- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/02/22
- 0 رائ
سوال ۹: کسی مجتھد کی اعلمیت کی تشخیص کرنا کہ یہ مجتھد اپنے ھم عصر مجتھدین سے علم میں زیادہ ھے ایک عام شخص کے لئے جو اس علم سے ناواقف ھے، کیسے ممکن ھے؟
جواب: اسے ایسے اشخاص کی طرف رجوع کرنا چاھئے جو فقھا کی کتب، دروس اور علمی گفتار سے ان کی علمی اھلیت کا اندازہ لگا سکتے ھیں ( جنھیں فقہ کی اصطلاح میں اھل خبرہ کھا جاتا ھے) اور اگر ایسے اشخاص کی طرف رجوع ممکن نہ ھو یا یہ معلوم ھو کہ تمام مجتھد علم میں مساوی ھیں تو جس کی تقلید کی جائے صحیح ھوگی۔
سوال۱۰: اگر کسی شخص نے اپنی زندگی کا ایک حصہ بغیر تقلید کے گزار دیا ھے اور اپنی عبادات اور دیگر اعمال کو ماں باپ اور دوسرے لوگوں کے کھنے کے مطابق انجام دیتا ھے۔ اب متوجہ ھوا ھے کہ تقلید کرنا واجب ھے۔ اس کے سابقہ اعمال (جو بغیر تقلید کے انجام دئے ھیں) صحیح ھیں یا غلط و باطل؟ جواب: اس کو چاھئے کہ اب کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے۔ اپنے سابقہ اعمال و عبادات کا اس کے فتوے سے مقابلہ کرے۔ جو اعمال اس مجتھد کے فتوے کے مطابق ھوں صحیح ھیں اور جو مطابق نہ ھوں اگر ممکن ھو تو ان اعمال کو دوبارہ اس مجتھد کے فتویٰ کے مطابق بجالائے اور اگر دوبارہ نہ بجالائے اور قیامت کے دن معلوم ھو جائے کہ یہ اعمال دستورات دینی کے مطابق نہ تھے تو یہ شخص عذاب الٰھی کا مستحق ھوگا کیونکہ ھر شخص کے لئے ضروری ھے کہ احکام خدا کو اس طرح بجالائے کہ اس کو اطمینان حاصل ھو جائے کہ میں نے اپنا وظیفہ پورا کر دیا ھے و گرنہ روز قیامت شرعاً اور عقلاً جواب دہ ھے۔
سوال۱۱: وہ ماخذ و مدارک کتنے ھیں جن سے مجتھد احکام الٰھی کو سمجھتا ھے؟
جواب: حکم الٰھی کا مدرک وہ منابع و مآخذ ھیں جن میں غور و فکر کرنے سے مجتھد احکام الھٰی کو اخذ کرتا ھے اور وہ ماٴخذ و مدارک تین چیزیں ھیں:
۱․قرآن مجید۔
۲․ احادیث و روایات جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہٴ ھدی علیھم السلام (یعنی آپ کے بارہ جانشینوں) سے ھم تک پھنچی ھیں۔
۳․ عقل و خرد جو باطنی رسول ھے جس طرح پیغمبر اکرم(ص) ظاھری رسول ھیں۔
سوال ۱۲: درجہٴ اجتھاد پر فائز ھونے اور احکام الٰھی کو مذکورہ بالا مدارک سے سمجھنے و حاصل کرنے کے لئے کن شرائط اور مقدمات کا ھونا ضروری ھے۔ آیا سب کے لئے وہ شرائط میسر ھیں یا نھیں؟
جواب :ان امور کو مد نظر ھونا چایئے کہ اولاً قرآن مجید جو احکام الٰھی کے لئے مھمترین مدرک ھے عربی زبان میں ھے۔
ثانیاً احادیث و روایات بھی عربی ھونے کے علاوہ ۱۲۰۰ سال کے فاصلہ میں مختلف اشخاص کے ذریعہ ھم تک پھنچی ھیں۔
بالکل واضح ھو جاتا ھے کہ موجودہ زمانہ میں اجتھاد اور استنباط اور احکام الٰھی کو دلائل اور مدارک سے سمجھنا ایک مشکل و دشوار ترین کام ھے اور اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا ھونا انتھائی لازمی ھے۔
پھلی شرط : عربی لغت کا علم حاصل کرنا یعنی عربی الفاظ کے معانی کا جاننا تا کہ جو کلمات قرآن مجید، احادیث اور روایات اھل بیت علیھم السلام میں وارد ھوئے ھیں ان کے معانی معلوم ھوسکیں۔ اس موضوع پر مخلتف کتابوں کا مطالعہ بھی ضروری ھے۔
دوسری شرط: تحصیل علم صرف و نحو کہ عربی الفاظ کے مشتقات اور صحیح جملہ بندی کی کیفیت بتاتے ھیں اور اس موضوع میں بھی چند کتابوں کا پڑھنا لازمی ھے۔
تیسری شرط: تحصیل علم اصول یعنی ان قواعد کا علم حاصل کرنا جو احکام الٰھی کو صحیح مدارک و منابع سے سمجھنے میں مدد دیتے ھیں۔ یہ علم بھت وسیع ھے۔ اس علم کے مطالب کی تحقیق اور ان کے حل میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ھیں اور مرتبہٴ اجتھاد تک پھنچنے والے حضرات کا سب سے زیادہ وقت اسی علم کی تحصیل و تحقیق میں صرف ھوتا ھے۔ اگر کوئی شخص اس علم سے ناواقف ھو تو احکام الٰھی کے سمجھنے اور استنباط کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا نھیں کرسکتا۔
چوتھی شرط: تحصیل علم رجال یعنی ان افراد کے حالات کا جاننا جن کے ذریعے احادیث و روایات ھم تک پھنچی ھیں۔ یعنی وہ لوگ جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ ھدی علیھم السلام کے اصحاب میں شامل ھیں اور جنھوں نے بارگاہ رسول اکرم یا ائمہ ھدی علیھم السلام سے دینی احکام حاصل کئے ھیں اور اسی طرح ان کے بعد وہ طبقات جن میں سے ھر طبقہ نے اپنے سابقہ طبقہ سے احادیث کو پھنچا یا ۔ صاحبان کتب اربعہ کے زمانہ تک یہ سلسلہ جاری رھا یعنی اس زمانہ تک کہ جس وقت اکثر احادیث و روایات کو شیعوں کی چار اھم کتابوں میں جمع کردیا گیا جو ”کتب اربعه“ کے نام سے مشھور ھیں۔
ان مذکورہ افراد کی تعداد تقریباً ۱۳ ھزار کے قریب ھے۔ اسی طرح جو احادیث و روایات ان افراد کے ذریعہ مخلتف کتب میں اور پھر کتاب ”وسائل الشیعه“ (جو احادیث شیعہ کی معتبر ترین کتاب ھے) میں جمع کی گئی ھیں ان کی تعداد بھی ۲۷ ھزار کے آس پاس ھے۔
بنابرایں کوئی شخص اپنے مذھبی احکام کو اپنے اجتھاد و استنباط کے ذریعہ حاصل کرنا چاھتا ھے تو اس کے لئے کتب رجال کا مطالعہ کرنا ضروری ھے جو ان افراد ”رواة احادیث“ کے حالات، خصوصیات اور امتیازات میں لکھی گئی ھیں تاکہ ان افراد کے حالات سے مطلع ھونے کے بعد بآسانی احادیث و روایات کی صحت و فساد کو سمجہ سکے اور احکام الٰھی کے استنباط میں اسے کوئی دقت پیش نہ آئے۔
پانچوی شرط: تحصیل علم تفسیر یعنی تفسیر سے اتنا واقف ھو کہ احکام سے متعلقہ آیات کے معنی و مطالب سمجہ سکے۔
چھٹی شرط: تحصیل علم حدیث یعنی احادیث و روایات میں تحقیق کرنا اور معلوم کرنا کہ آیا فلاں روایت فلاں حکم کے لئے دلیل بن سکتی ھے یا نھیں۔ آیا اس روایت میں استدلال کے شرائط پائے جاتے ھیں یا نھیں؟ کوئی دوسری روایت تو اس کے خلاف نھیں؟ اسی طرح ھر حکم کے استنباط میں متعلقہ باب کی روایات کی تحقیق، شرائط وموانع پر بحث کے علاوہ کسی حد تک دوسرے ابواب کی روایات پر بھی نظر کرنا کہ شرائط کے حصول کا پورا اطمینان ھو جائے۔
نتیجہ
سابقہ مطالب سے یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ھے کہ جو شخص مجتھد بننا اور علمی قواعد اور اصول کے ذریعہ اپنے مذھبی مسائل کو خود مربوط مدارک سے حاصل کرنا چاھتا ھے اس کے لئے مذکورہ چہ علوم(علم لغت عربی، صرف و نحو، رجال، اصول، تفسیر، حدیث) میں سے ھر علم کی مختلف کتابیں پڑھنے کے علاوہ ھر علم میں صاحب نظر ھونا بھی ضروری ھے۔ تاکہ صحیح طور پر اپنے مقصد ”استنباط احکام“ تک پھنچ سکے۔ اور مذکورہ بالا مراحل کو طے کرنے اور مقصد اصلی” یعنی درجہ اجتھاد‘‘ تک پھنچنے کے لئے(اشخاص کی استعداد مختلف ھونے کو مد نظر رکھتے ھوئے) تقریباً ۲۰ سال سے پچاس سال تک عرصہ صرف ھوتا ھے۔
سوال۱۳: شریعت اسلام کے کتنے و ہ احکام ھیں جن میں انسان ”مکلف“ کے لئے ضروری ھے کہ وہ مجتھد ھو یا مقلد؟
جواب: احکام شرعیہ وہ دستورات الٰھی یا آسمانی قوانین ھیں جن کو خداوند عالم نے بشر کے انفرادی و اجتماعی، دنیوی و اخروی فائدہ کےلئے منظم ومرتب کرکے انبیاء کے ذریعہ انسانی معاشرہ تک پھنچایا ھے۔ بطور اختصار ان احکام کو چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
پھلی قسم: عبادات
یعنی وہ اعمال جن کے بجالانے کے لئے نیت شرط اور ضروری ھے کہ ان کو قربةً الیٰ الله انجام دیاجائے مثلاً :وضو، غسل، تیمّم، نماز، زکوٰة، خمس، روزه، اعتکاف، حج، عمره، جھاد، امر بالمعروف، نھی عن المنکر۔
دوسری قسم: عقود
یعنی وہ اعمال جو دو افراد کے ذریعہ انجام پاتے ھیں اور غالباً دونوں طرف سے صیغہ کے اجراء کی ضرورت ھوتی ھے، جیسے تجارت، اجارھ، ( کرایھ)، رھن، صلح، شرکت، مضاربھ(سرمایہ کاری)، مزارعہ (کاشتکاری میں شرکت)، مساقاة( باغبانی)، ودیعه(امانت) عاریه (اپنا مال کسی دوسرے کو ادھار دینا کہ وہ اس سے استفادہ کرے)، ضمان (ضمانت)، حوالہ (حواله، ڈرافٹ)، کفالت، وکالت، وقف، حبس (اپنی ملکیت کو ایک خاص مدت تک وقف کرنا نہ کہ ھمیشہ کے لئے)، ھبه، وصیت، جعالہ(ٹھیکہ، ٹنڈر)، نکاح۔
تیسری قسم: ایقاعات
یعنی وہ کام جو ایک آدمی کے ذریعہ انجام پائے جاتے ھیں اور ان میں ایک طرف سے صیغہ جاری کرنے کی ضرورت ھوتی ھے مثلا: طلاق، خلع ( عورت اپنے شوھر سے طلاق حاصل کرنے کے لئے کچھ رقم اپنے مھر سے یا کسی اور ذریعہ سے شوھر کو ادا کرتی ھے کہ اسے طلاق دینے پر آمادہ ھو جائے) مبارات، ظھار (یعنی شوھر بیوی کو کھے کہ تیری کمر میرے لئے میری ماں کی طرح ھے، اسلام سے پھلے یہ طلاق سمجھی جاتی تھی، لیکن اسلام میں اس کےلئے کفارہ ھے)، ایلاء (اس کے لغوی معنی قسم کھا نا ھیں لیکن اصطلاح فقہ میں زوجہ سے ھمبستری نہ کرنے کی قسم کھانا ھے چاھے ھمیشہ کے لئے یا کچھ مدت کیلئے قسم کھائے)، لعان ( شوھر اپنی زوجہ پر فاحشہ ھونے کا الزام لگائے)، عتق (غلام آزاد ھوگا) مکاتبہ (غلام اور مالک کے درمیان یہ معاملہ ھو کہ جتنی رقم غلام مالک کو ادا کرے گا اسی نسبت سے وہ آزاد ھوتاجائے گا ، اقرار، نذر، عھد، یمین، (خدا کے نام کی قسم) حجر(ممنوع التصرف)۔
چوتھی قسم: احکام
یعنی وہ غیر عبادی امور جنھیں انجام دینے کے لئے کسی کلمہ ( یا صیغه) کی ضرورت نھیں پڑتی۔ جیسے:
صید (شکار کرنا)، ذباحه (ذبح کرنا)، اطعمہ (ماکولات میں جو چیزیں کھائی جاتی ھوں)، اشربہ ( مشروبات)، غصب، شفعه، کفارات، احیائے اموات(غیر آباد زمینوں کو آباد کرنا)، لقطه (گری ھوئی چیز کا اٹھانا)، ارث( وراثت)، قضا (قضاوت)، شھادت، حدود، قصاص، دیات ( تاوان)۔
وہ تمام فرعی احکام و دستورات (جو فروع دین سے مربوط ھوتے ھیں) ان چار قسم کے حالات سے ھی متعلق ھیں۔
source : alhassanain