اللہ تعالیٰ کا منتخب کردہ حاکم ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ یہ بات حدیث منزلت سے واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی (ع) کو پیغمبر اسلام (ص) کے بعد اپنا جانشین مقرر کیا۔ حدیث منزلت کے مطابق، حضرت علی (ع) کی منزلت پیغمبر اسلام (ص) کے بعد دوسری ہے۔ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کی ہر بات معلوم ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ کس کو بادشاہ بنانا چاہئے۔ اس لئے اللہ کا چنا ہوا بادشاہ ہمیشہ بہترین ہوتا ہے۔ یہی بات حدیث منزلت سے ثابت ہوتی ہے۔
یہاں پر ہم ایسے دلائل کا سہارا لیتے ہیں وہ دلائل جو قطعی طور سے پیغمبر (ص) سے صادر ہوئے اور اصطلاحاً متواتر ہیں اور ان میں جھوٹ اور جعل سازی کا ہرگز امکان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایسی روایتوں کا مفاد یہ ہے کہ ان کی دلالت کسی خاص فرد یا افراد کی امامت و پیشوائی کے بارے میں اتنی واضح اور روشن ہو کہ ہر قسم، کے شک و شبہ کو دلوں سے نکال دے اور کسی بھی انصاف پسند انسان کے لئے سوال اور تذبذب کی گنجائش باقی نہ رہے۔
حدیث منزلت اور امام علی (ع) کی بلافصل جانشینی
شام کی طرف سے آنے والے تاجروں کے ایک قافلے نے حجاز میں داخل ہونے کے بعد پیغمبر (ص) کو یہ خبر دی کہ روم کی فوج مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ کسی حادثے کے بارے میں تدبیر کرنا، اس کے مقابلے سے کئی گنا بہتر ہے۔ پیغمبر (ص) کی طرف سے مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں فوجی آمادگی کا اعلان ہوا۔ مدینہ منورہ میں سخت گرمی کا عالم تھا، پھل پکنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا، اس کے باوجود تیس ہزار شمشیرزن اسلام کی چھاؤنی میں جمع ہوگئے اور اس عظیم جہاد میں شرکت پر آمادگی کا اعلان کیا۔
چند مخبروں نے پیغمبر (ص) کو یہ خبر دی کہ مدینے کے منافق منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ آپ کی عدم موجودگی میں مدینے میں بغاوت کرکے خون کی ہولی کھیلیں گے۔ پیغمبر (ص) نے ہر قسم کے حادثے کی روک تھام کے لئے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انہیں حکم دیا کہ آپ مدینہ میں ہی رہیں اور میری واپسی تک حالات پر نظر رکھیں اور لوگوں کے دینی و دنیاوی مسائل کو حل کریں۔
جب منافقین حضرت علی (ع) کے مدینے میں رہنے کی خبر سے آگاہ ہوئے، تو انہیں اپنی سازشیں ناکام ہوتی نظر آئیں۔ وہ کسی اور تدبیر میں لگ گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے حضرت علی (ع) مدینے سے باہر چلے جائیں۔ لہٰذا انھوں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ حضرت علی (ع) اور پیغمبر (ص) کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی ہے اسی لئے پیغمبر نے علی (ع) کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کہ انہیں اس اسلامی جہاد میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی!
مدینے میں حضرت علی (ع) کے بارے میں جو روزِ پیدائش سے ہی پیغمبر (ص) کی مہر و محبت کے سائے میں پلے بڑھے اس قسم کی افواہ کا پھیلنا، حضرت علی (ع) اور آپ (ع) کے دوستوں کے لئے شدید تکلیف کا سبب بنا۔
لہٰذا حضرت علی (ع) اس افواہ کی تردید کے لئے مدینے سے باہر نکلے اور پیغمبر (ص) کی خدمت میں پہنچے، جو ابھی مدینہ منورہ سے چند میل کی دوری پر تھے۔ آپ (ع) نے پیغمبر (ص) کو اس واقعے سے آگاہ فرمایا۔ یہاں پر پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) کے تئیں اپنے بے پایاں جذبات اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی مقام و منزلت کو درج ذیل تاریخی جملے میں بیان فرمایا:
”أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلاّ أنّه لا نبيّ بعدي، إنّه لا ينبغي أن أذهب إلاّ و أنت خليفتي“
یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جیسی ہارون (ع) کو موسی (ع) سے تھی، بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔ میرے اس دنیا سے جانے کے بعد تم ہی میرے جانشین اور خلیفہ ہوگے۔
یہ حدیث جو اسلامی محدثین کی اصطلاح میں ”حدیث منزلت“ کے نام سے مشہور ہے متواتر اور قطعی احادیث میں سے ہے۔
مرحوم محدث بحرانی نے کتاب ”غایة المرام“ میں ان افراد کا نام ذکر کیا ہے، جنہوں نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور ایک دقیق و صحیح تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ اسلامی محدثین نے حدیث منزلت کو ۱۵۰ طریقوں سے نقل کیا ہے جن میں ۱۰۰ طریقے اہل سنت علماء و محدثین تک منتہیٰ ہوتے ہیں۔[1]
مرحوم شرف الدین عاملی نے بھی کتاب ”المراجعات“ میں حدیث منزلت کی اسناد کو اہل سنت محدثین کی کتابوں سے نقل کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ حدیث منزلت ان کی دس حدیث اور رجال کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔[2]
حدیث منزلت کے صحیح ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اہل سنّت کے صحاح لکھنے والے، ”بخاری“ اور ”مسلم“ نے بھی اسے اپنی صحاح میں ذکر کیا ہے۔[3] حدیث منزلت کے محکم ہونے کے بارے میں یہی کافی ہے کہ، امیرالمؤمنین کے دشمن ”سعد بن ابی وقاص“ نے اسے حضرت علی (ع) کی زندگی کی تین نمایاں فضیلتوں میں سے ایک فضیلت شمار کیا ہے۔
سعد بن ابی وقاص کی حسرت
جب معاویہ اپنے بیٹے ”یزید“ کے حق میں بیعت لینے کے لئے مکہ میں داخل ہوا، اور ”الندوة“ کے مقام پر ایک انجمن تشکیل دی جس میں اصحاب رسول (ص) میں سے بعض شخصیات جمع ہوئیں۔ معاویہ نے اپنی تقریر کا آغاز ہی حضرت علی (ع) کو برا بھلا کہنے سے کیا، اسے امید تھی، کہ ”سعد و وقاص“ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائے گا۔ لیکن سعد نے معاویہ کی طرف رخ کرکے کہا: جب بھی مجھے حضرت علی (ع) کی زندگی کے تین درخشان کارنامے یاد آتے ہیں تو صدق دل سے کہتا ہوں کہ کاش! ان تین فضیلتوں کا مالک میں ہوتا! اور یہ تین فضیلتیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ جس دن پیغمبر (ص) نے علی (ع) سے کہا:
”تمہیں مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہاون کو موسیٰ (ع) سے تھی، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا“
۲۔ (پیغمبر اکرم نے) جنگ خیبر کے دوران ایک دن فرمایا:
”کل میں علم ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جسے اللہ و رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ فاتح خیبر ہے۔ فرار کرنے والا نہیں ہے“۔ (اس کے بعد آنحضرت نے علم علی (ع) کے ہاتھ میں دے دیا)۔
۳۔ ”نجران“ کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے دن پیغمبر اکرم نے علی (ع)، فاطمہ (ع)، حسن (ع)، و حسین (ع) کو اپنے گرد جمع کیا اور فرمایا:
”پروردگارا! یہ میرے اہل بیت (ع) ہیں“۔[4]
لہٰذا پیغمبر (ص) سے حدیث منزلت کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر حدیث منزلت کی دلالت، مفہوم اور مقصد کے بارے میں قدرے غور کرنا چاہئے۔
حدیث منزلت کا تجزیہ و تحلیل
پہلے مرحلے میں جملہ ”إلاّ أنّه لا نبيّ بعدي“ قابل غور ہے کہ اصطلاح میں اسے ”جملہ استثنائی“ کہا جاتا ہے، معمولاً جب کسی کی شخصیت کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں مقام و منزلت میں ہم پلہ ہیں، تو اہل زبان اس جملے سے اس کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ دو افراد اجتماعی شان و منصب کے لحاظ سے آپس میں برابر ہیں۔ اگر ایسی تشبیہ کے بعد کسی منصب و مقام کو استثناء، قرار دیا جائے تو وہ اس امر کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ دو افراد اس استثناء شدہ منصب کے علاوہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم رتبہ ہیں۔
حدیث منزلت میں پیغمبر (ص) نے اپنی ذات سے حضرت علی (ع) کی نسبت کو حضرت ہارون (ع) کو، حضرت موسی (ع) سے نسبت کی مانند بیان فرمایا ہے، اور صرف ایک منصب کو استثناء قرار دیا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت ہارون (ع) پیغمبر تھے لیکن پیغمبر اسلام چونکہ خاتم النبیین ہیں لہٰذا آپ (ع) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔ اور علی (ع) پیغمبری کے مقام پر فائز نہیں ہوں گے۔
قرآن مجید اور منصب علی (ع)
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حضرت ہارون (ع) کے پاس وہ کون سے منصب تھے کہ حضرت علی (ع) (بجز نبوت کے کہ خود پیغمبر نے حدیث منزلت کے ضمن میں اسے استثناء قرار دیا ہے) ان کے مالک تھے۔
قرآن مجید کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالٰی سے حضرت ہارون کے لئے درج ذیل منصب چاہے تھے اور اللہ نے حضرت موسی (ع) کی درخواست منظور فرما کر وہ تمام منصب حضرت ہارون (ع) کو عطا فرمائے تھے:
۱۔ وزارت کا عہدہ: حضرت موسیٰ بن عمران (ع) نے اللہ تعالٰی سے درخواست کی کہ حضرت ہارون (ع) کو ان کا وزیر قرار دے:
’’وَ اجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي‘‘
پروردگارا! میرے اہل بیت میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر قرار دے دے۔[5]
2۔ تقویت و تائید: حضرت موسیٰ (ع) نے اللہ سے درخواست کی کہ ان کے بھائی حضرت ہارون (ع) کے ذریعے ان کی تائید و تقویت فرمائے:
’’اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي‘‘
اس سے میری پشت کو مضبوط کردے۔[6]
3۔ رسالت کا عہدہ: حضرت موسی (ع) بن عمران نے اللہ تعالٰی سے درخواست کی کہ حضرت ہارون (ع) کو امر رسالت میں ان کا شریک قرار دے:
وَ أَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي۔[7]
اسے امر رسالت میں میرا شریک قرار دے دے۔
قرآن مجید اشارہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرت موسی (ع) کی تمام درخواستوں کا مثبت جواب دے کر یہ تمام عہدے حضرت ہارون (ع) کو عطا کئے:
’’قَدْ أوتِيتَ سُؤْلَكَ يَامُوسى‘‘۔[8]
یعنی اے موسی (ع)! بیشک تمھارے تمام مطالبات تمہیں عطا کردیئے گئے اس کے علاوہ حضرت موسیٰ (ع) نے اپنی غیبت کے دوران بنی اسرائیل میں حضرت ہارون (ع) کو اپنا جانشین مقرر کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَ قَالَ موسى لأخيهِ هرونَ اخلُفني في قَومي‘‘۔[9]
یعنی، موسی نے ہارون سے کہا: تم قوم میں میرے خلیفہ و جانشین ہو۔
مذکورہ آیات کا مطالعہ کرنے پر ہارون (ع) کے منصب اور عہدے بخوبی معلوم ہوتے ہیں اور اس حدیث کی رو سے مقام نبوت کے علاوہ یہ سب منصب اور عہدے حضرت علی (ع) کے لئے ثابت ہونے چاہئیں۔
اس صورت میں حضرت علی (ع)، امام، وزیر، ناصر و مددگار اور رسول اللہ (ص) کے خلیفہ تھے اور پیغمبر کی عدم موجودگی میں لوگوں کی رہبری و قیادت کے عہدہ دار تھے۔
علی (ع) کی جانشینی پر شبہے کا جواب
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ حضرت علی (ع) کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی انہیں ایام سے مخصوص تھی جب آپ مدینے سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حضرت علی (ع) پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد آپ کے مطلق خلیفہ اور جانشین تھے۔
لیکن پیغمبر (ص) کی زندگی کا ایک سرسری مطالعہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے۔
۱:۔ حضرت علی (ع) پہلے اور آخری شخص نہیں تھے۔ جنہیں پیغمبر اکرم نے اپنی عدم موجودگی میں مدینے میں اپنا جانشین قرار دیا ہو۔ بلکہ پیغمبر اکرم مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران، جب کبھی مدینے سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو کسی نہ کسی شخص کو اپنی جگہ پر جانشین مقرر کرکے ذمے داریاں اسے سونپتے تھے۔
اگر پیغمبر (ص) کے اس جملے کے ذریعے امام (ع) کو ہارون سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف آپ (ع) کے مدینے میں عدم موجودگی کے دوران امام (ع) کی جانشینی تھا، تو پیغمبر اسلام (ص) نے، دیگر جانشینوں کے لئے حدیث منزلت جیسا جملہ کیوں نہیں بیان فرمایا، جبکہ وہ لوگ بھی جب پیغمبر (ص) جہاد یا حجِ خانہ کعبہ کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے، آپ کے جانشین ہوا کرتے تھے؟ پھر اس فرق کا سبب کیا تھا؟
۲:۔ ایک مختصر مدت کے لئے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر کرنے کی صورت میں پیغمبر حدیث منزلت جیسا تفصیلی جملہ بیان کرکے منصب رسالت کو اس سے مستثنیٰ قرار دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی!
اس کے علاوہ اس قسم کی جانشینی کسی خاص فخر کا سبب نہ ہوتی اور اگر فرض کرلیں کہ یہ ایک اعزاز تھا تو اس صورت میں یہ چیز حضرت علی (ع) کے خاص فضائل میں شمار نہیں ہوتی کہ برسوں کے بعد سعد بن ابی قاص اس حدیث منزلت جیسی فضیلت کو سیکڑوں سرخ اونٹوں کے عوض خریدنے کی تمنا کرتا! اور خود حضرت علی (ع) کے انتہائی اہم فضائل فاتح خیبر اور نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں نفس پیغمبر اور آپ کے اہل بیت (ع) کے مقام تک پہنچنے کی آرزو کرتا!!
۳:۔ اگر پیغمبر (ص) نے صرف جنگ تبوک کے لئے جانے کے موقع پر حدیث منزلت کے تاریخی جملے کو بیان فرمایا ہوتا تو کسی کے ذہن میں ایسا سوال پیدا ہونا بجا تھا۔
دیگر مواقع پر حدیث منزلت جیسے جملے
پیغمبر اسلام نے امام علی (ع) کے بارے میں حدیث منزلت کے اہم جملے دیگر مواقع پر بھی بیان فرمائے ہیں۔ اور تاریخ اور حدیث کے صفحات میں یہ واقعات ثبت و ضبط ہوچکے ہیں۔ ہم یہاں پر حدیث منزلت کے صرف دو نمونوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ’’وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَرُونَ وَزِيراً‘‘
ھم نے موسی کے بھائی ہارون کو ان کا ویزر قرار دیا“۔[10]
۱۔ ایک دن ابوبکر، عمر اور ابو عبیدة بن جراح پیغمبر (ص) کی خدمت میں حاضر تھے۔ پیغمبر (ص) نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی (ع) کے شانے پر رکھ کر فرمایا:
”يا عليّ أنت أوّل المؤمنين إيماناً و أوّلهم إسلاماً، و أنت منّي بمنزلة هارون من موسى“۔
”اے علی! تم وہ پہلے شخص ہو جو مجھ پر ایمان لائے اور دین اسلام کو قبول کیا اور تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی“
2۔ ہجرت کے ابتدائی ایام میں پیغمبر (ص) نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا صرف حضرت علی (ع) کو کسی کا بھائی قرار نہ دیا۔ حضرت علی (ع) کی آنکھوں میں آنسو آگئے، آپ (ع) نے پیغمبر سے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے کہ آپ نے ہر فرد کے لئے ایک بھائی معین فرمایا، اور میرے لئے کسی کا انتخاب نہیں کیا؟ پیغمبر (ص) نے یہاں پر صحابیوں کے مجمع میں اپنا وہی حدیث منزلت کا تاریخی جملہ دہرایا:
”و الّذي بَعثَني بالحقِّ، ما أخَّرْتُكَ إلاّ لِنَفْسِي، و أنتَ مِنّي بمنزلةِ هارونَ مِن موسى، غيرَ أنَّهُ لا نبيَّ بَعدي، و أنتَ أخي و وارِثي “۔[11]
”قسم اس اللہ کی جس نے مجھے حق پر مبعوث فرمایا ہے، میں نے تمہیں صرف اپنا بھائی بنانے کے لئے یہ تاخیر کی ہے، اور تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی (ع) سے تھی، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا، تم میرے بھائی اور میرے وارث ہو“۔
نتیجہ
جس طرح سورج کی روشنی کا انکار ناممکن ہے، اسی طرح حدیث منزلت کی حقانیت سے بھی انکار محال ہے۔ یہ حدیث امام علی (ع) کی خلافت، وصایت اور بلافصل امامت کی محکم اور قطعی دلیل ہے، جو صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ بحرانی، غایة المرام، ص۱۰۷-۱۵۲۔
[2]۔ شرفالدین، المراجعات، ص۱۳۱-۱۳۲۔
[3]۔ البخاري، صحیح بخاری ج۳، ص۵۸؛ مسلم، صحیح مسلم، ج۲، ص۳۲۳۔
[4]۔ مسلم، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۰۔
[5]۔ سورہ طہ، آیت۲۹-۳۰۔
[6]۔ سورہ طہ، آیت۳۱۔
[7]۔ سورہ طہ، آیت۳۲۔
[8]۔ سورہ طہ، آیت۳۶۔
[9]۔ سورہ اعراف، آیت۱۴۲۔
[10]۔ سورہ فرقان، آیت۳۶۔
[11]۔ متقی، کنز العمال، ج۶، ص۳۹۵، ح۶۰۳۲۔
فہرست منابع
1۔ قرآن مجید۔
2۔ البخاري، محمد بن إسماعيل، صحيح البخاري، بیروت، دار طوق النجاة، ۱۴۲۲ھ ق۔
3۔ بحرانی، هاشم بن سلیمان، غایة المرام و حجة الخصام فی تعیین الإمام، تهران، مؤسسة البعثة، ۱۴۲۹ھ ق۔
4۔ شرفالدین، عبدالحسین، المراجعات، قم، المجمع العالمي لاهل البيت (عليهم السلام)، ۱۴۲۶ھ ق۔
5۔ مسلم بن حجاج، صحيح مسلم، بیروت، مؤسسة عزالدين، ۱۴۰۷ھ ق۔
6۔ متقی، علی بن حسامالدین، کنز العمال في سنن الأقوال و الأفعال، بیروت، مؤسسة الرسالة، ۱۴۰۹ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، سترہویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔