امام علی (ع) کی نظر میں قرآن مجید کی علمی جامعیت

امام علی (ع) کی نظر میں قرآن مجید کی علمی جامعیت

کپی کردن لینک

قرآن مجید ایک مکمل اور جامع کتاب ہے، جو انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں اس کی رہنمائی فرماتی ہے۔ مندرجہ ذیل صفات جو ائمہ (ع) سے قرآن مجید کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں، قرآن مجید کے علمی رخ اور اس کی علمی جامعیت کو بخوبی بیان کرتی ہیں۔

 

1۔ مَأْدَبَةُ اللّه[1]

مأدبۃ اللہ مہمان نوازی اور دعوت کے دسترخوان کو کہتے ہیں۔ ممکن ہے ادب سیکھنے کی جگہ کے لئے بھی استعمال ہو۔ پہلے معنی کی رو سے قرآن مجید پر ’’مَأْدَبَةُ اللّه‘‘ کا اطلاق اس لحاظ سے ہے کہ قرآنی معارف اور علوم معنوی غذا کی ضرورت پوری کرنے والے ہیں۔ انسان کی روح فطری لحاظ سے سچے معارف اور علوم کی محتاج ہے، خاص طور پر وہ علوم و معارف جو مبدا و معاد کی معرفت سے مربوط ہوں اور ان کی حرکت کا ابدی رخ اللہ کی طرف ہو۔

قرآن مجید ان معارف کے منبع کے عنوان سے سالم اور اطمینان بخش غذا مہیا کر کے روح کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اگر معارف کا محتاج انسان اس دسترخوان پر نہ بیٹھے اور اپنی ضرورت کی غذا نہ کھائے تو وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آلودہ روحانی غذاؤں کا رخ کرے گا اور اپنی روح کو ان سے مسموم کرلے گا۔

دوسرے معنی کی بناء پر قرآن مجید کو اس لئے ’’مَأْدَبَةُ اللّه‘‘ کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے ادب سیکھنے کی جگہ ہے جو خدا کی طرف سے انسان کے لئے مہیا کی گئی ہے۔

چوتھی صدی ہجری کی عظیم اور نامور علمی شخصیت سید مرتضیٰ علم الہدی اس صفت اور قرآن مجید پر اس کے اطلاق کے سبب کے بارے میں تین نکات بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

’’مادبة‘‘ دال پر ضمّہ یا فتحہ کے ساتھ مادہ ’’ادب‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ اس غذا کو کہتے ہیں جسے انسان دعوت کیے گئے مہمان کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے قرآن مجید کی قرائت اور حفظ سے انسان کو حاصل ہونے والے فوائد کے پیش نظر اسے مہمان کے لئے تیار کی گئی غذا سے تشبیہ دی ہے۔ ممکن ہے اس تشبیہ کی وجہ یہ ہو کہ لوگوں کو قرآن مجید کے گرد جمع ہونے کی دعوت دی گئی ہے جس طرح دعوت شدہ لوگ دسترخوان پر جمع ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں صورتیں مراد ہوں۔

ممکن ہے ’’مأدبة‘‘ دال پر فتحہ کے ساتھ ’’ادُب‘‘ (عین الفعل پر ضمہ کے ساتھ) سے لیا گیا ہو۔ بنا بریں اس جملے: ’’قرآن خدا کا مادبہ ہے‘‘ سے مراد یہ ہو گا کہ قرآن مجید لو گوں کے ادب کو محفوظ رکھنے کے لئے نازل ہوا ہے۔[2]

 

2۔ جوامِعُ الْكَلِم [3]

یعنی وسیع اور پُرمعنی بیانات پر مشتمل ہے کیونکہ قرآن مجید انسان کی ہدایت سے مربوط ہر موضوع اور اس موضوع سے مربوط کلیات اور قواعد و ضوابط پر مشتمل ہے جن سے بے شمار مفاہیم نکالے جاسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ قرآن مجید کے جوامع الکلم ہونے سے مراد تمام معاشرتی طبقات یعنی دانشوروں اور عام لو گوں کے لئے اس کی جامعیت ہو۔ یعنی: ہر کوئی اپنے فہم و ادراک کی قوت اور اپنے علمی مرتبے کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔

 

3۔ يَنابيعُ العِلمِ وبُحورُه [4]

اسے مراد علم و دانش کے چشمے اور سمندر ہیں۔

 

4۔ عُيُونٌ لَايُنْضِبُهَا الْمَاتِحُون [5]

اس عبارت سے مراد وہ چشمے ہیں جو کم نہیں ہو تے۔

 

5۔ مَنَاهِلُ لَا يَغِيضُهَا الْوَارِدُون [6]

اسے مراد وہ گھاٹ جس سے جتنا پانی اٹھایا جائے، کم نہیں ہوتا۔

مندرجہ بالا تین صفات اس نکتے کی طرف اشارہ ہیں کہ قرآن مجید پانی سے لبریز ابلتے ہوئے چشمے کے مانند ہے جو علم و معرفت کے چشمے کی حیثیت سے ہر وقت قابل استفادہ ہے اور اس سے جس قدر استفادہ کیا جائے اسی قدر یہ پھر سے پر ہوجاتا ہے۔

پس قرآن مجید ایک ایسا سر چشمہ ہے جو ہر دم تازہ اور قابل استفادہ رہتا ہے۔ کسی دور کے موضوعات کو سمجھنے کے لئے اس کی طرف رجوع کرنے سے دوسرے ادوار کے جدید موضوعات کو سمجھنے کا امکان کم نہیں ہوتا۔ قرآن مجید انسان کی علمی و فکری ضرورتوں کو ہمیشہ پوری کرتا ہے کیونکہ جس اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اس نے منزلِ کمال کی طرف اس کے وجودی سفر کا راستہ واضح کرنے کے لئے قرآن مجید کو بھیجا ہے۔ پس جب بھی انسان کو علم و معرفت کی حقیقی پیاس کا احساس ہو تو وہ قرآن مجید کے پُر فیض اور خالص سر چشمے سے اپنے کو سیراب کرسکتا ہے۔

 

6۔ بَحْرٍ لَا يُدْرَكُ قَعرُه [7]

اسے مراد وہ سمندر جسے پیاسے اس سے استفادہ کر کے ختم نہیں کرسکتے۔ اور اس صفت سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ: قرآن مجید کے ظاہری پہلو کے علاوہ اس کا ایک باطن بھی ہے جو عام انسانوں کی دسترس سے باہر ہے اور قرآن مجید کے اس پہلو سے استفادہ کرنے کے لئے پیغمبر اسلام ﷺ اور ائمہ اطہار (ع) کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

پانی مایہ حیات ہے۔ بنا بریں قرآن مجید کو سمندر یا دریا سے تشبیہ دینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی معارف انسان کی معنوی حیات کا سر مایہ ہیں اور قرآن مجید کے پر فیض منبع کے بغیر انسان کے لئے معنوی زندگی کا جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔

انس نے پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت کی ہے: پیغمبر اکرم ﷺ نے مجھ سے کہا: اے ابن ام سلیم! قرآن مجید کی صبح و شام تلاوت کرنے سے غفلت نہ برتنا کیونکہ قرآن مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور برُے کاموں سے روکتا ہے۔[8]

 

7۔ بَحْرٌ لَا يَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُون [9]

اسے مراد ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کر سکتے۔

 

8۔ آكَامٌ لَايَجُوزُ عَنْهَا الْقَاصِدُون [10]

اسے مراد ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے۔

 

9۔ رِيّاً لعطش العلماء [11]

اسے مراد عالموں کی تشنگی کیلئے سیراب کرنے والا۔

 

10۔ رَبِيعاً لِقُلُوبِ الْفُقَهَاء [12]

یعنی فقیہوں کے دلوں کیلئے بہار۔

 

11۔ عِلْمٌ لِمَنْ وَعى [13]

اسے مراد جو کوئی بھی قرآن کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے۔

 

12۔ آيَةً لِمَنْ تَوَسَّم [14]

اسے مراد غور کرنے والے کیلئے (روشن) نشانی ہے۔

 

13۔ الرّيّ الناقع [15]

اسے مراد پیاس بجھانے والی ہے۔

 

14۔ سِرَاجاً لايَخْبُو تَوَقُّدُه [16]

اسے مراد قرآن مجید روشنی کا ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی۔

 

15۔ نُوراً لاتُطْفَأ مَصابيحُه [17]

لاتطفأ مَصابيحه سے مراد ایسی کتاب جو (سراپا) نور ہے اور وہ کبھی بجھ نے والی نہیں۔

 

16۔ شُعَاعاً لَايُظْلِمُ ضَوْءُه [18]

اسے مراد نور کی کرن ہے۔ مندرجہ بالا دو صفات اس طرف اشارہ ہیں کہ جس طرح انسان مادی سیر و سفر کے لئے حسی و مادی نور کا محتاج ہے اور بینائی کی مدد سے آس پاس کی چیزوں کو تشخیص دے کر اپنا راستہ منتخب کرتا ہے اسی طرح انسان اپنے عقلی سفر کے لئے بھی معنوی نور کا محتاج ہے جو قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید تفکر کے صحیح راستوں کو واضح کرتا ہے۔

قرآن ذہن و فکر کو شک، حیرت اور وسوسوں میں گرفتار ہونے سے نجات دیتا ہےاور نتیجے تک پہنچنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں حسی نور بینائی کی مدد کرنے میں جو کردار ادا کرتا ہے وہی کردار قرآن مجید انسان کی فکر ی رہنمائی میں ادا کرتا ہے۔ قرآن مجید کی اس خصوصیت کے بارے میں بہترین بیان وہی ہے جو پیغمبر اکرم ﷺ کے اس کلام میں مذکور ہے: ’’جب فتنے رات کی تاریکی کے مانند تمہیں اپنی گرفت میں لے لیں تو قرآن مجید کا سہارا لو‘‘۔

پھر فرماتے ہیں: ’’پس انسان کو چاہئے کہ غور و فکر کرے اور (حق کی) صفت کو اپنے آنکھوں کے سامنے لائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور تنگی و مشکل سے رہائی پائے کیونکہ غور و فکر بینا اور بیدار انسان کے دل کی زندگی کا سرمایہ ہے جس طرح انسان چراغ کی روشنی سے تاریکیوں کو طے کرتا ہے۔ پس تمہاری ذمہ داری ہے کہ اچھی طرح رہائی پاؤ اور (شبہات اور تاریکیوں میں ) کم منتظر رہا کرو‘‘۔[19]

 

17۔ فُرْقَاناً لَايَخْمَدُ بُرْهَانُه [20]

اسے مراد وہ ایسا (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی۔

 

18۔ الْمُحَدِّثُ الَّذِي لَايَكْذِب [21]

اسے مراد ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔

 

19۔ حَمّالٌ ذو وُجوه [22]

اسے مراد ایسی کتاب جو (بہت زیادہ) معانی کی حامل ہے۔

 

نتیجہ

امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کا قرآن مجید کو، چشموں، سمندروں، نور، وسیع اور پُرمعنی بیانات کا حامل اور ان جیسی دیگر اصطلاحات سے تعبیر فرمانا، قرآن مجید کی علمی جامعیت، افضلیت اور اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

 

حوالہ جات

[1]۔ سید مرتضی، الامالی، ج2، ص27؛ مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص19 و ص267۔
[2]۔ سید مرتضیٰ، الامالی، ج2، ص30۔
[3]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[4]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[5]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[6]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[7]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[8]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج10، ص23؛ محمودی، نہج السعادہ، ج8، ص407۔
[9]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[10]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[11]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[12]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[13]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج97، ص55۔
[14]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 198۔
[15]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 156۔
[16]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 156۔
[17]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 156۔
[18]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 156۔
[19] کلینی، کافی، ج2، ص598۔
[20]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 196۔
[21]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 176۔
[22]۔ شریف رضی، نہج البلاغہ، خطبہ 77۔

فہرست منابع

1۔ ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ھبة اللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، منشورات مکتبة آیة اللہ مرعشی، 1404ق۔
2۔ شریف رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغة، قم، الہادی، 1387ش۔
3۔ کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ق۔
4۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، قم، موسسة الوفاء، 1403ق۔
5۔ محمودی، محمد باقر، نہج السعادة، بیروت، مؤسسة التضامن الفکری، 1387ق۔
6۔ مرتضی، علی بن حسین، امالی المرتضی، مشہد، آستانہ قدس رضوی، 1396ش۔

مضمون کا مآخذ (ترمیم کے ساتھ)

ترابی، مرتضی، اہل بیت (ع) کی قرآنی خدمات، ج1، ص77 تا 82، اہل البیت (ع) عالمی اسمبلی قم، 1442ق؛ ترجمہ سید قلبی حسین رضوی۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے