مقالہ حاضر میں آئیڈیالوجی کی تعریف، آئیڈیالوجی کی ضرورت، اس کی اکائیوں اور آئیڈیالوجی کا فردی اور اجتماعی زندگی پر اثرات کے بارے میں مختصر بحث کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر بحث کی جائے گی کہ آئیڈیالوجی کو سمجھنے کے لئے کچھ مقدمات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ لہذا مقالہ کا آغاز، آئیڈیالوجی کے مقدمات سے شروع ہو کر دیگر ضروری مباحث پر مقال ختم ہوجائے گا۔
الف: آئیڈیالوجی کے بارے میں اہم سوالات
مکتب یا آئیڈیالوجی کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے، اور اس کی تعریف کیا ہوسکتی ہے؟ آیا مکتب محض خیالات کا ایک مجموعہ ہے یا یہ زندگی کے لئے ایک جامع راستہ اور اصولوں کا مجموعہ فراہم کرتا ہے؟ کیا آئیڈیالوجی محض انفرادی سوچ کی ترجمان ہے یا یہ اجتماعی زندگی کی سمت کا تعین کرتی ہے؟ انسان کو، چاہے وہ ایک فرد کی حیثیت سے ہو یا ایک معاشرتی رکن کی صورت میں، کسی آئیڈیالوجی کا پیروکار کیوں ہونا چاہیے؟ کیا آئیڈیالوجی انسان کے روحانی اور فکری سکون کے لئے ناگزیر ہے، یا یہ صرف اجتماعی نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے؟
کیا زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا ہے جو کسی مکتب یا نظریے سے بالکل آزاد ہو؟ اگر ایسا ہے، تو کیا ایک غیر نظریاتی زندگی ممکن ہے، اور وہ کیسی دکھائی دے سکتی ہے؟ ایک فرد یا معاشرے کے لئے کسی مکتب سے وابستہ ہونا کیوں ضروری ہے؟ کیا نظریہ حیات کے بغیر انسانی سوچ اور عمل بے مقصد اور غیر منظم ہو جاتے ہیں؟ کیا آئیڈیالوجی کا وجود انسان کے نظریاتی خلاء کو پر کرنے کے لئے ناگزیر ہے؟ یہ تمام سوالات اس مقدمہ کی بنیاد فراہم کرتے ہیں کہ آئیڈیالوجی ایک فرد اور معاشرے کی روحانی و فکری سمت متعین کرتی ہے۔۔
ب: آئیڈیالوجی کو سمجھنے کے کچھ مقدمات
آئیڈیالوجی کی ضرورت کو سمجھنے کے لئے انسانی فطرت، جبلت، عقل، اور ارادے کی پیچیدگیوں پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ چونکہ یہی چیزیں ہماری زندگی میں مصلحت و لذت کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی راہ میں بڑی ممد و معاون ہو سکتی ہیں۔ عمومی طور پر انسانی سرگرمیوں کو دو اہم اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
۱۔ التذاذی (لذت بخش) سرگرمیاں
یہ سرگرمیاں جبلتی اور فطری رجحانات کے تحت انجام پاتی ہیں، مثلاً کھانے، پینے، آرام کرنے، یا فوری لذت حاصل کرنے کے اعمال۔ ان میں انسان براہِ راست لذت یا تکلیف سے نجات کی بنیاد پر عمل کرتا ہے۔
۲۔ تدبیری سرگرمیاں
یہ سرگرمیاں عقل اور ارادے کی رہنمائی میں انجام دی جاتی ہیں، جن کا مقصد مستقبل کے مفاد یا کمال کا حصول ہوتا ہے۔ یہ سرگرمیاں فوری لذت سے زیادہ دوررس مصلحتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔
اہم نکات کی طرف اشارہ
۱۔ انسان کی عقل، مصلحت کو پہچانتی ہے جبکہ جبلت لذت کی طرف مائل ہوتی ہے۔
۲۔ ارادہ انسان کو مصلحت کے راستے پر عمل کرنے کے لئے تیار کرتا ہے، چاہے اس میں فوری تکلیف یا مشکلات کیوں نہ ہوں۔
۳۔ انسان کا فکری و تدبیری دائرہ حیوانات سے کہیں زیادہ وسیع ہے، کیونکہ وہ دور کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں منصوبہ بندی اور غور و فکر کر سکتا ہے۔
۴۔ انسان کی انفرادی عقل جزوی مسائل کے حل کے لئے کارآمد ہے، لیکن مجموعی اور اجتماعی زندگی کی سعادت کے لئے اس کی تنہا عقل کافی نہیں۔
ج: آئیڈیالوجی کی ضرورت
انسانی معاشرتی زندگی کے مسائل اور ذمہ داریوں کے لئے ایک مکتب فکر یا آئیڈیالوجی کی ضرورت ہوتی ہے، جو خیر و شر کے معیارات کو واضح کرے، انسان کو انفرادی اور اجتماعی سعادت کے راستے پر گامزن کرے، اس دنیا اور آخرت کی کامیابی کو ہم آہنگ کرے اور انسانی زندگی میں عقل و ارادے کا کردار حیاتیاتی جبلتوں کے مقابلے میں زیادہ بلند و ارفع ہے۔ انسانی فطرت، خواہشات، اور عقل کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک منظم آئیڈیالوجی اور رہنمائی ضروری ہے، تاکہ انسان اپنی ذات اور معاشرے کے لئے بہتر فیصلہ کر سکے اور حقیقی معنوں میں کمال حاصل کر سکے۔
البتہ کسی فرد کا کسی آئیڈیالوجی کے ساتھ وابستہ ہونا اسی وقت حقیقت کا روپ دھارتا ہے جس وقت یہ ایمان کی صورت اختیار کرے جب کہ ایمان ایک حقیقت ہے جو طاقت سے اور مصلحت کی خاطر پیدا نہیں ہو سکتا۔ طاقت کو منوایا جا سکتا ہے سر جھکایا جا سکتا ہے لیکن نظریہ حیات ایسی چیز نہیں ہے جس کے لئے سر جھکایا جائے بلکہ اسے قبول کرنا ہوتا ہے اس میں جذب ہونا پڑتا ہے اور نظریہ حیات ایمان کا متقاضی ہے۔
ایک مفید آئیڈیالوجی کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف تو ایک خاص تصور کائنات کا حامل ہو جو عقل کو قانع کر سکے اور فکر کی ضرورت کو پورا کر سکے اور دوسری طرف اپنے تصور کائنات سے منطقی طور پر ایسے مقاصد واضح کر سکے کہ جو تجاذب و کشش کے حامل ہوں تب ایمان کے دو بنیادی عنصر عشق و عقل باہم مل کر دنیا کی تعمیر کر سکیں گے۔
د: انسانی و گروہی آئیڈیالوجی
۱۔ انسانی آئیڈیالوجی
انسانی آئیڈیالوجی یعنی جس کا مخاطب بنی نوع انسان ہے۔ قبیلہ نسل قوم یا کوئی خاص طبقہ نہیں ہے۔ ایسی آئیڈیالوجی کسی ایک معین گروہ یا طبقہ کی نجات کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ نوع انسانی کی نجات کی دعویدار ہے۔ منصوبہ اور لائحہ عمل تمام انسانوں کے لئے پیش کرتی ہے۔ کسی مخصوص طبقے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ اپنے حامی اور مددگار کسی ایک معین حلقے یا گروہ سے حاصل نہیں کرتی بلکہ تمام گروہوں حلقوں ملتوں اور طبقوں کو دعوت دیتی ہے۔
۲۔ گروہی آئیڈیالوجی
گروہی آئیڈیالوجی کا مخاطب گروہ طبقہ یا ایک مخصوص حلقہ ہوتا ہے اور صرف اسی گروہ کی نجات یا برتری کی دعویدار ہوتی ہے چونکہ اس کے مخاطب صرف اسی گروہ کے افراد ہوتے ہیں۔ بنا برایں یہ جو بھی منصوبہ تجویز کرے گی اسی مخصوص گروہ کے لئے ہو گا۔ لہٰذا صرف اسی گروہ سے اپنے خاص مددگار و جانثار جذب کرتی ہے۔
انسانی اور گروہی آئیڈیالوجی کا نقطہ نظر
ان میں سے ہر ایک آئیڈیالوجی انسان کے بارے میں اپنا ایک خاص نظریہ رکھتی ہے۔ ہمہ گیر اور انسانی آئیڈیالوجی، انسان کے بارے میں ایک خاص معرفت کی حامل ہوتی ہے جیسے اسلامی نظریہ حیات ہے۔ انسان کے بارے میں اس کی خصوصی معرفت کو "فطرت” سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے انسان اپنی خلقت کے دوران تاریخی و اجتماعی عوامل کی تاثیر پر مقدم ہے۔ اس کے وجود کو ایک خاص پہلو عطا کیا گیا ہے۔
حیوان سے ممتاز کر کے اسے ھویت اور الگ حیثیت بخشنے والی اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق انسان اپنی خلقت میں ایک خاص شعور سے بہرہ ور ہے اور اسے ایک ایسا وجدان عطا کیا گیا ہے جو پوری نوع انسانی میں موجود ہے۔ یہی فطری وجدان اسے نوع کے تعین دعوت کی صلاحیت اور مخاطب واقع ہونے کی صلاحیت اور تحریک دیتا ہے۔
ایسے نظریات حیات نوع انسانی کے بارے میں مخصوص وجدان فطری کی بنیاد پر اپنی دعوت کا آغاز کرتے اور تحرک پیدا کرتے ہیں۔ بعض ان نظریات حیات کے بارے میں کچھ اور نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کے مطابق انسان بحیثیت نوع مخاطب قرار دینے اور دعوت دیئے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس میں تحرک پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
ھ: اسلامی آئیڈیالوجی کا مخاطب؛ بنی نوع بشریت
چونکہ انسان کا شعور، وجدان اور میلانات، ملی و قومی زندگی کے اجتماعی یا تاریخی عوامل کے زیر اثر طبقاتی صورت میں ابھرتے ہیں، خاص تاریخی و اجتماعی عوامل کو نظر انداز کرے تو انسان، نہ شعور رکھتا ہے نہ وجدان اور نہ "دعوت” دیئے جانے اور مخاطب قرار پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایسی فکر رکھنے والے متفکریں کا ہدف، طبقاتی مفادات یا قومی و نسلی احساسات یا پھر زیادہ سے زیادہ قومی ثقافت ہوتی ہے۔ بلاشک و شبہ اسلامی آئیڈیالوجی پہلی قسم میں سے ہے اور یہ فطرت انسان سے پھوٹتی ہے۔ اسی لئے اسلام کے مخاطب ’’الناس‘‘ یعنی سب لوگ ہیں۔ اسلام نے عملاً تمام گروہوں سے اپنے حامی و مددگار حاصل کئے ہیں حتیٰ جس طبقہ کے خلاف اسلام نے قیام کیا ہے اور اسے قرآن کی اصطلاح میں "ملأ و مترف” سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کا نام دیا گیا ہے۔
اسی میں سے اپنے حامی اور جانثار پیدا کر لئے ہیں۔ کسی طبقے میں سے خود اسی طبقے کے خلاف اپنے لئے جانثار بنا لینا کسی گروہ میں سے خود اسی گروہ کے مفادات کے خلاف اپنے حامی پیدا کر لینا یا پھر کسی شخص کو خود اس کے خلاف ابھارنا ایسے کام اسلام نے تاریخ میں بہت کئے ہیں اور اب بھی ایسا کرتا ہے۔
اسلام دین ہونے کی حیثیت سے انسانی وجود کی انتہائی گہرائی تک اپنا اثر کرتا ہے اور انسانی فطرت پر مبنی ہے۔ لہٰذا اسلام اس امر پر قادر ہے کہ کسی فرد کو اس کی اسی تباہی کے خلاف "ابھارے” اسے اپنے ہی خلاف قیام کرنے پر اکسائے اور اس طرح اس کے خلاف خود اسی کے ہاتھوں انقلاب برپا کر دے اسی کو "توبہ” کہتے ہیں۔
گروہی یا طبقاتی آئیڈیالوجی پر تنقید
گروہی اور طبقاتی نظریہ حیات صرف ایک فرد کو دوسرے فرد کے خلاف یا ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ کے خلاف ابھارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن کسی فرد کو اپنے ہی خلاف انقلاب برپا کر دینے پر آمادہ کرنے کی صلاحیت اس میں ہرگز نہیں ہوتی۔ اس نظریہ حیات میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہوتی کہ کسی فرد کو خود اسی کے اندر سے زیرنگرانی رکھے اور اسے کنٹرول کر سکے (اسی کو "مراقبہ” کہتے ہیں)۔
اسلام چونکہ ایک مذہب ہے اور آخری دین ہے لہٰذا کسی بھی دوسرے آسمانی دین سے بڑھ کر عدالت اجتماعی (Social Justice) قائم کرنے کے لئے آیا ہے۔ قرآن میں اسی نکتے کی طرف سورہ اعراف میں یوں اشارہ ہوا ہے: قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ[1]
ترجمہ: ’’کہہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے انصاف کا حکم دیا ہے اور تم سب ہر نماز کے وقت اپنا رخ سیدھا رکھا کرو اور خدا کو خالص دین کے ساتھ پکارو اس نے جس طرح تمہاری ابتدا کی ہے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جاؤ گے۔‘‘
اسلامی آئیڈیالوجی کا ہدف
اسی لئے اسلامی آئیڈیالوجی کا لازمی طور پر ہدف، محروم و مستضعف افراد کی نجات اور ظالم مستکبروں کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ لیکن اسلام کے مخاطب صرف محروم و مستضعف لوگ ہی نہیں ہیں۔ اسلام نے صرف اسی طبقے سے اپنے حامی پیدا نہیں کئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے مذہب کی قوت اور انسانی فطرت کو بنیاد بناتے ہوئے جن طبقات کے خلاف قیام کیا ان طبقات میں سے بھی اپنے لئے جانثار پیدا کئے ہیں۔
اسلام حیوانیت پر انسانیت، جہالت پر علم، ظلم پر عدالت، تبعیض پر مساوات، رذالت پر فضیلت، لاابالی پر تقویٰ اور شرک پر توحید کی کامیابی کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ اس کا ایک مظہر و مصداق ظالموں اور جابروں پر مستضعفین کی کامیابی ہے۔
سوال اول: خالص انسانی ثقافت کی ماہیت
سوال: آیا خالص انسانی ثقافت کی ماہیت قومی ملی یا طبقاتی ہوتی ہے؟ کیا موجودہ یا آئندہ وجود میں آنے والی ثقافت ایک ہی ہے یا متعدد ہیں؟
جواب: یہ مسئلہ بھی اسی سے مربوط ہے کہ آیا انسان کی نوعیت خالص اور ایک ہی فطرت کی مالک ہے اور یہی فطرت دراصل انسانی ثقافت کو بھی یکتائی عطا کرتی ہے یا ایک ایسی فطرت کا کہیں کوئی وجود نہیں ہے؟ بلکہ ثقافتیں تاریخی قومی اور جغرافیائی عوامل کی پیدائش ہوتی ہیں یا پھر طبقاتی مفادات کے رجحانات سے ثقافتیں وجود میں آتی ہیں؟ اسلام چونکہ اپنے تصور کائنات میں فطرت واحد کا قائل ہے لہٰذا ایک ہی نظریہ حیات اور ایک ہی ثقافت کا حامی ہے۔
واضح ہے کہ صرف اور صرف ایک انسانی نظریہ حیات نہ کہ گروہی نظریہ حیات ایک واحد نظریہ حیات نہ کہ تقسیم انسانی پر مبنی آئیڈیالوجی اور ایک فطری نظریہ نہ کہ مفاد پرستانہ نظریہ انسانی قدروں پر مبنی ہو سکتا ہے اور انسانی ماہیت کا مالک ہو سکتا ہے۔
سوال دوم: آئیڈیالوجی اور زمان و مکان میں مقید ہونا
سوال: آئیڈیالوجی زمان و مکان میں مقید ہوتی ہے؟ کیا انسان مجبور ہے کہ ہر زمان و مکان کے بدلنے اور شرائط کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص نظریہ حیات کا حامل ہو؟
کیا نظریہ حیات پر (علاقے و مقام کے اعتبار سے) اصول اختلاف اور (زمانے کے اعتبار سے) نسخ و تغیر حکم فرما ہے؟ یا جیسا کہ انسانی آئیڈیالوجی گروہ کے حوالے سے ایک ہی ہے متعدد نہیں ہیں اسی طرح زمان و مکان کے حوالے سے بھی یگانہ و یکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں گروہی اعتبار سے یہ "عام” ہے اور "خاص” نہیں ہے اور زمان و مکان کے حوالے سے "مطلق” ہے "نسبی” نہیں ہے۔
جواب: آئیڈیالوجی زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہونا یا نسبی ہونا اس امر پر پابند ہے کہ اس کا مطلوب انسان کی نوعی فطرت ہو اور اس کا ہدف بنی نوع انسان کی سعادت ہو یا گروہی مفادات اور قومی و طبقاتی جذبات اس کے پیش نظر ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آئیڈیالوجی وابستہ ہے اس چیز سے کہ اجتماعی تبدیلیوں کی ماہیت کے بارے میں ہم کیا نظریہ رکھتے ہیں۔ کیا جب معاشرہ بدلتا ہے ایک زمانہ گذار کر نئے دور کا آغازہوتا ہے تو اس وقت اس کی ماہیت بدل جاتی ہے۔
جس کے نتیجے میں اس پر پہلے قوانین سے مختلف لاگو ہو جاتے ہیں مثلاً جیسے پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر اس پر گیس کے قوانین لاگو ہو جاتے ہیں اور مائعات کے نہیں رہتے یا اجتماعی رشد و کمال اور تبدیلیاں ایسی نہیں ہیں بلکہ معاشرے کے ارتقاء کے بنیادی قوانین اور وہ مدار جس میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ثابت اور غیر متغیر ہیں۔
معاشرے میں مقام اور مرحلے کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ترقی کے قانون اور اصول میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ جیسا کہ زندگی کے لحاظ سے جانداروں میں رشد و کمال اور طول پیدا ہوتا رہتا ہے لیکن رشد و کمال کے قوانین ہمیشہ ثابت رہتے ہیں۔
اس مسئلے میں ایک اور نقطہ نظر کے مطابق نظریہ حیات زمان و مکان کے اعتبار سے مطلق ہو یا نسبی۔ یہ اس چیز سے مربوط ہے کہ کوئی نظریہ حیات کسی تصور کائنات پر مبنی ہے۔ وہ نظریہ کائنات سائنسی فلسفی یا مذہبی ہے؟ سائنسی نظریہ حیات چونکہ ایک ناپائیدارات پر مبنی ہے لہٰذا خود پائیدار نہیں ہو سکتا۔ البتہ فلسفی تصور کائنات اس کے برعکس ہے کہ جو "اصول اولیہ” اور ’’بدیہیات اولیہ‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے یا مذہبی تصور کائنات جو وحی و نبوت پر مبنی ہے۔
سوال سوم: آئیڈیالوجی میں تغیر و تبدل
کیا خود آئیڈیالوجی پر اصول تغیر حاکم ہے یا اصول ثبات حکم فرما ہے؟ گذشتہ بحث یہ تھی کہ آیا انسان کی آئیڈیالوجی مختلف زمان و مکان میں مختلف ہوتی ہے؟ یہ آئیڈیالوجی کے تبدیل یا منسوخ ہونے کا مسئلہ تھا لیکن اب ایک اور مسئلہ درپیش ہے اور وہ ایک آئیڈیالوجی کے تغیر و تبدل کا مسئلہ ہے۔
مسئلہ یوں ہے کہ آئیڈیالوجی اپنے محتویٰ کے اعتبار سے چاہے عام ہو یا خاص مطلق ہو یا نسبی خود اس اعتبار سے کہ یہ ایک مظہر (Phenomenon)کے اور مظاہر میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے اور وہ کمال کی طرف بڑھتے رہتے ہیں لہٰذا کیا آئیڈیالوجی دائمی طور پر تغیر و تبدل کا شکار رہتی ہے۔ کیا آئیڈیالوجی کی حقیقت پیدائش کے وقت کچھ اور ہوتی ہے کہ قائدین اور مفکرین کی طرف سے مسلسل اور ہمیشہ اس کی اصلاح ہوتی رہے اسے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا رہے اور اس پر تجدید نظر ہوتی رہے۔
جیسا کہ آج کے مادی نظریات کی حالت ہمارے سامنے ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ نظریات جلد ہی فرسودہ اور پرانے ہو جائیں گے اور اپنی صلاحیت کھو بیٹھیں گے؟ یا کیا ممکن ہے ایک آئیڈیالوجی اس قدر منظم ہو اور معاشرہ و انسان کی حرکت کے بنیادی خطوط پر یوں رواں دواں ہو کہ قائدین کی طرف سے اس کی اصلاح یا تجدید نظر کی ضرورت نہ پڑے اور نظریات بنانے والے مفکرین و قائدین کا کام صرف اس کی حدود و مفہوم کے اندر "اجتہاد” کرنا ہو اور اسی طرح نظریاتی ارتقاء اجتہاد میں ہو نہ کہ آئیڈیالوجی کے متن میں؟اس سوال کا جواب گذشتہ سوالوں کے جوابات کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اسلامی آئیڈیالوجی کے بارے میں مذکورہ بحث کے نتیجے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام انسانی فطرت کو ایک بنیادی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے، جو نہ صرف ثقافت کی یکتائی کا ضامن ہے بلکہ ایک مطلق اور غیر متغیر نظریہ حیات کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ زمان و مکان کی تبدیلی کے باوجود اسلامی آئیڈیالوجی انسانی نوعیت اور مقصد کی یکسانیت پر زور دیتی ہے۔ یہ نظریہ حیات انسان کے فطری تقاضوں اور اجتماعی ارتقاء کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ رہتا ہے۔
جہاں دیگر نظریات تغیر و تبدل کے باعث اپنی اساس کھو دیتے ہیں، اسلامی آئیڈیالوجی کا استحکام وحی پر مبنی تصور کائنات سے حاصل ہوتا ہے۔ اجتہاد کے ذریعے معاشرتی اور سائنسی ترقی کے ساتھ اس کے نفاذ میں ارتقاء ممکن ہے، مگر اس کے بنیادی اصول غیر متغیر رہتے ہیں، جو انسانیت کی دائمی فلاح کا ضامن ہیں۔
آئیڈیالوجی کے بارے میں مذکورہ مباحث کے تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آئیڈیالوجی انسانی زندگی میں ایک نہایت اہم اور ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف فرد کے لئے زندگی کی رہنمائی فراہم کرتی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر انسانی معاشروں کی سمت کا تعین بھی کرتی ہے۔ انسانی عقل، فطرت، اور جبلت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ایک منظم اور متوازن آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ایک مضبوط اور پائیدار آئیڈیالوجی زمان و مکان کے تغیرات کے باوجود اپنی بنیادوں میں مستحکم رہتی ہے اور وقت کے ساتھ نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اجتہادی روش کے ذریعے خود کو بہتر بناتی رہتی ہے۔ اس طرح کی آئیڈیالوجی نہ صرف انسانی زندگی کو انفرادی سطح پر کامیاب بناتی ہے بلکہ اجتماعی سطح پر امن، ترقی، اور خوشحالی کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے۔
خاتمہ
اسلامی آئیڈیالوجی اپنی فطری اور ہمہ گیر خصوصیات کی بنا پر انسان کی رہنمائی کا ایک کامل نمونہ پیش کرتی ہے۔ یہ صرف ایک مخصوص گروہ یا طبقے کی نجات کی دعویدار نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ایک جامع نظام فراہم کرتی ہے۔ اسلامی نظریہ حیات، عدل، مساوات، علم، اور اخلاقیات کو بنیاد بناتے ہوئے انسانی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ اعراف، آیت۲۹۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مطہری، مرتضی، انسان اور ایمان، تہران ایران، صدرا، ۱۴۰۲ش۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔