کے بدلہ اپنے کام کی مزدروی حاصل کرتے تھے۔ حضرت بھی اس کے پاس گئے اور اس سے اس معاملہ پر کچھ جو حاصل کئے کہ جو کی قیمت کی برابر حضرت زہرا سلام الله علیہا اس کے لئے اون تیار کریں گی۔
جو کو پیس کر افطار کے لئے کچھ روٹیاں تیار کی گئیں۔ افطار کا وقت قریب آیا اور اب حضرت علی علیہ السلام کے مسجد سے گھر پلٹنے کا انتظار ہونے لگا۔ جب حضرت علی علیہ السلام گھر تشریف لائے تو دسترخوان بچھایا گیا، تمام اہل بیت اور فضہ دسترخوان پر آکر بیٹھ گئے، اس بابرکت دسترخوان پر فقط چار روٹیاں رکھی ہوئی تھیں ابھی کسی نے روٹی کی طرف ہاتھ بھی نہ بڑھایا تھا کہ کسی نے دروازہ پر آکر آواز دی اے اہل بیت نبوت آپ پر میرا سلام ہو، میں ایک مسکین ہوں آپ جو کھا رہے ہیں اس میں سے مجھے بھی دیدیجئے خدا آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر فرمائے۔ یہ سن کر دسترخوان پر رکھی ہوئی روٹیاں اٹھا کر سائل کے حوالہ کردی گئیں اور اہل بیت نے پانی سے افطار کیا۔ دوسرے اور تیسرے دن بھی حضرت زہرا سلام الله علیہا نے روٹیاں تیار کیں اور پہلے دن کی طرح ہی یتیم و اسیر کو دے کر پانی سے افطار کرکے بھوکے سو گئے۔ اسی دوران جبرئیل امین اہل بیت کی شان میں سورہٴ دہر لے کر نازل ہوئے۔ جب تک قرآن باقی رہے گا اور اس کی تلاوت ہوتی رہے اور سورہٴ دہر کی آیتوں کو پڑھا جاتا رہے گا اہل بیت علیہم السلام کا یہ افتخار دنیا کے سامنے نمایاں ہوتا رہے گا۔
2) آیہٴ اجر رسالت
<قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودة فی القربیٰ> یعنی اے پیغمبر! آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر یہ کہ میرے قرابتداروں سے محبت کی جائے۔ اس مقالہ میں اب تک جو بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اہل بیت پیغمبر (قربیٰ) کون ہیں؟ حضرت زہرا سلام الله علیہا کی شہادت کے واقعہ سے یہ پتہ چلے گا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کی وصیت اور اس آیت پر کس طرح عمل کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر گمراہ لوگوں کو نقصان ہوا اور انھوں نے اس راستہ کو طے کیا جس سے پیغمبر اسلام کو اذیت پہنچی۔ یہ آیت وہ شاہد اور حجت ہے جس کے ذریعہ حضرت زہراسلام الله علیہا اس وقت احتجاج کریں گی جب ظالموں کو سزا اور مظلوموں کو ان کا حق دینے کے لئے خالق کائنات کی عدالت برپا ہوگی۔ وہاں پر ظالم اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتیں گے۔
3) آیہٴ مباہلہ
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے الله کے پیغام کو پہونچایا اور انسانوں پر حجت کو تمام کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا اور حق کی مخالفت کرنے لگے۔ الله نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ ان لوگوں کے ساتھ مباہلہ کرو اور ان سے کہو کہ تم اپنے بیٹوں کو لاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں، تم اپنی عورتوں کو لاؤ ہم اپنی عورتوں کو لائیں، تم اپنے نفسوں کو لاؤ ہم اپنے نفسوں کو لائیں اور مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر الله کی لعنت قرار دیں۔
حق کو قبول نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ عیسائیوں کا بھی تھا۔ وہ مباہلہ کے لئے تیار ہوگئے اور اس کے لئے چوبیس ذی الحجہ کا دن معین ہوا ۔ جیسے جیسے مباہلہ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا لوگوں کی بیچینیاں بڑھتی جارہی تھیں کہ دیکھیں اب پیغمبر اسلام کیا کریں گے؟
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام اس شان سے اپنے گھر سے نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو گود میں لئے ہوئے تھے، حضرت امام حسن علیہ السلام کا داہنا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت زہرا سلام الله علیہا آپ کے پیچھے چل رہیں تھیں اور حضرت علی علیہ السلام ان کے پیچھے چل رہے تھے۔ آج پیغمبر اسلام کے لئے بیٹے حسنین علیہما السلام، نفس علی، اور خاتون حضرت زہرا سلام الله علیہا تھیں۔ نصاریٰ نجران یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اسلام بادشاہوں کی طرح شان و شوکت اور بھیڑ بھاڑ کے ساتھ میدان میں آئیں گے لیکن جب انھوں نے پیغمبر اسلام کو اس شان سے آتے دیکھا تو دنگ رہ گئے اور آپ اور آپ کے اہل بیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے سب سے بڑے عالم سے کہنے لگے اے ابو حارث! دیکھ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا: مجھ سے پوچھتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں ان انسانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ الله کو قسم دے کر یہ کہیں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیں تو وہ ایسا ہی کرے گا ۔ حضرت عیسیٰ کی قسم اگر محمد دعا کریں گے تو کوئی عیسائی زمین پر باقی نہیں رہے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
4) آیہ تطہیر
انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً
چونکہ آیہٴ تطہیر کی تفصیل کے لئے بہت زیادہ وقت کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر اس کی طرف اشارہ کرکے ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ شیعہ وسنی علماء کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت حضرت زہرا سلام الله علیہا آپ کے بابا، آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں کی شان میں نازل ہوئے۔
حدیث کساء سے ظاہر ہے کہ اس کی شان نزول کا محور بھی حضرت زہرا سلام الله علیہا کی ہی ذات ہے۔ الله نے یہ آیت آپ کی شان میں نازل کرکے فرمایا کہ اے اہل بیت بس الله کا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے ہر رجس کو دور رکھے اور آپ کو اسی طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا کے فضائل بہت زیادہ ہیں ہم نے تو اس مقالہ میں آپ کے فقط چند فضائل کی طرف ہی مختصر سا اشارہ کیا ہے۔
حضرت زہرا سلام الله علیہا پیغمبر اسلام کے سوگ میں
۱۱ ئھ ․ق ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا اور وہ یہ کہ اس سال پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔ یہ اتنا شدید صدمہ تھا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی زبان پر آپ کے لئے یہ جملے جاری ہوئے: اے پیغمبر خدا! آپ کی رحلت سے وہ سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی دوسرے کے مرنے سے ختم نہیں ہوتا۔ یعنی الله اور مخلوق کے درمیان کا رابطہ ختم ہوگیا سلسلہٴ وحی و نبوت بند ہو گیا۔ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد امت مسلمہ میں جو ہوا اس سب کو لکھنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب کی ضرورت ہے لہٰذا ہم یہاں پر مختصر طور پر بس یہ لکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی وصیت کو بھلا دیا گیا، باغ فدک غصب کر لیا گیا، امام کو خانہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا، جس گھر میں جبرئیل بھی بغیر اجازت کے قدم نہیں رکھتے تھے اس میں آگ لگائی گئ۔ حضرت زہرا سلام الله کی ذات جو کمالات و فضائل کا مرکز تھی اور جن کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرامت کو بہت سی وصیتیں بھی فرمائیں تھیں ان کو درو دیوار کے بیچ اس طرح پیسا گیا کہ آپ کا پہلو شکستہ ہوگیا اور آپ کے بیٹے محسن کی شہادت واقع ہوئی۔ جب مہاجر و انصار میں سے کسی نے آپ کی مدد نہ کی تو آپ سے مایوس ہوگئیں۔
آپ ہر روز قبر رسول پر جاتیں اور اتنا روتیں کہ بے ہوش ہوجاتیں جب ان کو گھر لے کر آتے تھے اور وہ ہوش میں آتی تھیں تو پھر رونا شروع کردیتی تھیں۔ ایک روز حضرت علی علیہ السلام نے آپ سے فرمایا: اے بنت رسول! مدینہ کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے علی! آپ زہرا سے کہہ دیجئے کہ یادن میں رویا کریں یا رات میں۔ حضرت زہرا سلام الله علیہا نے جواب دیا اے ابوالحسن ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اب میں ان کے درمیان زیادہ دن زندہ نہیں رہوں گی میں جلدی ہی اپنے بابا کے پاس چلی جاؤں گی لیکن خدا کی قسم جب تک زندہ رہوں گی آرام سے نہ بیٹھوں گی۔ ہاں! آپ پیغمبر اسلام کے بعد اہل بیت پر اتنے ظلم ہوئے کہ پچھتر یا پچانوے دن تک حضرت زہرا سلام الله علیہا اتنا روئیں کہ آپ کا نام یاقوب جیسے رونے والوں کے ساتھ لیا جانے لگا۔