- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/19
- 0 نظر
۲۶۔ ان اللہ لایستحی ان یضرب مثلاَما بعوضة فما فوقھا فاما الذین آمنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم و اما الذین کفروا فیقولون ماذا ارادا للہ بھذا مثلا یضل بہ کثیرا لاویھدی بہ کثیرا طوما یضل بہ الاافاسقین
ترجمہ:
۶۔ خدا وند عالم مچھر یا اس سے بڑھ کر کوئی مثال دینے میں جھجھکتا نہیں (اسلئے کہ) جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ پرودگار کی طرف سے حقیقت ہے لیکن جنہوں نے راہ کفر اختیار کی ہے(ا س موضوع کو بہانہ بنا کر۔) کہتے ہیں کہ خدا کا مقصد اس مثال سے کیا تھا خدا اس سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت کرتا ہے لیکن گمراہ صرف فاسقو کو کرتا ہے۔
تفسیر
کیا خدا بھی مثال دیتا ہے؟
مندرجہ میں سے پہلی آیت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس سے نہیں شرماتا کہ وہ اپنی موجودات میں سے جسے چاہے ظاہراً وہ چھوٹی سی ہو جیسے مچھر یا اس سے بھی بڑھ کر کسی چیز کی مثال دے (ان اللہ لایستحی ان یضرب مثلا بعوضة فما فوقھا) کیونکہ مثال کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقصد کے مطابق ہو بہ الفاظ دیگر مثال حقیقت کی تصویر کشی کا ذریعہ ہے۔
بعض اوقات کہنے والا مدعیان کی تحقیر اور ان کے کمزور پہلو کو بیان کر رہا ہو تو کسی کمزور چیز کو مثال کے لئے منتخب کرتا ہے مثلاً سورہ حج آیت ۷۳ میں ہے:
ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا و لو اجتمعو لہ و ان یسلبھم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہ ضعف الطالب و المطلوب
خدا کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے وہ سب مل کر اس کی کوشش کریں بلکہ اگر مکھی کوئی چیز ان سے چھین کر لے جائے تو وہ اس سے واپس لینے کی قدرت نہیں رکھتے۔ طلب کرنے والا اور جس سے طلب کی جارہی ہے دونوں کمزور ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ یہاں مکھی یا اس جیسی کسی چیز کی مثال سے بہتر کسی چیز کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی جو ان کی کمزوری اور ناتوانی کی تصویر کشی کرے۔
سورہ عنکبوت میں جب اس نے چاہا کہ بت پرستوں کے سہاروں کی کمزوری کی تصویر کشی کرے تو انہیں مکڑی سے تشبیہ دی جس نے اپنے لئے کمزور سے گھر کا انتخاب کیا ہے کیونکہ دنیا میں کمزور ترین گھر عنکبوت ہی کا ہے:
مثل الذی اتخذو من دون اللہ اولیاء کمثل العنکبوت اتخذت بیتا و ان اوھن البیوت لبیت العنکبوت لو کانوا یعلمون(عنکبوت ۴۱)
یہ بات مسلم ہے کہ اگر ان مواقع پر ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثال کے بجائے عالم خلقت کی بڑی سے بڑی چیزوں مثلاَ ستاروں اور وسیع آسمانوں کی مثال پیش کی جائے تو بہت ہی نامناسب ہوگا اور اصول فصاحت و بلاغت کے بلکل مطابق نہ ہوگا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں خداوند عالم فرماتا ہے کہ ہمیں انکار نہیں کہ ہم مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی مثال دیں تاکہ حقائق عقلی کو حسی مثالوں کے لباس میں پیش کیا جاسکے اور پھر انہیں بندوں کے اختیار میں دیں۔
خلاصہ یہ کہ غرض تو مقصد پہنچانا ہے مثالیں ایسی قبا کی مانند ہونا چاہئے جو قامت مطالب پر فٹ آسکیں۔
” فما فوقہا “ کا مقصود کیا ہے اس کی مفسرین نے دو قسم کی تفسیریں کی ہیں:
ایک گروہ کے مطابق اس سے مراد ”چھوٹے ہونے میں بڑھ کر“ ہے کیونکہ مثال چھوٹے ہونے کا بیان کر رہی ہے لہذا اس سے بڑھ کر یا اس سے اوپر ہونا بھی اسی نظر سے ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ ایک روپیہ کے لئے کیوں اتنی زحمت اٹھا رہے ہو تمہیں شرم نہیں آتی اور وہ جواب دے کہ میں تو اس سے اوپر کے لئے بھی تکلیف اٹھاتا ہوں یہاں تک کہ ایک آنے کے لئے بھی۔
بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد اوپر سے بڑے ہونے کے لحاظ سے ہے “یعنی خداوند عالم چھوٹی چیزوں کی مثالیں بھی دیتا ہے اور بڑی کی بھی، مقتضائے حال کے مطابق پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے۔
اس گفتگو کے بعد فرماتا ہے: رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ بات ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے (فاما الذین آمنوا فیعلمون انہ الحق من ربھم) وہ ایمان اور تقوی کی روشنی میں تعصب، عناد اور حق سے کینہ پروری سے دور ہیں اور وہ حق کے چہرے کو پوری طور سے دیکھ سکتے ہیں اور خدا کی دی ہوئی مثالوں کی منطق کا ادراک کرسکتے ہیں۔
لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کا اس مثال سے کیا مقصد تھا جو تفرقہ اور اختلاف کا سبب بن گئی ایک گروہ کی اس وجہ سے ہدایت کی ہے اور دوسرے کے گمراہ کیا ہے (و اما الذین کفروا فیقولون ماذا اراد اللہ بھٰذا مثلا یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا)
ان کے نزدیک یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مثالیں خدا کی طرف سے نہیں ہیں کیونکہ خدا کی طرف سے ہوتیں تو سب لوگ اسے قبول کرلیتے۔
مگر خدا انہیں ایک مختصر اور دوٹوک جواب دیتا کہ وہ اس کے ذریعہ صرف فاسقوں اور گنہگاروں کو جو حق کے دشمن ہیں گمراہ کرتا ہے (وما یضل بہ الا الفاسقین)
اس بناء پر یہ ساری گفتگوخدا کی ہے اور نور و ہدایت ہے البتہ چشم بینا کی ضرورت ہے جو استفتاء کرے اب اگر یہ دلوں کے اندھے مخالفت اور ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں تو اس میں ان کا اپنا ہی نقصان اور خسارہ ہے ورنہ ان آیات الہی میں کوئی نقص نہیں[71]
چند اہم نکات
(۱) حقائق کے بیان کرنے میں مثال کی اہمیت: حقائق واضح کرنے اور مطالب کو دل نشیں بنانے کےلئے مختلف مثالیں پیش کی جاتی ہیں اور ان کی اثر آفرینی ناقابل انکار ہے۔
بعض اوقات ایک مثال کا تذکرہ راستے کو اتنا کم کر دیتا ہے کہ زیادہ فلسفیانہ استدلال کی زحمت و تکلیف سے کہنے اور سننے والے دونوں کو نجات مل جاتی ہے۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیچیدہ علمی مطالب کو عمومی سطح تک عام اور وسیع کرنے کے لئے مناسب مثالوں سے استفادہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔
ڈھٹائی پسند اور حیلہ ساز لوگوں کو خاموش کرنے کے لئے مثال کی تاثیر کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بہر حال معقول کو محسوس سے تشبیہ دینا مسائل علمی عقلی کو سمجھانے کے لئے ایک مو ثر طریقہ ہے (البتہ جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں مثال مناسب ہونی چاہیے ورنہ گمراہ کن، اتنی ہی خطرناک اور مقصد سے دور کرنے والی ہوگی) اسی بناء پر قرآن میں ہمیں بہت سی مثالیں ملتی ہیں جن میں سے ہر ایک بہت پر کشش، بہت میٹھی اور بہت تاثیر والی ہے کیونکہ تمام انسانوں، ہر سطح کے افراد اور فکر و معلومات کے لحاظ سے ہر درجہ کے لوگوں کے لئے یہ کتاب انتہائی فصیح و بلیغ ہے۔[72]
(۲) مچھر کی مثال کیوں: بہانہ سازوں نے اگر چہ مچھر اور مکھی کے چھوٹے پن کو آیات قرآن سے استہزا اور اعتراضات کا ذریعہ بنا لیا ہے لیکن اگر ان میں انصاف، ادراک اور شعور ہوتا اور اس چھوٹے سے جانور کی ساخت اور بناوٹ پر غور وفکر کرتے تو سمجھ لیتے کہ اس کے بنانے میں باریک بینی اور عمدگی کی ایک دنیا صرف ہوئی ہے کہ جس سے عقل حیران رہ جاتی ہے۔ امام جعفر صادق اس چھوٹے سے حیوان کی خلقت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
خداوند عالم نے مچھر کی مثال دی ہے حالانکہ وہ جسامت کے لحاظ سے بہت چھوٹا ہے لیکن اس کے جسم میں وہ تمام آلات اور اعضاء و جوارح ہیں جو خشکی کے سب سے بڑے جانور کے جسم میں ہیں۔ یعنی ہاتھی اور اس کے علاوہ بھی اس کے دو عضو(سینگ اور پر) ہیں جو ہاتھی کے پاس نہیں ہیں۔ خداوند عالم یہ چاہتا ہے کہ مومنین کو اس مثال سے خلقت و آفرینش کی خوبی اور عمدگی بیان کرے، یہ ظاہرَا کمزور سا جانور جسے خدا نے ہاتھی کی طرح پیدا کیا ہے اس میں غور و فکر انسان کو پیدا کرنے والے کی عظمت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
خصوصا اس کی سونڈ جو ہاتھی کی سونڈ کی طرح ہے اندر سے خالی ہے اور وہ مخصوص قوت سے خون کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی یہ ٹونٹی دنیا کی عمدہ ترین سرنگ ہے اور اس کے اندرونی سوراخ بہت باریک ہے۔
خدا نے مچھر کو قوت جذب و دفع اور ہاضمے کی قوت دی ہے۔ اسی طرح اسے مناسب طور پر ہاتھ، پاؤں اور کان دیئے ہیں، اسے پر دیئے ہیں تاکہ غذا کی تلاش کرسکے اور پر اس تیزی سے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ آنکھ سے ان کی یہ حرکت دیکھی نہیں جاسکتی۔ یہ جانور اتنا حساس ہے کہ صرف کسی چیز کے اٹھنے سے خطرہ محسوس کر لیتا ہے اور بڑی تیزی سے اپنے آپ کو خطرے کی جگہ سے دور لے جاتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود بڑے سے بڑے جانور کو عاجز کردیتا ہے۔
حضرت امیر المومنین علی کا اس سلسلہ میں ایک عجیب وغریب خطبہ نہج البلاغہ میں ہے۔ آپ نے فرمایا:
اگر دنیا جہاں کے سب زندہ موجودات جمع ہوجائیں اور باہم مل کے کوشش کریں کہ ایک مچھر بنالیں تو وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتے بلکہ اس جاندار کی خلقت کے اسرار پر ان کی عقلیں دنگ رہ جائیں گی۔ ان کے قویٰ عاجز آجائیں گے اور وہ تھک کر انجام کو پہنچ جائیں گے۔ تلاش بسیار کے بعد با لاخر شکست خوردہ ہوکر اعتراف کریں گے کہ وہ مچھر کی خلقت کے معاملے میں عاجز ہیں اور اپنے عجز کا اقرار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ اسے نابود کرنے سے بھی عاجز ہے۔[73]
(۳) خدا کی طرف سے ہدایت وگمراہی:
گذشتہ آیت کا ظاہری مفہوم ممکن ہے یہ شک پیدا کرے کہ ہدایت اور گمراہی میں جبر کا پہلو ہے اور اس کا دارومدار خدا کی چاہت پر ہے جب کہ اس آیت کا آخری جملہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ہدایت و ضلالت کا سرچشمہ ا نسان کے اپنے اعمال ہیں۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ انسان کے اعمال و کردار کے ہمیشہ خاص نتائج و ثمرات ہوتے ہیں ان میں سے اگر عمل نیک ہو تو اس کا نتیجہ روشن ضمیری، توفیق الہی، خدا کی طرف سے ہدایت اور بہتر انجام کار ہے۔
سورہ انفال کی آیت ۲۹ اس بات کی گواہ ہے ارشاد ہے:
یا ایھا الذین امنوا ان تتقوااللہ یجعل لکم فرقاناَ
اے ایمان والو! اگر پرہیز گاری کو اپنالو تو خدا تمہیں تمیز حق و باطل اور روشن ضمیری عطا کرے گا۔
اور اگر انسان برے کاموں کے پیچھے لگا رہے تو اس کے دل کی تیرگی اور بڑھ جائے گی اور وہ گناہ کی طرف اس کا رجحان زیادہ ہو گا بلکہ بعض اوقات انکار خدا تک پہنچ جائے گا ۔
اس کی شاہد سورہ رو م کی آیت ۱۰ ہے جس میں فرمایا ہے:
ثم کان عاقبةالذین اساٰء والسوایٰ ان اکذب بٰایٰات اللہ وکانوا بھا یستھزؤن ہ
برے انجام دینے والے اس مقام پر جا پہنچے ہیں کہ اب آیات الہی کا مذاق اڑانے لگے ہیں۔
ایک اور آیت میں ہے۔
فلما زاغو ازاغ اللہ قلوبھم
جب حق سے پھر گئے تو خدا نے بھی ان کے دلوں کو پھیر دیا (صف ۵۰ )
زیر بحث آیت بھی اسی مفہوم کی شاہد ہے کہ جب وہ فرماتا ہے وما یضل بہ الاالفٰسقین یعنی خدا فاسقین ہی کو گمراہ کرتا ہے۔
اس بناء پر اچھے یا برے راستے کا انتخاب پہلے ہی سے خود ہمارے اختیار میں ہے اس حقیقت کو ہر شخص کا وجدان قبول کرتا ہے۔ انتخاب کے بعد اس کے قہری نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن کے مطابق ہدایت و ضلالت اچھے یا برے راستے کے جبری اختیار کا نام نہیں بلکہ قرآن کی متعدد آیات شہادت دیتی ہیں کہ ہدایت کے معنی ہیں سعادت کے وسائل فراہم ہونا اور ضلالت کا مطلب ہے مساعد حالات کا ختم ہو جانا، لیکن اس میں جبر کا پہلو نہیں ہے اور یہ اسباب کا فراہم کرنا (جس کا نام ہمارے نزدیک توفیق ہے) یا اسباب ختم کر دینا (جسے ہم سلب توفیق کہتے ہیں) انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔
اس حقیقت کو ہم ایک سادہ سی مثال سے پیش کر سکتے ہیں۔ جب انسان کسی گرنے کی جگہ یا کسی خطرناک بڑی نہر سے گذرتا ہے تو وہ جتنا اپنے آپ کو نہر سے قریب تر کرتا ہے اس کے پاؤں کی جگہ زیادہ پھسلنے والی ہوتی ہے ایسے میں گرنے کا احتمال زیادہ اور نجات پانے کا کم ہو جاتا ہے اور انسان جتنا اپنے آپ کو اس سے دور رکھے گا اس کے پاؤں رکھنے کی جگہ زیادہ محکم اور اطمینان بخش ہوگی اور گرنے کا احتمال کم ہوگا، ان میں سے ایک کا نام ہدایت اور دوسرے کا ضلالت ہے۔ اس گفتگو سے ان لوگوں کی بات کا جواب پورے طور پر واضح ہو جائے گا جو آیات ہدایت و ضلالت پر اعتراض کرتے ہیں۔
(۴) فاسقین: فاسقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو عبودیت و بندگی کے دستور سے پاؤں باہر نکالیں کیونکہ اصل لغت میں فسق گٹھلی کے کھجور سے باہر نکلنے کو کہتے ہیں۔ اس کے معنی کو وسعت دے کر ان لوگوں کے لئے یہ لفظ بولا گیا ہے جو خدا کی بندگی کی شاہراہ سے الگ ہو جاتے ہو جائیں۔
……………………
حواله جات
[71]. بعض مفسرین کہتے ہیں کہ جملہ یضل بہ کثیرا خدا کا کلام ہے نہ کہ کفار کا۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ان مثالوں کا کیا مقصد ہے ان کے جواب میں خدا فرماتا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو ہدایت کرے اور بہت سوں کو گمراہ کردے فاسقین کے علاوہ کوئی گمراہ نہیں ہوتا (لیکن پہلی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے)
[72]. انسانی زندگی میں مثال کی تاثیر کس قدر ہے اس سلسلے میں سورہ رعد کی ایہ ۱۷ میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جسے تفسیر نمونہ کی جلد دہم میں ماحظہ کیجیئے۔
[73]. نہج البلاغہ ۱۸۶.