- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 5 دقیقه
- 2022/02/23
- 0 نظر
نماز انسان کا خالق سے اور زکات انسان کا مخلوق سے رابطہ ھے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں زکات کا تذکرہ نماز کے ساتھ کیا گیا ھے ((عن اٴبی جعفر و اٴبی عبداللّٰہ علیھما السلام قالا: فرض اللّٰہ الزکاة مع الصّلاة))
انسان مدنی الطبع ھے۔ مال، مقام، علم و کمال میں سے جو کچھ بھی اس کے پاس ھے، سب معاشرتی روابط کی بدولت ھے کیونکہ جس معاشرے میں زندگی بسر کر رھا ھے وہ اس کی مادی و معنوی کمائی میں حقدار ھے، لہٰذا ضروری ھے کہ معاشرے کا قرض ادا کرے۔
اور اسلام کے زکات و صدقات سے متعلق قوانین پر عمل کے ذریعے، ھر فرد معاشرے کا قرض ادا کرسکتا ھے۔
اسلام میں زکات، صدقات و انفاقات کا سلسلہ اتنا وسیع ھے کہ اگر اس پر صحیح عمل هو تو معاشرے میں کوئی ضرورت مند باقی نہ رھے، جس کے نتیجے میں دنیا آباد هو جائے اور ضرورت مندوں و بھوکوں کی سرکشی و طغیان کے وجود سے مطمئن هو کر امن و امان کے تمدن کا گهوارہ بن جائے۔
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں: ((إن اللّٰہ عزوجل فرض للفقراء فی مال الاٴغنیاء ما یسعھم، و لوعلم اٴن ذلک لایسعھم لزادھم اٴنھم لم یؤتوا من قبل فریضة اللّٰہ عزّوجلّ لکن اٴوتوا من منع من منعھم حقّھم لا ممّا فرض اللّٰہ لھم ولواٴنّ الناس اٴدّواحقوقھم لکانوا عائشین بخیرٍ))
اور محتاجوں کو نہ ملنے کے مفسدہ کی اھمیت کے پیش نظر فرمایا <وَالَّذِیْنَ یکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنْفِقُوْنَھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اٴَلِیْمٍ>
عطا و بخشش کے اثر کے ذریعے معاشرے سے فقر کی بنیادوں کو نابود کرنے، انسان کے سخاوت و کرم سے آراستہ هونے اور فرد و معاشرے کی سعادت میں اس کے کردار کی اھمیت کے باعث رسول اکرم(ص) نے سخاوت مند مشرک کو امان عطا کر دی اور اسی سخاوت کی بدولت اسے اسلام کی ھدایت نصیب هوئی۔ روایت میں ھے کہ حضرت موسیٰ(ع) کو پروردگار عالم نے وحی فرمائی کہ سامری کو قتل نہ کرو کیونکہ وہ سخاوتمند ھے۔
فقراء کی دیکھ بھال کی اھمیت اتنی زیادہ ھے کہ کسی فقیر کو پیٹ بھر کر کھلانے، لباس پھنانے اور ایک خاندان کو سوال کی شرمندگی سے بچا کر ان کی آبرو کی حفاظت کرنے کو ستر بار حج بیت اللہ سے افضل قرار دیا گیا ھے ۔
صدقہ و احسان کا دائرہ اتنا زیادہ وسیع ھے کہ امام محمد باقر(ع) نے فرمایا: ((إن اللّٰہ تبارک و تعالیٰ یحّب إبراد الکبد الحرّی و من سقی کبداً حرّی من بھیمة وغیرھا اٴظلّہ اللّٰہ یوم لاظل إلّاظلہ))
اسلام میں صدقات کے آداب معین ھیں۔ ان میں سے ایک ادب، صدقے کو چھپا کر دینا ھے، تا کہ صدقہ لینے والے کی حیثیت و آبرو محفوظ رھے، جتنا بھی زیادہ هو اسے کم جانے کیونکہ صدقہ و احسان جتنا بھی زیادہ هو، لینے والا ان سے زیادہ بڑا ھے۔
اس پرا حسان نہ جتائے بلکہ اس کا شکر گذار هو کہ وہ اس کے مال و جان کی طھارت کا وسیلہ بنا ھے۔ اس کے سوال و درخواست کرنے سے پھلے عطا کرنے میں جلدی کرے، کہ امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں:”کسی کے سوال کرنے کے بعد جو تم نے اسے عطا کیا ھے وہ اس کی عزت و آبرو کے مقابلے میں ھے۔“ ، اپنے چھرے کو اس سے مخفی رکھے صدقہ لینے والے سے التماس دعا کھے اور جس ھاتھ میں صدقہ دے اس ھاتھ کا بوسہ لے اس لئے کہ بظاھر لینے والے کو صدقہ دے رھا ھے اور حقیقت میں لینے والا خدا ھے <اٴَلَمْ یَعْلَمُوْا اٴَنََّ اللّٰہَ ھُوَیَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِہ وَ یَاٴْخُذُ الصَّدَقَاتِ>
اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے اتنی توجہ کی کہ ایثار کا دروازہ کھول دیا اور ارشاد هوا: <وَیُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ اٴَنْفُسِہِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ> اور ایثار کو کمال کے اس درجے تک پھنچاتے هوئے کہ جس کے بعد کوئی اور درجہ قابل تصور نھیں ،فرمایا: <وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلیٰ حُبِّہ مِسْکِیْناً وَّیَتِیْماً وَّ اٴَسِیْراًة إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآءً وَّلَاشَکُوْرًا>
دین اسلام نے انفاق و صدقے کو فقط مال تک محدود نھیں کیا بلکہ کمزور کی مدد اور نابینا کی راھنمائی کو بھی صدقہ قرار دیا ھے۔ اعتبار و حیثیت کی بدولت کسی کی مشکلات حل کرنے کو جاہ و مقام کی زکات قرار دیا۔ فقط حوائج مادی پوری کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ فرمایا:<وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ> اور ھر وہ چیز انسان کا رزق ھے جس پر زندگی کا دارومدار هو اسی لئے فرمایا: ((و ممّا علمناھم یبثون))۔
جو کچھ بیان کیا گیا وہ زکات و صدقات سے متعلق مختصر طور پر اسلام کی حکمت کا تذکرہ تھا۔ اسلام نے اس مقدس قانون کے ذریعے اغنیاء کے نفوس کو بخل، حرص اور طمع کی کدورت اور زنگ سے بچایا اور ان کے اموال کو فقراء کے حقوق، جو ان کے خون کے مترادف ھیں، کی آلودگی سے پاک کیا ۔ اور اس طرح سے غنی و فقیر کے رشتے کو مستحکم کیا اور ان دو طبقات، جن سے معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل پاتا ھے، کے درمیان تمام فاصلے مٹا کر کدورت کو الفت میں تبدیل کر دیا اور ان قوانین و آداب کی برکت سے نہ صرف یہ کہ ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کیا بلکہ ان کی عزت نفس، آبرو، شرافت اور عظمتِ انسانی کی حفاظت فرمائی۔
غنی کو بخشش،کے بعد فقراء کا احسانمند اور شکر گذار هونے کا حکم، ایسی باران رحمت کی مانند ھے جس کے ذریعے خداوند تعالیٰ نے فقراء کی آتش حسد کو بجھایا، اموالِ اغنیاء کو، جن کا معاشرے کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنا ضروری ھے تاکہ امت کے معاشی نظام کی حفاظت هوتی رھے، زکات و صدقات کے حصار میں بیمہ کر دیا۔ امیرالمومنین(ع) فرماتے ھیں:((و حصّنوا اٴموالکم بالزکاة))
حواله جات
. وسائل الشیعہ،ج۹، ص۱۳، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب۱، حدیث۸۔”خدا نے زکوٰة کو نماز کے ساتھ واجب کیا ھے“۔
. وسائل ج۹ ص۱۰، کتاب الزکاة ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب اول ح۲۔خدا نے مالداروں کے مال میں فقراء کا اتنا حصہ معین کردیا ھے جس سے وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں اور اگر اس کے علم میں اس سے زیادہ ان کے لئے ضروری هو تاتو اس کو معین کر دیتا لیکن فقیروں کا یہ حال ان مالداروں کی وجہ سے جو ان کا مال روکیں ھیں نہ کہ خدا کی طرف سے اور اگر لوگ فقراء کے حقوق کو ادا کریں تو ان کی معشیت با خیر (اچھی) هوگی۔
. سورہ توبہ، آیت ۳۴۔”وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ھیں اور راہ خدا میں خرچ نھیں کرتے ان کو دردناک عذاب کی بشارت دیدو“۔
. وسائل الشیعہ ج۹ ص۱۷، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب۲، حدیث۴۔
. وسائل الشیعہ ج۹ ص۱۷، کتاب الزکاة، ابواب ماتجب فیہ الزکاة، باب۲، حدیث۶۔
. وسائل الشیعہ ج۹ ص۱۷، کتاب الزکاة، ابواب صدقہ، باب۲، حدیث۱۔
. وسائل الشیعہ ج۹ ص۴۰۹ کتاب الزکاة ابواب صدقہ باب۱۹ حدیث ۲۔(بے شک خدا وند تبارک تعالیٰ دوست رکھتا ھے کہ کسی مصیبت زدہ کو خوش کیا جائے اور جو شخص ایسے شخص کو سیراب کرے (مدد کرے)چھارپا جانور یا کسی اور چیز کو خدااس دن سایہ دے گا جس دن اس کے ساتھ کے علاوہ کوئی سایہ نہ هوگا،اس کا ساتھ دے گا جب اس کے علاوہ کوئی اور ساتھ دینے والا نہ هوگا۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۵۷، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب ۳۹، حدیث۳۔
. من لایحضرہ الفقیہ،ج ۲، ص۳۱، ح۱۲۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۳۳، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۲۹۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۵۱، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۳۷۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۵۶، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۳۹۔ حدیث۱۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۵۶، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۳۹۔حدیث۲۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۲۴، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۲۵۔
. وسائل الشیعہ، ج۹، ص۴۳۳، کتاب الزکوٰة، ابواب الصدقہ، باب۲۹۔
. سورہٴ توبہ، آیت ۱۰۴۔”کیا یہ نھیں جانتے کہ اللہ ھی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ھے اور زکوٰةوخیرات کو وصول کرتا ھے“۔
. سورہٴ حشر، آیت ۹۔”اور اپنے نفس پر دوسروں پر مقدم کرتے ھیں چاھے انھیں کتنی ھی ضرورت کیوں نہ هو“۔
. سورہٴ انسان، آیت ۸۔۹۔”یہ اس کی محبت میں مسکین ،یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ھیں۔ ھم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمھیں کھلاتے ھیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ھیں نہ شکریہ“۔
. سورہٴ بقرہ، آیت ۳۔”اس میں سے ھمارے راہ میں خرچ کرتے ھیں“۔
. بحار الانوار ، ج۲، ص۱۷۔”جو کچھ ھم نے سیکھا ھے اس میں سے نشر کرتے ھیں دوسروں تک“۔
. نھج البلاغہ، حکمت، شمارہ، ۱۴۶۔”زکوٰة کے ذریعہ اپنے مال کو محفوظ کرو“۔