- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : فیاض حسین
- 2024/05/24
- 0 رائ
زندان یا قید خانہ مجرم کو اس کے جرم سے روکنے کے لیے اور سماج میں امن و امان قائم کرنے کے لیے ایک بہترین طریقہ ہے اور یہ طریقہ بہت قدیمی اور تاریخی ہے لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قید خانہ یا زندان جو موجودہ دور میں پایا جاتا ہے قرآن مجید میں اس سلسلے میں کچھ بیان ہوا ہے یا نہیں؟! اگر ہوا ہے تو وہ کون سی آیتیں ہیں جو اس کی شرعی ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور کس طریقے سے ان کی دلالت کو موجودہ دور کے زندان پر منطبق کیا جا سکتا ہے؟ اس مقالے میں مختصر طور پر قرآن مجید کی آیات اور ان کی تفاسیر کے ذریعے سے اس زندان اور قید خانے کی شرعی حیثیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
زندان تاریخ کے آئینے میں
جیسا کہ تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں جب کسی کو قید کیا جاتا تھا یا کسی کے اوپر الزام یا تہمت لگائی جاتی تھی تو ملزم کو مسلمانوں کو دے دیا جاتا تھا اور وہ لوگ اپنے گھروں میں ان کی نگہبانی کرتے تھے بسا اوقات مسجد میں ان کی نگہبانی کی جاتی تھی اور ان کو مسجد کے ستون سے باندھا جاتا تھا ابوبکر کے زمانے تک یہی روش تھی اور سرکاری زندان یا قید خانے وغیرہ کا تصور جو آج پایا جاتا ہے یہ اس زمانے میں نہیں تھا بعد کے دور میں خصوصا کہا یہ جاتا ہے کہ عمر کے زمانے میں زندان کا رواج وجود میں آیا چونکہ اسلام تیزی سے ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھیل رہا تھا اور ملزموں کی تعداد بھی اسی کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہی تھی لہذا عمر نے یہ احساس کیا کہ اب ان کو لوگوں کے گھروں سے نکال کر خاص طریقے کا گھر بنایا جائے جس میں ان لوگوں کو قید کیا جائے اور پہلی مرتبہ “صفوان بن امیہ” کا گھر چار ہزار درہم میں زندان بنانے کے لیے عمر نے خریدا۔ [1]
بعض دوسرے لوگ زندان کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ نے ابتدا میں لکڑی کا زندان بنایا تھا لیکن ملزم اس میں سے فرار ہو جایا کر تے تھے لہذا آپ نے پہلی مرتبہ اینٹ اور گارے کا زندان بنایا اور اس کا نام”مخیس” رکھا۔[2]
زندان قرآن کی نظر میں
سورہ مائدہ کی چھٹی آیت زندان کے شرعی ہونے پر دلیل ہے کہ جس میں لفظ “حبس” استعمال ہوا ہے” يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ شهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ ءَاخَرَانِ مِنْ غَيرْكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فىِ الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تحَبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَوةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْترَى بِهِ ثَمَنًا وَ لَوْ كاَنَ ذَا قُرْبىَ وَ لَا نَكْتُمُ شهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الاَثِمِين۔[3]
ایمان والو جب تم میں سے کسی کی موت سامنے آجائے تو گواہی کا خیال رکھنا کہ وصیت کے وقت دو عادل گواہ تم میں سے ہوں یا پھر تمہارے غیر میں سے ہوں اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہیں موت کی مصیبت نازل ہوجائےتو ان دونوں کو نماز کے بعد روک کر رکھو پھر اگر تمہیں شک ہو تو یہ خدا کی قسم کھائیں کہ ہم اس گواہی سے کسی طرح کا فائدہ نہیں چاہتے ہیں چاہے قرابتدار ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو اور نہ خدائی شہادت کو چھپاتے ہیں کہ اس طرح ہم یقینا گناہگاروں میں شمار ہوجائیں گے۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لفظ “حبس” سے مراد زندان اور قید خانہ ہے اس لیے کی یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دنیا سے سفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے اور کوئی دوسرا مسلمان اس کے ساتھ نہ ہو تو دو آدمی اس کے وصیت کی گواہی دیں اور اگر ان دو کے بارے میں شک پیدا ہو تو انہیں نماز عصر کے بعد قسم کھانا ہوگا اور تب تک ان کو قید رکھنا ہوگا۔
امام جعفر صادق ؑسے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے جواب میں فرمایا: کہ اگر کوئی مسلمان دنیا سے سفر کی حالت میں چلا جائے تو دو مسلمان شخص جو کہ عادل ہوں اس کی وصیت کی گواہی دیں اور اگر دو عادل نہ مل سکیں تو دو ایسے لوگ کہ جو قرآن کو جانتے ہوں شاہد اور گواہ کی حیثیت سے ان کو گواہی کے لیے کہا جائے اور دونوں کو نماز عصر کے بعد تک قید رکھا جائے۔[4]
ابن عباس کہتے ہیں: کہ دو مسیحیوں کو قید کیا جائے تاکہ وہ نماز عصر کے بعد خدا کی قسم کے ساتھ گواہی پیش کریں۔[5]
ابن عربی کہتے ہیں: “تحبسونھما من بعد الصلوۃ” اس بات پر دلیل ہے کہ جس کے ذمہ یہ حق ہے اس کو قید کیا جائے اور یہ تمام احکام دین کی حکمتوں کی طرح ایک حکمت الہی ہے۔[6]
ابن قیم جوزی فرماتے ہیں: کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ گواہ کو قید نہیں کر سکتے ان کے لیے ضروری ہے کہا جائے کہ اس آیت میں “حبس” سے مراد وہ زندان نہیں ہے کہ جس میں گنہگار کو سزا کے بعد ڈالا جاتا ہے یا اس میں قید کیا جاتا ہے بلکہ “حبس” سے مراد اس آیت میں یہ ہے کہ ان دونوں گواہوں کو نماز عصر کے بعد قسم کھانے تک روکا جائے گا اور اس عبارت میں دونوں احتمال پائے جاتے ہیں کہ “حبس” سے مراد ہو سکتا ہے کہ ان کو وقتی طور پہ قید کیا جائے یا یہ کہ “حبس” کے معنی وہی آج کے اصطلاحی معنی زندان یا قید خانے کے لیے جائیں۔ بہرحال اس آیت سے جو استفادہ ہوتا ہے وہ یہ کہ “حبس” سے مراد زندان ہی ہے اور وہ بھی وقتی زندان یا زندان بعنوان احتیاط۔[7]
وائلی کہتے ہیں: کہ فقہائے مسلمین نے دلیلوں کے ذریعے یہ بات کہی ہے کہ زندان کی تین قسمیں ہیں اور اس میں سے دوسری قسم یہ ہے کہ کسی کو بھی آزمائش یا امتحان کے لئے زندان میں رکھا جائے جس کو زندان احتیاطی کہا جاتا ہے اور یہ زندان ایک طریقے کا حفاظتی قدم ہوتا ہے اس ملزم کے لئے جس کے بارے میں ابھی تک کوئی قطعی فیصلہ صادرنہیں ہوتا ہے۔[8]
فخر رازی کہتے ہیں: “تحبسونھما” سے مراد وہ دو شخص ہیں جو گواہی کے لیے ہیں ان کو نماز عصر کے بعد تک روکا جائے تا کہ وہ قسم کھائیں اور ان کو قسم کھانے سے پہلے تک قید کیا جائے۔[9]
ان تمام اقوال سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ اگر کسی بھی مسلمان آدمی کی موت واقع ہو جائے تو دو مسلمان اور عادل شخص اس کی وصیت پر گواہی دیں اور اگر یہ موت سفر میں واقع ہو اور اس کے ساتھ کوئی مسلمان شخص موجود نہ ہو تو دو ایسے لوگ جو اہل کتاب ہوں ان کو اس کے وصیت کے لیے گواہ مقرر کیا جائے اور ان کو نماز عصر کے بعد تک قید کیا جائے تاکہ وہ خدا کے نام کے ذریعے اس کی وصیت کی گواہی دیں اور یہاں پر منظور لفظ “حبس” سے وہی زندان احتیاطی ہے کہ جس کے ذریعے سے اس کے حق کو پامال ہونے سے روکا جائے لہذا بالکل واضح اور روشن طور پراس آیت کا مضمون زندان کے شرعی ہونے اور احتیاط کے طور پر کسی کو قید کرنے کے لیے واضح دلیل ہے۔
زندان کے شرعی ہونے پر دوسری دلیل
وَ الَّاتىِ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائكُمْ فَاسْتَشهْدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ فَإِن شهَدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فىِ الْبُيُوتِ حَتىَ يَتَوَفَّئهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يجَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا۔وَ الَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَاذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَ أَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔[10]
اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں ان پر اپنوں میں سے چار گواہوں کی گواہی لو اور جب گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو- یہاں تک کہ موت آجائے یا خدا ان کے لئے کوئی راستہ مقرر کردے اور تم میں سے جو آدمی بدکاری کریں انہیں اذیت دو پھر اگر توبہ کرلیں اور اپنے حال کی اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو کہ خدا بہت توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
طبری نے لکھا ہے: کہ ان کو ان کی موت آنے تک گھر میں قید کیا جائے یا یہ کہ خداوند عالم ان کے لیے کوئی راہ نجات پیدا کر دے۔[11]
فخر رازی لکھتے ہیں: کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ان کے گھروں میں قید کیا جائے اور اس کے ذریعے سے انہیں اس برے اور گندے کام سے روکا جائے اس لیے کہ یہ برا عمل اس وقت وجود میں آیا کہ جب وہ گھروں سے باہر تھیں لہذا جب ان کو گھروں میں قید کر دیا جائے گا تو وہ اس فعل بد سے خود بخود دور ہو جائیں گی۔[12]
آیت اللہ خوئی فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں “فاحشہ” سے مراد صرف زنا نہیں ہے بلکہ ہر وہ برا فعل جو دو لوگوں کے درمیان انجام پائے چاہے وہ دو عورت ہوں جسے شریعت میں “مساحقہ” کہا جاتا ہے یا دو مرد کے درمیان انجام پائے جسے “لواط” کہا جاتا ہے چاہے ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان قرار پائے جسے “زنا” کہا جاتا ہے۔ “فاحشہ” کا لفظ نہ لغت میں نہ دلالت میں صرف زنا میں ظہور نہیں رکھتا ہے۔[13]
سورۀ نساء کی ان دو آیتوں سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید نے زندان کا ذکر کسی بھی ناپسند اور برے کام کے لیے کیا ہے چاہے وہ مساحقہ ہو لواط ہو یا پھر زنا اس لیے کہ لفظ فاحشہ صرف زنا سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان افعال بد میں عمومیت رکھتا ہے۔
زندان کے شرعی ہونے پر تیسری دلیل
فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشهْرُ الحْرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَ خُذُوهُمْ وَ احْصُرُوهُمْ وَ اقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم۔[14]
پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفاّر کو جہاں پاؤ قتل کردو اور گرفت میں لے لو اور قید کردو اور ہر راستہ اور گزر گاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو -پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوِٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
شیخ طوسی نے لکھا ہے کہ: اس آیت میں “حصر” کا لفظ محاصرہ کرنا اور ممانعت کرنے کے معنی میں ہے حصر اور حبس دونوں مترادف ہیں۔[15]
اکثر مفسرین کا عقیدہ یہی ہے کہ زندان کی مشروعیت کے لیے اور مجرم کو زندان میں رکھنے کے لیے یہ آیت صراحت کے ساتھ دلیل ہے ہم مختصراً کچھ مفسرین کے اقوال کو ذکر کر رہے ہیں:
آلوسی لکھتے ہیں: “خذوھم” یعنی کفار کو قید کرو “اخیذ” کا معنی اسیر ہے اور اسارت کا مطلب ان کو باندھنا ہے نہ کہ ان کو غلامی میں لینا “واحصروھم” یعنی ان کو قید کرو۔[16]
فیض کاشانی لکھتے ہیں: “واحصروھم” یعنی ان کو قید کرو۔[17]
مغنیہ لکھتے ہیں: “خذوھم ” یعنی ان کو اسیر کرو “واحصروھم” اور ان کو قید کرو ۔[18]
سورہ توبہ کی اس آیت کے ذیل میں مفسرین کے اقوال زندان کے شرعی ہونے کے اوپر دلیل ہیں اس کے علاوہ معصومین کی سیرت میں بھی یہی ملتا ہے جیسا کہ شیخ مفید نے لکھا ہے کہ:
جب “بنی قریظہ” کے قیدیوں کو مدینے لایا گیا تو ان کو بنی نجار کے گھروں میں قید کیا گیا اور وہی ان کے لئے زندان قرار دیا گیا۔[19]
ابن شبہ نے لکھا ہے کہ: صحابی پیغمبر “ثمامہ” جب یہ چاہتے تھے کہ “بنی قشیر” پر حملہ کریں تو ان کو قید کیا ان کے ہاتھوں کو باندھ کر پیغمبر کے پاس لے آئے رسولؐ نے حکم دیا کہ ان کو قید کرو اور وہ لوگ تین دن تک قید تھے اور اس کے بعد ان کو آزاد کیا۔[20]
نتیجہ
“زندان” کی مشروعیت کے سلسلے میں قرآن مجید کی ان آیات اور مفسرین کے اقوال سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قیدیوں اور مجرموں کو زندان میں رکھنا یہ شریعت کے مطابق ہے اور معصومین کی سنت اور سیرت میں سے ہے۔جیسا کہ بنی قریظہ یا بنی قشیر کے اسیروں کو پیغمبر کے زمانے میں کسی گھر میں قید کر کے رکھا گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی فعل بد انجام دینے والوں کی سزا کے بارے میں بھی یہی حکم دیا گیا کہ ان کے گھروں کو ان کے لئے زندان قرار دو۔
حوالہ جات
[1] ۔عطیہ، نظم الحکم بمصر فی عھد الفاطمیین، ص289.
[2] ۔شافعی، الجنایات المتحدۃ بین القانون والشریعہ، ص68.
[3] ۔مائدہ، 6.
[4] ۔بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، ج1، ص509.
[5] ۔ابن عباس، تنویر المقباس، ج1، ص232.
[6] ۔ابن عربی، احکام القرآن، ج2، ص716.
[7] ۔ابن قیم جوزی، الطرق الحکمیۃ، ص205 و 213.
[8] ۔وائلی، احکام السجن بین الشریعۃ والقانون، ص282-283.
[9] ۔فخر رازی، مفاطیح الغیب، ج12، ص117.
[10] ۔نساء 15۔16.
[11] ۔طبری، تفسیر طبری، ج4، ص293.
[12] ۔فخر رازی،مفاتیح الغیب، ج3، ص246.
[13] ۔خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ص230-231.
[14] ۔توبہ، 5.
[15] ۔طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ج10، ص173.
[16] ۔آلوسی، روح المعانی، ج5، ص247.
[17] ۔فیض کاشانی، تفسیر صافی، ج2، ص322.
[18] ۔مغنیہ، التفسیر الکاشف، ج4، ص12.
[19] ۔مفید، الارشاد، ص58.
[20] ۔ابن شبہ، تاریخ المدینہ، ج1، ص436.
منابع و مآخذ
1۔آلوسی بغدادی،محمود، روح المعانی، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، 1415 ۔
2۔ابن شبہ، البصری، تاریخ المدینۃ، قم: دارالفکر، 1364۔
3۔ابن عباس، عبداللہ، تنویر المقباس، بیروت: دارالمعرفۃ، 1406۔
4۔ابن عربی، ابوبکر محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، بیروت: داراحیاء الکتب العربیۃ، 1398۔
5۔ابن قیم جوزی، شمس الدین محمد، الطرق الحکمیۃ، مصر، 1381۔
6۔بحرانی، ہاشم، البرھان فی تفسیر القرآن، قم: موسسۃ البعثۃ، 1415
7۔خوئی، ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم: المطبعۃ العلمیۃ، 1394۔
8۔شافعی، رضوان، الجنایات المتحدۃ بین القانون و الشریعۃ،مصر: المطبعۃ السلفیۃ، 1398۔
9۔طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری، بیروت: دارالمعرفۃ، 1412۔
10۔طوسی، محمد، التبیان فی تفسیر القرآن، نجف: مکتبۃ النعمان، 1385۔
11۔فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، مصر: مطبعۃ البھیۃ، 1412۔
12۔فیض کاشانی، محسن، تفسیرالصافی، قم: مکتبۃ الصدر، 1415۔
13۔کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بیروت: دارالاضواء، 1413۔
14۔مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، بیروت: دارالعلم للملایین، 1981م۔
15۔مفید، محمد بن محمد، الارشاد، قم: موسسۃ آل البیت، 1416۔
16۔وائلی، احمد، احکام السجن بین الشریعۃ والقانون، قم: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1364۔
مضمون کا مآخذ
مروتی، سہراب، زرگوش نسب، عبد الجبار، بررسی مبانی مشروعیت زندان در قرآن کریم، فصلنامہ حقوق، دانشکدہ مجلہ دانشکدہ حقوق و علوم سیاسی سال37، شمارہ2، تابستان 1386، صفحات 198۔173