- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 22 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/10
- 0 رائ
مباہلہ:
ایک قرآنی اصطلاح، دو لوگوں یا گروہوں کی خود کو حق پر ثابت کرنے کے لیے خداوند سے ایک دوسرے کے خلاف بد دعا کرنا۔
لفظ مباہلہ کے معنی:
لغوی معنی: مباہلہ: کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔(الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، 1407۔ ذیل مادہ بھل،)
بھلہ اللہ، یعنی اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے۔(الزمخشری، محمود، 1415 ق، ج1، ص: 368)
لفظ مباہلہ: مفہوم کے حوالے سے آیت مباہلہ سے ماخوذ ہے۔(شیرازی، مکارم، تفسیر نمونه، ج2، ص580)
اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ “بھل” سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے، اسے “باھل” کہتے ہیں، اور دعا میں ” ابتھال ” تضرع اور خداوند پر کام چھوڑنے(توکل) کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
ابتھال کے معنی میں دو اقوال ہیں:
1۔ ایک دوسرے پر لعن کرنا، اگر دو افراد کے درمیان ہو،
2۔ کسی کی ہلاکت کی نیت سے بددعا کرنا۔
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں کہ اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔
ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہو اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلے کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے۔
دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پو ہو تو اللہ تعالی تجھے ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہے۔(طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج2، ص 762 تا 761)
آیت مباہلہ:
سورۃ آل عمران کی آیت 61 کو مفسرین آیت مباہلہ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں مباہلہ کا ذکر آیا ہے۔
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم ( اور وحی ) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسی) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔(سورہ آل عمران آیت 61)
واقعہ مباہلہ:
مباہلہ ایک مشہور واقعہ ہے جسے سیرت ابن اسحاق اور اور تفسیر ابن کثیر میں تفصیل سے لکھا گیا ہے. نبی (ص) نے نجران کے عیسائیوں کی جانب ایک فرمان بھیجا، جس میں یہ تین چیزیں تھیں اسلام قبول کرو، یا جزیہ ادا کرو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ عیسائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، جبار بن فیضی وغیرہ کو حضور ص کی خدمت میں بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر مذہبی امور پر بات چیت شروع کر دی، یہاں تک کہ حضرت عیسی کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا۔ اسی دوران وحی نازل ہوئی جس میں مباہلہ کا ذکر ہے۔
اس آیت کے نزول کے بعد نبی ص اپنے نواسوں حسن اور حسین اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ اور داماد حضرت علی کو لے کر گھر سے نکلے، دوسری طرف عیسائیوں نے مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہو جاہیں گے اور ان لوگوں نے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اسی واقعہ کی نسبت سے شعیہ اور اکثر سنی بھی پنجتن پاک کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس سے سلفی حضرات اختلاف کرتے ہیں۔
دعوت مباہلہ:
مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کوئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچوں، عورتوں اور نفسوں کو لے آئیں اور تم بھی اپنے بچوں اور عورتوں اور نفسوں کو بلاوٴ پھر دعا کرو تا کہ خدا جھوٹوں کو رسوا کر دے۔
مباہلہ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سو فی صد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتا دیتا ہے۔
کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے۔
یہ مسلّم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے، کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہوا تو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہو گا ۔
کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمینان کیے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوت مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔
اسلامی روایات میں ہے کہ: مباہلہ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تا کہ اس بارے میں سوچ بچار کر لیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کر لیں ۔ مشورے کی یہ بات ان کی نفساتی حالت کی بارے میں بتاتی ہے ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شور و غل، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ مباہلہ کے لیے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کر لیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور و غل کا سہارا لیا جائے، اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے مباہلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین(ع) کو گود میں لیے حسن(ع) کا ہاتھ پکڑے اور علی(ع) و فاطمہ(ع) کو ہمراہ لیے آ پہنچے ہیں اور انہیں فرما رہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو، تم آمین کہنا۔
عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے۔
فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے، کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے۔
بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہوں، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے۔
اس آیت میں مباہلہ کا نتیجہ تو بیان نہیں کیا گیا لیکن چونکہ یہ طریقہ کار منطق و استدلال کے غیر موثر ہونے پر اختیار کیا گیا تھا، اس لیے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ مقصود صرف دعا نہ تھی بلکہ اس کا خارجی اثر پیش نظر تھا۔
مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے پر لعنت کرے تا کہ سب کے سامنے واضح ہو جائے کہ کونسا فریق حق بجانب ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے نجران کے نصارٰی کو مباہلہ کی تجویز دی اور انھوں نے یہ تجویز قبول کر لی، لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلہ کرنے سے اجتناب کیا، کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر(ص) اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی: فاطمہ زہراء(س)، اپنے داماد امام علی(ع)، اپنے نواسوں حسن(ع) اور حسین(ع)، کو ساتھ لے کر آئے ہیں چنانچہ انہیں آپ(ص) کی صداقت کا یقین ہوا، اور یوں رسول اللہ (ص) اس مباہلے میں کامیاب ہوئے۔
نجران کے نصارٰی اور رسول خدا (ص) کے درمیان پیش آنے والا واقعہ مباہلہ نہ صرف نبی اکرم (ص) کے اصل دعوے [یعنی دعوت اسلام] کی حقانیت کا ثبوت ہے بلکہ آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کی فضیلت خاصہ پر بھی دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ آپ (ص) نے تمام اصحاب اور اعزاء و اقارب کے درمیان اپنے قریب ترین افراد کو مباہلے کے لیے منتخب کر کے دنیا والوں کو ان کا اس انداز سے تعارف کرایا ہے۔ یہ واقعہ 24 ذی الحجہ سن 9 ہجری کو رونما ہوا، اور قرآن کریم کی سورہ آل عمران آیت نمبر 61 میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
آیت مباہلہ اهل سنت کی نظر میں:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: چنانچہ اب آپ کو علم (اور وحی) پہنچنے کے بعد، جو بھی اس (حضرت عیسی) کے بارے میں آپ سے کٹ حجتی کرے، تو کہہ دیجیے کہ آؤ! ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں، اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں، اور اپنے نفسوں کو اور تمہارے نفسوں کو، بلا لیں، پھر التجا کریں اور اللہ کی لعنت قرار دیں جھوٹوں پر۔(سورہ آل عمران آیت 61)
شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اکرم(ص) کے ساتھ نجران کے نصاری کے مناظرے کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ نصاری (عیسائیوں) کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی(ع) تین اقانیم میں سے ایک اقنوم ہے، وہ عیسی(ع) کے بارے میں قرآن کریم کی وحیانی توصیف سے متفق نہیں تھے، جو انہیں خدا کا پارسا بندہ اور نبی سمجھتا ہے، حتی کہ آپ(ص) نے انہیں للکارتے ہوئے مباہلے کی دعوت دی۔(قرآن کریم، توضیحات و واژه نامه از بهاءالدین خرمشاهی، 1376.ذیل آیه مباهله، ص 57)
اہل سنت کے مفسرین جیسے: زمخشری، نے اپنی تفسیرالزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران میں اور فخر رازی نے اپنی تفسیر، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران میں اور بیضاوی نے اپنی تفسیر البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التأویل، ذیل آیه 61 آل عمران میں اور دیگر مفسیرین نے کہا ہے کہ:
ابناءنا(ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن(ع) اور حسین(ع) ہیں اور ” نساءنا ” سے مراد فاطمہ زہراء علیہا السلام اور ” انفسنا ” ہمارے نفس اور ہماری جانوں ] سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت(ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لیے نازل ہوئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
نصارائے نجران نے رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے ساتھ آنے والے افراد کے دلیرانہ صدق و اخلاص کا مشاہدہ کیا تو خائف و ہراساں اور اللہ کی عقوبت و عذاب سے فکرمند ہو کر مباہلہ کرنے کے لیے تیار نہيں ہوئے اور آپ (ص) کے ساتھ صلح کر لی اور درخواست کی کہ انہیں اپنے دین پر رہنے دیا جائے اور ان سے جزیہ وصول کیا جائے اور آنحضرت (ص) نے ان کی یہ درخواست منظور کر لی۔
بالفاظ دیگر عیسائی جان گئے کہ اگر رسول خدا (ص) مطمئن نہ ہوتے تو اپنے قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں نہ لاتے چنانچہ وہ خوفزدہ ہو کر مباہلے سے پسپا اور جزیہ دینے پر راضی ہو گئے۔
روز مباہلہ:
شیخ مفید نے اس واقعے کو فتح مکہ کے بعد اور حجہ الوداع سے پہلے یعنی سن 9 ہجری قمری قرار دیا ہے۔(المفید، الارشاد، ج1، صص166-171)
نصاری کے ساتھ رسول خدا(ص) اور عیسائیوں کے درمیان واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا۔(ابن شهر آشوب، 1376ق، ج 3، ص: 144)
صاحب کشف الاسرار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 21 ذو الحجہ کو واقع ہوا ہے۔(میبدی، کشف الاسرار وعدة الابرار، ج2، ص147۔)
شیخ انصاری کا کہنا ہے کہ مشہور یہی ہے کہ واقعہ مباہلہ 24 ذو الحجہ کو رونما ہوا ہے اور اس روز غسل کرنا مستحب ہے۔(انصاری، شیخ اعظم مرتضی، کتاب الطهارة، ج3، صص48-49۔)
شیخ عباس قمی نے اپنی مشہور اور شریف کتاب مفاتیح الجنان میں 24 ذو الحجہ کے لیے بعض اعمال ذکر کیے ہیں، جن میں غسل اور روزہ شامل ہیں۔(رجوع کریں: ذو الحجہ کے واقعات و اعمال قمی، شیخ عباس، 1374، ج1، صص: 182-184۔)
جو کچھ شیعہ اور سنی مؤرخین و محدثین کے ہاں مسلّم ہے یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اکرم(ص) اور نجران کے عیسائیوں کے درمیان رونما ہوا ہے۔
مباہلے میں شامل افراد:
یہ بھی تفاسیر اور تواریخ و حدیث کے علماء کے ہاں امر مسلّم ہے کہ رسول اللہ (ص) جن لوگوں کو مباہلہ کے لیے ساتھ لائے تھے وہ امیر المؤمنین(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) تھے، تاہم یہ کہ اس واقعے کی تفصیلات کیا تھیں، عیسائیوں میں سے کون لوگ رسول اللہ(ص) کے حضور آئے تھے اور عیسائیوں اور رسول اللہ(ص) کے درمیان کن کن باتوں کا تبادلہ ہوا تھا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مختلف روایات اور کتب میں اختلاف کے ساتھ نقل ہوئے ہیں۔
واقعۂ مباہلہ تفصیلی بحث:
روز مباہلہ کی صبح کو حضرت رسول اکرم(ص) امیر المؤمنین علی(ع) کے گھر تشریف فرما ہوئے، امام حسن(ع) کا ہاتھ پکڑ لیا اور امام حسین(ع) کو گود میں اٹھایا اور حضرت امیر(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کے ہمراہ مباہلے کی غرض سے مدینہ سے باہر نکلے۔
جب نصارا نے ان بزرگواروں کو دیکھا تو ان کے سربراہ ابو حارثہ نے پوچھا: یہ لوگ کون ہیں جو محمد (ص) کے ساتھ آئے ہیں؟ جواب ملا کہ: وہ جو ان کے آگے آگے آ رہے ہیں، ان کے چچا زاد بھائی، ان کی بیٹی کے شریک حیات اور مخلوقات میں ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں، وہ دو دو بچے ان کے فرزند ہیں، ان کی بیٹی سے اور وہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو خلق خدا میں ان کے لیے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
آنحضرت(ص) مباہلے کے لیے دو زانو بیٹھ گئے۔ پس سید اور عاقب (جو وفد کے اراکین اور عیسائیوں کے راہنما تھے) اپنے بیٹوں کو لے کر مباہلے کے لیے روانہ ہوئے۔
ابو حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! محمد(ص) کچھ اس انداز میں زمین پر بیٹھے ہیں جس طرح کہ انبیاء(ع) مباہلے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، اور پھر پلٹ گیا۔
سید نے کہا: کہاں جا رہے ہو؟
ابو حارثہ نے کہا: اگر محمد(ص) بر حق نہ ہوتے تو اس طرح مباہلے کی جرات نہ کرتے اور اگر وہ ہمارے ساتھ مباہلہ کریں تو ہم پر ایک سال گزرنے سے پہلے پہلے ایک نصرانی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ: ابو حارثہ نے کہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے التجا کریں کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑ دے تو بےشک وہ اکھاڑ دیا جائے گا۔ پس مباہلہ مت کرو ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے اور حتی ایک عیسائی بھی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا۔
اس کے بعد ابو حارثہ آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے ابا القاسم! ہمارے ساتھ مباہلے سے چشم پوشی کریں اور ہمارے ساتھ مصالحت کریں، ہم ہر وہ چیز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں جو ہم ادا کر سکیں۔ چنانچہ آنحضرت(ص) نے ان کے ساتھ مصالحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں ہر سال دو ہزار حلے (یا لباس) دینے پڑیں گے اور ہر حلے کی قیمت 40 درہم ہونی چاہیے، نیز اگر یمن کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو انہیں 30 زرہیں، 30 نیزے، 30 گھوڑے مسلمانوں کو عاریتا دینا پڑیں گے اور آپ(ص) خود اس ساز و سامان کی واپسی کے ضامن ہون گے۔ اس طرح آنحضرت(ص) نے صلحنامہ لکھوایا اور عیسائی نجران پلٹ کر چلے گئے۔
رسول اللہ(ص) نے بعد ازاں فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کہ ہلاکت اور تباہی نجران والوں کے قریب پہنچ چکی تھی۔ اگر وہ میرے ساتھ مباہلہ کرتے تو بے شک سب بندروں اور خنزیروں میں بدل کر مسخ ہو جاتے اور بے شک یہ پوری وادی ان کے لیے آگ کے شعلوں میں بدل جاتی اور حتی کہ ان کے درختوں کے اوپر کوئی پرندہ باقی نہ رہتا اور تمام عیسائی ایک سال کے عرصے میں ہلاک ہو جاتے۔(الطبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1415، ج 2، ص 310)
نصرانیوں کی نجران واپسی کے کچھ عرصہ بعد ہی سید اور عاقب کچھ ہدایا اور عطیات لے کر رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوئے۔
الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه 61 آل عمران؛ المیزان کے مؤلف کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی “فضائل علی”، ابو نعیم اصفہانی کی “حلیۃ الاولیاء” میں اور حموینی کی “فرائد السمطین” میں بھی نقل ہوئی ہے۔
واقعہ مباہلہ سے تاریخی استدلالات:
تاریخ میں متعدد بار اہل بیت(ع) کی حقانیت کے اثبات کے لیے واقعہ مباہلہ سے استناد و استدلال کیا گیا ہے اور اس واقعے سے استدلال امیر المؤمنین(ع)، امام حسن(ع)، امام حسین(ع) اور باقی آئمہ طاہرین(ع) و دیگر کے کلام میں ملتے ہیں، جیسے:
امام موسی کاظم (ع) کا استدلال:
ہارون عباسی نے امام کاظم(ع) سے کہا: آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ ہم نبی(ص) کی نسل سے ہیں حالانکہ نبی(ص) کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا(ص) کی بیٹی کی اولاد ہیں؟
امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھو۔ ہارون نے کہا: اے فرزند علی (ع)، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا ہی پڑے گی، اور آپ اے موسی(ع)! ان کے سربراہ اور ان کے زمانے کے امام ہیں ـ مجھے یہی بتایا گیا ہے اور میں جو کچھ بھی پوچھتا ہوں آپ کو اس کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل قرآن سے پیش کریں اور آپ فرزندان علی(ع) دعوی کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ( ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی) اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔
امام کاظم (ع) نے فرمایا: مجھے جواب کی اجازت ہے؟
ہارون نے کہا: ہاں بولیں،
امام (ع) نے فرمایا:
أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ٭ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ”۔(سورہ انعام)
ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انہیں اسحٰق اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوح کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال رکھنے والوں کو ٭ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسٰی اور الیاس کو، سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔
عیسی (ع) کا باپ کون ہیں؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی باپ نہیں؟
امام (ع) نے فرمایا:
پس خداوند نے مریم(س) کے ذریعے انہیں انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے اور ہمیں بھی ہماری والدہ فاطمہ (س) کے ذریعے رسول اللہ (ص)کی نسل سے ملحق فرمایا ہے، کیا پھر بھی بتاؤں؟
ہارون نے کہا: ہاں بولیں،
چنانچہ امام (ع) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ(ص) نجران کے نصارا کے ساتھ مباہلے کے لیے علی بن ابی طالب، فاطمہ اور حسن و حسین، کے سوا کسی اور کو کساء کے نیچے جگہ دی ہے! پس آیت میں ہمارے بیٹوں ” ابنائنا ” سے مراد حسن و حسین، ہماری خواتین ” نسائنا ” سے مراد فاطمہ اور ہماری جانوں ” انفسنا ” سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔
پس خداوند نے آیت مباہلہ میں امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کو رسول اللہ(ص) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کہ امام حسن (ع) اور امام حسین(ع) اہل بیت(ع) رسول اللہ(ص) کی نسل اور ذریت ہیں۔
امام رضا(ع) کا استدلال:
مامون عباسی نے امام رضا(ع) سے کہا: امیر المؤمنین(ع) کی عظیم ترین فضیلت جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے، کیا ہے؟
امام رضا(ع) نے کہا: امیر المؤمنین(ع) کی فضیلت مباہلہ میں اور پھر آیت مباہلہ کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا:
رسول خدا(ص)، نے امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)، جو آپ(ص) کے بیٹے ہیں، کو بلوایا اور حضرت فاطمہ(س) کو بلوایا جو آیت میں ” نسائنا ” کا مصداق ہیں اور امیر المؤمنین(ع) کو بلوایا جو اللہ کے حکم کے مطابق ” انفسنا ” کا مصداق اور رسول خدا(ص) کا نفس اور آپ(ص) کی جان ہیں اور ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی مخلوق رسول اللہ(ص) کی ذات با برکت سے زیادہ جلیل القدر اور افضل نہیں ہے، پس کسی کو بھی رسول خدا(ص) کے نفس و جان سے بہتر نہیں ہونا چاہیے۔
بات یہاں تک پہنچی تو مامون نے کہا: خداوند نے ” ابناء ” کو صیغہ جمع کے ساتھ بیان کیا ہے، جبکہ رسول خدا(ص) صرف اپنے دو بیٹوں کو ساتھ لائے ہیں، ” نساء ” بھی جمع ہے، جبکہ آنحضرت(ص) صرف اپنی ایک بیٹی کو لائے ہیں، پس یہ کیوں نہ کہیں کہ ” انفس ” کو بلوانے سے مراد رسول خدا(ص) کی اپنی ذات ہے، اور اس صورت میں جو فضیلت آپ(ص) نے امیر المؤمنین(ع) کے لیے بیان کی ہے، وہ خود بخود ختم ہو جاتی ہے!
امام رضا(ع) نے جواب دیا:
نہیں، یہ درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والا اور بلوانے والا اپنی ذات کو نہیں، بلکہ دوسروں کو بلواتا ہے، آمر ( اور حکم دینے والے) کی طرح جو اپنے آپ کو نہیں بلکہ دوسروں کو امر کرتا اور حکم دیتا ہے، اور چونکہ رسول خدا(ص) نے مباہلہ کے وقت علی بن ابیطالب(ع) کے سوا کسی اور مرد کو نہیں بلوایا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی(ع) وہی نفس ہیں جو کتاب اللہ میں اللہ کا مقصود و مطلوب ہے اور اس کے حکم کو خدا نے قرآن میں قرار دیا ہے۔
پس مامون نے کہا: جواب آنے پر سوال کی جڑ اکھڑ جاتی ہے۔(المفید، الفصول المختاره، التحقیق: السید میرعلی شریفی، بیروت: دار المفید، الطعبة الثانیة، 1414، ص 38۔۔)
سعد ابن ابی وقاص کا استدلال:
عامر ابن سعد ابن ابی وقاص سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتا ہے کہ: معاویہ نے سعد سے کہا: تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟
سعد نے کہا:
جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر سبّ و شتم نہیں کروں گا اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والے اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا، بعد ازاں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت:
فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ…
نازل ہوئی، تو رسول خدا(ص) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین (ع) کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا:
اللهم هؤلاء اهل بيتي، یعنی خداوندا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔(الطباطبائي، سید محمد حسین، وہی ماخذ، صص: 230-229)
تفسیر:
اگرچہ مباہلہ پہلے مرحلے میں رسول خدا(ص) اور عیسائی افراد کے درمیان تھا لیکن فرزندوں اور خواتین کو بھی بیچ میں لایا گیا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مباہلہ کی دعوت دینے والا اپنی دعوت کی سچائی سے مطمئن اور برحق ہے، اس حد تک کہ آپ(ص) اپنے عزیز ترین اور قریب ترین افراد کو میدان مباہلہ میں لائے، ایسے افراد کو جن سے انسان محبت کرتا ہے اور ان کی مدد و حمایت کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ہے۔
علاوہ ازیں علامہ طباطبائی نے اپنے خاندان کو میدان مباہلہ میں لانے کے مسئلے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: گویا اس عمل کے ذریعے کہا جا رہا ہے کہ ایک جماعت دوسری جماعت کو بد دعا دے اور دونوں جماعتیں خدا کی لعنت کو جھوٹوں پر قرار دیں تا کہ لعن و عذاب لعن و عذاب اور خواتین اور جانوں کا احاطہ بھی کر لے اور دشمنوں کی جڑیں روئے زمین سے اکھڑ جائیں۔
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ ابناء، نساء اور انفس دو سے زیادہ ہوں تا کہ کہا جائے کہ ان پر صیغہ جمع کا اطلاق صحیح ہے، کیونکہ مذکورہ بالا بیان کے مطابق، صیغہ جمع سے مقصود یہ ہے کہ نزاع کے فریقین میں سے ایک اپنے تمام اعزاء و اقارب، چھوٹے بڑوں اور مردوں اور عورتوں کے ہمراہ، سب نیست و نابود ہو جائیں اور تمام مفسرین اور مؤرخین کا اتفاق ہے اور تاریخی حوالے بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام کے سوا کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لائے تھے، چنانچہ انفس یا جانیں دو ( رسول خدا (ص) اور علی(ع))، فرزند دو (حسن اور حسین علیہما السلام) اور خواتین صرف ایک (حضرت زہراء(س)) تھیں اور اس ان افراد کی شرکت سے اللہ کے فرمان کی مکمل تعمیل ہوئی ہے۔
قرآن میں دیگر مقامات پر بھی آیت اپنی شان نزول کے حوالے سے ایک فرد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس کی مثال سورہ مجادلہ میں آیات ظہار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر الکشاف میں عائشہ سے نقل کرتا ہے کہ:
رسول اللہ(ص) روز مباہلہ باہر آئے جبکہ سیاہ اون کی عبا کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے اور جب امام حسن آئے تو آپ (ص) نے انہیں اپنی عبا میں جگہ دی، اس کے بعد امام حسین(ع) آئے جنہیں آپ(ص) نے اپنی عبا میں جگہ دی اور اس کے بعد حضرت فاطمہ(س) آئیں اور بعد میں علی(ع) آئے اور پھر آپ(ص) نے فرمایا:
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ،
ترجمہ: اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم اہل بیت سے ہر پلیدی اور گناہ کو دور رکھے اور تم کو پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔
اور اس کے بعد زمخشری کہتے ہیں:
“یہ دلیل ہے اصحاب کساء کی فضیلت کی جس سے بالاتر کوئی دلیل نہیں ہے”
سوال: کیا مباہلہ کے لیے کسی شرط کا ہونا ضروری ہے تا کہ کسی کے ساتھ مباہلہ انجام پائے، یا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کر سکتا ہے ؟ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے؟ کیا تاریخ اسلام میں یقینا مباہلہ واقع ہوا ہے ؟ قرآن مجید کی آیات کے مطابق مباہلہ انجام پانے کے لیے جو کچھ رسول خدا (ص) کی طرف سے تجویز پیش کی گئی تھی، مد مقابل فریق نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا، کیا یہ حقیقت ہے؟
مباہلہ ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا، تا کہ جو باطل پر ہے، وہ غضب الہی سے دوچار ہو جائے اور جو حق پر ہے اس کی پہچان ہو جا ئے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جاتی ہے۔
مباہلہ ، ایک قسم کی دعا ہے اور اس کے خاص خصوصیات اور شرائط ہوتے ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
یہ کہ مباہلہ کرنے والا اپنے آپ کی تین دن تک اخلاقی اصلاح کرے، روزہ رکھے اور غسل کرے اور جس کے ساتھ مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ صحرا میں جائے اور پو پھٹنے سے سورج چڑھنے تک مباہلہ انجام پائے۔
مباہلہ، صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں ہے، بلکہ دوسرے مؤمنین بھی مباہلہ انجام دے سکتے ہیں، اس لحاظ سے اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے اور ہر شخص اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے دین کے دشمنوں کے ساتھ مباہلہ انجام دے سکتا ہے، البتہ جاننا چاہیے کہ مباہلہ کے شرائط ، اخلاص اور خود اعتمادی جو مباہلہ کے لیے ضروری ہیں ہر شخص کے لیے آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوتے ہیں اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے ممکن ہے اس صورت میں بر عکس نتیجہ نکلے۔
ضمنا جاننا چاہیے کہ مباہلہ ان دینی اختلافات اور تنازعوں سے مخصوص ہے کہ مد مقابل فریق منطقی اور علمی مباحث اور حق و حقیقت کو قبول نہ کرے اور اپنے باطل عقیدہ پر ھٹ دہرمی کا مظاہرہ کرے۔
آیہ مباہلہ کی تفسیر کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ سر انجام پیغمبر اسلام کا مباہلہ پر امن صلح پر ختم ہوا ہے۔
تفصیلی جوابات:
چونکہ یہ سوال کئی حصوں پر مشتمل ہے، اس لیے ہم بھی ایک مختصر مقدمہ یبان کرنے کے بعد اسی ترتیب سے اس کا جواب دیں گے۔
اصطلاح میں مباہلہ:
آیہ مباہلہ سے معلوم ہونے والا مباہلہ کا رسمی مفہوم دو افراد کے ایک دوسرے پر نفرین کرنے کے معنی میں ہے، اس طرح کہ جو افراد کسی مذہبی مسئلہ پر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں ، ایک جگہ پر اکٹھا ہوتے ہیں اور بارگاہ الہی میں تضرع کی حالت میں درخواست کرتے ہیں کہ جھوٹے کو رسوا کر کے اس کو سزا دے۔(مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 578، دار الكتب الإسلامية، تهران،)
مباہلہ، یعنی ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند کا غضب ، نازل ہو جائے اور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے اور اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔(دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه جلد سيزدهم بحار، ص 636، ناشر: دار الكتب الاسلاميه، تهران،)
قدرتی بات ہے کہ مباہلہ کے طرفین، خدا کا اعتقاد رکھنے والے ہونے چاہیں تا کہ ایسے کام کا اقدام کر سکیں، کیوںکہ جو شخص خدا پرست نہ ہو، وہ خداوند سے کوئی درخواست نہیں کر سکتا ہے۔
لیکن اس سوال میں بیان کئے گئے مطالب کی ترتیب سے جواب حسب ذیل ہے:
1- کیا مباہلہ کے لیے کوئی شرط ہے تا کہ کسی سے مباہلہ کیا جائے؟
جیسا کہ ہم نے مباہلہ کی تعریف میں کہا، مباہلہ ایک قسم کی دعا ہے ، اس لحاظ سے جو شرائط دعا کے لیے ذکر کی گئی ہیں ، مباہلہ کے لیے بھی ضروری ہیں۔
لیکن چونکہ مباہلہ ایک خاص دعا ہے، قدرتی طور پر اس کی خاص خصوصیات اور شرائط ہیں کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
الف: جو شخص مباہلہ انجام دینا چاہتا ہے وہ تین دن تک اپنے آپ کی اصلاح کرے۔
ب: روزہ رکھے
ج: غسل کرے،
د: جس کے ساتھ مباہلہ کرنا چاہتا ہے اس کے ہمراہ صحرا میں جائے۔
ھ: مباہلہ انجام پانے کا وقت طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک ہے۔
و: اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو مد مقابل کے دائیں ہاتھ کی انگیوں میں ڈال دے۔
ز: اپنے سے شروع کرتے ہوئے کہے: خداوندا! تو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا پروردگار ہے اور پوشیدہ اسرار سے واقف ہے اور رحمان و رحیم ہے اگر میرے مد مقابل نے کسی حق سے انکار کیا ہو اور باطل دعویٰ کر رہا ہو تو آسمان سے اس پر ایک بلا نازل کرنا اور اسے درد ناک عذاب سے دوچار کرنا!
اس کے بعد دوبارہ اسی دعا کو دہرائے اور کہے: اگر وہ شخص حق سے انکار کر کے باطل کا دعویٰ کر رہا ہے تو اس پر آسمان سے ایک بلا نازل کر کے اسے عذاب سے دوچار کرنا.(كمرهاى، محمد باقر ، اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 2، ص 513 و 514، ج 6، ص 145،)
2- لیکن دوسرا سوال یہ ہے کہ ، کیا ہر کوئی اپنے ایمان کو ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کر سکتا ہے؟ بہ الفاط دیگر ، کیا مباہلہ ایک عمومی حکم ہے یا پیغمبر اکرم کے خاص زمانہ سے مخصوص ہے؟
آیہ مباہلہ کی شان نزول کے پیش نظر ، مباہلہ کے مخاطب صرف پیغمبر اکرم ہیں، شاید یہ کہا جائے کہ مباہلہ صرف پیغمبر اسلام کے زمانہ سے مخصوص ہے ، لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے اور مباہلہ کو صرف پیغمبر کے زمانہ سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ دوسرے مؤمنین بھی مباہلہ کر سکتے ہیں کیونکہ:
اولا: آیہ شریفہ کی شان نزول کی بناء پر آیت مخصوص نہیں ہو سکتی ہے،(المورد لا یخصص الوارد، حکیم، سید محسن، حقائقالأصول، ج 2، ص 412، ناشر بصیرتی، 1408 هـ)
ثانیا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آیہ شریفہ مباہلہ تمام مسلمانوں کو مباہلہ کی دعوت کا حکم نہیں دیتی ہے، بلکہ اس کے مخاطب صرف پیغمبر اسلام ہیں، لیکن یہ موضوع اس امر میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے کہ مباہلہ مخالفوں کے مقابلے میں ایک عمومی حکم ہو اور با ایمان افراد جن میں تقوی ، اور مکمل خدا پرستی ہو اگر ان کے استدلال کو مد مقابل ہٹ دہرمی سے جواب دے تو وہ مباہلہ کی دعوت دے سکتے ہیں۔(مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 2، ص 589.)
ثالثاْ: اسلامی کتابوں میں نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق بھی اس حکم کی عمومیت معلوم ہوتی ہے، مرحوم کلینی نے اپنی کتاب کافی میں حضرت امام صادق(ع) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ اپ نے اپنے ایک صحابی سے مخاطب ہو کر فرمایا :
اگر مخالفوں نے آپ کی حق بات کو قبول نہ کیا تو انہیں مباہلہ کے لیے دعوت دینا۔(کلینی، الكافي، ج 2، ص 513)
اس لحاظ سے اس کے قائل ہو سکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص مذکورہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنے ایمان کے دشمنوں سے مباہلہ کر سکتا ہے۔
3- لیکن سوال یہ ہے کہ مباہلہ کس سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ مذکورہ مباہلہ سے متعلق آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مباہلہ دینی اور مذہبی اختلافات کو حل کرنے سے متعلق ہے کہ اگر یہ اختلافات گفتگو اور بحث و مباحثہ سے حل نہ ہوں اور مسئلہ انکار تک پہنچ جائے تو مباہلہ سے کام لیا جاتا ہے۔(اصول كافى-ترجمه كمرهاى، ج 6، ص 629.)
4- لیکن آخری سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کے مطابق رسول خدا کی طرف سے حقیقت میں مباہلہ انجام نہیں پایا ہے کیونکہ مد مقابل نے مباہلہ کی تجویز کو قبول نہیں کیا، کیا یہ حقیقت ہے؟
اس سوال کے جواب کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اصل مباہلہ کو بیان کریں:
آیہ شریفہ کی شان نزول کے سلسلے میں نقل کیا گیا ہے کہ یہ آیت اور اس سے پہلی والی آیات نجران کے گروہ کے بارے میں نازل ہوِئی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور جب پیغمبر اسلام نے انھیں مباہلہ کے لیے دعوت دی تو نجران کے عیسائیوں نے دوسرے دن کی صبح تک آنحضرت(ص) سے مہلت مانگی اور نجران کی شخصیتوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد، بڑے پادری ان کے بڑے عالم نے کہا:
کل محمد کو دیکھنا، اگر وہ اپنی اولاد اور خاندان کے ساتھ مباہلہ کے لیے آ گئے تو ان سے مباہلہ کرنے سے ڈرنا اور اگر اصحاب کے ساتھ آ گئے تو مباہلہ کرنا ، کیونکہ اس صورت میں ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، دوسرے دن جب صبح ہوئی پیغمبر تشریف لائے تو وہ حضرت علی بن ابیطالب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور حسن و حسین ان کے آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت زہراء ان کے پیچھے پیچھے تھیں، عیسائی بھی باہر آ گئے اس وقت ان کے آگے ان کا پادری تھا، جب اس نے دیکھا کہ پیغمبر اکرم ان چند افراد کے ہمراہ آ رہے ہیں ، اس نے ان کے بارے میں پوچھا اور اسے جواب دیا گیا: کہ یہ ان کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں، جو آپ کے نزدیک محبوب ترین بندہ خدا ہیں اور یہ دو لڑکے آپ کی بیٹی اور علی کے بیٹے ہیں اور وہ جو ان خاتون آپ کی بیٹی فاطمہ ہیں، جو آپ کے نزدیک عزیز ترین فرد ہیں۔ پادری سے کہا گیا کہ مباہلہ کے لیے آگے بڑھیں اس نے جواب میں کہا کہ : نہیں ، میں ایک ایسے شخص کو دیکھ رہا ہوں جو مباہلہ کے لیے سنجیدگی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے اور میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں وہ راستگو نہ ہو اور اگر راست گو اور سچا ہو تو خدا کی قسم ایک سال کے اندر دنیا کے تمام عیسائیوں کی نسل ختم ہو جا ئے گی۔
پادری نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کی: اے ابو القاسم ، ہم اپ کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے بلکہ صلح کریں گے ، اس لیے آپ ہمارے ساتھ صلح کریں۔ اس کے بعد آنحضرت نے ان کے ساتھ دو ہزار حلہ اچھے کپڑے کا ایک حصہ کہ ہر حلہ کی قیمت کم از کم چالیس درھم تھی ، اور تیس عدد زرہیں اور تیس نیزے ، اور تیس گھوڑے قرض کے طور پر حاصل کر کے صلح کی اور یہ شرط رکھی کہ سرزمین یمن میں مسلمانوں کے خلاف کوئی سازش نہ کی جائے تو آنحضرت اس قرض کے ضامن ہوں گے تا کہ اسے واپس کریں اور اس سلسلہ میں ایک عھد نامہ تحریر کیا گیا۔(رازی، ابو عبد الله فخرالدین محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج 8، ص 248 یہ شان نزول کچھ فرق کے ساتھ احادیث اور تفسير کی کتابوں میں آئی ہے جیسے: صحیح مسلم، جزء 12، ص 129، ش 4420/ سنن ترمذی، جزء 10، ص 260، ش 2925/ جزء الورد 12، ص 187، ش 3658/ مسند احمد، جزء 4، ص 32، ش 1422/حاکم، المستدرک علی الصحیحین، جزء 11، ص 26، ش 4702، وہ کہتے ہیں کہ شیخین کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے۔/ اور انوار التنزيل و أسرار التأويل، ج2، ص: 20 نیز معجم کبیر طبرانی صحیح ابن حبان، مشکل الآثار طحاوی، ابو الفتوح رازى، و تفسير كبير میں ائی ہے)
فخر رازی اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں امام حسن و فاطمہ و علی کے بارے میں آیہ تطہیرکی شان نزول کے بعد کہتے ہیں : علمائے تفسیر کے درمیان یہ روایت متفقہ ہے۔
اس بناء پر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مباہلہ کے تمام مقدمات انجام پائے تھے لیکن مد مقابل افراد پیغمبر کی خود اعتمادی سے ڈر گئے تھے اور حقیقت میں مباہلہ کے بغیر ہتھیار ڈال چکے تھے اس لیے مباہلہ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور ہمیں اسلام میں مباہلہ واقع ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔