- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/29
- 0 رائ
مصنف: شھید آیت اللہ مرتضی مطھری (رح)
حضرت (ع) نے فرمایا: بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیہود و علمائھم فرق من جھة وتسویة من جھة: اما من حیث استووا فان اللہ قد ذم عوامنا بتقلیدھم علمائھم کما قد دم عوامھم و امامن حیث افترقوا فلا
“ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔”
اس شخص نے عرض کیا:
“فرزند رسول توضیح دیجئے۔”
حضرت (ع) نے فرمایا:
“یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔”
اس کے بعد حضرت۱نے فرمایا:
و اضطروا بمعارف قلوبھم الی ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق وبین اللہ۔
“وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول۱کا قول نہیں ماننا چاہئے۔”
یہاں امام۱یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔
منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے:
قضایا قیاسھا معھا
جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت۱فرماتے ہیں:
و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقہائھم الفسق الظاہر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامھا‘ و اھلاک من یتعصبون علنہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ وان کان للاذلال و الا ھانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل ھولا فھم(احتجاجی طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں “بالترفق” کے بجائے “بالترفرف” آیا ہے)
“ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری… چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں… اپنے مخالفوں کی سرکوبی… چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں… اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔”
پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔
اجتھاد اور تقلید
علماء کی عصمت کا جاہلانہ نظریہ
بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ گناہ کی تاثیر ہر شخص میں یکساں نہیں ہے‘ عام لوگوں پر گناہ اثرانداز ہوتا ہے اور ان کی عدالت و تقویٰ زائل کر دیتا ہے‘ لیکن علماء پر وہ کارگر ثابت نہیں ہوتا وہ ایک قسم کی “کُریت” اور ایک طرح کی عصمت کے مالک ہیں جو فرق آب قلیل و آب کثیر میں ہے (وہی فرق عوام اور علماء میں ہے) کہ اگر آب کثیر ایک کُر کے برابر ہو تو وہ نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا‘ نجاست اس پر اثرانداز نہیں ہوتی‘ جبکہ اسلام‘ کسی کے لئے کُریت و اعتصام کا قائل نہیں ہے‘ یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی۔ قرآن مجید کیوں کہتا ہے:
قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم
“اے پیغمبر! کہہ دو کہ اگر میں بھی گناہ کروں تو مجھے بھی یوم عظیم کا خوف ہے۔”
کیونکہ ارشاد ہوتا ہے:
لئن اشرکت لیحبطن عملک
“اگر آپ کے عمل میں شرک کا شائبہ آ جائے تو آپ کا عمل رائیگاں چلا جائے گا۔”
یہ سب ہمیں بتانے کے لئے‘ یہاں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے کہ کسی کو کُریت و اعتصام حاصل نہیں ہے (کہ چاہے جتنا گناہ کرتے جائیں ان کی عدالت و تقویٰ پر حرف نہ آئے گا)۔
قرآن مجید میں موسیٰ۱ و عبد صالح کی جو داستان بیان ہوئی ہے وہ بڑی عجیب داستان ہے‘ اس داستان سے ایک عظیم درس یہ ملتا ہے کہ تابع و پیرو صرف اسی وقت تک پیشوا و رہنما کی اطاعت اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر سکتا ہے‘ جب تک پیشوا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے‘ اصول نہ توڑے‘ برائی کی طرف مائل نہ ہو۔ اگر پیشوا اصول و قوانین کے خلاف اقدام کرے تو یہاں خاموشی ہرگز جائز نہیں ہے‘ اگرچہ اس داستان میں عبد صالح کے اقدامات… خود ان کی نظر میں‘ ایک وسیع تر افق پر نظر رکھنے اور موضوع کے باطنی پہلو کی جانب توجہ کرنے کے باعث… اصول و قوانین کے خلاف نہ تھے‘ بلکہ فریضہ و ذمہ داری کے عین مطابق تھے‘ لیکن نکتہ یہ ہے کہ موسیٰ۱۱نے صبر کیوں نہیں کیا؟ اعتراض کیوں کر بیٹھے؟ باوجودیکہ وہ وعدہ کرتے تھے اور خود کو تلقین کرتے تھے کہ اعتراض نہیں کریں گے لیکن پھر بھی اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ موسیٰ۱۱کا کمزور پہلوان کا اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ موضوع کی حقیقت اور اس کے باطن سے ناواقفیت تھی‘ اگر انہیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اعتراض نہ کرتے اور وہ حقیقت کو جاننا بھی چاہ رہے تھے لیکن جب تک وہ ان اقدامات کو الٰہی اصول و قوانین کے برخلاف تصور کر رہے تھے‘ ان کا ایمان انہیں خاموش رہنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ اگر قیامت تک عبد صالح کے اقدامات جاری رہتے تو موسیٰ۱۱بھی اعتراض و تنقید سے باز نہ آتے‘ مگر یہ کہ حقیقت موضوع سے باخبر ہو جاتے۔
موسیٰ(ع) ان سے کہتے ہیں:
ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا
“کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے تعلیم دیں۔”
عبد صالح کہتے ہیں:
لن تستطیع معی صبرا
“تم میری مصاحبت برداشت اور جو کچھ دیکھو گے اس کے متعلق خاموش نہیں رہ سکتے۔”
اس کے بعد خود ہی اس کی وجہ بتائے دیتے ہیں:
وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا؟
“جب تم کوئی (بظاہر) غلط کام ہوتا دیکھو گے اور اس کی حقیقت و راز سے بھی واقف نہ ہو گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ہو؟”
موسیٰ (ع) نے کہا:
ستجد نی انشاء اللہ صابراً و لا اعصی لک امراً
“انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔”
موسیٰ۱۱نے یہ نہیں کہا کہ راز کا پتہ ہو یا نہ ہو میں صبر کروں گا‘ بلکہ صرف اتنا کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ صبر و تحمل مجھ میں پیدا ہو جائے‘ البتہ موسیٰ۱۱میں یہ تحمل اس وقت پیدا ہو گا جب وہ ان اقدامات کے راز سے واقف ہو جائیں گے۔
اس کے بعد عبد صالح نے موسیٰ۱۱سے مزید واضح اور پکا وعدہ لینا چاہا کہ راز معلوم ہو یا نہ ہو وہ اعتراض نہ کریں‘ یہاں تک کہ وقت آنے پر میں خود اس کی وضاحت کروں:
قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتی احدث لک منہ ذکراً
“اگر میرے ساتھ آنا چاہتے ہو تو سب کچھ دیکھ بھی چپ رہنا ہو گا‘ بعد میں خود توضیح دوں گا۔”
یہاں اب اس کے بعد آیت میں یہ نہیں ہے کہ موسیٰ۱۱نے یہ شرط مان لی‘ آیت میں بس اتنا ہی ہے کہ اس کے بعد وہ لوگ چل پڑے اور ان کو سارے واقعات پیش آئے جنہیں آپ بارہا سن چکے ہیں۔
بہرحال میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ جاہل کا عالم کی تقلید کرنا سرسپردگی نہیں ہے‘ ناجائز تقلید وہی ہے جو سرسپردگی کی شکل میں ہو اور یہ صورت اختیار کر لے کہ
“جاہل کو عالم سے بحث کرنے کا حق نہیں‘ یہ باتیں ہماری سمجھ سے مافوق ہیں‘ شاید یہ سب کچھ شرعی ذمہ داریوں کا تقاضا ہو۔”
میں نے یہ داستان امام جعفر صادق علیہ السلام کی تائید و شاہد کے طور پر پیش کی ہے۔
جائز تقلید
امام جعفر صادق علیہ السلام ناجائز و مذموم تقلید کے متعلق وہ جملے (جنہیں میں نقل کر چکا ہوں) بیان کرنے کے بعد جائز و ممدوح تقلید‘ ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
فاما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظاً لدینہ مخالفاً علیٰ ھواہ مطیعاً لامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ
“اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو‘ شیطان کی دعوتیں اور آوازیں اس کے قدم ڈگمگا نہ سکتی ہوں‘ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو‘ دین کا سودا نہ کرتا ہو (شاید مراد یہ ہو کہ عوام اور معاشرہ میں دین کی حفاظت و بقاء کا انتقام کرتا ہو) نفسانی خواہشات کا مخالف اور الٰہی احکام کا مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام ایسے شخص کی تقلید کر سکتے ہیں۔”
البتہ یہ نکتہ واضح ہے کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت میں ایک عالم اور عام شخص کے درمیان فرق ہے‘ کیونکہ ہر شخص کی خواہش نفس‘ کچھ معین امور میں ہوتی ہے جوان کی خواہش نفس الگ ہے اور بوڑھے کی خواہش نفس الگ‘ ہر شخص جس منصب‘ جس طبقہ‘ جس سن میں ہو اسی کے مطابق خواہش نفس رکھتا ہے۔ ایک عالم دین کی نفس پرستی کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں؟ جوا کھیلتا ہے یا نہیں؟ نماز و روزہ ترک کرتا ہے یا نہیں؟ اس کی ہوا پرستی کا معیار‘ عہدہ و منصب کی خواہش‘ شہرت و محبوبیت سے لگاؤ‘ ہاتھ چموانے کی آرزو‘ اپنے آگے پیچھے لوگوں کے چلنے کی تمنا‘ اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے بیت المال کا استعمال‘ اپنے ساتھیوں‘ عزیز و اقرباء‘ خاص طور سے اپنے صاحبزادوں کو بیت المال وغیرہ میں خرد برد کی کھلی چھوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں۔
امام (ع) اس کے بعد فرماتے ہیں:
وھم بعض فقہاء الشیعة لاجمیعھم
“یہ اعلیٰ و ارفع اوصاف و فضائل صرف بعض شیعہ فقہاء میں پائے جا سکتے ہیں‘ تمام شیعہ فقہاء میں نہیں۔”
یہ حدیث اپنے آخری جملوں کے لحاظ سے مسئلہ اجتہاد و تقلید کی ایک دلیل ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اجتہاد و تقلید کی دو دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟
ہماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ہے کہ میت کی تقلید ابتداً جائز نہیں ہے‘ میت کی تقلید اگر جائز ہے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتہد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رہا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے‘ مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے بھی زندہ مجتہد کی اجازت ضروری ہے‘ مجھے اس مسئلے کی فقہی دلیلوں سے مطلب نہیں ہے‘ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بڑا ہی بنیادی نظریہ ہے‘ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد واضح ہو جائے۔
اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے‘ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں‘ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ و ترقی آتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعے حل ہو چکی ہوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ہو‘ کلام تفسیر‘ فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ہزاروں معمے اور مشکلیں ہیں‘ بہت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ہیں اور بہت سی مشکلیں باقی ہیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حل کریں اور تدریجی طور پر ہر موضوع میں مزید جامع اور بہتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلے کو آگے بڑھائیں‘ جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا‘ فقہ کو آگے بڑھایا‘ کلام کو آگے بڑھایا‘ یہ قافلہ رکنا نہیں چاہئے‘ پس زندہ مجتہدوں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ‘ اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان ہر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نہیں ہے‘ لہٰذا ایسے زندہ فقیہوں اور زندہ افکار کی ضرورت ہے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں۔ اجتہاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ہے:
و اما الحوادث الواقعة فا رجعوا فیھا الیٰ رواة احادیثنا(احتجاج طبرسی‘ ج ۲۸۳ (نئے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو) “احادیثنا” کے بجائے “حدیثنا” ہے)
“حوادث واقعہ” یہی نئے مسائل ہیں جو ہر صدی میں‘ ہر دور میں اور ہر سال پیش آتے رہتے ہیں۔ مختلف زمانوں‘ مختلف صدیوں کی فقہی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طور پر فقہ میں نئے مسائل داخل ہوئے ہیں اور فقہاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے‘ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص تحقیقی نقطہ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ‘ کس صدی میں‘ کسی علافہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ہوا ہے۔ اگر زندہ مجتہد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتہد کی تقلید میں کیا فرق ہے؟ بہتر ہے کہ ہم بعض مردہ مجتہدوں مثلاً شیخ انصاری کی… جو خود زندہ مجتہدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے… تقلید کریں۔
بنیادی طور پر اجتہاد کا فلسفہ‘ کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ہوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نہاں ہے۔ واقعی مجتہد وہی ہے جو یہ فلسفہ حاصل کر سکے‘ اسے معلوم ہو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں‘ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی “علی الاقویٰ” کو “علی الاحوط” سے بدل دینا یا “علی الاحوط” کو “علی الاقوی” میں تبدیل کر دینا تو کوئی ہنر نہیں ہے‘ اس کے لئے اتنے ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اجتہاد کے لئے بہت سی شرائط و مقدمات کی ضرورت ہے۔ مجتہد کو مختلف علوم کا ماہر ہونا چاہئے‘ عربی ادب‘ منطق‘ اصول فقہ‘ حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ہونا چاہئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ہے‘ تب کہیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ہے۔ فقط نحو‘ صرف‘ معانی‘ بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد‘ مکاسب اور کفایة جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برتمک درس خاہر میں شرکت کر کے کوئی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور “وسائل” و “جواہر” سامنے رکھ کر فتوے صادر نہیں کر سکتا‘ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا سے امام حسن عسکری۱تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ہونے والی ہزاروں حدیثو ں‘ نیز ان حدیثوں پر صادر ہونے والے ماحول یعنی ھھھ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ‘ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ہونا چاہئے۔
آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ واقعاً فقیہ تھے‘ مجھے کسی کا نام لینے کی عادت نہیں ہے۔ وہ بھی جب تک زندہ تھے میں نے اپنی تقریروں میں ان کا نام نہیں لیا ہے‘ لیکن اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کسی لالچ کا شائبہ نہیں رہ گیا ہے‘ یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ واقعاً ایک ممتاز و زبردست فقیہ تھے۔ تفسیر‘ حدیث‘ رجال درایت اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔
(جاری ھے)
source : www.sibtayn.com