خطبہ فدکیہ کے اہم مضامین پر ایک نظر (فدکیہ و شقشقیہ کے مشابہتی پہلو)

خطبہ فدکیہ کے اہم مضامین پر ایک نظر (فدکیہ و شقشقیہ کے مشابہتی پہلو)

کپی کردن لینک

خطبہ فدکیہ تاریخ اسلام میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس خطبے میں حضرت فاطمہ (س) نے اپنی فدک کی ملکیت کے مسئلے پر نہ صرف اپنے حقوق کا دفاع کیا بلکہ امت مسلمہ کے حالات اور اس وقت کے سیاسی و اجتماعی نظام کی حقیقت کو بھی بے نقاب کیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے توحید، امامت، اور اہل بیت (ع) کے حقوق پر زور دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ان کے خاندان کا مقام کسی بھی صورت کم نہیں ہو سکتا۔ خطبہ فدکیہ اسلام کی بنیادوں اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی عظمت کو نمایاں کرتا ہے۔

الف: خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ کے مشابہتی پہلو

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں ہی اہم تاریخی اور سیاسی خطبے ہیں جو تاریخ مکتب اہل بیت (ع) میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں خطبوں میں چند مشابہتی پہلو ہیں:

۱۔ سیاسی و اجتماعی نظام پر تنقید

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں میں حضرت فاطمہ زہرا (س) اور حضرت علی (ع) نے معروضی سیاسی و اجتماعی حالات کی سختی پر تنقید کی ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فدک کے مسئلے پر اپنے حقوق کا دفاع کرتے ہوئے حکومت کی بدعنوانیوں کو بیان کیا، جب کہ حضرت علی (ع) نے خطبہ شقشقیہ میں خلافت کے مسئلے پر اپنی ناراضگی اور حکومت کے معاملات میں مداخلت کی شکایت کی۔

۲۔ امامت اور اہل بیت (ع) کا مقام

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں میں اہل بیت (ع) کی عظمت اور امامت کے حقوق کا دفاع کیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فدک کے مسئلے میں اہل بیت (ع) کے حق کو مستحکم کیا، اور حضرت علی (ع) نے شقشقیہ خطبے میں اپنی حقانیت اور خلافت میں اپنی اہمیت پر زور دیا۔

۳۔ خلافت و حکومت کے مسائل پر احتجاج

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں میں خلافت کے مسئلے پر احتجاج اور ان کے فیصلوں پر اعتراض کیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے خلافت کے نتیجے میں اپنے خاندان کے حقوق کا ضیاع دیکھا اور حضرت علی (ع) نے شقشقیہ میں خلافت کی تبدیلی کے بعد پیش آنے والے مسائل کا ذکر کیا۔

۴۔ عدل و انصاف کا مطالبہ

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں میں عدل و انصاف کی ضرورت اور حکومت کے ناعادل اقدامات پر تنقید کی گئی ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فدک کے معاملے میں انصاف کا مطالبہ کیا اور حضرت علی (ع) نے اپنے خطبے میں عدل کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔

۵۔ زبان کی شدت

خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ دونوں میں زبان کی شدت اور قوت کا استعمال کیا گیا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فدک کے معاملے میں اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا، اور حضرت علی (ع) نے شقشقیہ خطبے میں بھی اپنی رنجش کو کھل کر بیان کیا۔

لیکن یاد رکھنا ہوگا کہ ان تمام ممکنہ مشابہتوں کے باوجود، خطبہ فدکیہ اور خطبہ شقشقیہ مختلف حالات میں دئے گئے اور ان میں اظہار خیال کا انداز مختلف تھا، مگر دونوں میں اہل بیت (ع) کے حقوق کے دفاع اور حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج میں یکسانی کی شدت تھی۔

ب: خطبہ فدکیہ کے اہم مضامین پر مختصر نظر

۱۔ توحید اور معرفتِ الٰہی

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خطبہ فدکیہ کا آغاز توحید سے کیا کیونکہ توحید اسلامی عقیدے کی بنیاد اور تمام دینی تعلیمات کی اساس ہے۔ اس کے ذریعے اللہ کی وحدانیت، قدرت، اور عدل کو واضح کر کے امت کو یاد دلایا کہ ہر فیصلہ اور عمل اللہ کی رضا کے تابع ہونا چاہیے۔ توحید کا ذکر امت کے دلوں میں خشوع پیدا کرنے، ان کی توجہ دین کے اصولوں کی طرف مبذول کرانے، اور انہیں انحراف سے روکنے کے لئے کیا گیا۔

خطبہ فدکیہ کا آغاز اس بات کا بھی اشارہ تھا کہ خلافت اور فدک کا مسئلہ صرف ایک سیاسی معاملہ نہیں، بلکہ اسلامی اصولوں اور عدل کا معاملہ ہے۔ انبیاء کی سنت کے مطابق توحید کا بیان لوگوں کو اللہ کی عظمت اور قیامت کے دن جوابدہی کی یاد دہانی کے لئے تھا، تاکہ وہ ظلم و ناانصافی سے باز آئیں اور دین کے حقیقی وارثوں کے حق کو پہچان سکیں۔ اس لئے حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ کے ابتدائی جملوں میں یوں فرمایا:

’’میں خدا کی وحدانیت کی گواھی دیتی ہوں، وہ وحدہ لا شریک ہے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاھدہ دل کی گھرائی سے ہوتا ہے اوراس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل و دماغ روشن ہوتے ہیں۔‘‘

۲۔ نبوت اور رسالت

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں رسول اللہ (ص) کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے مقام اور ان کے مشن پر روشنی ڈالی۔ حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں واضح کیا کہ رسول اکرم (ص) نے لوگوں کو جہالت، شرک اور ظلم سے نجات دلانے کے لئے دین حق پیش کیا۔ ان کی تعلیمات کو امت کے اتحاد، عدل و انصاف اور ہدایت کے لئے ضروری قرار دیا۔

’’اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد مصطفیٰ (ص) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اللہ نے انہیں منتخب فرمایا اس سے پہلے کہ انہیں پیدا کرتا، اور انہیں چن لیا اس سے پہلے کہ انہیں مبعوث کرتا، اور ان کا نام لیا اس سے پہلے کہ انہیں نبوت عطا فرماتا۔۔۔’’

’’پس اللہ نے میرے والد محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے تاریکیوں کو روشن کر دیا، اور دلوں کے غموں کو دور کر دیا، اور آنکھوں کے اندھے پن کو ختم کر دیا، اور نفسوں کے بوجھ کو ہلکا کر دیا۔۔۔ اور آپ (ص) نے لوگوں کو ہدایت کی راہ پر کھڑا کیا، پس انہیں گمراہی سے نجات دلائی، اور انہیں اندھے پن سے بینائی بخشی، اور انہیں سیدھے دین کی طرف ہدایت دی، اور انہیں سیدھے راستے کی طرف بلایا۔‘‘

’’۔۔۔ یہاں تک کہ رات اپنے صبح کے ساتھ چھٹ گئی اور حق اپنی اصلیت کے ساتھ ظاہر ہو گیا، اور دین کے رہنما بول اٹھے، اور کفر کا غصہ ٹھنڈا پڑ گیا، اور شیطانوں کے فریب ختم ہو گئے، اور نفاق کی آگ بجھ گئی۔ اور کفر اور اختلاف کے گرہیں کھل گئیں، اور تم اخلاص کی بات سمجھ گئے، ان لوگوں میں جو خالص اور پاک تھے۔’’

’’تم بتوں کی پوجا کرتے تھے اور فال کے تیروں سے قسمت آزماتے تھے، پیاسے کی طرح، لالچی کی طرح، بے تاب کی طرح، اور پاؤں کے نیچے روندے ہوئے کی طرح۔ تم گندہ پانی پیتے تھے اور خشک روٹی کھاتے تھے، ذلیل اور خوار ہو کر۔۔۔‘‘

’’پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے تمہیں نجات دی، بڑی مصیبتوں اور مشکلات کے بعد، اور اس کے بعد کہ تم مردوں کے غموں، عرب کے درندوں، اور اہل کتاب کے سرکش لوگوں کے درمیان گھر گئے تھے۔‘

 

۳۔ احکام شریعت

اسلامی احکام کو ایک جامع نظام کے طور پر بیان کیا جو روحانی، معاشرتی، اور اخلاقی اصلاح کے لئے ہے:

نماز: اللہ کے سامنے بندگی کا اظہار اور غرور کو مٹانے کا ذریعہ۔

روزہ: روح کو پاک کرنے اور اللہ کے قرب حاصل کرنے کا وسیلہ۔

زکوٰۃ: سماجی انصاف اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے۔

حج: امت کے اتحاد اور اللہ کی عظمت کے اظہار کا ذریعہ۔

جہاد: مظلوموں کی حمایت اور اسلام کے دفاع کے لئے۔

’’پس اللہ نے فرض کیا۔۔۔ نماز کو تمہارے تکبر کو دور کرنے کے لئے، اور زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کے لیے، اور روزے کو اخلاص کو مضبوط کرنے کے لئے، اور حج کو دین کی عمارت کو بلند کرنے، سنتوں کو زندہ کرنے، اور شریعت کو ظاہر کرنے کے لئے۔‘‘

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں احکام شریعت کی طرف اس لئے اشارہ کیا تاکہ امت کو یہ یاد دلایا جا سکے کہ اسلام کا نظام زندگی مکمل اور جامع ہے، جو ہر پہلو میں اللہ کے احکامات پر مبنی ہے۔ آپ نے خطبہ فدکیہ میں یہ وضاحت کی کہ شریعت کے قوانین انسان کی روحانی، اخلاقی، اور معاشرتی اصلاح کے لئے ہیں اور ان کی پیروی انسان کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔

آپ نے خطبہ فدکیہ میں شریعت کے احکام کا ذکر کر کے امت کو یہ بھی باور کرایا کہ جن اصولوں کو نبی اکرم (ص) نے نافذ کیا تھا، ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا انحراف ناقابل قبول ہے۔ یہ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ خلافت کے معاملے میں جو انحراف ہوا ہے، وہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے۔ شریعت کے احکام کا تذکرہ لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی اور ان کے اعمال پر غور کرنے کے لئے کیا گیا، تاکہ وہ اللہ کی حدود کی پابندی کریں اور دین میں بدعات سے بچیں۔

۴۔ فدک کا مسئلہ

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں جس کے نام سے یہ خطبہ مشہور ہوا فدک کے معاملے پر اپنا شرعی اور قانونی حق بیان کیا۔ بتایا کہ فدک انہیں رسول اللہ (ص) نے اپنی زندگی میں ہبہ کی تھی اور یہ ان کی ذاتی ملکیت ہے۔ فدک کی غصب شدگی کو ان کے اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی قرار دیا۔ مقصد امت کو یہ بتانا تھا کہ حقوق کی حفاظت دین کا ایک اہم اصول ہے۔

خطبۂ فدکیہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) نے فدک کو صرف ایک زمین یا مالی معاملے کے طور پر نہیں، بلکہ اسلامی خلافت اور حق کے مسئلے کے طور پر پیش کیا۔ آپ (س) نے یہ خطبہ اس وقت دیا جب آپ کو خلافت کے مرکز سے فدک کی زمین چھینے جانے پر اعتراض تھا۔ فدک کی زمین نبی اکرم (ص) نے خیبر کی فتح کے بعد اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (س) کو بطور عطیہ دی تھی۔ یہ زمین قرآن کی سورہ حشر کی آیت 7 کے مطابق اللہ اور رسول کا خاص حق تھی، کیونکہ یہ جنگ کے بغیر حاصل کی گئی تھی۔

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خطبہ فدکیہ میں فدک کے چھینے جانے پر امت کو ان کی کوتاہیوں کا احساس دلایا۔ آپ نے واضح کیا کہ فدک پر آپ کا حق نہ صرف رسول اللہ (ص) کی عطا کردہ ملکیت کی بنا پر ہے، بلکہ یہ خلافت اور امامت کے حق سے بھی جڑا ہوا ہے۔ آپ نے یہ بیان کیا کہ فدک کو آپ سے چھیننے کا مطلب نہ صرف ایک مالی حق کی خلاف ورزی ہے بلکہ اہل بیت (ع) کی قیادت کو تسلیم نہ کرنا بھی ہے۔

دلائل حق باغ فدک

حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا کہ یہ زمین نبی اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں مجھے عطا کی تھی، اور یہ میرا شرعی حق ہے۔ آپ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ فدک کو چھیننا اللہ کے احکام اور نبی اکرم (ص) کی سنت کے خلاف تھا۔ اس طرح آپ نے حکمرانوں کی سیاسی خودغرضی اور انحراف کو واضح کیا۔

’’پھر تم نے یہ گمان کر لیا کہ میرے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور میرے والد (ص) سے میرے لیے کوئی میراث نہیں ہے، اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے!! کیا اللہ نے تمہیں کوئی ایسی آیت دے دی ہے جس سے میرے والد (ص) کو خارج کر دیا ہو؟ یا تم یہ کہتے ہو کہ دو مختلف مذہبوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے؟ کیا میں اور میرے والد (ص) ایک ہی مذہب کے نہیں ہیں؟ یا تم قرآن کے خاص اور عام احکام کو میرے والد (ص) اور میرے چچا زاد بھائی (حضرت علی علیہ السلام) سے بہتر جانتے ہو؟!‘‘

آپ نے قرآن کی آیات کا حوالہ دے کر امت کو ان کے دین کی بنیادوں کی یاد دہانی کرائی۔ آپ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت 26 اور سورہ روم کی آیت 38 کے ذریعے یہ بیان کیا کہ اللہ نے اقرباء کو ان کا حق دینے کا حکم دیا ہے، لیکن امت نے اس حکم کو نظرانداز کیا۔ فدک کے مسئلے کو آپ نے خلافت اور ولایت کے حق سے جوڑا۔ آپ نے کہا کہ فدک کو چھیننا اہل بیت (ع) کی حقانیت کو چیلنج کرنے کی کوشش تھی۔

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ اہل بیت (ع) کے حقوق کو سمجھیں اور ان کی قیادت کو تسلیم کریں۔ آپ نے فدک کے مسئلے کو امت کے ایمان، شریعت پر عمل، اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ فدک کا مسئلہ خطبہ فدکیہ میں ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ ایک ایسی بنیاد تھی جس پر حضرت فاطمہ زہرا (س) نے امت کو ان کے انحراف، ناانصافی، اور حق تلفی کی طرف متوجہ کیا۔ آپ نے فدک کو حق و باطل کی کشمکش کا ایک مظہر قرار دیا، تاکہ امت نہ صرف اہل بیت (ع) کے حقوق بلکہ اسلام کے حقیقی اصولوں کو بھی سمجھ سکے۔

۵۔ سیاسی اور اجتماعی صورت حال پر تنقید

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں خلافت کے مسئلے پر امت کے رہنماؤں سے سوالات اٹھائے اور ان کے فیصلے کو غیر شرعی قرار دیا۔ حضرت علی (ع) کے حق خلافت کو واضح کیا اور انحراف کو اسلام کے اصولوں کے خلاف قرار دیا۔ امت کی موجودہ حالت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں رسول اللہ (ص) کی تعلیمات سے انحراف کے نقصانات سے آگاہ کیا۔ ’’اے یادگار لوگو، اور ملت کے ستونو، اور اسلام کے نگہبانو! یہ کیا بے حمایتی ہے میری مدد سے، اور کیا کمزوری ہے میری معاونت میں، اور کیا ظلم ہے میرے حق میں، اور کیا غفلت ہے میری مظلومیت کے بارے میں؟!‘‘

۶۔ اخلاقی اور معاشرتی پیغام

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں امت کو تقویٰ، عدل و انصاف، اور اتحاد کا درس دیا۔ دنیا پرستی، لالچ، اور منافقت کو امت کے زوال کی بنیادی وجوہات قرار دیا۔ لوگوں کو یاد دلایا کہ معاشرتی نظام کی بہتری کے لئے انصاف اور ایمان ضروری ہیں۔

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں مدبرانہ انداز میں موجودہ سیاسی اور اجتماعی صورتحال پر تنقید کی۔ آپ (س) نے حکمرانوں کی بے انصافی، دین کے اصولوں سے انحراف، اور امت کی غفلت کو نمایاں کرتے ہوئے امت کو ان کے اعمال کے نتائج سے خبردار کیا۔ یہ تنقید براہ راست حملے کی بجائے استدلال، تاریخی حوالوں، اور قرآنی آیات کے ذریعے کی گئی تاکہ نہ صرف غلطیوں کو اجاگر کیا جا سکے بلکہ امت کو دین کے حقیقی اصولوں کی طرف لوٹایا جا سکے۔

۷۔ سیاسی اور اجتماعی تنقید کے طریقے

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں فدک کے چھیننے کو حق تلفی اور اہل بیت (ع) کے مقام کو نظرانداز کرنے کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے اسے ایک علامت کے طور پر پیش کیا کہ کس طرح امت اہل بیت (ع) کے حقوق کو غصب کر رہی ہے، جو نہ صرف ایک خاندان کی حق تلفی تھی بلکہ اسلام کے حقیقی اصولوں سے انحراف بھی تھا۔

آپ (س) نے سورہ بنی اسرائیل اور دیگر آیات کا حوالہ دے کر حکمرانوں کے اقدامات کو اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ آپ نے واضح کیا کہ قرآن میں اقرباء کے حقوق کو دینے کا حکم ہے، لیکن ان حقوق کو چھین کر اللہ کی نافرمانی کی گئی۔ حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں امت کی خاموشی اور حکمرانوں کے اقدامات پر ان کی رضامندی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ آپ نے کہا کہ امت نے نبی اکرم (ص) کے اہل بیت (ع) کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان کی قیادت کو چھوڑ کر ظالموں کا ساتھ دیا۔

حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں حکمرانوں کی نااہلی، خودغرضی، اور دین کے اصولوں سے انحراف کو نمایاں کیا۔ آپ نے ان کے کردار کو کمزور ارادوں اور دنیاوی مفادات پر مبنی قرار دیا اور ان کے فیصلوں کو امت کے لئے نقصان دہ ٹھہرایا۔ حضرت فاطمہ (س) نے امت کو یاد دلایا کہ انہوں نے رسول اکرم (ص) کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی اور دین کی تعلیمات کو ترک کر دیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں یہ بھی کہا کہ ان کا طرزِ عمل نہ صرف دین کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ ان کے دنیاوی مفادات کو بھی برباد کر دے گا۔

آپ نے امت کو ان کے اعمال کے انجام سے آگاہ کیا۔ آپ نے کہا کہ ان کا انحراف اور اہل بیت (ع) کے حقوق سے انکار انہیں دنیا و آخرت میں نقصان پہنچائے گا، اور اس کے نتائج انہیں جلد ہی محسوس ہوں گے۔ حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں اپنی تنقید کو حکمت، علم، اور دین کے اصولوں کی بنیاد پر پیش کیا۔

آپ نے نہایت مدبرانہ انداز میں امت کی خامیوں کو نمایاں کیا، ان کی اصلاح کی کوشش کی، اور انہیں دین کے حقیقی اصولوں پر واپس آنے کی دعوت دی۔ یہ خطبہ امت کو ان کے اخلاقی، سیاسی، اور اجتماعی انحراف سے خبردار کرنے کی ایک گہری کوشش تھی۔

۸۔ امامت اور اہل بیت (ع) کا مقام

خطبہ فدکیہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اہل بیت (ع) کے علمی، روحانی اور اخلاقی مقام کو واضح کرتے ہوئے امامت کی الٰہی حیثیت کو اجاگر کیا۔ خطبہ فدکیہ میں آپ (س) نے بیان کیا کہ اہل بیت (ع) ہی امت کے حقیقی رہنما اور وارث ہیں، اور ان کی پیروی دین کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ خطبہ فدکیہ میں آپ (س) نے اہل بیت (ع) کو اللہ کی جانب سے منتخب کردہ ہستیاں قرار دیا، جو دین کے محافظ اور قرآن کی تفسیر کے ذمہ دار ہیں۔

خطبہ فدکیہ میں حضرت علی (ع) کی امامت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر امت ان کی قیادت تسلیم کرتی تو گمراہی سے محفوظ رہتی۔ خطبہ فدکیہ میں امت کی خیانت اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی پر سخت تنقید کی گئی۔ خطبہ فدکیہ کے مطابق، اہل بیت (ع) قرآن کے سچے محافظ اور دین کی اصل روشنی ہیں، اور ان کی اطاعت ہی امت کو ہدایت دے سکتی ہے۔ خطبہ فدکیہ میں امامت کو دین کی روح قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ اس نظام کو ترک کرنے سے امت زوال پذیر ہوگی۔

خطبہ فدکیہ نہ صرف اہل بیت (ع) کے حقوق کی بازیابی بلکہ امت کو ان کی اصل قیادت کی طرف لوٹانے کی دعوت تھا۔ مزید تفصیلات کے لئے، ’’خطبہ فدکیہ میں امامت اور اہل بیت (ع) کا مقام‘‘ کے عنوان سے موجود تفصیلی مضمون کا مطالعہ کریں۔

 

خاتمہ

خطبہ فدکیہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کا ایک طاقتور اظہار تھا، جس میں انہوں نے اپنے حقوق کا دفاع اور سیاسی و سماجی ناانصافیوں پر کھل کر احتجاج کیا۔ خطبہ فدکیہ میں نہ صرف فدک کے مسئلے کو اجاگر کیا گیا، بلکہ اس کے ذریعے اہل بیت (ع) کے حقوق اور امامت کی حقیقت کو بھی بیان کیا گیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے اپنی گہری بصیرت اور بلند اخلاقی اقدار کے ذریعے خطبہ فدکیہ کو ایک نمایاں پیغام بنایا۔ خطبہ فدکیہ نہ صرف تاریخ اسلام کی ایک اہم دستاویز ہے، بلکہ اس میں آج بھی انسانوں کے لئے انصاف، سچائی اور حق کے راستے پر چلنے کی تعلیم ہے۔

 

تألیف

برکت اللہ سینوی؛
کتاب خطبات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ترجمہ اقبال حیدر حیدری، قم ایران، موسسہ امام علی علیہ السلام (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین) سے اقتباس کرتے ہوئے۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے