بلاشبہ، بڑی اور اہم ذمہ داریوں کی تکمیل کے لئے دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جتنی بڑی ذمہ داری ہوگی، اس کے متعلق شرائط بھی اتنی ہی سخت ہوں گی۔ ایک امام جماعت کے لئے مقرر کردہ شرائط، اس قاضی کے معیار کے برابر نہیں ہوسکتیں جو لوگوں کے جان و مال کا نگران ہوتا ہے۔ اسی طرح اولی الامر کی اطاعت بھی ایک اہم ذمہ داری ہے جو ان حالات میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔
پیغمبر اکرم ﷺ اور "اولی الامر” کا منصب اتنا بلند ہے، جو خدا کی جانب سے انسانوں کو تفویض کیا گیا ہیں۔ جو افراد اس عظیم منصب پر فائز ہوتے ہیں، انہیں خداوند عالم کی طرف سے لوگوں کی جان، مال اور عزت پر مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے، اور ان کی مرضی و فیصلے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مؤثر ہوتے ہیں۔
قرآن مجید پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں فرماتا ہے: "ٱلنَّبِىُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ”[1] یعنی پیغمبر ﷺ با ایمان لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ حق رکھتا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے حدیث غدیر کے خطبے میں خود کو اور حضرت علی (ع) کو لوگوں کی جانوں پر ان سے زیادہ اولیٰ اور صاحب اختیار بتایا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکمت و تدبیر ولا خدا ایسے عظیم اور اہم منصب کی باگ ڈور ایک غیر معصوم شخص کے ہاتھ میں دے دے۔ "ٱللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُۥ” اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔[2]
اولی الامر کی اطاعت واجب ہے
پیغمبر اکرم ﷺ اور اولی الامر (یہ وہی صاحبان امر ہیں جو پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد مسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ہیں۔ یا کم از کم مصداق اولی الامر ہیں)، قرآن کے صاف حکم کے مطابق واجب الاطاعت ہیں اور جس طرح ہم خدا کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح، ان کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر واجب ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا۟ ٱلرَّسُولَ وَأُو۟لِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ”[3] یعنی خدا کی اطاعت کرو، اس کے رسول کی اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔
یہ آیت بالکل واضح طور پر صاحبان امر کی بغیر قید و شرط، اطاعت کا حکم دیتی ہے۔ اگر یہ افراد سو فیصدی گناہ و خطا سے محفوظ ہوں گے جب ہی خداوند عالم کی طرف سے ان کی بغیر قید و شرط اطاعت کو واجب کیا جانا صحیح ہوگا۔ کیوںکہ اگر ہم ان کی عصمت کو تسلیم کرلیں تو معصوم کی بے قید و شرط اطاعت پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
لیکن اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ اولی الامر (یعنی صاحبان امر) کا وہ گروہ جن کی اطاعت ہم پر واجب کی گئی ہے۔ معصوم نہ ہوں بلکہ گناہ گار و خطا کار افراد ہوں تو ایسی صورت میں خداوند عالم یہ کیسے حکم دے گا کہ ہم ان لوگوں کی بلا قید و شرط پیروی کریں؟!
لہٰذا اگر ہم پیغمبر اکرم ﷺ کے جانشینوں کے لئے عصمت کو شرط نہ جانیں اور فرض کریں کہ کسی جانشین نے کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال و جائداد ضبط کئے جانے کا حکم دے دیا اور ہم جانتے ہوں کہ وہ شخص مظلوم یا بے گناہ تھا تو ایسی صورت میں ہمیں قرآن کے حکم کے مطابق اس جانشین کے فرمان پر عمل کرنا ہوگا یعنی اس مظلوم کو قتل یا بے گناہ کا مال ضبط کرنا ہوگا۔
لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ قرآن کریم نے اولی الامر کی اطاعت و پیروی کو خدا اور رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ قرار دیا ہے اور ان تینوں اطاعتوں کو بلا قید و شرط شمار کیا ہے تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اولی الامر پیغمبر خدا ﷺ کی ہی طرح گناہ و خطا سے معصوم ہیں۔ لہٰذا اب ہم یہ کہیں گے کہ کبھی کوئی معصوم اولی الامر کسی مظلوم کے قتل یا کسی بے گناہ کا مال ضبط کرنے کا حکم نہیں دیتا۔
اولی الامر کی اطاعت پر ایک سوال کا جواب
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اولی الامر کی اطاعت اسی صورت میں واجب ہے جب وہ شریعت اور خدا و رسول ﷺ کے صاف حکم کے مطابق عمل کرے۔ ورنہ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی اطاعت واجب نہیں ہے بلکہ ان کی مخالفت کرنی چاہئے۔
اس اعتراض کا جواب واضح ہے۔ کیوںکہ یہ بات اسی وقت عملی ہے جب اول یہ کہ تمام لوگ الٰہی احکام اور فروع دین سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں اور حرام و حلال کی تشخیص دے سکتے ہوں۔ دوسرا یہ کہ اس قدر جرات و شجاعت رکھتے ہوں کہ حاکم کے قہر و غضب سے خوف زدہ نہ ہوں جب ہی یہ ممکن ہے کہ وہ حاکم کا حکم شریعت سے مطابق ہونے کی صورت میں بجالائیں ورنہ دوسری صورت میں اس سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
لیکن افسوس کہ عام طور پر لوگ الٰہی احکام سے پوری آگاہی نہیں رکھتے کہ اولی الامر کے فرمان کو تشخیص دے سکیں بلکہ لوگوں کی اکثریت اس بات کی توقع رکھتی ہے کہ اولی الامر کے ذریعے الٰہی احکام سے آگاہ ہوں اسی طرح جو طاقت سب پر مسلط ہے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان بات نہیں ہے اور ہر ایک اس کے انجام کو برداشت نہیں کرسکتا۔
اس کے علاوہ اگر قوم کو ایسے اختیارات حاصل ہو جائیں تو لوگوں کے دلوں میں سرکشی کا جذبہ پیدا ہوگا اور نظام درہم برہم ہوجائے گا اور ہر شخص کسی نہ کسی بہانے سے اولی الامر کی اطاعت سے انکار کرے گا اور قیادت کی مشینری میں خلل پیدا ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ اولی الامر کا منصب ان لوگوں کے لئے ہے جن کی اطاعت بلا قید و شرط واجب کی گئی ہے اور یہ افراد معصوم شخصیتوں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہیں جن کا دامن ہر طرح کے گناہ، خطا، یا لغزش سے پاک ہے۔
امام کی عصمت پر آیت سے دلیل
قرآن کریم میں ایک دوسری آیت جو امامت سے متعلق گفتگو کرتی ہے پوری بلاغت کے ساتھ ظلم و ستم سے پرہیز کو امامت کے لئے شرط قرار دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
"وَإِذِ ٱبْتَلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ رَبُّهُۥ بِكَلِمَٰتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِى قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى ٱلظَّٰلِمِينَ”[4] یعنی جب ابراہیم (ع) کو ان کے پروردگار نے بعض امور کے لئے آزمایا اور وہ تمام امتحانوں میں کامیاب ہوئے تو ان سے ارشاد ہوا کہ میں نے تم کو لوگوں کا پیشوا و امام قرار دیا۔ (جناب ابراہیم (ع) نے) عرض کیا: میری ذریت اور میری اولاد کو بھی یہ منصب نصیب ہوگا تو جواب ملا کہ میرا عہد، ستم گاروں تک نہیں پہنچے گا۔
امامت، نبوت کی مانند الٰہی منصب ہے جو صرف صالح اور شائستہ افراد کو ہی ملتا ہے اس آیت میں جناب ابراہیم (ع) نے خدا سے یہ تقاضا کیا کہ میری اولاد کے حصے میں بھی یہ منصب آئے لیکن فوراً خداوند عالم کا خطاب ہوا کہ ظالم و ستمگر افراد تک یہ منصب نہیں پہنچے گا۔
مسلّم طور سے اس آیت میں ظالم سے مراد وہ افراد ہیں جو گناہوں سے آلودہ ہیں، کیوںکہ ہر طرح کا گناہ اپنے آپ پر ایک ظلم اور خدا کی بارگاہ میں نافرمانی کی جسارت ہے۔ اب یہ دیکھنا چاہئے کہ کون سے ظالم لوگ اس آیت کے حکم کے مطابق منصب قیادت و امامت سے محروم ہیں۔ اصولی طور سے جو شخصیتیں لوگوں کی پیشوائی اور حاکمیت کی باگ ڈور سنبھالتی ہیں وہ چار ہی طرح کی ہوتی ہیں:
1۔ یا وہ زندگی بھر ظالم رہے ہیں چاہے منصب حاصل کرنے سے پہلے یا اس کے بعد۔
2۔ یا انہوں نے پوری عمر میں کبھی گناہ نہیں کیا۔
3۔ حاکم ہونے سے پہلے ظالم و ستمگر تھے لیکن قیادت و پیشوائی حاصل کرنے کے بعد پاک صاف ہوگئے۔
4۔ یہ تیسری قسم کے برعکس ہے یعنی حکومت ملتے ہی ظلم و ستم شروع کردیا اس سے پہلے گناہ نہیں کرتے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جناب ابراہیم (ع) نے ان چار گروہوں میں سے کس کے لئے اس منصب کی آرزو کی تھی؟ یہ تو ہرگز سوچا نہیں جاسکتا کہ جناب ابراہیم (ع) نے پہلے اور چوتھے گروہ کے لئے اس عظیم منصب کی آرزو کی ہوگی۔ کیونکہ جو لوگ حاکمیت کے دوران ظالم و ستمگر میں کسی بھی صاحب عقل اور صاحب رائے رکھنے والے کی نظر میں اس منصب کے لائق نہیں ہوتے ہیں، چہ جائیکہ ابراہیم (ع) خلیل اللہ کی نگاہ میں۔
جنہوں نے خود کتنے سنگین امتحانات دینے، ساری زندگی پاکیزگی کے ساتھ بسر کرنے اور گناہ و ظلم سے مسلسل لڑنے کے بعد یہ عظیم منصب حاصل کیا ہے وہ ہرگز مذکورہ دو گروہوں کے لئے تمام انسانوں پر امامت کی آرزو نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ جناب ابراہیم (ع) کا مقصود دوسری دو قسم کی شخصیتیں تھیں۔ اس صورت میں جملہ "لَا يَنَالُ” کی شرط کے ذریعے تیسرا گروہ بھی نکل جاتا ہے اور منصب امامت کے لئے صرف وہی گروہ رہ جاتا ہے جس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔
نتیجہ
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اولی الامر کی اطاعت کو ہر حال میں واجب قرار دیا ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد صاحبِ امر وہی ہستی ہوسکتی ہے جو معصوم ہو اور جس کے تمام فیصلے رسولِ اکرم ﷺ کی طرح بے عیب اور کامل ہوں۔ تاریخِ اسلام میں، رسول اکرم ﷺ کے بعد، صرف آئمہ اطہار (ع) ہی وہ ہستیاں ہیں جو ان خصوصیات پر کامل طور پر پورا اترتی ہیں۔
حوالہ جات
[1]۔ سورة احزاب، آیت32۔
[2]۔ سورة الأنعام، آیت124۔
[3]۔ سورة نساء، آیت59۔
[4]۔ سورة بقرہ، آیت124۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص و ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، چھبیسویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش۔