- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : برکت الله
- 2024/11/12
- 0 رائ
بعض افراد نہج البلاغہ کی اسناد پر تنقید کرتے ہیں۔ مخالفین نے اس کتاب کی سند کو بنیاد بنا کر اس کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی، تاہم علمائے اہل تشیع و اہل سنت اور اسلامی مفکرین نے اس کتاب کی اہمیت کو برقرار رکھا۔ سید رضی کی شخصیت، سچائی، اور ان کے معتبر منابع سے استفادہ، نہج البلاغہ کی صداقت کی گواہی دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے خطبات کی مقبولیت اور شہرت کو مؤرخین اور متعدد محققین نے تسلیم کیا ہے، جبکہ عصری تحقیق نے اس کے مصادر کو مزید واضح کیا۔ یہ کتاب اپنے بلند معیار، اس کی صداقت اور امام علی (ع) کی نسبت کو ثابت کرتا ہے۔
نہج البلاغہ کی اسناد پر ممکنہ اعتراضات کا خلاصہ اور اصلی اسباب
نہج البلاغہ میں موجود خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار کو سید رضی نے بغیر سند کے مرسل روایات[1] کے طور پر جمع کیا ہے۔ اس بات کو لے کر کچھ لوگوں نے شک و شبہات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ نہج البلاغہ کی سند معصومین (ع) تک نہیں پہنچتی۔ اس وجہ سے ان میں سے بعض لوگوں کو اس کے قابل اعتماد ہونے پر تردد ہوا۔
ان لوگوں میں اکثر وہ شامل ہیں جو نہج البلاغہ کی علمی اور فکری عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے بھی اس کی سند کو بنیاد بنا کر اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ نہج البلاغہ کا مواد امام علی (ع) کے خطبات، خطوط اور نصیحتوں پر مشتمل ہے، اور اس میں مختلف عقائد، اصول، اور اخلاقی تعلیمات بیان کی گئی ہیں، اس لیے اگر یہ کتاب مسلمانوں کے درمیان مقبول ہوئی تو مذہب شیعہ کی حقانیت اور امام علی (ع) کی برتری کو ثابت کرنے میں ایک مضبوط دلیل بن جائے گی۔
ان ناقدین کے مطابق، سید رضی نے نہج البلاغہ میں جو مواد جمع کیا ہے، وہ اگرچہ انتہائی اعلیٰ اور معیاری ہے، مگر اس کے سند نہ ہونے کی وجہ سے اسے بعض لوگ شک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کا مقصد نہج البلاغہ کے علمی مقام اور عظمت کو کم کرکے مسلمانوں کو اس کی اہمیت سے دور رکھنا ہے۔
تاہم، خوش قسمتی سے ایسے ہتھکنڈوں سے نہج البلاغہ کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے بزرگ علماء اور مفکرین نے بھی نہج البلاغہ کی فصاحت، بلاغت اور گہرے مفاہیم کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے اس کی تفسیر و تشریح پر مبنی کتابیں لکھیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہج البلاغہ کو ہر مکتبہ فکر میں احترام اور قبولیت حاصل ہے۔
نہج البلاغہ کی اسناد پر ممکنہ اعتراضات کے جوابات
نہج البلاغہ کے خلاف کیے جانے والے ہتھکنڈوں کے باوجود اسلامی مفکرین کے افکار اور سوچ پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اہل سنت اور اہل تشیع کے علماء نے نہج البلاغہ کے مقام و مرتبہ کو تسلیم کیا اور اس کی فصاحت و بلاغت کی تعریف و تمجید میں متعدد بیانات اور تحریریں پیش کیں۔
ان علماء اور دانشوروں نے نہ صرف اس کتاب کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کیا بلکہ اس کے اسرار و رموز کو بیان کرنے اور اس کی گہرائیوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف شرحیں بھی تحریر کیں۔ ان کی یہ کوششیں اس بات کی غماز ہیں کہ نہج البلاغہ کا مقام و مرتبہ کسی ایک گروہ تک محدود نہیں، بلکہ اسے عمومی طور پر اسلامی فکری ذخیرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
اس کے باوجود، ضروری ہے کہ نہج البلاغہ کی اسناد کے حوالے سے اٹھنے والے شکوک و شبہات کو دور کیا جائے، تاکہ اس عظیم کتاب کے نورانی چہرے سے تمام گرد و غبار ختم ہو جائے۔ ان شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے دو اہم نکات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ نہج البلاغہ کی اکثر تحریریں اپنے دلائل اور منطقی بنیادوں کے ساتھ خود کو ثابت کرتی ہیں۔ ان میں مذہبی عقائد، خدا کی صفات، اور اصول و فروع کے حوالے سے دلائل موجود ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کلام قابل اعتبار ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تاریخی شواہد اور دیگر مصادر کے حوالے سے بھی اسناد کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح نہج البلاغہ کی عظمت میں کمی لانے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔
نہج البلاغہ کی اسناد پر اعتراضات کا عقلی اور منطقی جواب
نہج البلاغہ کے اکثر خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار بلکہ سب کے سب بالاتفاق ایسے مضامین پر مشتمل ہیں، جو منطقی دلائل کے ہمراہ ہیں اور حقیقت میں قضايا قِيَاسَاتُهَا مَعَهَا کا عملی مصداق ہیں، ایسے مضامین جن کے دلائل خود انہی میں پوشیدہ ہیں۔ چنانچہ اسناد ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نہج البلاغہ کے اکثر موضوعات اعتقادات پر مشتمل ہیں مثلاً مبداء و معاد، خدا کی صفات، عظمت قرآن و رسول پر دلائل وغیرہ۔
جبکہ دوسرا حصہ پند و نصیحت، گزشتہ اقوام کی زندگی سے درس عبرت، اجتماعی زندگی، جہاد کے آداب وغیرہ جو منطقی مطالب اور دلائل پر مشتمل ہے، جیسا کہ عظیم فلسفیوں کے مقالات، ماہرین علوم کی تحریریں، شعراء کے اشعار وغیرہ سند کے بغیر مقبول اور قابل قبول ہیں۔ نہج البلاغہ کے حوالے سے بھی بطریق اولی سند کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کے دلائل بھی ان کے ساتھ ہیں بقول معروف ’’قضايا قِيَاسَاتُهَا مَعَهَا‘‘۔
نہج البلاغہ کا ایک مختصر حصہ فروعات تعبد یہ پر مشتمل ہے اور سند کی ضرورت صرف اس حصے کے لیے ہے۔ جو نہج البلاغہ کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔ بنابرایں نہج البلاغہ کی اسناد کے حوالے سے اعتراضات بے اثر ہیں۔
نہج البلاغہ کی اسناد پر اعتراضات کا تاریخی و نقلی جواب
نہج البلاغہ کی سند کو حجیت اور اعتبار کے معیار پر پرکھنے کے حوالے سے کوئی خاص مشکل درپیش نہیں ہے، کیونکہ حدیث و روایات کو قبول کرنے کے لیے اصولِ فقہ میں جس تحقیق کا اہتمام کیا گیا ہے، اس کا بنیادی معیار اعتماد و اطمینان ہے۔ یہ اطمینان مختلف طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ کبھی روایت میں قابل اعتماد راویوں کی موجودگی اسے قابل اعتبار بنا دیتی ہے اور کبھی کسی روایت کی کثرت، یعنی مختلف ذرائع سے متعدد روایات کا موجود ہونا، اس کی صحت پر اعتماد بڑھاتا ہے۔
اسی طرح کبھی معتبر اور قابل بھروسہ کتابوں میں روایت کا ذکر ہونا اس کی سچائی کا باعث بنتا ہے۔ بعض اوقات، کلام کی فصاحت و بلاغت، اس کے عمیق معانی و مفاہیم خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کسی عام انسان کا کلام نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ رسول اللہ (ص) یا امام معصوم (ع) جیسے عظیم المرتبت ہستیوں کا کلام ہی ہو سکتا ہے۔ یہ معیار نہج البلاغہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
نہج البلاغہ کی فکری گہرائی، اس کی زبردست بلاغت اور حکمت سے لبریز مضامین خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ کلام امام علی (ع) سے منسوب ہونا درست ہے۔ اس کی اسناد کی گواہی کلام کی بلندی اور معانی و مفاہیم کی سچائی خود بخود فراہم کرتی ہے۔
صحیفہ سجادیہ اور نہج البلاغہ کی اسناد میں منطقی مشابہت
اس معیار کی کتاب ’’صحیفہ سجادیہ‘‘ ہے، جس کی معتبر سند بھی موجود ہے، اور عالی ترین مطالب و معانی اور مفاہیم خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ مضامین امام سجاد علی بن الحسین (ع) کے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگر کوئی نہج البلاغہ کے معانی و مفاہیم میں غور و فکر کرے تو کہیں نہ کہیں وہ اعتراف ضرور کرے گا کہ یہ ایک عام انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔ یقیناً یہ کلام رسول خدا (ص) یا امام معصوم (ع) کی زبان سے ادا ہوا ہے۔
اہل تشیع اور اہل سنت کے بزرگ علماء نے نہج البلاغہ کی تعریف میں کہا ہے کہ یہ خالق کے کلام کے نیچے اور مخلوق کے کلام کے اوپر ہے؛ ’’آمد آفتاب خود دلیل آفتاب‘‘ ہے۔ نہج البلاغہ کے مضامین خود دلیل و سند ہیں کہ یہ امام معصوم (ع) سے صادر ہوئے ہیں اور یہ نسبت صرف حضرت علی (ع) کی طرف ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ کلام اسی امام کا ہے۔ کون یہ احتمال دے سکتا ہے کہ یہ ایک عام انسان یا مفکر نے بنا کر امام علی (ع) کی طرف نسبت دی ہے؟
کون ہے وہ شخص جو ایسا کر سکتا ہو کہ اس کا ایک حصہ بھی ایجاد وانشاء کر سکے؟ وہ خود اپنی طرف نسبت کیوں نہیں دیتا کہ ساری دنیا اس کے لیے تعریف و تمجید کرنے لگے۔
سید رضی کی شخصیت خود نہج البلاغہ کی سند
سید رضی کی شخصیت، سچائی اور مقام و منزلت کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے معتبر منابع دیکھے بغیر اس صراحت کے ساتھ امام علی (ع) کی جانب نسبت نہیں دی ہے کہ امیر المؤمنین (ع) سے روایت ہے۔ یہ امام عالی مقام (ع) کے خطبات مکتوبات اور کلمات قصار وغیرہ ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک مفکر صراحت کے ساتھ کسی کلام کو اپنے معصوم رہنما سے نسبت دے جبکہ اس کی کوئی معتبر سند بھی نہ رکھتا ہو؟
اس کتاب سے پہلے سید رضی نے مختلف کتابیں تالیف کی ہیں، ان کتابوں میں نہج البلاغہ کے خطبات، مکتوبات اور کلمات قصار ذ کر ہوئے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سید رضی سے پہلے بھی یہ کلام مفکرین، راویان حدیث اور عام لوگوں کے درمیان معروف و مشہور تھا۔ اسی شہرت کی بنا پر ہم اسناد متصل کو بیان کرنے سے بے نیاز ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے سید رضی سے پہلے بھی نہج البلاغہ کے خطبات عوام کے درمیان مشہور تھے؛ یعنی در حقیقت نہج البلاغہ ان ہی تمام خطبات کا دل آویز گلدستہ ہے۔
امام علی (ع) کے خطبوں کی موجودگی پر مزید تاریخی ثبوت
من جملہ مشہور مؤرخ “مسعودی‘‘ جو سید رضی سے ایک صدی پہلے تھے، اپنی کتاب “مروج الذہب‘‘ میں امام علی (ع) کے خطبات کے حوالے سے انہوں نے یوں تحریر کیا ہے:
وَالَّذِي حَفِظَ النَّاسُ عَنْهُ مِنْ خُطَبِهِ فِي سَائِرِ مَقَامَاتِهِ أَرْبَعُ مَاةٍ وَنَيْفٌ وَ ثَمَانُونَ خُطبَةً۔[2]
لوگوں نے مختلف مقامات پر امام کے خطبات کو محفوظ کیا، چار سو اسی (۴۸۰) سے بھی زیادہ ہیں۔
جبکہ (نہج البلاغہ) میں دو سو چالیس (۲۴۰) خطبات ہیں۔[3]
دوسرے معروف مؤرخ سبط ابن جوزی نے کتاب ’’تذکرۃ الخواص‘‘ میں سید مرتضی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: امام کے چار سو (۴۰۰) خطبات میرے پاس موجود ہیں۔
معروف مسلم مفکر جاحظ اپنی کتاب ’’البیان و التبیین‘‘ میں یوں تحریر کرتے ہیں:
امام علی (ع) کے خطبات ہمیشہ سے معروف و مشہور رہے ہیں۔[4]
ایک اور دانشور ابن واضح نے اپنی کتاب ’’مشاکل الناس لزمانھم‘‘[5] میں یوں تحریر کیا ہے:
لوگوں نے امام علی (ع) کے متعدد خطبات حفظ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے چار سو (۴۰۰) خطبات پڑھے، جنھیں لوگوں نے حفظ کیا اور وہی خطبات ہمارے درمیان رائج ہیں اور ان سے اپنی تقاریر میں استفادہ کرتے ہیں۔
نہج البلاغہ کی اسناد پر مستقل کتب
اس وقت چند کتابیں موجود ہیں، جن کو عصر حاضر کے فضلاء اور بزرگان دین نے نہج البلاغہ کی اسناد اور مصادر کے عنوان سے جمع کیا ہے، جو سید رضی سے قبل منظر عام پر آئی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے بہترین کتاب محقق السید عبد الزہراء الحسینی الخطیب کی تالیف کردہ کتاب ’’مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ‘‘ ہے۔ اس کتاب کی طرف رجوع کرنے والا اس حقیقت سے بخوبی آگاہی حاصل کرتا ہے کہ ان خطبات کو نقل کرنے والے سید رضی اکیلے نہیں ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ کے علاوہ ایک سو چودہ (۱۱۴) دوسری کتابیں بھی ذکر ہوئی ہیں، جن میں سے زیادہ کتابیں ان علماء کی ہیں، جو سید رضی سے قبل زندگی گزار چکے ہیں، البتہ زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے اہل ذوق اس کتاب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ کے خطبات کی وضاحت کرتے ہوئے پندرہ (۱۵) کتابوں کے نام لیے ہیں۔[6] جن سے سید رضی نے نہج البلاغہ کی تالیف میں استفادہ کیا ہے۔ اس طرح ان کتابوں کے ساتھ مندرجہ بالا کتابوں کے مجموعے کو مد نظر رکھتے ہوئے نہج البلاغہ کی اسناد میں شک وتردد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
خاتمہ
اگرچہ بعض لوگوں نے سند کے مسئلے کو بنیاد بنا کر نہج البلاغہ کے معتبر ہونے پر سوالات اٹھائے، لیکن علمائے اہل تشیع و اہل سنت نے نہج البلاغہ کی عظمت، فصاحت اور معنویت کو تسلیم کیا۔ سید رضی نے معتبر ذرائع سے استفادہ کیا، اور امام علی (ع) کے کلام کو اس عظیم مجموعے میں شامل کیا۔ قدیم مؤرخین نے بھی ان خطبات کی مقبولیت اور سند کی گواہی دی ہے۔ متعدد محققین اور کتابوں نے نہج البلاغہ کی سند کی تصدیق کی ہے، جو اس کتاب کو امام علی (ع) کے کلام کے طور پر قبولیت کا مستحق ثابت کرتی ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ روایت مرسل اس روایت کو کہا جاتا ہے جس میں راوی امام معصوم (ع) سے بغیر اس کے واسطوں کو ذکر کرے، نقل کرتا ہے یا مبہم اور مجمل صورت میں اصلی راوی کو نقل کرتا ہے جیسے عن رجل، عن بعض اصحابنا، عن عدة، عن اناس و… (محمدی، شرح اصول فقه، ج۳، ص۳۰۶)۔
[2]۔ مسعودی، مروج الذهب، ج۲، ص۴۱۹۔
[3]۔ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص۱۲۸۔
[4]۔ جاحظ، البیان، ج۱، ص۸۳۔
[5]۔ ابن واضح، مشاکل الناس لزمانھم، ص۱۵۔
[6]۔ وہ کتابیں جن سے سید رضی نے استفادہ کیا ہے حسب ذیل ہیں۔ ۲: البیان و التبیین از جاحظ۔ ۴: تاریخ طبری۔ ۳: الجمل از واقدی ۴۔ المغازی از سعید ابن یحیی اموی۔ ۵: المقامات از ابي جعفر اسکافی۔ ۶: المنتخب از مبرد ۷: حکایت ابی جعفر محمد ابن علی الباقر- ۸۔ حكاية ثعلب عن ابن الاعرابي۔ ۹: خبر ضرار الضبائی۔ ۱۰: رواية ابی جحیفہ ۱۱: روا یه کمیل این زیاد النخعی۔ ۱۲: رواية مسعدۃ بن صدقۃ لخطبۃ الاشباح من الصادق جعفر ابن محمد۔ ۱۳: روا یۃ نوف البکالی۔ ۱۴: ماذكره ابوعبيد القاسم بن سلام من غريب الحدیث ۱۵: ما وجد بخط هشام بن الکلبی۔
کتابیات
1۔ ابن واضح یعقوبى، احمد بن اسحاق، مشاکل الناس لزمانهم، بیروت لبنان، دار الکتب الجدید، ۱۹۸۰ء۔
2۔ ابنجوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، تہران ایران، مکتبة نينوی الحديثة، تاریخ ندارد۔
3۔ اَبوجُحَیْفه، وهب بن عبدالله بن مَسْلمه، رواية ابی جحیفہ، نقل از دانشنامه بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، مأخوذ از مقاله «ابوجحیفه»، ج۵، مقالہ نمبر ۲۰۳۲۔
4۔ اسکافی، محمد بن عبد الله، المقامات في فضائل أميرالمؤمنين علیه السلام، قم ایران، دار المجتبی، ۱۳۹۱ش۔
5۔ اموی، سعید ابن یحیی، المغازی، نقل از پژوهشگاه فرهنگ و معارف اسلامی، دائرة المعارف مؤلفان اسلامی، مأخوذ از مقاله «یحیی اموی»، ج۱، ص۸۳۶۔
6۔ البکالی، نوف، روا یۃ نوف البکالی، نقل از مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال في علم الرجال، نجف اشرف عراق، ناشر ندارد، تاریخ ندارد۔
7۔ جاحظ، عمرو بن بحر، البیان و التبیین، بیروت لبنان، دار و مکتبة الهلال، ۲۰۰۲ء۔
8۔ الضبائی، ضِرار بن ضَمْرَه، خبر ضرار الضبائی، نقل از خوئی، حبيب الله بن محمد، منہاج البراعۃ (خوئی)، تہران ایران، مکتبة الاسلامية، ۱۴۰۰، ج۲۱، ص۱۱۵۔
9۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت لبنان، مؤسسة عزالدين، ۱۴۱۳ھ۔
10۔ مبرد، محمد بن یزید، الکامل فی اللغة و الأدب (المنتخب)، المملکة العربیة السعودیة، وزارة الشؤون الإسلامیة و الأوقاف و الدعوة و الإرشاد، تاریخ ندارد۔
11۔ محمدی، علی، شرح اصول فقه، قم ایران، دارالفکر، ۱۳۸۷ش۔
12۔ مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، قم ایران، مؤسسة دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ۔
13۔ النخعی، کمیل بن زیاد، روا یه کمیل این زیاد، نقل از ابن حجر العسقلانی، الإصابة فی تمییز الصحابة، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۵ھ ۔۱۹۹۵ء، ج۵، ص۴۸۶۔
14۔ الهروي البغدادي، أبو عُبيد القاسم بن سلاّم بن عبد الله، غريب الحديث، المحقق د. محمد عبد المعيد خان، حيدر آباد- الدكن، مطبعة دائرة المعارف العثمانية، ١٣٨٤هـ – ١٩٦٤ء۔
15۔ هشام ابن الکلبی، ما وجد بخط هشام ابن الکلبی، نقل از پژوهشگاه فرهنگ و معارف اسلامی، دائرة المعارف مؤلفان اسلامی، ج۱، ص۸۲۶-۸۲۷۔
16۔ واقدی، محمد بن عمر، الجمل، تصحیح سیدمحمد صادق بحر العلوم، نجف عراق، چاپخانه حیدریه، ۱۳۶۸ھ۔۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مکارم شیرازی، ناصر اور دیگر علماء اور دانشور، کلام امیر المؤمنین علی علیہ السلام (نہج البلاغہ کی جدید، جامع شرح اور تفسیر)، ترجمہ سید شہنشاہ حسین نقوی (زیر نگرانی)، مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور، ۲۰۱۶ء، ج۱، ص۵۴ تا ص۵۷۔