دین اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب فکر ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ شہید مطہری کے نقطہ نظر کے مطابق، دین اسلام صرف عقائد اور عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کی انفرادی، اجتماعی، روحانی، اور مادی ضروریات کا شافی حل پیش کرتا ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات انسان کو کائنات، تاریخ، اور معاشرت سے جوڑ کر اس کے اندر اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کرتی ہیں۔ شہید مطہری کے مطابق، دین اسلام انسانی عقل، فطرت، اور ضمیر کے عین مطابق ہے اور ہر دور میں انسان کی رہنمائی کے لئے موزوں ہے۔
۱۔ دین اسلام کیسے ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب ہو سکتا ہے؟
دین اسلام تصور کائنات یا آئیڈیالوجی پر مبنی ایک دین ہے یا یوں کہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو ہمہ گیر اور حقیقت پسند ہے۔ دنیاوی و اخروی، جسمانی و روحانی، عقلی و فکری، حساسی و جذباتی، انفرادی و اجتماعی انسانی ضرورتوں کے تمام پہلوؤں پر دین اسلام نے توجہ دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو مجموعی طور پر تین شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
دین اسلام کے تین اہم شعبے مندرجہ ذیل ہیں:
(الف) اصول عقائد
دین اسلام اصولِ عقائد کو وہ بنیادی حقائق قرار دیتا ہے جن پر ہر انسان کو غور و فکر کر کے اپنا عقیدہ قائم کرنا لازم ہے۔ قرآن مجید انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ تحقیق و تدبر کے ذریعے ان اصولوں کی سچائی تک پہنچے۔ دین اسلام کے مطابق، عقائد کا معاملہ تقلید پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی و منطقی بنیاد پر ان کی حقانیت کو سمجھے۔ اس تحقیقی عمل میں قرآن انسان کو تفکر، تدبر، اور درست سمت میں سوچنے کی تأکید کرتا ہے تاکہ فکری لغزشوں سے بچا جا سکے۔
(ب) اخلاقیات
ایسی صفات اور خصائل کا مجموعہ جن کا حصول ہر مسلمان شخص کے لئے ضروری ہے۔ ہر مسلمان فرد کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان صفات اور خوبیوں سے آراستہ کرے اور ان سے متضاد و متصادم امور سے اپنے آپ کو بچائے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت خود سازی اور نفس کی نگہداری کرنا ہے۔
(ج) احکام
ایسے اوامر کا مجموعہ ہے جو انسان کی خارجی اور حقیقی سرگرمیوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ یہ تمام معاشی مساوی دنیوی اخروی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں پر محیط ہوتے ہیں۔
مکتب تشیع کی نظر
شیعہ مذہب کے مطابق دین اسلام عقائد کے پانچ اصول ہیں: توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت۔ یہ وہ عقائد ہیں جن کے بارے میں دین اسلام کے نزدیک صحیح عقیدے کا حصول ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ دین اسلام ان اصول عقائد کے بارے میں تقلید اور تعبد کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شخص خود سے آزادی اور اختیار کے ساتھ ان عقائد کی درستگی کو جانے۔
دین اسلام کی نظر میں عبادت فقط نماز روزہ جیسی بدنی عبادات تک محدود نہیں اور نہ ہی زکوٰة و خمس جیسی مالی عبادات میں اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔ بعض اور عبادات بھی ہیں جن میں سے ایک فکری عبادت ہے۔ غور و فکر یا سوچ و بچار جیسی یہ فکری عبادت اگر انسان کو متنبہ اور بیدار کرنے کے لئے ہو تو یہ سالہا سال کی بدنی عبادت سے افضل اور بالاتر ہے۔
۲۔ قرآن کی نظر میں فکری لغزشیں اور ان کی مذمت
قرآن مجید انسان کو غور و فکر اور فکری بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دیتا ہے اور تفکر کو عبادت کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ دین اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اصولِ عقائد کو منطقی غور و فکر کے بغیر قبول کرنا درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انسان کی فکری لغزشوں اور گمراہی کی جڑوں کی نشاندہی کی ہے، تاکہ انسان اپنی سوچ کو درست سمت میں گامزن کر سکے۔
دین اسلام کے مطابق، انسان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فکری خطاؤں کا سرچشمہ کیا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو اسے گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ صحیح سوچے، خطا سے بچے، اور راہِ حق سے منحرف نہ ہو، تو اسے اللہ کے احکام کی پیروی، تدبر، اور حقائق کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے۔ دین اسلام اسی تدبر کو علم و عمل کی بنیاد قرار دیتا ہے۔
قرآن مجید نے بعض امور کو غلطیوں کی علت اور گمراہیوں کے سبب کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
(الف) علم و یقین کی بجائے ظن و گمان پر اعتماد کی توبیخ
قرآن کریم گویا ہے: وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ[1]
"بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کی بات ماننے لگو تو تمہیں راہ حق سے بھٹکا دیں گے کیوں کہ وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف اندازے ٹیوے سے کام لیتے ہیں۔”
قرآن کریم نے بہت سی آیات میں ظن و گمان کی پیروی کی شدید مخالفت کی ہے۔ قرآن کہتا ہے: وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ[2]
"جب تک کسی چیز کے بارے میں تمہیں علم و یقین حاصل نہ ہو جائے اس کے پیچھے نہ چلو۔”
آج فلسفی نقطہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشتباہات اور غلطیوں کے بڑے اسباب میں سے ایک یہی ہے۔ قرآن سے ہزار سال بعد "ڈیکارٹ” نے اپنا پہلا منطقی اصول یہ قرار دیا اور کہا کہ میں کسی چیز کو حقیقت نہیں مانوں گا جب تک وہ چیز میرے لئے یقینی نہ ہو جائے۔ اپنی "تصدیقات” کے معاملے میں جلد بازی ذہنی سابقے اور میلان سے پرہیز کروں گا۔ اس وقت تک کسی چیز کو قبول نہیں کروں گا جب تک وہ چیز میرے لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک نہ ہو جائے۔[3]
(ب) ذاتی میلانات اور ہوائے نفس کی مذمت
اگر انسان صحیح فیصلہ کرنا چاہے تو جس بات پر وہ سوچ رہا ہو اس کے بارے میں اسے مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ حقیقت پسند بننے کی کوشش کرے دلیل و مدارک کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ بالکل ایک جج کی طرح کہ جب وہ کسی فائل کا مطالعہ کرے تو اسے مقدمے کے دونوں فریقوں کے بارے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اگر قاضی یا جج کا ذاتی رجحان کسی ایک کی طرف ہو تو غیر شعوری طور پر اسی فریق کے دلائل اس کے لئے جاذب نظر ہوں گے اور اس کے خلاف آنے والے دلائل یا دوسرے فریق کے حق میں جانے والے دلائل خود بخود اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے جائیں گے اور یہ امر قاضی کی خطا کا سبب بنتا ہے۔
اگر انسان اپنے افکار میں کسی مطلب کی نفی یا اثبات پر اپنے آپ کو غیر جانبدار نہ رکھے اور اس کا ذاتی رجحان کسی اور طرف ہو تو خود بخود اس کی توجہ کے بغیر ہی اس کی فکر کی سوئی اس کے ذاتی رجحان یا اس کی نفسانی خواہش کی طرف مڑ جائے گی۔
اسی لئے قرآن نے ظن و گمان کی طرح ہوائے نفس کو بھی لغزش کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ[4]
"یہ لوگ تو صرف اپنے ظن و گمان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔”
(ج) دین اسلام میں جلد بازی کی مذمت
ہر فیصلے اور اظہار کے لئے کچھ معین اسناد ضروری ہوتی ہیں جب تک کسی مسئلے پر مطلوبہ اسناد حاصل نہ ہوں کسی بھی قسم کا اظہار نظر جلد بازی اور فکری لغزش کا موجب ہو گا۔ قرآن کریم بار بار انسانی علمی سرمائے کے کم ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے مزید بعض بڑے فیصلوں کے لئے اس کے ناکافی ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ قطعی و حتمی اظہار کو احتیاط سے دور سمجھتا ہے مثلاً: وَ مَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا[5]
"تمہیں جتنا علم دیا گیا ہے وہ کم ہے اور قضاوت کے لئے کافی نہیں ہے۔”
حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں: قرآن میں خدا نے اپنے بندوں کو دو آیتوں کے ذریعے نصیحت کی ہے۔ اول یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم پیدا نہ کر لیں تصدیق نہ کریں (تصدیق کرنے میں جلد بازی نہ کریں)۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہ کر لیں اور علم و یقین کے مرحلے تک نہ پہنچ جائیں اس چیز کی نفی نہ کریں اسے رد نہ کریں (انکار کرنے میں جلد بازی)۔ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں:
أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِمْ مِيثَاقُ الْكِتَابِ أَنْ لَا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ[6]
"کیا ان سے کتاب (کتاب فطرت یا آسمانی کتب) میں وعدہ نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے (بات کا حق سچ ہونا ضروری ہے)۔”
ایک اور آیت میں یوں فرمایا: بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ[7]
"انہوں نے اس چیز کا انکار کیا اور جھٹلایا جس پر ان کو کوئی احاطہ نہ تھا (یعنی اسے نہ جانتے تھے)۔”
(د) آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پہ اڑنے کی شدید مذمت
انسان اپنی طبیعت اولیٰ کے تحت جب دیکھتا ہے کہ کوئی ایک خاص فکر و عقیدہ گذشتہ نسلوں میں موجود تھا تو خود بغیر سوچے سمجھے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ قرآن یاددہانی کرواتا ہے کہ گذشتہ نسلوں کے افکار و نظریات کو جب تک عقل و منطق کے معیار پر نہ پرکھو انہیں قبول نہ کرو۔ پہلی نسلوں کے عقائد کے حوالے سے تمہیں آزاد فکر ہونا چاہئے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ[8]
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے وحی کے ذریعے جو کچھ نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم صرف اپنی راہ و رسم اور روایات پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا۔”
(ھ) شخصیت پرستی کی توبیخ
فکری لغزشوں کے اسباب میں سے ایک سبب شخصیت پرستی بھی ہے۔ عظیم تاریخی شخصیات یا معاصر بڑی بڑی شخصیات لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ان کی فکر سوچ ارادے اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ درحقیقت دوسروں کے فکر و ارادہ کو مسخر کر لیتی ہیں۔ پھر دوسرے لوگ اسی طرح سوچتے ہیں جیسے وہ سوچیں اور اسی طرح فیصلے کرتے ہیں جیسے ان کے فیصلے ہوں۔ اس طرح لوگ ان کے سامنے اپنا ارادہ اور فکری آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔
قرآن مجید ہمیں فکری آزادی کی دعوت دیتا ہے، بڑوں کی اندھی تقلید کو دائمی بدبختی کا سبب سمجھتا ہے۔ بنابرایں، اسی راستے سے گمراہی پر چل نکلنے والوں کی زبانی کہتا ہے: رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا[9]
"ہمارے خدا ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں کی پیروی اور اطاعت کی نتیجتاً انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔”
۳۔ دین اسلام کے اہم فکری مآخذ و منابع
قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مزید برآں غور و فکر کے درست سرچشموں کی بھی خبر دیتا ہے۔ یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات و اطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن نے انہیں بھی بیان کیا ہے۔
دین اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جن کا نتیجہ تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موضوعات پر دین اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے۔ ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے علم کو بے ہودہ اور لغو کہا ہے جس کے ہونے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن وہ علوم جو فائدہ مند ہیں، ان کے لئے تحقیق کے تمام راستے کھلے ہیں۔ دین اسلام نے ان کی تائید کی ہے اور ان کے بارے میں شوق و رغبت بڑھائی ہے۔ قرآن نے غور و فکر کے لئے ان موضوعات کو مفید اور سودمند بیان کیا ہے۔
(الف)عالم طبیعت کی اہمیت
قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عالم طبیعت کی طرف توجہ دلاتی ہیں: طبیعت یعنی زمین، آسمان، ستارے، سورج، چاند، بادل، بارش، ہوائیں، دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا، نباتات، حیوانات حتیٰ ہر وہ محسوس چیزیں جو انسان کے اردگرد موجود ہیں۔ یہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں بہت دقیق غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر سے علم حاصل کرنا چاہئے۔ بطور مثال یہ آیت ملاحظہ ہو:
قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ[10]
"لوگوں سے کہہ دیجئے کہ غور کریں۔ مطالعہ کریں دیکھیں زمین و آسمان میں کیا کچھ ہے؟”
(ب) علم و حکمت کا سرچشمہ
قرآن مجید کی بے شمار آیات انسان کو گذشتہ قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتی ہیں اور اسے علم و حکمت کے حصول کا ایک اہم منبع و سرچشمہ قرار دیتی ہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق، انسانی تاریخ اور اس کے انقلابات یا تغیر و تبدل کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ مخصوص اصول و سنن پر مبنی ہیں، جنہیں اللہ نے مقرر کیا ہے۔ قرآن کی نظر میں تاریخ کے صفحات میں عزت و ذلت، کامیابی و ناکامی، فتح و شکست، اور خوش بختی و بدبختی ایک منظم اور دقیق حساب کتاب کے تحت طے ہوتی ہیں۔
دین اسلام یہ درس دیتا ہے کہ ان اصول و ضوابط کو سمجھ کر موجودہ دور کی تاریخ کو درست سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ انسان اپنے اور دوسروں کی سعادت کے لئے ان قوانین و سنن سے رہنمائی حاصل کر کے اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔
نمونہ کے طور پر یہ آیت مجیدہ ملاحظہ ہو:
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ[11]
"آپ سے پہلے قوانین اور اصول سنن روبہ عمل آ چکے ہیں۔ پس آپ ذرا زمین میں چل پھر کر گذشتگان کے آثار میں غور و فکر کریں اور دیکھیں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں ہم نے وحی کے ذریعے حقائق بیان کئے اور انہوں نے اسے جھوٹ سمجھا۔”
(ج) انسانی ضمیر کی فوقیت
دین اسلام انسانی ضمیر کو معرفت اور حقیقت شناسی کا ایک بنیادی منبع و مآخذ قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق، کائنات کی ہر تخلیق، ہر مظہر اور ہر وجود اللہ تعالیٰ کی آیات یعنی اس کی نشانیاں اور علامتیں ہیں، جو انسان کو حقیقت کے ادراک کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ دین اسلام کے اس نظریہ میں انسان کی بیرونی دنیا کو "آفاق” اور اس کی اندرونی دنیا کو "انفس” کہا گیا ہے۔
یہ دونوں دنیا دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق معرفتِ الٰہی کی تکمیل کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن پاک کی روشنی میں آفاق و انفس کا مطالعہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کی گواہی دیتا ہے۔ دین اسلام انسان کو یہ درس دیتا ہے کہ وہ اپنی ظاہری اور باطنی دنیا کو پہچان کر حقیقت کی جستجو کرے اور اپنے مقصدِ حیات کو سمجھنے کی کوشش کرے، جو کہ اللہ کی معرفت اور بندگی میں ہے۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ[12]
’’ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطراف عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہوجائے کہ وہ برحق ہے اور کیا پروردگار کے لئے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر شے کا گواہ اور سب کا دیکھنے والا ہے۔‘‘
اسی طرح قرآن کریم نے انسانی ضمیر کی خاص اہمیت کو اجاگر کیا ہے اور انسان کو اس کے اندرونی شعور کی طرف متوجہ کیا ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات میں "آفاق و انفس” کی اصطلاح کو ایک خاص مقام حاصل ہے، جو قرآن کے اسی پیغام سے اخذ کی گئی ہے۔ یہ اصطلاح انسان کو بیرونی کائنات (آفاق) اور اس کے اندرونی وجود (انفس) کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی دعوت دیتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مشہور جرمن فلسفی "کانٹ” نے بھی انسان کی خارجی اور داخلی دنیا کی اہمیت کو اپنے ایک مشہور جملہ میں بیان کیا ہے، جو اس کی قبر پر کندہ ہے: "دو چیزیں مجھے سخت حیرت اور تعجب میں ڈال دیتی ہیں، ایک ستاروں سے بھرا آسمان جو ہمارے سروں پر قائم ہے، اور دوسری وہ وجدان و ضمیر جو ہمارے اندر موجود ہے۔” دین اسلام کا یہی پیغام انسان کو آفاق و انفس کے ذریعے حقیقت کے ادراک کی ترغیب دیتا ہے۔
خاتمہ
شہید مطہری کے مطابق، دین اسلام ایک ابدی اور ہمہ گیر مکتب فکر ہے جو ہر زمانے میں انسانی فطرت اور عقل سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ دین اسلام نہ صرف انسان کو روحانی بلندیوں تک لے جاتا ہے بلکہ اس کی مادی اور اجتماعی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ یہ ضابطۂ حیات فرد اور معاشرے کو یکساں طور پر ترقی اور کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ شہید مطہری اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دین اسلام کی جامعیت اور ہمہ گیریت اس کی سب سے بڑی خوبی ہے، جو اسے تمام انسانی مسائل کا بہترین حل بناتی ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ انعام، آیت۱۱۶۔
[2]۔ سورہ سراء، آیت۳۶۔
[3]۔ فروغی، سیر حکمت در اروپا، جلد اول۔
[4]۔ سورہ نجم، آیت۲۳۔
[5]۔ سورہ اسرا، آیت۸۵۔
[6]۔ سورہ اعراف، آیت۱۲۹۔
[7]۔ سورہ یونس، آیت۳۹۔
[8]۔ سورہ بقرہ، آیت۱۷۰۔ مزید تفصیلات کے لئے مراجعہ کریں: طباطبائی، تفسیرالمیزان، ج۶، ص۳۱۹۔
[9]۔ سورہ احزاب، آیت۶۷۔
[10]۔ سوری یونس، آیت۱۰۱۔
[11]۔ سورہ آل عمران، آیت۱۳۸۔
[12]۔ سورہ فصلت، آیت۵۳۔
منابع و مآخذ
۱۔ قرآن مجید۔
۲۔ طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت لبنان، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، ۱۳۹۳ق۔
۳۔ فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، تہران ایران، زوار، ۱۳۴۴ش۔
مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
مطہری، مرتضی، انسان اور ایمان، تہران ایران، صدرا، ۱۴۰۲ش (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔