- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : sadiqabbas
- 2023/05/26
- 0 رائ
بچوں کو ان کے احترام کی یقین دہانی
اگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!
بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سبب
ایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ–(1)اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔
ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہریمیری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میںthird آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔
بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہ
والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔ (2)
تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہ
اگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔
بچوں سے محبت
اسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیںلیکن آج تک کسی ایک کو بھیایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!
ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے (3)
بچوں کے درمیان عدالت اور مساوات
نعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا(4)
بچوں کے درمیان عادلانہ قضاوت
ِ أَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ كَانَا يَكْتُبَانِ فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْحُسَيْنِ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ وَ قَالَ الْحُسَيْنُ لَا بَلْ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ فَقَالَا لِفَاطِمَةَ احْكُمِي بَيْنَنَا فَكَرِهَتْ فَاطِمَةُ أَنْ تُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَتْ لَهُمَا سَلَا أَبَاكُمَا فَسَأَلَاهُ فَكَرِهَ أَنْ يُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ سَلَا جَدَّكُمَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَالَ ص لَا أَحْكُمُ بَيْنَكُمَا حَتَّى أَسْأَلَ جَبْرَئِيلَ فَلَمَّا جَاءَ جَبْرَئِيلُ قَالَ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ إِسْرَافِيلَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ إِسْرَافِيلُ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَحْكُمَ بَيْنَهُمَا فَسَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى ذَلِكَ فَقَالَ تَعَالَى لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أُمَّهُمَا فَاطِمَةَ تَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ أَحْكُمُ [احْكُمْ] بَيْنَهُمَا يَا رَبِّ وَ كَانَتْ لَهَا قِلَادَةٌ فَقَالَتْ لَهُمَا أَنَا أَنْثُرُ بَيْنَكُمَا جَوَاهِرَ هَذِهِ الْقِلَادَةِ فَمَنْ أَخَذَ منهما [مِنْهَا] أَكْثَرَ فَخَطُّهُ أَحْسَنُ فَنَثَرَتْهَا وَ كَانَ جَبْرَئِيلُ وَقْتَئِذٍ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ فَأَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يُنَصِّفَ الْجَوَاهِرَ بَيْنَهُمَا كَيْلَا يَتَأَذَّى أَحَدُهُمَا فَفَعَلَ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ إِكْرَاماً لَهُمَا وَ تَعْظِيماً.
امام حسن اور امام حسین (ع)اپنے بچپن کے دوران اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مسابقہ کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں نے خوشخطی کا مقابلہ کیا اور ،پیغمبر7کے پاس لائے اور کہا :نانا جان ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ فرمایا: عزیزان میں لکھنا تو نہیں جانتا ،میں نے کبھی لکھا بھی نہیں نہ کسی مکتب میں پڑھا ہواہے اسے بابا علی (ع) کے پاس لے جاؤ وہ کاتب وحی بھی ہیں۔ دونوں نے فرمایا آپ کی بات بالکل درست ہیں ۔گئے اور بابا کے سامنے رکھ دئے۔علی (ع)نے فرمایا: دونوں لکھائی اچھی اور خوبصورت ہیں۔ بچوں نے کہا آپ یہ بتائیں کونسی لکھائی بہتر ہے ؟فرمایا اگر آپ دونوں مدرسہ جاتے اور اپنے استاد کو دکھاتے تو اچھا تھا ۔ لیکن آپ دونوں نے خود سیکھے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ جو فیصلہ وہ کرے گی ،ہمارے لئے قبول ہے ۔ حسنین (ع)نے کہا ٹھیک ہے ۔جب اپنی ماں سے اسی طرح سوال کیاتو فرمایا:دونوں کی لکھائی اچھی ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان فرق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ جو چیز نانا اور بابا نے میرے پاس بھیجی ہیں اس میں مجھے زیادہ دقّت کی ضرورت ہے۔حضرتزہرا (س)نے اپنی گردن بند کو کھولا جس میں سات دانے تھے۔ کہا : میںیہ دانے زمین پر گراتیہوں ،آپ دونوں میں سے جس نے بھی دانے زیادہ اٹھائے اسی کا خط بہتر ہوگا۔ جب گرائی تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھائے۔ نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئے۔ آخر جواب تو وہی نکلاجو بابا اور نانا نے دئے تھے۔اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ دانہ توڑ دے ۔ تو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑے بلکہ خدا نے دوبرابر کیا۔ اور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے۔
…….
حواله جات
____________________
1 ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔
2 ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.
3 ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.
4 میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.