انسان کے لئے معرفت خدا کے دو بنیادی اور آسان راستے

انسان کے لئے معرفت خدا کے دو بنیادی اور آسان راستے

کپی کردن لینک

معرفتِ خدا پر زمانہ قدیم سے گفتگو جاری ہے۔ اس حقیقت تک رسائی کے دو بنیادی راستے ہیں: ایک باطنی راستہ، جو انسان کی اپنی ذات کی گہرائیوں میں توحید کی صدا سننے سے مربوط ہے، اور دوسرا خارجی و ظاہری راستہ، جو کائنات اور مخلوقات میں غور و تدبر سے حاصل ہوتا ہے۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ انسان، خواہ کسی مذہبی تعلیم و تربیت سے محروم ہو، جب سخت مشکلات میں گھر جاتا ہے تو لاشعوری طور پر ایک برتر ہستی کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہ اندرونی رجحان، جو ایک فطری مذہبی حس ہے، انسانی روح کے ساتھ ہم آہنگ اور دائمی ہے، اور بحران کے لمحات میں زیادہ شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔

اس حقیقت تک پہنچنے کےلئے ہر فرد نے اپنی فہم کے مطابق ایک راہ منتخب کی، لیکن ان تمام راستوں میں سب سے زیادہ مؤثر اور قریب ترین دو راستے ہیں:

اندرونی راستہ: جو کہ نزدیک ترین راستہ ہے۔

بیرونی راستہ: جو کہ واضح ترین راستہ ہے۔

انسان اور معرفت خدا کا اندرونی راستہ

پہلے طریقے میں ہم اپنے وجود کی گہرائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ توحید کی آواز کو اپنی روح کے اندر سن سکیں۔ دوسرے طریقے میں ہم وسیع کائنات پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور تمام مخلوقات کی پیشانی پر، اور ہر ذرّے کے اندر، خداوندِ متعال کی نشانیاں پاتے ہیں۔

ان دو طریقوں میں سے ہر ایک کے بارے میں طویل بحثیں کی گئی ہیں، لیکن ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک مختصر بحث کے ذریعے ان دو طریقوں کو ایک اجمالی تحقیق کے ساتھ بیان کریں۔

۱۔ دانشور کہتے ہیں: اگر کسی بھی قوم و نسل سے متعلق ایک انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اسے کسی خاص قسم کی تعلیم و تربیت نہ دی جائے، حتیٰ کہ خدا پرستی اور مادّیت کی گفتگو سے بھی بے خبر رکھا جائے، تب بھی وہ خود بخود ایک ایسی قوی طاقت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو مادّی دنیا سے بالاتر ہے اور پوری کائنات پر حکمران ہے۔

وہ اپنے دل اور ضمیر کی عمیق گہرائیوں میں ایک لطیف، محبت آمیز اور متقن و محکم آواز کا احساس کرتا ہے، جو اسے علم و قدرت کے ایک عظیم مبدأ کی طرف بلاتی ہے، جسے ہم خدا کہتے ہیں۔ یہ بشر کی وہی پاک اور بے لاگ فطرت کی آواز ہے۔

۲۔ ممکن ہے کہ مادّی دنیا اور روزمرّہ زندگی کا شور و غل اور اس کی چمک دمک اُسے اپنی طرف مشغول کر لے، اور وہ عارضی طور پر اس آواز کو سننے سے غافل ہو جائے، لیکن جب وہ اپنے آپ کو مشکلات اور مصیبتوں کے مقابلے میں پاتا ہے، جیسے سیلاب، زلزلہ، طوفان یا کسی ناگوار موسم کے باعث ہوائی جہاز میں پیش آنے والی اضطراری کیفیت، تو اُس وقت وہ تمام مادّی وسائل سے مایوس ہو جاتا ہے۔

جب وہ اپنے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں پاتا، تو یہی آواز اس کی روح کے اندر سے ابھرتی ہے۔ وہ احساس کرتا ہے کہ اس کے وجود کے اندر سے ایک طاقت اُسے اپنی طرف بلا رہی ہے، ایک ایسی طاقت جو تمام طاقتوں سے برتر ہے، ایک پُراسرار طاقت جس کے سامنے تمام مشکلات سہل اور آسان محسوس ہوتی ہیں۔

آپ بہت کم ایسے لوگوں کو پائیں گے جو اپنی زندگی کے مشکل ترین حوادث میں اس قسم کی حالت پیدا نہ کریں اور بے اختیار خدا کو یاد نہ کریں۔ یہی بات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کتنا اس کے نزدیک ہیں اور وہ کس قدر ہمارے قریب ہے۔ وہ ہماری روح و جان میں موجود ہے۔ البتہ فطری آواز ہمیشہ انسان کی روح میں موجود ہوتی ہے، لیکن مذکورہ لمحات میں یہ آواز زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔

۳۔ تاریخ ہمیں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ ایسے صاحبانِ اقتدار، جو اپنے جاہ و جلال اور آرام و آسائش کے لمحات میں خدا کا نام لینے سے انکار کرتے تھے، جب اپنی قدرت کی بنیادوں کو متزلزل اور اپنی ہستی کے محلوں کو گرتا ہوا دیکھتے تھے، تو اس عظیم مبدأ (خدا) کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور فطری آواز کو واضح طور پر سنتے تھے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے: جب فرعون نے اپنے آپ کو پُر تلاطم لہروں کی لپیٹ میں پایا، اور یہ مشاہدہ کیا کہ وہی پانی جو اس کے ملک کی آبادی، زندگی اور مادّی طاقت کا سرچشمہ تھا، اب اس کےلئے موت کا پیغام بن چکا ہے، اور وہ چند چھوٹی لہروں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے، تو ہر طرف سے نا امیدی نے اسے گھیر لیا۔ تب اس نے فریاد بلند کی: "میں اس وقت اعتراف کرتا ہوں کہ موسیٰ کے خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔”

حقیقت میں یہ فریاد اس کی فطرت اور روح کی گہرائیوں سے بلند ہوئی تھی۔ نہ صرف فرعون بلکہ وہ تمام لوگ جو ایسے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، اس آواز کو واضح طور پر سنتے ہیں۔

۴۔ خود آپ بھی اگر اپنے دل کی گہرائیوں پر توجہ کریں گے تو ضرور تائید کریں گے کہ وہاں ایک نور چمکتا ہے جو آپ کو خدا کی طرف دعوت دیتا ہے۔ شاید زندگی میں آپ کو کئی بار ناقابلِ برداشت حوادث اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو، اور تمام مادّی وسائل ان مشکلات کو دور کرنے میں ناکام ہو گئے ہوں۔ ان لمحات میں آپ کے ذہن میں یہ حقیقت ضرور اجاگر ہوئی ہوگی کہ اس کائنات میں ایک بڑی اور قدرتمند طاقت موجود ہے جو اس مشکل کو آسانی سے حل کر سکتی ہے۔

ان ہی لمحات میں آپ کی امید، پروردگار کی محبت سے آمیختہ ہو کر، آپ کی روح و جان کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور یاس و نا امیدی کو دل سے دور کر دیتی ہے۔ جی ہاں! یہی وہ نزدیک ترین راستہ ہے، جس کے ذریعے ہر شخص اپنی روح کے اندر پروردگارِ عالم اور خالقِ کائنات کو پا سکتا ہے۔

ایک سوال

ممکن ہے آپ میں سے بعض افراد یہ سوال کریں کہ کیا یہ احتمال نہیں ہے کہ ہم ماحول اور اپنے والدین سے حاصل کی گئی تعلیمات کے زیرِ اثر، حساس مواقع پر ایسا سوچتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلاتے ہیں؟

ہم اس سوال کے بارے میں آپ کو حق بجانب جانتے ہیں، اور ہمارے پاس اس کا ایک دلچسپ جواب موجود ہے،

قرآنِ مجید فرماتا ہے: فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ[1]

"پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدے کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں، پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کر لیتے ہیں۔”

جواب

اس اعتراض کا جواب ایک مختصر سے مقدمے کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے۔ عادتیں اور رسم و رواج متغیّر اور ناپائیدار چیزیں ہیں۔ یعنی ہم کوئی ایسی عادت یا رسم نہیں دکھا سکتے جو پوری تاریخِ بشر کے دوران تمام اقوام میں یکساں صورت میں باقی رہی ہو۔ جو چیزیں آج کسی قوم میں عادت اور رواج سمجھی جاتی ہیں، وہ کل کو بدل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک قوم کے رسم و رواج دوسری قوموں میں ضروری نہیں کہ پائے جائیں۔

اس لئے اگر ہم مشاہدہ کریں کہ ایک چیز تمام قوموں اور ملتوں کے درمیان ہر زمان و مکان میں بلا استثنا موجود ہے، تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اس کی ایک فطری بنیاد ہے جو انسان کی روح و جان کی ساخت اور بناوٹ میں قرار پائی ہے۔

مثال کے طور پر، ایک ماں کی اپنے فرزند سے محبت کو کسی تلقین، تبلیغ، عادت یا رسم و رواج کا نتیجہ قطعاً نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ ہم کسی قوم و ملت اور کسی زمان و مکان میں یہ نہیں پاتے کہ ایک ماں اپنی اولاد سے محبت نہ کرتی ہو۔

البتہ ممکن ہے کہ کوئی ماں نفسیاتی بیماری کی وجہ سے اپنے فرزند کو نقصان پہنچا دے، یا کوئی باپ جاہلیت کے زمانے میں غلط اور خرافی تفکر کی بنا پر اپنی بیٹی کو زندہ دفن کر دے، لیکن یہ انتہائی شاذ و نادر اور استثنائی مواقع ہیں، جو جلد ہی ختم ہو کر اپنی اصلی حالت یعنی فرزند سے محبت پر لوٹ آتے ہیں۔

مذکورہ تمہید کے پیش نظر، ہم آج اور ماضی کے انسانوں کی خدا پرستی کے مسئلے پر نظر ڈالتے ہیں:

۱۔ عمرانیات کے ماہرین اور بڑے مؤرخین کی گواہی کے مطابق ہم کسی ایسے زمانے کو نہیں پاتے جس میں مذہب اور مذہبی ایمان لوگوں میں موجود نہ رہا ہو۔ بلکہ ہر عصر اور ہر زمانے میں دنیا کے ہر گوشے میں کسی نہ کسی صورت میں مذہب موجود تھا۔ یہ بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خدا پرستی کا سرچشمہ انسان کی روح و فطرت کی گہرائیوں میں موجود ہے، نہ کہ عادات، رسم و رواج اور تعلیم و تربیت کا نتیجہ۔ کیونکہ اگر یہ عادات، رسم و رواج اور تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہوتا، تو یہ عام اور لافانی نہیں ہوتا۔

یہاں تک کہ ایسے آثار و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماقبلِ تاریخ میں زندگی بسر کرنے والے لوگ بھی ایک قسم کے مذہب کے قائل تھے۔ (ماقبلِ تاریخ کا زمانہ وہ وقت ہے جب لکھائی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور انسان اپنی یادگار کے طور پر تحریر نہیں چھوڑ سکتا تھا)۔

البتہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ چونکہ ابتدائی لوگ خدا کو ایک مافوقِ طبیعی وجود کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے تھے، اس لئے اسے مادّی مخلوقات کے درمیان تلاش کرتے تھے اور اپنے لئے مادّی مخلوقات سے بت بناتے تھے۔ لیکن انسان نے عقل و فکر کی ترقی کے ساتھ رفتہ رفتہ حق کو پہچان لیا اور مادّی مخلوقات کے بنائے ہوئے بتوں کو چھوڑ کر طبیعی کائنات کے ماوراء خدا کی لا محدود قدرت سے آگاہ ہوا۔

۲۔ بعض ماہرینِ نفسیات نے صراحتاً کہا ہے کہ انسان کی روح میں چار پہلو یا چار اصلی حسّ پائے جاتے ہیں:

دانائی کی حس

یہ حس انسان کو علم و دانش حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور اس کی روح کو علم حاصل کرنے کا شوق دلاتی ہے، چاہے یہ علم اس کےلئے مادّی فائدہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔

بھلائی کی حس

یہ حس عالم بشریت میں اخلاقی اور انسانی مسائل کا سرچشمہ ہے۔

زیبائی کی حس

یہ حس، حقیقی معنی میں شعر، ادبیات اور فن و ہنر کا سرچشمہ ہے۔

مذہبی حس

یہ حس انسان کو معرفتِ خدا اور اس کے فرمان کی اطاعت کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی حس انسانی روح کی ایک بنیادی اور اصلی حس ہے، یعنی یہ حس نہ کبھی اس سے جدا تھی اور نہ کبھی جدا ہوگی۔

۳۔ اکثر مادہ پرست اور منکرینِ خدا نے بھی ایک طرح سے خدا کے وجود کا اعتراف کیا ہے، اگرچہ وہ خدا کے نام لینے سے پرہیز کرتے ہیں اور اسے "فطرت” یا دوسرے ناموں سے پکارتے ہیں، لیکن اس فطرت کےلئے ایسی صفتوں کے قائل ہوتے ہیں جو خدا کی صفات کے مشابہ ہیں۔

مثلاً کہتے ہیں: فطرت نے اگر انسان کو دو گردے دیے ہیں، یہ اس لئے ہے کہ اسے معلوم تھا کہ ممکن ہے ان دو گردوں میں سے ایک خراب ہو جائے تو دوسرا گردہ اس کی زندگی کو جاری رکھ سکے۔ وہ ایسی ہی تعبیرات بیان کرتے ہیں۔ کیا یہ بات ایک بے شعور فطرت کے ساتھ متناسب ہے؟ یا یہ کہ یہ ایک ایسے خداوندِ متعال کی طرف اشارہ ہے جو لامحدود علم و قدرت کا مالک ہے، اگرچہ انہوں نے اس کا نام "فطرت” رکھا ہے۔

خلاصہ کلام

اس بحث میں جو کچھ ہم نے بیان کیا، اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے:

خدا کی محبت ہماری روح میں ہمیشہ موجود رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ خدا کا ایمان ایک ایسا ابدی شعلہ ہے جو ہمارے قلب و روح کو گرم کرتا ہے۔ خدا کی معرفت حاصل کرنے کےلئے ہم مجبور نہیں کہ طویل راستے طے کریں، بلکہ ہمیں اپنے وجود کی گہرائیوں میں نظر ڈالنی چاہیے، وہاں خدا پر ایمان پائیں گے۔

قرآنِ مجید فرماتا ہے: وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ[2] ”اور ہم اس سے رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“

انسان اور معرفت خدا کا بیرونی راستہ

ہم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں، اس پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کائنات درہم برہم نہیں بلکہ منظم اور مربوط ہے۔ تمام موجودات ایک معیّن اصول و ضوابط کے تحت چل رہے ہیں۔ یہ نظم و ترتیب ایک ایسی منظم فوج کی مانند ہے جو مختلف یونٹوں میں تقسیم ہو کر ایک واضح مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے۔

مندرجہ ذیل نکات اس نظامِ کائنات کی وضاحت کرتے ہیں اور ہر قسم کے شبہے کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں:

۱۔ ہر زندہ مخلوق کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کےلئے مخصوص قوانین اور حالات کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ضروری ہے۔ مثلاً ایک درخت کے اگنے کےلئے زمین، مناسب آب و ہوا، دھوپ، اور ایک خاص درجہ حرارت درکار ہوتا ہے تاکہ بیج بویا جائے، غذا حاصل کرے، سانس لے، سبز ہو اور پروان چڑھے۔ ان تمام عوامل کے بغیر درخت کی نشو و نما ممکن نہیں۔ ان عوامل کو منتخب کرنے اور ان کی فراہمی کے پیچھے کسی عقل و دانش کا ہونا لازم ہے۔

۲۔ ہر مخلوق کا ایک مخصوص اثر ہوتا ہے۔ پانی ہو یا آگ، دونوں کا اثر معین اور جداگانہ ہوتا ہے، جو کبھی ان سے الگ نہیں ہوتا۔ یہ اثرات ہمیشہ ایک ثابت اور پائیدار قانون کے تابع ہوتے ہیں۔

۳۔ زندہ مخلوقات کے تمام اعضا آپس میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانی جسم، جو بذاتِ خود ایک مکمل نظام ہے، عمل کے وقت اس کے تمام اعضا شعوری اور لاشعوری طور پر ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اگر انسان کسی خطرے سے دوچار ہو، تو پورا جسم دفاع کےلئے متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ آپسی ربط اور تعاون، کائناتی نظم کی ایک اور دلیل ہے۔

۴۔ کائنات کا وسیع تر نظام بھی باہمی ہم آہنگی پر قائم ہے۔ صرف ایک زندہ مخلوق کے اعضا ہی نہیں، بلکہ تمام مخلوقات ایک دوسرے کی مدد کر رہی ہیں۔ مثلاً سورج کی روشنی، بادلوں کی بارش، ہوا کی روانی، اور زمین کی زرخیزی سب زندگی کی نمو کےلئے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کائنات ایک متعین اور باقاعدہ نظام کے تحت چل رہی ہے۔

خاتمہ

معرفتِ خدا کے دو بنیادی ذرائع ہیں: باطن کی فطری آواز (دل کی گواہی) اور کائنات کی نشانیاں (تخلیق میں خدا کے نشانات)۔ مصیبت میں انسان کا خود بخود خدا کو پکارنا، طاقتوروں کا مشکل وقت میں رب کو یاد کرنا، اور کائنات کا منظم نظام، یہ سب فطرتِ انسانی میں ودیعت کردہ ایمان کی تصدیق کرتے ہیں۔ خدا کی ذات ہم سے قریب تر ہے، بس ہمیں اپنے اندر اور اردگرد جھانکنا ہے۔ یہی معرفت دل کو روشنی اور سکون بخشتی ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ عنکبوت: ۶۵۔
[2]۔ ق: ۱۶۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مکارم شیرازی، ناصر، نوجوانوں کےلئے اصول عقائد کے پچاس سبق، ترجمہ: سید قلبی حسین رضوی، ص ۲۰-۱۲، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ۲۰۰۸م۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے