حضرت امام حسن مجتبى (ع) كي نمایاں اخلاقی خصوصیات

حضرت امام حسن مجتبى (ع) كي نمایاں اخلاقی خصوصیات

2025-02-11

36 بازدید

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی اخلاقی خصوصیات بے شمار ہیں، جو آپ (ع) کو ایک مثالی شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ یہاں ان کی چند نمایاں اخلاقی خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے:

 حضرت امام حسن مجتبى (ع) کا بچپنا

حضرت امام علی (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) كے پہلے بيٹے پندرہ (۱۵) رمضان المبارک 3 ہجری قمری كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے۔[1] پيغمبر اكرم (ص) تہنيت كے لئے جناب حضرت فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لائے اور خدا كى طرف سے اس بچہ كا نام ”حسن” ركھا۔[2]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) سات سال تك پيغمبر اسلام (ص) كے ساتھ رہے۔[3]

حضرت رسول اكرم (ص) اپنے نواسہ سے بہت پيار كرتے تھے۔ كبھى كاندھے پر سوار كرتے اور فرماتے: ”خدايا ميں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھى اس سے محبت کر۔”[4]

اور پھر فرماتے: ”جس نے حسن (ع) و حسين (ع) سے محبت کیا اس نے مجھ سے محبت کیا اور جو ان سے دشمنى كرتا ہے وہ ميرا دشمن ہے۔”[5]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) كى عظمت اور بزرگى كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ كم سنى كے باوجود پيغمبر اكرم (ص) نے بہت سے عہدناموں ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) كو گواہ بنايا تھا۔ واقدى نے نقل كيا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے قبيلہ ”ثقيف” كے ساتھ معاہدہ كيا، خالد بن سعيد نے عہد نامہ لكھا اور امام حسن و امام حسين عليہما السلام اس كے گواہ قرار پائے۔[6]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) والد گرامى كے ساتھ

پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے تھوڑے ہى دنوں بعد آپ (ع) كے سر سے چاہنے والى ماں كا سايہ بھى اٹھ گيا۔ اس بنا پر اب تسلى و تشفى كا صرف ايك سہارا حضرت امام علی (ع) كى مہر و محبت سے مملو آغوش تھا حضرت امام حسن مجتبى (ع) نے اپنے باپ كى زندگى ميں ان كا ساتھ ديا اور ان سے ہم آہنگ رہے۔ ظالموں پر تنقيد اور مظلوموں كى حمايت فرماتے رہے اور ہميشہ سياسى مسائل كو سلجھانے ميں مصروف رہے۔

جس وقت عثمان نے پيغمبر اكرم (ص) كے عظيم الشان صحابى جناب ابوذر كو شہر بدر كر كے رَبَذہ بھيجنے كا حكم ديا تھا، اس وقت يہ بھى حكم ديا تھا كہ كوئي بھى ان كو رخصت كرنے نہ جائے۔ اس كے برخلاف حضرت امام علی (ع) نے اپنے دونوں بيٹوں امام حسن اور امام حسين عليہما السلام اور كچھ دوسرے افراد كے ساتھ اس مرد آزاد كو بڑى شان سے رخصت كيا اور ان كو صبر و ثبات قدم كى وصيت فرمائي۔[7]

36ھ ميں اپنے والد بزرگوار كے ساتھ مدينہ سے بصرہ روانہ ہوئے تاكہ جنگ جمل كى آگ جس كو عائشہ و طلحہ و زبير نے بھڑكايا تھا، بجھا ديں۔

بصرہ كے مقام ذى قار ميں داخل ہونے سے پہلے حضرت امام علی (ع) كے حكم سے عمار ياسر كے ہمراہ كوفہ تشريف لے گئے تاكہ لوگوں كو جمع كريں۔ حضرت امام حسن مجتبى (ع) كى كوششوں اور تقريروں كے نتيجہ ميں تقريباً بارہ ہزار افراد امام كى مدد كے لئے آگئے۔[8] آپ (ع) نے جنگ كے زمانہ ميں بہت زيادہ تعاون اور فداكارى كا مظاہرہ كيا يہاں تك كہ امام (ع) كے لشكر كو فتح نصيب ہوئي۔[9]

جنگ صفين ميں بھى حضرت امام حسن مجتبى (ع) نے اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ ثبات قدم كا مظاہرہ فرمايا۔ اس جنگ ميں معاويہ نے عبد اللہ ابن عمر كو حضرت امام حسن مجتبى (ع) كے پاس بھيجا اور كہلوايا كہ آپ (ع) اپنے باپ كى حمايت سے دست بردار ہوجائيں تو ميں خلافت آپ كے لئے چھوڑ دونگا۔ اس لئے كہ قريش ماضى ميں اپنے آباء و اجداد كے قتل پر آپ (ع) كے والد سے ناراض ہيں ليكن آپ (ع) كو وہ لوگ قبول كر ليں گے۔

ليكن حضرت امام حسن مجتبى (ع) نے جواب ميں فرمايا: ”نہيں، خدا كى قسم ايسا نہيں ہوسكتا”۔ پھر اس كے بعد ان سے خطاب كركے فرمايا: گويا ميں تمہارے مقتولين كو آج يا كل ميدان جنگ ميں ديكھوں گا، شيطان نے تم كو دھوكہ ديا ہے اور تمہارے كام كو اس نے اس طرح زينت دى ہے كہ تم نے خود كو سنوارا اور معطّر كيا ہے تا كہ شام كى عورتيں تمہيں ديكھيں اور تم پر فريفتہ ہوجائيں ليكن جلد ہى خدا تجھے موت دے گا۔[10]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) اس جنگ ميں آخر تك اپنے پدر بزرگوار كے ساتھ رہے اور جب بھى موقع ملا دشمن پر حملہ كرتے اور نہايت بہادرى كے ساتھ موت كے منہ ميں كود پڑتے تھے۔

حضرت امام حسن مجتبى (ع) نے ايسى شجاعت كا مظاہرہ فرمايا كہ جب حضرت امام علی (ع) نے اپنے بيٹے كى جان، خطرہ ميں ديكھى تو مضطرب ہوئے اور نہايت درد كے ساتھ آواز دى كہ ”اس نوجوان كو روكو تا كہ (اس كى موت) مجھے شكستہ حال نہ بنادے۔ ميں ان دونوں۔ حسن و حسين عليہما السلام۔ كى موت سے ڈرتا ہوں كہ ان كى موت سے نسل رسول خدا (ص) منقطع نہ ہوجائے۔”[11]

واقعہ حكميت ميں ابوموسى كے ذريعہ حضرت امام علی (ع) كے بر طرف كر ديئے جانے كى دردناك خبر عراق كے لوگوں كے درميان پھيل جانے كے بعد فتنہ و فساد كى آگ بھڑك اٹھى۔ حضرت امام علی (ع) نے ديكھا كہ ايسے افسوسناك موقع پر چاہيے كہ ان كے خاندان كا كوئي ايك شخص تقرير كرے اور ان كو گمراہى سے بچا كر سكون اور ہدايت كى طرف رہنمائي كرے لہذا اپنے بيٹے حضرت امام حسن مجتبى (ع) سے فرمايا: ميرے لال اٹھو اور ابوموسى و عمرو عاص كے بارے ميں كچھ كہو۔ حضرت امام حسن مجتبى (ع) نے ايك پرزور تقرير ميں وضاحت كى كہ:

”ان گوں كو اس لئے منتخب كيا گيا تھا تا كہ كتاب خدا كو اپنى دلى خواہش پر مقدم ركھيں ليكن انہوں نے ہوس كى بناپر قرآن كے خلاف فيصلہ كيا اور ايسے لوگ حَكَم بنائے جانے كے قابل نہيں بلكہ ايسے افراد محكوم (اور مذمت كے قابل) ہيں۔”[12]

شہادت سے پہلے حضرت امام علی (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كے فرمان كى بناء حضرت امام حسن مجتبى (ع) كو اپنا جانشين معين فرمايا اور اس امر پر حضرت امام حسين (ع) اور اپنے تمام بيٹوں اور بزرگ شيعوں كو گواہ قرار ديا۔[13]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کے اخلاقى خصوصيات

حضرت امام حسن مجتبى (ع) ہر جہت سے حسن تھے آپ (ع) كے وجود مقدس ميں انسانيت كى اعلى ترين نشانياں جلوہ گر تھيں۔ جلال الدين سيوطى اپنى تاريخ كى كتاب ميں لكھتے ہيں كہ ”حسن (ع) بن حضرت امام علی (ع) اخلاقى امتيازات اور بے پناہ انسانى فضائل كے حامل تھے ايك بزرگ، با عزت، صابر، مضبوط، فراخ دل، نيز لوگوں كى محبتوں كا مركز تھے۔[14]

ان كے درخشاں اور غير معمولى فضائل ميں سے ايك شمہ برابر يہاں پيش كئے جار ہے ہيں:

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی پرہيزگاري

حضرت امام حسن مجتبى (ع) خدا كى طرف سے مخصوص توجہ كے حامل تھے اور اس توجہ كے آثار كبھى وضو كے وقت آپ (ع) كے چہرہ پر لوگ ديكھتے تھے جب آپ (ع) وضو كرتے تو اس وقت آپ (ع) كا رنگ متغير ہو جاتا اور آپ (ع) كاپنے لگتے تھے۔ جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے كہ جو شخص خدا كے سامنے كھڑا ہو اس كے لئے اس كے علاوہ اور كچھ مناسب نہيں ہے۔[15]

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: حضرت امام حسن مجتبى (ع) اپنے زمانہ كے عابدترين اور زاہدترين شخص تھے۔ جب موت اور قيامت كو ياد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہوجاتے تھے۔[16]

حضرت امام حسن مجتبى (ع)، اپنى زندگى ميں 25 بار پيادہ اور كبھى پا برہنہ زيارت خانہ خدا كو تشريف لے گئے تا كہ خدا كى بارگاہ ميں زيادہ سے زيادہ ادب و خشوع پيش كرسكيں اور زيادہ سے زيادہ اجر ملے۔ [17]

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی سخاوت

حضرت امام حسن مجتبى (ع) كى سخاوت اور عطا كے سلسلہ ميں اتنا ہى بيان كافى ہے كہ آپ (ع) نے اپنى زندگى ميں دوبار تمام اموال اور اپنى تمام پونجى خدا كے راستہ ميں ديدى اور تين بار اپنے پاس موجود تمام چيزوں كو دو حصوں ميں تقسيم كيا۔ آدھا راہ خدا ميں ديديا اور آدھا اپنے پاس ركھا۔[18]

ايك دن آپ (ع) نے خانہ خدا ميں ايك شخص كو خدا سے گفتگو كرتے ہوئے سنا وہ كہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم ديدے۔ امام (ع) اسى وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص كو دس ہزار درہم بھيج ديئے۔[19]

ايك دن آپ (ع) كى ايك كنيز نے ايك خوبصورت گلدستہ آپ (ع) كو ہديہ كيا تو آپ (ع) نے اس كے بدلے اس كنيز كو آزاد كر ديا۔ جب لوگوں نے اس كى وجہ پوچھى تو آپ (ع) نے فرمايا كہ خدا نے ہمارى ايسى ہى تربيت كى ہے پھر اس كے بعد آپ (ع) نے آيت پڑھي۔ وَ إِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا۔[20]  ”جب تم كو كوئي ہديہ دے تو اس سے بہتر اس كا جواب دو۔”[21]

 

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی بردباري

ايك شخص شام سے آيا ہوا تھا اور معاويہ كے اكسانے پر اس نے حضرت امام حسن مجتبى (ع) كو برا بھلا كہا امام (ع) نے سكوت اختيار كيا، پھر آپ (ع) نے اس كو مسكرا كر نہايت شيرين انداز ميں سلام كيا اور كہا:

”اے ضعيف انسان ميرا خيال ہے كہ تو مسافر ہے اور ميں گمان كرتا ہوں كہ تو اشتباہ ميں پڑگيا ہے۔ اگر تم مجھ سے ميرى رضامندى كے طلبگار ہو يا كوئي چيز چاہيے تو ميں تم كو دونگا اور ضرورت كے وقت تمہارى رہنمائي كروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو ميں اس قرض كو ادا كروں گا۔ اگر تم بھوكے ہو تو ميں تم كو سير كردونگا … اور اگر، ميرے پاس آؤگے تو زيادہ آرام محسوس كروگے۔”

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض كي: ”ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ (ع) زمين پر خدا كے خليفہ ہيں۔ خدا بہتر جانتا ہے كہ وہ اپنى رسالت كو كہاں قرار دے۔ آپ (ع) اور آپ (ع) كے والد ميرے نزديك مبغوض ترين شخص تھے ليكن اب آپ (ع) ميرى نظر ميں سب سے زيادہ محبوب ہيں۔”[22]

مروان بن حكم جو حضرت امام حسن مجتبى (ع) كا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) كى شہادت كے بعد اس نے آپ (ع) كى تشيع جنازہ ميں شركت كى امام حسين (ع) نے پوچھا۔ ميرے بھائي كى حيات ميں تم سے جو ہوسكتا تھا وہ تم نے كيا ليكن اب تم ان كى تشييع جنازہ ميں شريك اور رو رہے ہو؟ مروان نے جواب ديا ”ميں نے جو كچھ كيا اس شخص كے ساتھ كيا جس كى بردبارى پہاڑ ( كوہ مدينہ كى طرف اشارہ) سے زيادہ تھي۔”[23]

نتیجہ

حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی یہ نمایاں اخلاقی خصوصیات ہمیں ایک بہترین نمونہ فراہم کرتی ہیں کہ کس طرح اپنی زندگی میں پرہیزگاری، سخاوت اور شجاعت کو اپنایا جائے۔ حضرت امام حسن مجتبى (ع) کی تعلیمات اور عمل کی روشنی میں آج بھی انسانی اقدار کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔

 

 

حوالہ جات

[1] مفيد، الإرشاد، ص۱۸۷؛ السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص۱۸۸۔

[2] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۲۳۸۔

[3] طبری صغیر، دلائل الامامة، ص۶۰۔

[4] السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص188؛ ابن جوزی‌، تذکرة الخواص، ص۱۷۷؛ ”اللہم انى احبّہ فاحبّہ”

[5] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۲۶۴؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص۵۵۰؛ ”من احبّ الحسن و الحسين عليهما ‌السلام فقد احبّنى و من ابفضهما فقد ابغضني۔”

[6] ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۱، حصہ ۲/۲۳۔

[7] قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۱، ص۲۰؛ مسعودی، مُروجُ الذَّهَب، ج۲، ص۳۴۱؛ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۷۲؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۸، ص۲۵۵-۲۵۲۔

[8] ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج۳، ص۲۳۱-۲۲۷۔

[9] قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۱، ص39۹- 39۶۔

[10] منقری، وَقْعَةُ صِفّین، ص۲۹۷۔

[11] فيض ‌الاسلام اصفهاني، ترجمه و شرح نهج البلاغه، خطبہ۱۹۸، ص۱۱۶۶۰، املكو عنّى هذا الغلام لا يهدّنى فانّنى انفس بهذين يعنى الحسن و الحسين على الموت لئلا ينقطع بهما نسل رسول الله۔

[12] ابن ‌قتیبه، الإمامة و السياسة، ج۱، ص۱۱۹؛ قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۱، ص۴۴۴۔

[13] کلينی، الکافي، ج۱، ص۲۹۷۔

[14] السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص۱۸۹۔

[15] ابن شهرآشوب، مَناقِب، ج۴، ص۱۴۔ حقٌ على كل من وقف بين يدى رب العرش ان يصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ۔

[16] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۳۱۔

[17] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۳۱؛ السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص۱۹۰؛ ابن شهرآشوب، مَناقِب، ج۴، ص۱۴، ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۱۰؛ ابن جوزی‌، تذکرة الخواص، ص۱۷۸۔

[18] الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۳۲؛ السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص1۹۰؛ ابن شهرآشوب، مَناقِب، ج۴، ص۱۴۔

[19] اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص۵۵۸۔

[20] سورہ نساء/۸۶۔

[21] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۴۲۔

[22] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۳۴۴۔

[23] السيوطي، تاریخ الخلفاء، ص1۹۱؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۱۳ و۵۱۔ واقعہ كے آخرى حصہ ميں تھوڑے فرق كے ساتھ۔

فہرست منابع

۱: القرآن الکریم۔

۲: ابن ابي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۷۵ش۔

۳: ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۰۷ھ ق -۱۹۸۷م۔

۴: ابن جوزی‌، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی‌، تذکرة الخواص، تهران، مکتبة نينوی الحديثة، ۱۴۲۶ھ ق۔

۵: ابن سعد، احمد بن سعد، الطبقات الكبرى، بيروت، دار الكتب العلمية، ١٤١٠ ھ.ق۔

۶: ابن شهر آشوب، مَناقِبُ آلِ أبی طالب، قم، المکتبة الحیدریة، ۱۳۷۶ھ ق۔

۷: ابن ‌قتیبه، عبدالله بن مسلم، الإمامة و السياسة، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۰ ھ ق- ۱۹۹۰م۔

۸: اربلی، علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة، دار الاضواء، بیروت، ۱۴۰۳ھ ق۔

۹: السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر، تاریخ الخلفاء، مكة المكرمة، مكتبة نزار مصطفى الباز، ١٤٢٥هـ ق-٢٠٠٤م۔

۱۰: طبری صغیر، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، مؤسسه بعثت، ۱۴۱۳ ھ ق

۱۱: فيض ‌الاسلام اصفهاني، علي ‌نقي، ترجمه و شرح نهج البلاغة، تہران، سازمان چاپ و انتشارات فقيه، ۱۳۶۸ ھ ۔ ش۔

۱۲: قرشی، باقر شریف، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام: دراسة و تحلیل، بیروت، دار البلاغة، ۱۴۱۳ھ ق -۱۹۹۳م۔

۱۳: کلينی، محمد ابن يعقوب، الکافي، تهران، دارالكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ھ ق۔

۱۴: مجلسی، محمد باقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تهران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۱۵ ھ.ق۔

۱۵: مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّهَب و مَعادنُ الجَوهَر، بیروت، دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ ق۔

۱۶: مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، مؤسسة آل البيت عليهم السلام‌، ۱۴۱۳ھ ق‌۔

۱۷: منقری، نصر بن مزاحم، وَقْعَةُ صِفّین، بیروت، المؤسسة العربية الحديثة، ۱۳۸۲ھ ق۔

۱۸: الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب؛ تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار الكتب العلمية، ۱۳۵۸ ھ.ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ (س) اور ائمہ معصومين عليهم ‌السلام كى حيات طيبة)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، ۱۴۲۸ ھ ق؛ ص ۶۲ الی ۶۶۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے