علماء نے الٰہی رہبر، خاص طور پر ائمہ اور انبیاء کی عصمت کے بارے میں بے شمار دلائل پیش کئے ہیں۔ ان دلائل میں سے دو اہم دلائل کو یہاں ذکر کیا جائے گا۔ اگرچہ یہ دلائل انبیاء کی عصمت کے لئے بیان کیے گئے ہیں، لیکن یہی دلائل ائمہ کی عصمت کو بھی ثابت کرتے ہیں۔
کیونکہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق، امامت دراصل نبوت کا ہی تسلسل ہے۔ فرق صرف امامت اور نبوت کے منصب میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں، انبیاء اور ائمہ دونوں ہی الہیٰ رہبر ہیں اور ائمہ اور انبیاء کی عصمت کی عصمت ثابت ہے۔
مربی کی خصوصیات اور عصمت
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے مؤثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسی صفات پائی جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار، فصیح اور نپی تلی بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسی نفرت انگیز صفات اس میں پائی جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائیں تو ایسی صورت میں انبیاء کی بعثت کا مقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔
ایک مربی و الٰہی رہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول و فعل میں تضاد اور دو رنگی پائی جاتی ہو۔ اس صورت میں نہ صرف اس کی راہنمائیاں بےقدر اور بےکار ہوجائیں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس و بنیاد ہی متزلزل ہوجائے گی۔
شیعوں کے مشہور اور بزرگ عالم ’’سید مرتضی علم الہدیٰ‘‘ نے اس دلیل کو یوں بیان کیا ہے: اگر ہم کسی کے فعل کے بارے میں اطمینان نہیں رکھتے یعنی اگر ہمیں یہ شبہہ ہے کہ وہ کوئی گناہ انجام دیتا ہے تو ہم اطمینان قلب کے ساتھ اس کی بات پر دھیان نہیں دیتے۔ اور ایسے شخص کی باتیں ہم پر اثر نہیں کرسکتیں جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ خود اپنی بات پر عمل نہیں کرتا۔
جس طرح انبیاء کی عصمت کا نہ ہونا اور ان کا گناہ کرنا لوگوں کی نظر میں اسے کم عقل اور بےحیا ثابت کرتا ہے اور لوگوں کو اس سے دور کردیتا ہے اسی طرح الٰہی رہبر کے قول و فعل کی دو رنگی بھی لوگوں پر اس کے خلاف منفی اثر ڈالتی ہے۔
اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یا کوئی متاثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔ ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں، تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔
فرض کیجئے کہ کسی گروہ کا رہبر کرسی پر بیٹھ کر عدل و انصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریر کرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ہڑپ کرتا رہے تو اس کا عمل اس کی کہی ہوئی باتوں کو بےاثر بنا دے گا۔
خداوند عالم اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم و ایمان اور صبر و حوصلہ عطا کرتا ہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔
اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول و فعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے درخشاں رہنا چاہئے۔ کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کا تھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزارا ہو اور اس کی زندگی کا نامہ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال و کردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔
خداوند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی و رسول میں ایسے اسباب و صفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائیں۔ اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوں کے نبی یا رسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو۔ ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کا تاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دل عزیزی کو انتہائی کم کردے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلا ہے؟!
عصمت، اعتماد و ایمان کا لازمہ
تعلیم و تربیت کی شرائط میں سے ایک شرط، جو انبیاء یا الٰہی رہبر کے اہم مقاصد میں سے ہے، یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتا ہو کیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد و ایمان رکھتا ہے۔ ایک اقتصادی یا صحیح پروگرام کا پرجوش استقبال عوام اسی وقت کرتی ہے جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے۔
کیونکہ بہت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کا امکان بہت کم پایا جاتا ہے۔ اب اگر مذہبی پیشواؤں یا انبیاء کی عصمت کے بارے میں شک ہو اور یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور پر جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا۔ اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہمارا اطمینان ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے، ہاتھ نہ آئے گا۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ انبیاء کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا اور الٰہی رہبر جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائیں تاکہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو۔ بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً قتل، خیانت اور بےعفتی و بےحیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی شرم و عار نہ ہو؟ اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا؟!
اس کے علاوہ گناہ کرنے والے اگر جھوٹ نہ بولیں گے تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ وہ سچائی کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں اور جب لوگ ان کی برائیوں سے آگاہ ہوجائیں گے تو فطری طور پر ان کا وقار اور ان کی عزت خاک میں مل جائے گی اور لوگ ان سے نفرت کرنے لگیں گے۔ نتیجے میں دوبارہ وہی مشکل پیش آئے گی کہ مربی اپنے عملی گناہ کے سبب لوگوں میں اپنی عزت گنوادے گا۔
اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پانا ہے۔ جس کے ذریعے انسان گناہوں سے دور رہتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلے میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلے میں جو عموماً بہت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں، یہ قوت کام نہ کرے؟!
اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کر بھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کرے گی۔ کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنا دیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد و اطمینان نہیں رکھتے اور ”انْظُرْ إِلَى مَا قَال وَ لَا تَنْظُرْ إِلَى مَنْ قَالَ“ یعنی ”یہ دکھو کیا کہہ رہا ہے یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے“ کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے مؤثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدر و قیمت کو کہنے والے کی شخصیت اور اس کی طہارت و تقدس کے آئینے میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔
یہ بیان جس طرح رہبری و قیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتا ہے، اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم و ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گار رہا ہو اور اس نے ایک عمر جرائم و خیانت اور فحشا و فساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے، اس کی روح میں روحی و معنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی و پرہیزگار اور نیک انسان بھی ہوجائے،
چونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لہٰذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بدبینی کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ذہنی کیفیت خاص طور سے تعبدی مسائل میں جہاں عقلی استدلال اور تجزئے کی گنجائش نہیں ہوتی، زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربے پر نہیں ہوتی کہ الٰہی رہبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعے ثابت کرے، بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے
اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ الٰہی رہبر کے اوپر سو فیصدی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتہا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔
لوگوں کا اعتماد جذب کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنی زندگی کے تمام ادوار میں چاہے وہ رہبری سے پہلے کی زندگی ہو یا اس کے بعد والی زندگی ہر طرح کے گناہ لغزش اور آلودگی سے پاک و پاکیزہ ہو۔ کیوںکہ یہ بے دھڑک اور سو فیصدی اعتماد اسی وقت ممکن ہے جب اس شخص سے کبھی کوئی گناہ ہوتے ہوئے نہ دیکھا جائے۔ جو لوگ اپنی زندگی کا کچھ حصہ گناہ اور آلودگی میں بسر کرتے ہیں، اس کے بعد توبہ کرتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک حد تک لوگوں کا اعتماد جذب کرلیں لیکن سو فیصدی اعتماد تو بہرحال جذب نہیں کرسکتے۔
ساتھ ہی اس بات سے یہ نتیجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے کہ رہبروں کو عمدی گناہ کے ساتھ ساتھ سہواً اور بھول سے کئے گئے گناہ سے بھی محفوظ ہونا چاہئے، کیوںکہ عمدی گناہ اعتماد کو سلب کرلیتا ہے اور سہوی گناہ اگرچہ بعض موارد میں اعتماد سلب کرنے کا باعث نہیں ہوتا لیکن انسان کی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا اور اس کی شخصیت کو بری طرح مجروح کردیتا ہے اگر چہ سہوی گناہ کی سزا نہیں ہے اور انسان، دین و عقل کی نگاہ سے معذور سمجھا جاتا ہے لیکن رائے عامہ پر اس کا برا اثر پڑتا ہے اور لوگ ایسے شخص سے دور ہوجاتے۔
یہ دو دلیلیں نہ صرف انبیائے کرام کے لئے عصمت کی ضرورت کو ثابت کرتی ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ انبیاء کے جانشینوں کو بھی انبیاء کی طرح معصوم ہونا چاہئے، کیوںکہ امامت کا منصب اہل سنت کے نظرئے کے برخلاف کوئی حکومتی اور معمولی منصب نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اس مضمون ’’امت کا رہبر منتخب من اللہ یا منتخب من الناس‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ امامت کا منصب ایک الٰہی منصب ہے اور الٰہی رہبر پیغمبر کے ساتھ (نبوت اور وحی کے علاوہ ) تمام منصبوں میں شریک ہے۔
نتیجہ
انبیاء اور امام، دین کے محافظ اور قرآن کی تشریح کرنے والے ہوتے ہیں۔ انبیاء کی عصمت ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر پیغمبر خدا کی خصوصیت ہے۔ امام اور انبیاء کی عصمت کا مقام انتہائی اہم ہے کیونکہ امام مسلمانوں کا حاکم اور ان کی جان، مال اور ناموس کا نگہبان بھی ہے۔ امام اور انبیاء کی عصمت کی وجہ سے ان کی رسالت اور امامت محفوظ رہتی ہے، جس کا نتیجہ انسانیت کی ہدایت اور تکامل میں ظاہر ہوتا ہے۔
مضمون کا مآخذ
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چوبیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔