- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- 2022/02/03
- 0 رائ
سوال: تمام چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ھے ، خود اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا؟
جواب: یہ سوال مادّہ پرستوں کی جانب سے بار بار اٹھایا جاتا رھا ھے ۔ وہ یہ پوچھتے ھیں اگر تمھارے بیان کے مطابق اس بات کو مان لیا جائے کہ دنیا کی ھر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ھے تو بتاؤ خود اللہ تعالیٰ کو کس نے تخلیق کیا ھے ؟
ان کا خیال یہ ھے کہ خدا پرستوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نھیں ھے اور وہ یہ بھی سمجھتے ھیں کہ اس سوال کا جواب دینا صرف خدا پرستوں ھی کی ذمہ داری ھے ۔ اس سوال کا قطعی جواب دینے سے پھلے ھم یہ کھیں گے کہ اس طرح کے سوال کا جواب دینا صرف خدا پرستوں کے ذمّے نھیں ھے بلکہ خود مادہ پرستوں پر بھی یھی اعتراض وارد ھوتا ھے۔ کیونکہ جب وہ یہ کھتے ھیں کہ ھر چیز بالآخر مادّہ کی طرف لوٹتی ھے تو اس کے ساتھ ھی یہ سوال پیدا ھو جاتا ھے کہ اگر تمھارے خیال میں یہ دنیا اور اس کے اندر جو کچھ ھے اس کا سر چشمہ مادّہ ھے تو خود مادہ کھاں سے وجود میں آگیا ؟ اسے کس نے پیدا کیا ؟
اس بنا پر ھمارے نزدیک یہ خیال غلط ھے کہ اس سوال کے مخاطب صرف خدا پرست ھی ھو سکتے ھیں اور اس کا جواب ان ھی کے ذمّے ھے ۔
اب ھم اصل مسئلے کو لیتے ھیں ۔ ھمارا جواب سننے سے پھلے مندرجہ ذیل چند مثالوں پر غور کیجئے تاکہ اصل جواب کے سمجھنے کے لئے آپ کا ذھن تیار ھو جائے ۔
ھر چیز کی نمی و رطوبت پانی کی وجہ سے ھے ( یا کلی طور پر مائعات یہ کھاں سے آئی ؟تکی وجہ سے ھے ) پانی کی یہ رطوبت کس چیز کی وجہ سے ھے او
تمام غذاؤں میں چکنائی روغن کی وجہ سے ھے ، لیکن روغن کی چکنائی کس چیز کے سبب ھے اور یہ اس میں کھاں سے آئی ؟
ھر چیز کا کھارا پن نمک کی وجہ سے ھے لیکن خود نمک میں یہ کھارا پن کھاں سے آیا ؟
یہ بات ظاھر ھے کہ پانی میں رطوبت، روغن میں چکنائی اور نمک میں کھارا پن کسی دوسری چیز کی وجہ سے نھیں ھے ۔ یہ در اصل ان چیزوں کی ذاتی اور طبعی خاصیت ھے ۔
پانی بذاتہ مرطوب ھے ۔
۰روغن بذاتہ چکنا ھوتا ھے ۔
نمک بذاتہ کھارا ھوتا ھے ۔ ( پانی کی رطوبت کے ذاتی ھونے اور نمک کے کھارے پن کے ذاتی ھونے کا مطلب ھرگز یہ نھیں ھے کہ پانی میں رطوبت چونکہ اس کی اپنی ذاتی ھے اس لئے اس کا کوئی خالق نھیں ۔ ھماری مراد یہ ھے کہ خالق کائنات نے پانی کو طبیعی اور ذاتی طور پر مرطوب بنایا ھے اور اس طرح کہ رطوبت کو پانی سے جدا نھیں کیا جا سکتا ۔!)
اس سے یہ بات واضح ھو گئی کہ ھر چیز بالآخر اپنے منبع اور سر چشمہ کی طرف لوٹتی ھے ۔ اس کے بعد یہ سوال کرنے کی حاجت نھیں رھتی کہ کسی چیز میں کوئی تاثیر کھاں سے آئی اور کس کی طرف لوٹتی ھے ۔
وجود اور ھستی کا معاملہ بھی یھی ھے ۔ تخلیق کے اعتبار سے موجودات کی زندگی اور ان کا وجود ، خود ان ھی کی وجہ سے اور ان کا ذاتی نھیں ھے اور بلا تردید قانون ” علت “ کے مطابق موجودات کی زندگی ایک سر چشمے سے تعلق رکھتی ھے ۔ خدا پرست زندگی کا سر چشمہ اور وجود کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات کو قرار دیتے ھیں البتہ وہ یہ کھتے ھیں کہ خدا کی ھستی ذاتی ھے اور اس کی ذات خود اس کا سر چشمہ ھے ۔کیونکہ اگر خدا دنیا کی موجودات کی طرح مخلوق اور معلول ھوتا تو پھر لازماً پوری کائنات ایک ایسا معلول قرار پاتی جس کی کوئی علت نہ ھو اور یہ بات واضح ھے کہ علت کے بغیر معلول کا ھونا ممکن نھیں ۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ تمام مخلوقات کاوجود کسی علت کے بغیر نھیں ھو سکتا تو پھر ایک منبع اور سر چشمہ کا تعین کرنا پڑے گا جو معلولیت کی صفت سے متصف نہ ھو سکے ۔
اس بنا پر یہ بات واضح ھے کہ تمام موجودات کسی ایسی علت کی طرف لوٹتی ھیں جو خود معلول اور مخلوق نہ ھو۔ جس کی ھستی خود اپنے آپ سے قائم ھو اور وہ صرف خدا ئے کائنات کی ذات ھو سکتی ھے ، جو بے آغاز و بے انجام ھے خو د اول اور آخر ھے ، ازلی اور ابدی ھے ۔
یہ شبہ در اصل اس لئے پیدا ھوا کہ مادہ پرستوں کے مطابق ، خدا پرستوں کا موقف یہ ھے کہ ھر چیز کی کوئی نہ کوئی علت ھوتی ھے، اسی لئے وہ خدا پرستوں سے پوچھتے ھیں کہ بتاؤ ! خدا کی علت کون ھے ؟
حالانکہ خدا پرستوں کا موقف یہ نھیں ھے کہ ھر چیز کی کوئی علت ھوتی ھے ۔ در اصل ان کا موقف یہ ھے کہ ھر موجود جس کا پھلے کوئی وجود نھیں تھا، اسے بعد میں وجود حاصل ھوا اور ھر وہ مخلوق جس کی ھستی اس کی اپنی ذاتی نہ ھو اس کے وجود کے لئے کسی علت و سبب اور ایک خالق کا ھونا لازمی ھے ۔
یہ اصول نہ صرف یہ کہ کائنات کے اصل سر چشمے اور تمام مخلوقات کے وجود اور پیدائش کی اصل علت کی جانب ھماری رھنمائی کرتا ھے، بلکہ اس ضمن میں یہ بھی بتاتا ھے کہ اس اصل منبع اور علت کو کسی دوسرے منبع اور علت کی حاجت نہ ھو ، کیونکہ اس کی ھستی خود اس کی اپنی ذاتی ھے اور وہ مخلوق نھیں ھے ۔
بزرگ فلاسفہ نے اس مفھوم کو اس مختصر سے فقرے میں سمو دیا ھے ۔ وہ کھتے ھیں : ” کلّ ما بالعرض ینتھی الی ما بالذّات “
ھر عرضی وجود ، یعنی غیر ذاتی وجود ، بالآخر کسی وجود ذاتی کی طرف لوٹتا ھے اور اسی پر منتھیٰ ھوتا ھے ۔
ایک یھودی نے امیر المومنین (ع) سے دریافت کیا کہ خدا کب سے موجود ھے؟
آنجناب(ع) نے جواب میں فرمایا : ” کب سے موجود ھے کا سوال تم اس کے بارے میں اٹھا سکتے ھو جو موجو د نہ رھا ھو ۔ اس طرح کا سوال ھر جگہ با معنی نھیں ھو سکتا ، صرف اس چیز کے بارے میں یہ با معنی ھو سکتا ھے جو پھلے موجود نہ رھی ھو اور بعد میں نمودار ھوئی ھو ۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے ۔ وہ ھر آغاز سے پھلے رھا ھے اور ھر انجام کے بعد بھی رھے گا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ سوال صحیح نھیں ھے ۔ “
سوال: اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات کس لئے بنائی؟
جواب: انسان اور دوسری کوئی بھی باشعور مخلوق اپنے ارادہ و اختیار سے جن کاموں کو بھی انجام دیتی ھے ان کا کوئی نہ کوئی مقصد اور ھدف ھوتا ھے ۔
انسان غذا کھاتا ھے تاکہ سیر ھو جائے ۔ پانی پیتا ھے تاکہ اس کی پیاس دور ھو ۔وہ لباس پھنتا ھے تاکہ گرمی اور سر دی کے برے اثرات سے خو د کو محفوظ رکھے ۔ علم حاصل کرتا ھے تاکہ دانش مند بن جائے ۔
مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتا ھے تاکہ اس کا نام نیکی سے لیا جائے یا اس کے اس عمل کے بدلے آخرت میں اللہ تعالیٰ اجر و ثواب سے نوازے یا پھر محتاجوں اور غریبوں کی امداد وہ اس لئے کرتا ھے کہ کھیں غریب لوگ متحد ھو کر اس کے مقابل انقلاب و شورش نہ برپا کریں ۔
حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنی میز پر کام کرتے ھوئے قلم و کاغذ ھاتہ میں لے کر ان سے کھیلنے لگتا ھے تو اس کا یہ بظاھر بے سود مشغلہ بھی اپنے پیچھے ایک مقصد رکھتا ھے ۔ اگر ھم ذرا غور کریں تو ھمیں معلوم ھو گا کہ وہ اس طرح اپنے پریشان کن خیالات سے اپنے ذھن کو بچانا چاھتا ھے ۔ یا پھر اسے اس بے سود مشغلے کی عادت ھو گئی ھے اور وہ ایسا نہ کرے تو اسے تکلیف ھوتی ھے ۔ اس تکلیف سے بچنے کے لئے وہ عادت کے مطابق قلم ، کاغذ یا کوئی اور چیز ھاتہ میں لے کر اس سے کھیلنے لگتا ھے ۔
مختصر یہ کہ کوئی بھی با شعور بغیر کسی مقصد کے کوئی کام انجام نھیں دیتا ۔
اب سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ اس دنیا اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے کس مقصد کی خاطر پیدا کیا ھے؟
کیا اللہ تعالیٰ بھی ھماری طرح اپنے کسی فائدے ،کسی نقصان یا خطرے سے بچنے کے لئے کام انجام دیتا ھے؟
جب ھم یہ کھتے ھیں کہ کوئی عقلمند کسی کام کو بے مقصد انجام نھیں دیتا ، اس کا کوئی نہ کوئی ھدف ضرور ھوتا ھے تو ھمیں یہ معلوم کرنا چاھئے کہ ھدف کے معنی کیا ھیں ؟
جب ھم غور کریں گے تو ھدف کے تین قابل تصور معانی ھمارے سامنے آئیں گے:
۱۔ فائدہ حاصل کرنا اور نقصان کا سد باب ۔ انسان کی کچھ حاجات اور ضروریات ھوتی ھیں ، اس کی یھی ضروریات اور کمزوریاں مختلف کام انجام دینے کی محرک بنتی ھیں ۔ وہ خطرات سے دور رھنے کے لئے کچھ اقدامات پر مجبور ھوتا ھے ۔ یہ وہ بھت سے محرکات اور ھدف ھیں جو عام طور پر ۰انسانی زندگی کا احاطہ کئے رھتے ھیں ۔
۲۔ ممکن ھے کسی کام کے انجام دینے کی پھلی غرض دوسروں کو نفع پھنچانا ھو ، لیکن در حقیقت اس کام کا مقصد خود انسان کی اپنی معنوی تکمیل اور اپنا روحانی سکون ھو ۔
اس صورت میں بھی اصل مقصد اپنی ذات کے لئے نفع حاصل کرنا اور نقصان و ضرر سے خود کو محفوظ کرنا ھوتا ھے دوسروں کو فائدہ پھنچانا در اصل اس مقصد اور ھدف کے حصول کا ایک ذریعہ ھوتا ھے ۔
بھت سے کام جو انسان بظاھر دوسروں کے نفع کے لئے اور اپنا فائدہ پیش نظر رکھے بغیر انجام دیتا ھے وہ در اصل اسی قسم کے کام ھوتے ھیں ۔ ایک دولت مند آدمی ،محتاجوں کی مدد کرتا ھے اور بظاھر اس میں اس کا اپنا کوئی فائدہ نظر نھیں آتا ، لیکن فی الواقع وہ اپنے اس رنج کو دور کرتا ھے ۔ جو محتاجوں کی تکلیف کو دیکہ کر اسے پھنچتا ھے ۔ اس طرح وہ ایک طرح کا روحانی سکون حاصل کرتا ھے یا اپنی باطنی تکمیل کے لئے یا پھر اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب حاصل کرنے کے لئے وہ محتاجوں کی مدد کرتا ھے ۔
اسی طرح ایک باپ اپنے فرزندوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے تکلیفیں برداشت کرتا ھے اور کھتا ھے کہ یہ کام میں اپنے کسی نفع کے لئے نھیں کر رھا ھوں ۔ حقیقت میں اس کا ھدف ایک مثالی فرزند کا باپ کھلانا ھوتا ھے کیونکہ وہ جانتا ھے کہ اچھے اور نیک فرزند کا باپ ھونا ایک اعزاز اور اعلیٰ افتخار ھے ۔
ظاھر ھے کہ انسان کا ھدف اپنی ذات کی تکمیل ھوتا ھے لیکن اس ھدف کو حاصل کرنے کے لئے وہ دوسروں کی تکمیل کے لئے کام کرتا ھے ۔
یہ خیال نھیں کرنا چاھئے کہ ھر شخص اچھے کام کسی مقصد کے پیش نظر انجام دیتا ھے اور یہ امید رکھتا ھے کہ اس کے اچھے کاموں کا کچھ نہ کچھ فائدہ لوٹ کر اس کی ذات کو پھنچے گا ، اس لئے اچھے کاموں کی کوئی قدر و قیمت نھیں ھے ھمیں اس انداز سے نھیں سوچنا چاھئے ۔ ھر چند کہ انسان اپنے شخصی فائدے کے لئے نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کرتا ھے اور برے و نا پسند یدہ کاموں سے احتراز کرتا ھے اور دوسروں کے فائدے میں اپنا نفع تلاش کرتا ھے ۔ یہ بات خود بڑی اچھی اور قابل قدر ھے کیونکہ اس طرح وہ اپنی تکمیل کی راہ اختیار کرتا ھے ۔
۳۔ بعض کام کرنے والے ایسے ھوتے ھیں جن کے پیش نظر اپنا کوئی مفاد نھیں ھوتا وہ صرف اور صرف دوسروں کی خاطر اور انھیں نفع پھنچانے کے لئے کام کرتے ھیں ۔
جیسے ایک ماں جسے اپنی پرواہ نھیں ھوتی ،اسے صرف اپنے فرزند سے محبت ھوتی ھے ۔ وہ ایک پروانے کی طرح شمع کے گرد چکر لگاتی رھتی ھے ۔ اور خود کو جلا دیتی ھے ۔ وہ اپنے فائدے کو نھیں دیکھتی ۔ یہ بھی ایک کیفیت ھوتی ھے ۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کا فریفتہ و شیفتہ ھوتا ھے وہ اپنے معبود کی بندگی اور عبادت میں ایسا مصروف ھوتا ھے کہ اسے اپنا ھوش نھیں رھتا ۔ جیسے کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) اللہ تعالیٰ کی پرستش اس لئے نھیں کرتے تھے کہ اس میں ان کا فائدہ تھا بلکہ اس لئے کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ عبادت و پرستش کا سزاوارھے ۔ اسی لئے وہ اس کی عبادت و پرستش کرتے تھے ۔ ھدف اس طرح کے بھی ھوتے ھیں ۔
اب ھم زیر بحث سوال کا جواب دیتے ھیں :
جب ھم نے اللہ تعالیٰ کو اس طرح پھچان لیا اور جان لیا کہ وہ ایک ایسا وجود ھے جو ھر پھلو سے بے نھایت ھے اور غیر محدود ھے اور اس کی ذات میں کسی طرح کا نقص اور کمی نھیں ھے تواس سے یہ بات از خود ظاھر ھو جاتی ھے کہ اللہ تعالیٰ کے کاموں کا ھدف صرف وھی ھے جس کا ذکر ھم نے تیسرے معنیٰ کے ضمن میں کیا ھے ۔ جس سے مراد اپنی مخلوق کو فائدہ پھنچانا اور ا ن کو ھر اعتبار سے ( روحانی ، جسمانی ، مادی اور معنوی ) کامل بنانا ھے ، ان کی خامیوں کو دور کرنا اور ان کی حاجتوں کو پورا کرنا ھے ۔
دو سرے لفظوں میں یہ خدا ھے جو ھر وقت کھتا ھے :
من نہ کردم خلق تا سودی کنم بلکہ تا بر بندگان جودی کنم
” میں نے اس لئے خلق نھیں کیا کہ فائدہ حاصل کروں بلکہ میرا مقصد بندوں پر کرم کرنا ھے “ ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اور انسان کو اس لئے پیدا نھیں کیا کہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی حاجتوں میں سے کسی حاجت کو پورا کرے ۔ اس لئے کہ اس کی ذات بے نیاز ھے ۔ اسے کسی چیز کی حاجت نھیں ۔
اس نے کائنات کو اس لئے پیدا نھیں کیا کہ اس طرح اپنی کس خامی کو دور کرے ، اس لئے کہ وہ بے عیب اور بے نقص ھے ۔ ھمیں ھرگز اس کی ذات کو اپنے جیسا نھیں سمجھنا چاھئے کیونکہ ھم سراپا محدود اور حاجتمند ھیں ۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا ھے تاکہ وہ منزل کمال کی طرف گامزن رھے اور ھر لمحے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور قوتوں کو بروئے کارلائے اور ترقی و کمال کی آخری حد تک پھنچنے کی جد و جھد کرے ۔
اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے وجود بخشا ھے کہ انسان اپنی ضروریات اور حاجتوں کو پورا کرنے اور ترقی و تکمیل کی منزلیں طے کرنے کے لئے اس کے وسائل سے فائدہ اٹھائے ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ، اوراسے قوت ارادہ عطا فرمائی تاکہ وہ اپنی پسند اور اپنے اختیار سے راہ کمال طے کرنے کی کوشش کرے اور اپنی خامیوں سے نجات حاصل کرے ۔
یہ کھا جا سکتا ھے کہ دنیا اور انسان کی تخلیق کا ھدف ، کائنات کی غیر شعوری اور جبری تکمیل اور انسان کی ارادی اور اس کی خود پسندتکمیل ھے ۔
خالق کائنات کا ھدف اس کی اس تخلیق سے بجز اس کے اور کچھ نھیں ھے کہ وہ انسان کی خاطر تمام موجودات کی تکمیل چاھتا ھے ۔
قرآن کریم اور اسلامی روایات نے اس حقیقت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ھے قرآن کریم کا ارشاد ھے: ” افحسبتم انما خلقناکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون “ (سورہ مومنون / ۱۱۵)
” کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ ھم نے تمھیں عبث اور بے ھودہ پیدا کیا ھے اور یہ کہ تم ھماری طرف نھیں لوٹائے جاؤ گے ۔ ( کیا تم یہ خیال کرتے ھو کہ اپنی تکمیل کے سفر کو ایک حقیقت مطلقہ کی طرف جاری نھیں رکھو گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے نھیں جاؤ گے ۔)
نیز ارشاد ھوا :
” و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون “ ( سورہ ذاریات / ۵۴) جن اور انس کو ھم نے سوائے بندگی کے کسی اور مقصد کے لئے پیدا نھیں کیا ۔ ( تاکہ وہ خدا شناسی کے راستوں پر چلیں اور کمال انسانیت کی منزل پر پھنچیں )
یہ بات توجہ طلب ھے کہ اس آیت اور دوسری آیات قرآنی اور روایات میں عبادت کا جو ذکرآیا ھے اس کا مقصد کچھ مخصوص قسم کے مذھبی مراسم اور طریقے نھیں ھیں ۔ عبادت اور بندگی سے مراد خدا کا مطیع اور فرمانبردار ھو جانا اور خود کو بالکل اس کے سپرد کر دینا ھے اور ان احکام کی اطاعت کرنا ھے جو فرد اور معاشرہ کی روحانی اور جسمانی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے دئے ھیں ۔
ایک اور روایت میں آیا ھے :
” ما خلق العباد الا لیعرفوہ “ ( تفسیر نور الثقلین ج / ۵ ص / ۱۳۲ ) بندوں کی تخلیق اس لئے ھوئی ھے کہ وہ خدا کو پھچانیں ۔