- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 15 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/09/01
- 0 رائ
حضرت زہرا(س) کے گريئے کے بارے میں جو روایات نقل ہوئی ہیں ان میں فقط گریہ کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عبارت “شھقہ” ذکر ہوئی ہے کہ جو زور سے چیخ کر گریہ کرنے کا معنی دیتی ہے جبکہ بعض دوسری روایات حضرت زہرا کے نوحہ خوانی کرنے پر بھی دلالت کرتی ہیں۔
حضرت زہرا(س) کا شهقہ کے ساتھ شدید گریہ کرنا
حدَّثني محمّد بن عبدالله بن جعفر الحميريُّ، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حمّاد البصريّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ قال: حدَّثنا الهَيْثم بن واقِد، عن عبد الملك بن مُقَرِّن، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: إذا زرتم أبا عبد الله عليه السلام فألزموا الصَّمْت إلاّ مِن خير، و إنْ ملائكة اللَّيل و النَّهار من الحفظة تحضر الملائكة الّذين بالحائر، فتصافحهم فلا يجيبونهم مِن شدَّة البُكاء فينتظرونهم حتّى تزول الشَّمس و حتّى ينوّر الفجر، ثمَّ يكلّمونهم و يسألونهم عن أشياء مِن أمر السّماء، فأمّا ما بين هذين الوقتين فإنّهم لا ينطقون، و لا يفترون عن البُكاء و الدُّعاء، و لا يشغلونهم في هذين الوقتين عن أصحابهم، فإنّما شغلهم بكم إذا نطقتم.قلت: جُعِلتُ فِداك و ما الّذي يسألونهم عنه و أيّهم يسأل صاحبه؛ الحفظة أو أهل الحائر؟ قال: أهل الحائر يسألون الحفظة، لأنَّ أهل الحائر مِن الملائكة لا يَبرحون، و الحفظة تنزل و تصعد،قلت: فما ترَى يسألونهم عنه؟ قال: إنّهم يمرُّون إذا عرجوا بإسماعيل صاحب الهَواء، فربّما وافقوا النَّبيَّ صلى الله عليه و آلهو سلم و عنده فاطمة و الحسن و الحسين و الأئمّة مَن مضى منهم فيسألونهم عن أشياء، و عمّن حضر منكم الحائر، و يقولون: بَشّروهم بدعائكم، فتقول الحفظة: كيف نُبشِّرُهم و هم لا يَسمعون كلامنا؟ فيقولون لهم: باركوا عليهم و ادعوا لهم عنّا فهي البشارة منّا، فإذا انصرفوا فحُفّوهم بأجْنِحَتكم حتّى يحسّوا مكانكم و إنّا نستودِعهم الَّذي لا تضيع ودائعه؛ و لو يعلمون ما في زيارته من الخير و يعلم ذلك النّاس لاقتتلوا على زيارته بالسّيوف، و لباعوا أموالهم في إتيانه، و أنَّ فاطمة عليهاالسلام إذا نَظرتْ إليهم و معها ألفُ نبيٍّ و ألفُ صِدِّيقٍ و ألف شهيدٍ مِن الكَرُوبيّين ألف ألف يُسعدونها عَلى البُكاء، وإنّها لتشهق شَهْقَة فلا يبقى في السّماوات ملك إلاّ بكى رحمةً لصوتها، و ما تسكن حتّى يأتيها النَّبيُّ صلى الله عليه و آله و سلم فيقول:يابُنَيّة قد أبكيتِ أهل السَّماوات و شَغَلْتِهم عن التَّسبيح و التَّقديس فكُفّي حتّى يقدّسوا:فإنَّ الله بالغٌ أمره، و إنّها لتنظر إلى مَن حضر منكم فتسأل الله لهم مِن كلِّ خير، و لا تزهدوا في إتيانه! فإنَّ الخير في إتيانه أكثر مِن أن يُحصى ».
امام صادق(ع) سے نقل ہے کہ جب امام حسین(ع) کی زیارت کے لیے جاؤ تو وہاں پر خاموشی اختیار کرو اور باتیں نہ کرو مگر اچھی اور نیک باتیں کیونکہ وہ ملائکہ جو نگہبان اور حافظ ہیں وہ ان فرشتوں کے پاس کہ جو حرم حسینی میں ہیں،آتے ہیں اور ان سے مصافحہ کرتے ہیں لیکن وہ شدت گریہ و حزن کی وجہ سے ان کے سلام کا جواب نہیں دیتے وہ دوسرے دن دوپہر تک تھوڑا انتظار اور صبر کرتے ہیں پھر وہ ان کے سام کا جواب دیتے ہیں اور ان سے آسمانی امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں لیکن ان دو وقت(صبح و دوپہر) کے درمیان وہ بالکل بات نہیں کرتے بلکہ اس وقت میں وہ گریہ کرنے اور دعا کرنے سے کوتاہی نہیں کرتے۔ اس وقت میں وہ فرشتے بھی ان کو اپنے دوستوں سے دور نہیں کرتے۔ جب تم باتیں کرتے ہو تو وہ تم میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام سے سوال کیا کہ وہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور کون سے فرشتے سوال کرتے ہیں کیا نگہبان اور حافظ فرشتے حرم حسینی والے فرشتوں سے سوال کرتے ہیں یا بر عکس ہے؟ امام نے فرمایا: حرم حسینی والے فرشتے نگہبان اور حافظ فرشتوں سے سوال کرتے ہیں کیونکہ حرم والے فرشتے ادھر ادھر نہیں جاتے بلکہ وہ حرم کے اندر ہی رہتے ہیں جبکہ نگہبان اور حافظ فرشتے آسمان سے نازل ہوتے ہیں اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ میں(راوی) نے عرض کیا آپ کی نظر ان کے سوال کے بارے میں کیا ہے اور وہ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ امام نے فرمایا نگہبان فرشتے جب آسمان پر جاتے ہیں تو وہ اسماعیل(صاحب ہوا) کے پاس سے گزرتے ہیں اور شاید رسول خدا سے بھی ملاقات کرتے ہیں اس حال میں کہ حضرت زھرا، امام حسن، امام حسین اور دوسرے آئمہ بھی ان کے پاس حاضر ہوتے ہیں۔ وہ فرشتے ان سے چند چیزوں کے بارے میں اور ان لوگوں کے بارے میں کہ جو حرم حسینی میں حاضر ہوتے ہیں، سوال کرتے ہیں ؟ آئمہ معصومین(ع) ان کے سوالات کے جواب میں فرماتے ہیں کہ
زائرین کو بشارت دو کہ وہ دعا جو تم ان کے لیے کرتے ہو۔ نگہبان فرشتے عرض کرتے ہیں کہ: ان کو کیسے بشارت دیں کہ وہ تو ہماری آواز ہی نہیں سنتے ؟ آئمہ معصومین فرماتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کرو کہ خداوند کی برکات ان پر ہمیشہ رہیں اور ہماری طرف سے بھی ان کے لیے دعا کرو اور خود ہماری طرف سے ان کے لیے بشارت ہے اور جب وہ زیارت کر کے واپس جایئں تو اپنے پروں سے ان کو ایسے مس کرو کہ وہ اس کو حس کریں اور ہم ان کو تمہیں امانت کے طور پر سپرد کرتے ہیں اور امید ہے کہ تم اس امانت کی حفاظت کرنے میں کوتاہی نہیں کرو گے۔ اگر لوگ جان لیتے کہ امام حسین(ع) کی زیارت میں کیا خیر و برکت ہے تو زیارت پر جانے کے لیے تلواروں سے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے اور اس راہ میں اپنے مال کو خرچ کر کے زیارت کے لیے جاتے۔ حضرت زھرا(س) جب بھی زائرین کو دیکھتی ہیں اس حال میں کہ ان کے ساتھ ایک ہزار پیغمبر، ایک ہزار صدیق، ایک ہزار شھید مقرّبین میں سے ہوتے ہیں اور دس لاکھ بندے ان کے ساتھ گریہ کرتے ہیں اور بی بی زھرا اس طرح زور سے فریاد کرتی ہیں کہ آسمان پر جو فرشتہ بھی اس فریاد کو سنتا ہے وہ بھی رونا شروع کر دیتا ہے۔ بی بی کو چین نہیں آتا مگر جب تک رسول خدا(ص) ان کے پاس نہیں آ جاتے اور کہتے ہیں کہ اے میری بیٹی تم نے سب اھل آسمان کو رلا دیا ہے اور انھوں نے تسبیح و عبادت کرنا چھوڑ دی ہے۔ اب رونا بس کرو تا کہ وہ عبادت کو جاری رکھ سکیں۔ پھر امام نے فرمایا: حضرت زھرا(س) جو بھی تم میں سے زیارت کے لیے جاتا ہے، نظر کرتی ہیں اور خداوند سے ان کے لیے خیر و برکت کو طلب کرتی ہیں۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم امام حسین کی زیارت پر جانے میں سستی کرو کیونکہ ان حضرت کی زیارت میں اتنی خیر و برکت ہے کہ جس کو شمار و حساب نہیں کیا جا سکتا۔
)جعفر بن محمد بن قولويه، الوفاة: 368، کامل الزيارات: ج 1ص 91، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر:مكتبة الصدوق.(
حضرت زہرا(س) کا امام حسین(ع) کے غم میں نوحہ خوانی کرنا
عن أمالي المفيد النيسابوري: أن زرة النائحة رأت فاطمة عليها السلام فيما يرى النائم أنها وقفت على قبر الحسين تبكي وأمرتها أن تنشد
أيها العينان فيضا واستهلا لا تغيظا
وابكيا بالطف ميتا ترك الصدر رضيضا
لم أمرضه قتيلا لا ولا كان مريضا
شھر آشوب امالی مفید نیشاپوری سے نقل کرتے ہیں کہ(ذرّہ نوحہ خوان) نے حضرت زھرا(س) کو خواب میں دیکھا کہ وہ امام حسین(ع) کی قبر پر ہیں اور انھوں نے مجھ کو حکم دیا کہ ان اشعار کو نوحے کے طور پر حسین کے غم میں پڑھے: اے میری دو آنکھوں بہت زیادہ اشک بہاؤ اور گریہ کرو اور کم اشک بہانے پر راضی نہ ہونا۔ اس شھید پر گریہ کرو کہ جو کربلاء کی زمین پر گرا ہوا ہے اور گھوڑوں نے اس کے بدن اور سینے کو پامال کیا ہے، وہ مریض نہیں تھا کہ دنیا سے چلا گیا ہو بلکہ اس کو شھید کیا گیا ہے۔
)ابن شهر آشوب، الوفاة: 588 ه، مناقب آل أبی طالب، ج 3 ص 220، تحقيق: لجنة من أساتذه النجف الاشرف، الناشر: المطبعة الحيدرية.(
امام صادق(ع) کی زبان سے حضرت زہرا(س) کا امام حسين(ع) کے لیے گریہ نقل کرنا
حدَّثني محمّد بن عبد الله، عن أبيه، عن عليِّ بن محمّد بن سالم، عن محمّد بن خالد، عن عبد الله بن حمّاد البَصريِّ، عن عبد الله بن عبد الرَّحمن الأصمّ، عن عبدالله بن مُشكانَ، عن أبي بصير قال: كنت عند أبي عبد الله عليه السلام [و] اُحدِّثه، فدخل عليه ابنُه فقال له: مَرْحباً، و ضَمَه و قَبَّله، و قال: حَقَر اللهُ مَن حَقّركم، و انتقم مِمَّن وَ تَركم، وخَذَلَ الله مَن خَذلكم، و لعن الله مَن قتلكم، و كان اللهُ لكم وليّاً و حافظاً و ناصراً، فقد طال بُكاء النِّساء و بُكاء الأنبياء و الصِّدّيقين و الشّهداء و ملائكة السَّماء، ثمَّ بكى و قال: يا أبا بصير إذا نظرتُ إلى وُلْدِ الحسين أتاني ما لا أملكه بما اُتي إلى أبيهم و إليهم، يا أبا بصير إنّ فاطمة عليها السلام لتبكيه وتشهق، فتَزْفِر جهنَّم زَفْرَة لولا أنَّ الخَزَنة يسمعون بُكاءَها و قد استَعدُّوا لذلك مَخافة أنْ يخرج منها عُنُق أو يَشْرَر دُخانها فيحرق أهل الأرض فيَكْبَحونها ما دامَتْ باكية، و يزجُرونها و يستوثِقون من أبوابها مَخافةً على أهل الأرض، فلا تَسْكنْ حتّى يسكن صوتُ فاطمة عليها السلام. و إنّ البِحار تَكاد أنْ تَنْفَتِق فيدخل بعضها على بعض، وما منها قَطرةٌ إلاّ بها ملكٌ مُوَكّل، فإذا سمع الملك صوتَها أطفأ نارها بأجْنِحَته، و حبس بعضها على بعض مخافةً على الدُّنيا و ما فيها و مَن على الأرض، فلا تزال الملائكة مُشفِقين يبكون لبكائِها، و يدعون الله و يتضرَّعون إليه، و يتضرَّع أهلُ العرش و مَن حَوله؛ و ترتفع أصواتٌ مِن الملائكة بالتَّقديس للهِ مَخافةً على أهل الأرض، و لو أنّ صوتاً مِن أصواتهم يصل إلى الأرض لصَعِق أهلُ الأرض و تقطّعتِ الجبال وزَلزلتِ الأرض بأهلها. قلت: جُعِلتُ فداك إنَّ هذا الأمر عظيم! قال: غَيرُه أعظمُ منه ما لم تسمعه، ثمّ قال لي: يا أبا بصير أما تحبُّ أن تكون فيمن يُسعد فاطمة عليها السلام؟ فبكيت حين قالها فما قدرت على النّطق، و ما قدر (كذا) على كلامي من البكاء، ثمَّ قام إلى المصلّى يدعو، فخرجت مِن عنده على تلك الحال، فما انتفعت بطعام و ما جاءَني النَّوم، و أصبحت صائماً وَجِلاً حتّى أتيته، فلمّا رَأيته قد سكن سكنتُ، و حمدتُ الله حيث لم تُنزل بي عُقوبة۔
عبد اللہ بن مسکان نے ابو بصیر سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا کہ میں امام صادق(ع) کے پاس تھا اور ہم باتیں کر رہے تھے۔ اسی وقت امام کا ایک بیٹا وہاں آیا۔ امام نے اسکو بارک اللہ کہہ کر سینے سے لگایا اور اس کو بوسہ دیا پھر فرمایا: خداوند ان کو ذلیل و خوار کرے جو آپ کو ذلیل و خوار کرے اور جو آپ پر ظلم کریں خداوند ان سے انتقام لے اور لعنت کرے ان کو جو آپ کو قتل کرے۔ خداوند تمہاری حفاظت کرے۔ عورتیں، انبیاء، صدیقین، شھداء اور آسمان کے فرشتے آپ پر بہت گریہ کرتے ہیں۔ پھر امام نے گریہ کیا اور فرمایا: اے ابو بصیر میں جب بھی امام حسین کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو ان کے والد اور خود ان پر ہونے والے مظالم کی وجہ سے غم سے میری حالت بہت خراب ہو جاتی ہے۔ اے ابو بصیر حضرت زہرا(س) نے ان پر گریہ اور چیخ و پکار کی جس سے جھنم بھی فریاد کرنے لگی کہ جب جھنم کے نگہبان اور حافظ فرشتوں نے بھی جھنم کے گرئیے کی آواز کو سنا تو جلدی اس کو کنڑول کرنے کے لیے تیار ہو گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جھنم کی آگ بھڑک اٹھے، اس سے دھواں اٹھنے لگے اور وہ اھل زمین کو جلا ہی نہ دے۔ لھذا جب بھی جھنم گریہ و فریاد کرتی ہے تو نگہبان و حافظ فرشتے اسکو کنڑول کرتے ہیں کہ اہل زمین ہی کو نہ جلا دے۔ اس لیے اس کے دروازوں کو بند کرتے ہیں لیکن پھر بھی جھنم آرام میں نہیں آتی جب تک حضرت زھرا(س) کے گريئے کی آواز بند نہ ہو جائے۔ اے ابو بصیر نزدیک تھا کہ دریا پھٹ جائیں اور بعض دریا ایک دوسرے میں داخل ہو جایئں اور ہر دریا کے ہر قطرے پر ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے اور جب بھی دریا میں طغیانی و خروش آتا ہے وہ دریا پر مؤکل فرشتہ اپنے پروں کو دریا پر مار کر اسکو آرام کرتا ہے اور یہ کام فرشتے اس لیے کرتے ہیں کہ دنیا اور اہل دنیا کی حفاظت کر سکیں۔ فرشتے رحمدل و شفقت کی وجہ سے دریا کے گریہ کرنے کی وجہ سے گریہ کرتے اور خدا کو پکارتے ہیں اور اھل عرش اور اس کے اطراف میں رہنے والے بھی گریہ و غم بھی حالت میں ہیں۔ فرشتوں کی آواز اونچی ہے اور وہ ہمیشہ خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اور اگر ان کی آواز زمین پر پہنچ جائے تو اہل زمین فریاد کرنا شروع ہو جایئں، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جايئں اور اہل زمین لرز اٹھیں گے۔
ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے امام سے کہا کہ یہ چیز بہت عظیم و بڑی ہے۔ امام نے کہا تم نے آج تک اس سے بڑی کوئی خبر نہیں سنی ہو گی پھر فرمایا کہ اے ابو بصیر کیا تم نہیں چاہتے کہ ان میں سے ہو جو حضرت زھرا(س) کی مدد و نصرت کرتے ہیں؟ ابو بصیر نے کہا جب امام نے یہ کہا تو میری حالت اس طرح سے رونے والی ہو گئی اور اس بات کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ میں بالکل بات کا جواب نہ دے سکا۔ پھر امام اٹھ کر نماز خانے جا کر دعا کرنے لگ گئے۔ اس کے بعد میں امام کے پاس سے اٹھ کر باہر آ گیا۔ نہ میں نے کھانا کھایا اور نہ میں سویا۔ دوسرے دن میں نے روزہ رکھا اور دوبارہ امام کے پاس گیا۔ جب میں نے امام کو آرام اور سکون کی حالت میں دیکھا تو مجھے بھی آرام آ گیا۔ اس پر کہ مجھ پر کوئی بلا اور مصیبت نازل نہیں ہوئی میں نے خداوند کا شکر ادا کیا۔
)ابو القاسم جعفر بن محمد بن بن جعفر بن موسى بن قولويه القمی، الوفاة: 367، كامل الزّيارات، ج 1 ص 85، تحقيق: بهراد الجعفری، الناشر: مکتبة الصدوق.(
حضرت زہراء(س) کا امام حسین(ع) کی ولادت کے وقت گریہ کرنا
حدّثنا محمّد بن عليٍّ ماجيلويه رضي الله عنه قال:حدّثني عمّي محمّد بن أبي ـ القاسم، عن أحمد بن أبي عبد الله البرقيُّ قال:حدّثني محمّد بن عليٍّ القرشي قال: حدّثني أبو الربيع الزهرانيُّ قال: حدّثنا جرير عن ليث بن أبي سليم، عن مجاهد قال: قال ابن عبّاس: سمعت رسول الله «صلى الله عليه و آله و سلم» يقول: إنَّ لله تبارك و تعالى ملكا يقال له: دردائيل كان له ستّة عشر ألف جناح ما بين الجناح إلى الجناح هواء و الهواء كما بين السّماء إلى الأرض: فجعل يوماً يقول في نفسه: أ فوق ربّنا جلَّ جلاله شيء؟ فعلم الله تبارك و تعالى ما قال فزاده أجنحة مثلها فصار له اثنان و ثلاثون ألف جناح، ثمّ أوحى الله «عزَّ و جلَّ» إليه أنَّ طر، فطار مقدار خمسين عاماً فلم ينل رأس قائمة من قوام العرش، فلمّا علم الله «عزَّ و جلَّ» إتعابه أوحى إليه أيّها الملك عد إلى مكانك فأنا عظيم فوق كلِّ عظيم و ليس فوقي شيء و لا أوصف بمكان فسلبه الله أجنحته و مقامه من صفوف الملائكة، فلمّا ولد الحسين بن عليّ «عليهما السلام» و كان مولده عشية الخميس ليلة الجمعة أوحى الله عزَّ و جلَّ إلی مالك خازن النّار أنَّ أخمد النيران على أهلها لكرامة مولود ولد لمحمّد، و أوحى إلى رضوان خازن الجنان أنَّ زخرف الجنان و طيّبها لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله تبارك و تعالى إلى حور العين تزّيّن و تزاورن لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله «عزَّ وجلَّ» إلى الملائكة أن قوموا صفوفاً بالتسبيح و التحميد و التمجيد و التكبير لكرامة مولود ولد لمحمّد في دار الدُّنيا، و أوحى الله تبارك و تعالى إلى جبرئيل «عليه السلام» أن اهبط إلي نبيّي محمّد في ألف قبيل و القبيل ألف ألف من الملائكة على خيول بلق، مسرَّجة ملجّمة، عليها قباب الدُّرِّ و الياقوت، و معهم ملائكة يقال لهم: الرُّوحانيّون، بأيديهم أطباق من نور أن هنّئوا محمّداً بمولود، و أخبره يا جبرئيل أنّي قد سميته الحسين، و هنّئه و عزِّه و قل له: يا محمّد يقتله شرار أمّتك على شرار الدَّوابِّ، فويل للقاتل، و ويل للسائق، و ويل للقائد. قاتل الحسين أنا منه بريء و هو منّي بريء لأنّه لا يأتي يوم القيامة أحد إلّا و قاتل الحسين «عليه السلام» أعظم جرما منه، قاتل الحسين يدخل النّار، يوم القيامة مع الّذين يزعمون أنَّ مع الله إلهاً آخر، و النار أشوق إلى قاتل الحسين ممّن أطاع الله إلى الجنّة. قال: فبينا جبرئيل «عليه السلام» يهبط من السّماء إلى الأرض إذ مرَّ بدردائيل فقال له دردائيل: يا جبرئيل ما هذه اللّيلة في السّماء هل قامت القيامة على أهل الدُّنيا؟ قال: لا و لكن ولد لمحمّد مولود في دار الدُّنيا و قد بعثني الله «عزَّ و جلَّ» إليه لاهنّئه بمولوده فقال الملك: يا جبرئيل بالذي خلقك وخلقني إذا هبطتَّ إلى محمّد فأقرئه منّي السلام و قل له: بحق هذا المولود عليك إلّا ما سألت ربّك أن يرضى عني فيرد عليّ أجنحتي و مقامي من صفوف الملائكة فهبط جبرئيل «عليه السلام» على النبيِّ «صلي الله عليه و آله و سلم » فهنّأه كما أمره الله «عزَّ و جلَّ» و عزَّاه فقال له النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم»: تقتله أمّتي؟ فقال له: نعم يا محمّد، فقال النبيّ« صلی الله عليه آله و سلم »: ما هؤلاء بأمّتي أنا بريء منهم، و الله «عزَّ و جلَّ» بريء منهم، قال جبرئيل: و أنا بريء منهم يا محمّد،فدخل النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم » على فاطمة «عليها السلام» فهّنأها و عزَّاها فبكت فاطمة «عليها السلام»، و قالت: يا ليتني لم ألده، قاتل الحسين في النّار، فقال النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم »: و أنا أشهد بذلك يا فاطمة و لكنّه لا يقتل حتّى يكون منه إمام يكون منه الائمّة الهادية بعده، ثمّ قال «عليه السلام»: و الائمّة بعدي الهادي عليّ، و المهتدي الحسن، و الناصر الحسين، و المنصور عليّ بن الحسين، و الشافع محمّد بن عليٍّ، و النفاع جعفر بن محمّد، و الامين موسى ابن جعفر، و الرِّضا عليُّ بن موسى، و الفعّال محمّد بن عليٍّ، و المؤتمن عليُّ بن محمّد، و العلام الحسن بن عليّ، و من يصلي خلفه عيسى بن مريم عليه السلام القائم «عليه السلام». فسكتت فاطمة عليها السلام من البكاء ثمَّ أخبر جبرئيل «عليه السلام» النبيِّ صلى الله عليه و آله و سلم بقصّة الملك و ما أصيب به، قال ابن عبّاس: فأخذ النبيُّ « صلی الله عليه و آله و سلم « الحسين «عليه السلام» و هو ملفوف في خرق من صوف فأشار به إلى السّماء، ثمّ قال: اللّهمّ بحقِّ هذا المولود عليك لا بل بحقك عليه و على جدِّه محمّد و إبراهيم و إسماعيل و إسحاق و يعقوب أنَّ كان للحسين بن عليٍّ ابن فاطمة عندك قدرٌ فارض عن دردائيل و ردَّ عليه أحنجته و مقامه من صفوف الملائكة فاستجاب الله دعاء ه و غفر للملك و ردِّ عليه أحنجته و ردِّه إلى صفوف الملائكة ] فالملك لا يعرف في الجنّة إلّا بأن يقال: هذا مولى الحسين بن عليٍّ و ابن فاطمة بنت رسول الله « صلی الله عليه و آله و سلم»۔
ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے رسول خدا(ص) سے سنا ہے کہ خدا نے ایک فرشتہ خلق کیا ہے جس کا نام دردائیل ہے۔ اس کے سولہ ہزار پر ہیں۔ ایک پر سے دوسرے پر تک کا فاصلہ زمین سے لے کر آسمان تک ہے۔ ایک دن اس نے خود سے کہا کہ کیا ہمارے ربّ سے بالا تر کوئی چیز ہے ؟ خدا نے اس فرشتے کی بات کو سن لیا اور اس کو جتنے اسکے پہلے پر تھے اتنے ہی مزید اس کو پر ديئے لھذا اب اس کے 32 ہزار پر ہو گئے تھے۔ خدا نے اس کو وحی کی کہ پرواز کرو۔ اس نے پچاس سال پرواز کی لیکن وہ عرش کے ایک ستون کے سرے تک بھی نہ پہنچ سکا۔ جب خدا نے دیکھا کہ یہ فرشتہ تھک گیا ہے تو دوبارہ اس کو وحی کی کہ اپنی پہلی والی جگہ پر واپس آ جاؤ کہ میں ہر بزرگ سے بزرگ تر ہوں۔ میں ہر جگہ ہوں لیکن میری کوئی جگہ معیّن نہیں ہے۔ پھر خدا نے اس کے پروں کو واپس لے لیا اور اسے فرشتوں کی صف سے خارج کر دیا۔
جب امام حسین(ع) شب جمعہ کو دنیا میں آئے تو خداوند نے جھنم کے نگبہان پر وحی کی کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے جھنم کی آگ کو ٹھنڈا کر دو اور پھر جنت کے نگہبان پر وحی کی کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے جنت کو معطّر اور زینت کر دو اور خداوند نے حوروں کو حکم دیا کہ وہ بچّہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے اسکی برکت سے تم اپنے آپ کو زینت کر کے ایک دوسرے سے ملنے کے لیے جاؤ۔ پھر خداوند نے فرشتوں کو وحی کی کہ ذکر تسبیح و تحمید و تقدیس و تکبیر کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے ہو جائیں اس مولود کی ولادت کی برکت سے کہ جو محمد(ص) کے گھر پیدا ہوا ہے۔ پھر خداوند نے جبرائیل کو وحی کی کہ فرشتوں کے ایک ہزار کے گروہ کہ ہر گروہ دس دس لاکھ فرشتوں پر مشتمل ہے، دو رنگ کے گھوڑوں ابلق پر سوار ہوں کہ جنکی زین اور لگام درّ اور یاقوت سے بنی ہیں ان ملائکہ روحانی کے ساتھ کہ جن کے ہاتھوں میں نور کے طبق ہیں، زمین پر جایئں اور حضرت محمد(ص) کو اس مولود کی مبارک باد دیں اور جبرائیل سے کہا کہ میں نے اس کا نام حسین رکھا ہے اس کو بھی مبارک اور تعزیت پیش کرنا اور کہنا کہ اے محمد تیری امت کے بد ترین بندے بد ترین سواریوں پر سوار ہو کر اس بچے کو قتل کریں گے۔ ویل ہے اس کے قاتل پر اور ویل ہے جو اس کے سامنے ہو اور ویل ہے جو سواری پر سوار ہو۔ میں اس سے اور وہ مجھ سے بیزار ہے کیونکہ قیامت والے دن قاتل حسین کا گناہ تمام انسانوں کے گناہ سے زیادہ ہو گا۔ امام حسین کا قاتل مشرکین کے ساتھ جھنم میں ہو گا۔ جھنم قاتل حسین کی زیادہ مشتاق ہے اس سے زیادہ کہ جنت نیک لوگوں کی مشتاق ہوتی ہے۔
امام نے فرمایا کہ جبرائیل جب آسمان دنیا سے گزرتا ہے تو دردائیل کے پاس سے بھی گزرا تو دردائیل نے کہا کہ اے جبرائیل آسمان میں یہ کونسی رات ہے، کیا قیامت برپا ہو گئی ہے ؟ فرمایا نہ بلکہ حضرت محمد(ص) کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے اور خدا نے مجھے مبارک باد کے لیے بیجھا ہے۔ اس فرشتے نے جبرائیل سے کہا اس خدا کے حق کا تجھے واسطہ ہے جس نے مجھے اور تم کو خلق کیا ہے جب تم زمین پر گئے تو میرا سلام محمد(ص) کو کہنا کہ آپ کو اس مولود کا واسطہ ہے کہ اپنے پروردگار سے کہو کہ مجھ سے راضی ہوں اور میرے پر اور ملائکہ کے درمیان مجھے میرا مقام واپس دلا دیں۔ جبرائیل حضرت محمد(ص) پر نازل ہوا اور خدا کے حکم کے مطابق ان کو مبارک اور تعزیت پیش کی۔ پیغمبر نے کہا کیا میری امت اس کو قتل کرے گی ؟ جبرائیل نے کہا ہاں اے محمد۔ رسول خدا نے فرمایا کہ وہ میری امت میں سے نہیں ہیں، میں ان سے بیزار ہوں اور خداوند بھی ان سے بیزار ہے۔ اس پر جبرائیل نے کہا کہ میں بھی ان سے بیزار ہوں۔ رسول خدا فاطمہ(س) کے پاس آئے اور اسکو تعزیت پیش کی۔ حضرت فاطمہ نے گریہ کیا اور کہا اے کاش میں نے اس کو دنیا میں نہ لایا ہوتا۔ اس کا قاتل جھنم میں ہے۔ رسول خدا نے کہا کہ میں بھی اس بات کی شھادت دیتا ہوں لیکن اے فاطمہ حسین اگر شھید ہو گا تو اسکی نسل سے آگے امامت کا سلسلہ جاری ہو گا۔ سارے ہدایت کرنے والے امام حسین کی نسل سے ہوں گے۔ پھر کہا کہ میرے بعد والے آئمہ:الهادى على، و المهتدى الحسن، و الناصر الحسين، و المقيور على بن الحسين، و الشفاع محمد بن على، و النفاع جعفر بن محمد، و الامين موسى بن جعفر و المؤتمن على بن موسى، و الامام محمد بن على، و الفعال على بن محمد، و العلام الحسن بن على، اور وہ کہ جس کے پیچھے عيسى بن مريم نماز پڑھیں گے وہ قائم (ع) ہیں۔ یہ سن کر حضرت فاطمہ نے گریہ کرنا بند کر دیا۔ پھر جبرائیل نے اس فرشتے کی ساری داستان رسول خدا(ص) کو سنائی۔ ابن عباس کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کو ایک پشم کے کپڑے میں اپنے ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی طرف اشارہ کیا اور عرض کیا کہ اے خدا اس بچے کا جو حق آپ پر ہے نہ بلکہ آپ کے اس بچے پر حق کا اور اس کے جدّ محمد(ص) و ابراهيم و اسماعيل و اسحق و يعقوب کا اگر فاطمہ کے بیٹے حسین کا آپ کے ںزدیک کوئی مقام ہے تو آپ دردائیل سے راضی ہو جائیں اور اسکے پر اور ملائکہ کی صف میں اس کا وہی مقام اس کو واپس پلٹا دیں۔ دعا قبول ہوئی اور فرشتے کی مغفرت ہوئی اور اس کے پر اور ملائکہ کی صف میں اس کا مقام اس کو واپس مل گیا۔ آج بھی وہ فرشتہ جنت میں حسین ابن علی و فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) کا غلام اور آزاد شدہ معروف اور مشھور ہے۔
)الشيخ الصدوق، الوفاة381، كمال الدّين وتمام النّعمة، ج 1 ص 282، تحقيق: علی اكبر الغفاری، الناشر: مؤسسة النشر الإسلامی(