عادل صحابہ اور ان کے گناہوں اور خطاؤں کی فہرست

عادل صحابہ اور ان کے گناہوں اور خطاؤں کی فہرست

2025-02-25

21 بازدید

شاید صحابہ کی حقیقت اجاگر کرنا، سنی برادری کے بعض افراد کے لئے تعجب کا سبب بنے اور یہ سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہے ان حضرات کے قول و فعل کی عیب جوئی کر کے ان کو خطا کار قرار دیا جائے جبکہ قرآن مجید نے دو موقعوں پر ان کی ستائش کی ہے۔ لیکن عادل صحابہ کی فہرست بہت مختصر ہے۔ اور ایک لاکھ سے زائد اصحاب پیغمبر (ص) میں سے اکثر، عادل صحابہ کی لسٹ سے خارج ہیں۔

قرآن اور عادل صحابہ کی فضیلت

قرآن مجید نے دو موقعوں پر صحابہ کی ستائش کی ہے۔

۱۔ ’’وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ‘‘

اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔[1]

ایک دوسرے سورہ میں ان افراد کے بارے میں، جنہوں نے ’’سرزمین حدیبیہ‘‘ پر ایک درخت کے سائے میں پیغمبر (ص) کی بیعت کی تھی، یوں فرمایا ہے:

۲۔ ’’لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا‘‘

بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔[2]

خلاصہ: پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالٰی مہاجرین و انصار میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ہے جو دوسرے لوگوں سے پہلے اسلام لائے اس کے بعد ان افراد کی بھی تعریف کرتا ہے جنہوں نے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کی ہو۔

دوسری آیت شریفہ میں، خداوند کریم ان افراد کے بارے میں رضامندی اور خوشنودی کا اظہار کرکے انہیں آرام و سکون اور فتح مکہ کی بشارت دیتا ہے، جنہوں نے ساتویں ہجری کو سرزمین ”حدیبیہ“ پر پیغمبر (ص) کی بیعت کی تھی۔

اللہ تعالٰی کی طرف سے اس ستائش اور اظہار خوشنودی کے ہوتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد رسول کے اصحاب اپنے فیصلوں میں خطا یا گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں؟!

عادل صحابہ کی عصمت کا غلط تصور

مذکورہ بالا آیات کے مقاصد کی وضاحت کرنے سے پہلے ایک مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل سنت کے علماء نہ فقط ان گروہوں (مہاجرین و انصار اور تابعین) کو جن کے بارے میں ان دو آیتوں میں اشارہ ہوا ہے پاک دامن اور عادل صحابہ جانتے ہیں بلکہ ان کی اکثریت کا اعتقاد یہ ہے کہ تمام اصحاب رسول (ص) عادل، منصف، متقی اور پرہیزگار تھے۔ مگر یہ کہ کسی ایک کے بارے میں کسی واقعہ میں فسق و انحراف ثابت ہوجائے۔

مختصر یہ کہ جس کسی نے پیغمبر اسلام (ص) کی مصاحبت کا شرف حاصل کیا ہے اسے پاک دامن اور عادل صحابہ جاننا چاہئے، مگر یہ کہ اس کے خلاف کچھ ثابت ہوجائے۔

اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر (ص) کے صحابیوں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے، کے تانے بانے ہی جدا ہیں، یعنی جوں ہی کوئی فرد پیغمبر (ص) کے حضور مشرف ہوتا تھا، ایک روحانی انقلاب پیدا کرکے اس لمحے کے بعد اپنی پوری زندگی میں صحیح، پاک دامن اور عادل صحابہ کی فہرست میں شامل ہو جاتا تھا۔

صحابیوں کے بارے میں ایسی بات کہنا، ان میں سے ایک گروہ کی بد کرداری پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، کیونکہ ایسے افراد کا ضعیف عمل اور بعض مواقع، جیسے، جنگ احد و جنگ حنین میں ان کا فرار کرنا ان کے ایمان میں کمزوری خود رسالت مآب (ص) اور آپ کے عالی مقاصد کا تعین ان کی بے توجہی کی واضح دلیل ہے قارئین کرام جنگ ”احد“ میں پیغمبر (ص) کے ساتھ ان کی بے وفائی کے بارے میں نازل شدہ آیات کی تحقیق کرکے حقیقت کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

تما صحابی پاک دامن اور عادل صحابہ کی فہرست میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں، جبکہ قرآن مجید ان کے ایک گروہ کے حلقہ منافقین میں ہونے کے بارے میں یوں فرماتا ہے:

’’وَإِذْ يَقُولُ ٱلْمُنَٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ إِلَّا غُرُورًا‘‘

اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔[3]

کیا ایسی بات کہنے والوں کو عادل صحابہ کہا جا سکتا ہے؟ جبکہ ایسا کہنے والے کو حقیقی مسلمان بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید صحابہ کے ایک گروہ کا تعارف ”سَمَّاعُون“ کی حیثیت سے کراتا ہے۔

اس لفظ سے مراد وہ افراد تھے جو منافقین کی باتوں کو فوراً قبول کرلیا کرتے تھے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

’’لَوْ خَرَجُوا۟ فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا۟ خِلَٰالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ ٱلْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّٰاعُونَ لَهُمْ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِٱلظَّٰالِمِينَ‘‘

اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے بھی تو تمہارے لئے صرف خرابی میں اضافہ کرتے اور تمہارے درمیان فتنہ کھڑا کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتے اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس (اب بھی) موجود ہیں اور اللہ ظالموں کا حال خوب جانتا ہے۔[4]

اس گروہ کے تمام افراد کو کیسے پاک دامن و عادل صحابہ جانا جا سکتا ہے، جبکہ خالد بن ولید (بعض اہل سنت مصنفین کے عقیدہ کے مطابق اس نے پیغمبر (ص) سے ”سیف اللہ” کا لقب حاصل کیا تھا) فتح مکہ کے سال ایک خطرناک جرم کا مرتکب ہوا اور قبیلہ ”بنی خزیمہ‘‘ کی ایک جماعت کو ضمانت اور عہد و پیمان کے بعد دھوکے و فریب سے قتل عام کرڈالا۔ پیغمبر (ص) نے جب اس مجرمانہ حرکت کی خبر سنی تو قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے ”استغاثہ‘‘ کی حالت میں فرمایا:

’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِد‘‘

خدایا! جو کچھ خالد بن ولید نے انجام دیا ہے، میں اس سے بیزار ہوں۔[5]

اس نام نہاد ”سیف اللہ” کے کارناموں کی سیاہ فائل یہیں پر بند نہیں ہوتی بلکہ پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد ’’مالک بن نویرہ‘‘ اور اس کے قبیلے کے ساتھ کئے گئے اس کے بہیمانہ جرائم تاریخ کے صفحات میں ضبط ہوچکے ہیں۔ اس نے مالک کو جو ایک مسلمان تھا قتل کرڈالا اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی شب اپنا منہ کالا کیا۔

عادل صحابہ اور حق و باطل پہچاننے کا راستہ

اصولی طور پر یہ سب سے بڑی غلطی ہے کہ ہم حق و باطل کو افراد کے ذریعے پہچانیں اور ان کی رفتار و گفتار کی حقانیت کے لئے ان کی شخصیت کو معیار قرار دیں، جبکہ ایک شخص کا عقیدہ اور قول و فعل اس کی حقانیت کی علامت ہوتا ہے، نہ کہ برعکس۔

’’بریٹنڈ رسل‘‘ علم ریاضی کا ایک بڑا دانشور ہے اور ریاضیات میں اس کے نظریے نمایاں اور علماء کے لئے قابل قبول ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملحد ہے اور خدا و الٰہی مقدسات کا منکر شمار ہوتا ہے، وہ اپنی کتاب ”?Why I Am Not a Christian“ میں خدا پرستوں کے دلائل سے لاعلمی کے سبب صراحت کے ساتھ لکھتا ہے:

”میں ایک زمانے میں خدا پرست تھا اور اس کی بہترین دلیل ”علة العلل“ جانتا تھا لیکن بعد میں اس عقیدہ سے پھر گیا۔ کیونکہ میں نے سوچا اگر ہر چیز کے لئے ایک علت اور خالق کی ضرورت ہے تو خدا کے لئے بھی ایک خالق ہونا چاہئے‘‘[6]

کیا عقل ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ”رَسَل“ کی شخصیت کو خدا کے بارے میں اس کے فاسد فلسفی نظریے، جبکہ کائنات کے تمام ذرات خدا کے وجود کی گواہی دیتے ہیں، کے صحیح ہونے کی بنیاد قرار دیں؟ واضح ہے کہ ہمیں اپنے فیصلوں میں افراد کی علمی و سیاسی شخصیت سے متاثر نہیں ہونا چاہئے اور ان کے افکار و اعتقادات اور قول و فعل کو ہر طرح کے حُب و بُغض سے اوپر اٹھ کر صرف عقل و منطق کے معیار پر تولنا چاہئے۔

علی (ع) کا محکم و پائیدار نظریہ

یہاں مناسب ہے کہ ہم اس موضوع کے بارے میں امیرالمؤمنین (ع) کے پائیدار اور مستحکم نظریے کی طرف بھی اشارہ کردیں۔

جنگ جمل میں کچھ لوگ حضرت علی (ع) کے طرفدار اور کچھ لوگ ’’طلحہ، زبیر اور عائشہ‘‘ کے طرفدار تھے۔ اس حالت میں دو دلی کا شکار ایک آدمی جو حضرت علی (ع) کی عظیم شخصیت سے بھی آگاہ تھا، آگے بڑھا اور بولا:

کیسے ممکن ہے کہ یہ لوگ باطل پر ہوں، جبکہ ان کے درمیان طلحہ، زبیر اور ام المؤمنین عائشہ جیسی شخصیتیں موجود ہیں، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان افراد نے باطل کا راستہ اختیار کیا ہوگا؟!

امیر المؤمنین (ع) نے اس کے جواب میں ایک ایسی بات بیان فرمائی کہ مصر کا مشہور دانشور ڈاکٹر ’’طہ حسین‘‘ اس کے بارے میں کہتا ہے:

”وحی کا سلسلہ بند ہونے کے بعد انسان کے کانوں نے اب تک ایسی با عظمت بات نہیں سنی ہے‘‘

امام (ع) نے فرمایا:

’’اِنَّکَ لَمَلْبُوسٌ عَلَیکَ، اِنَّ الْحَقَّ وَ الْباطِلَ لا یعارَفانِ بِاَقْدارِ الرِّجالِ، اِعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِف اَهْلَهُ، وَ اعْرِفِ الْباطِلَ تَعْرِفْ اَهْلَهُ‘‘

یعنی، تم نے حق و باطل کو پہچاننے کے معیار میں غلطی کی ہے۔ حق و باطل ہرگز افراد کے ذریعے نہیں پہچانے جاتے، بلکہ پہلے حق کو پہچاننا چاہئے پھر اہل حق کو پہچانا جاسکتا ہے، پہلے باطل کو پہچاننا چاہئے پھر اہل باطل کی تمیز کی جاسکتی ہے۔

امیر المؤمنین (ع) کی یہ عظیم فرمائش، کہ بقول ڈاکٹر طہ حسین، وحی الٰہی کے بعد انسان کے کانوں نے ایسا کلام نہیں سنا ہے بعض سنی علماء کے اس اصول کو پوری طرح بے بنیاد ثابت کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے تمام مصاحب عادل صحابہ ہیں۔

اب ہم یہاں پر قرآن مجید کی مذکورہ بالا دو آیتوں کے سلسلہ میں بحث کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی دو گروہوں سے راضی ہوا

اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی آیت اس امر کی حکایت کرتی ہے کہ اللہ تعالٰی دو گروہوں سے راضی ہوا ہے اور اس نے اپنی بہشت کو ان کے لئے آمادہ کیا ہے۔ یہ دو گروہ حسب ذیل ہیں:

1۔ مہاجرین و انصار کا ایک گروہ، جنہوں نے ایمان اور اسلام لانے میں دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل کی ہے اور نازک لمحات میں دین کی راہ میں قربانیاں دی ہیں۔

2۔ وہ لوگ جنہوں نے شائستہ طور پر مہاجرین و انصار کی پیروی کی ہے۔

قرآن مجید نے پہلے گروہ کے بارے میں ’’وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ‘‘ اور دوسرے گروہ کے بارے میں ’’وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ کیا، جو چیز ان سے خدا کی خوشنودی و رضامندی کا سبب بنی صرف ان کی اسلام اور پیغمبر (ص) پر ایمان لانے میں سبقت تھی، اور کیا اس خوشنودی و رضامندی کی بقاء و دوام بغیر قید و شرط ہے؟

واضح تر الفاظ میں: کیا اگر یہ افراد بعد والے زمانوں میں فکری یا اختلافی انحراف کا شکار ہوکر ظلم و جبر کے مرتکب ہوجائیں، تو کیا پھر بھی وہ خدا کی رضامندی اور خوشنودی کے حقدار ہوں گے اور قہر و غضب ان کے شامل حال نہیں ہوگا؟ یا یہ کہ اسلام لانے میں ان کی سبقت کے لئے خدا کی رضامندی اور خوشنودی کا باقی رہنا اس امر پر مشروط ہے کہ ان کا ایمان و عمل صالح ان کی زندگی کے تمام ادوار میں باقی رہے، اور اگر ان دو شرائط، میں ان کی زندگی میں کبھی خلل پیدا ہوجائے تو ان کی اسلام میں سبقت اور مہاجر و انصار کے عنوان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا؟

قرآن مجید کی دیگر آیات کی تحقیق سے قطعی طور پر دوسرے نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے کامیابی اور خوشنودی کی بقا اسی شرط پر ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں ایمان اور عمل صالح پر قائم و دائم رہیں۔ اس قسم کی چند آیات کے نمونے ملاحظہ ہوں:

قرآن مجید سورہ حشر میں مہاجرین کی ایک جماعت کی اس بات پر ستائش کرتا ہے کہ انہوں نے اپنا سب مال و متال چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تھی، اس کے بعد ان کی ستائش کا سبب مندرجہ ذیل عبارتوں میں بیان فرمایا ہے۔

’’يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٰنًا وَيَنصُرُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَه‘‘[7]

وہ لوگ ہمیشہ خدا کے فضل و کرم اور اس کی مرضی کے طلب گار رہتے ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں۔

یہ آیہ شریفہ اس بات کی حکایت کرتی ہے کہ انسان کی نجات کے لئے ہجرت کرنا گھر بار اور مال و متال کو چھوڑنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ خدا کی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی مسلسل کوشش کرنا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے خدا اور اس کے رسول (ص) کی مدد کرنا بھی ضروری ہے۔

قرآن مجید فرماتا ہے: فرشتے، جو عرش کے اطراف میں اللہ تعالٰی کی تسبیح کرتے ہیں، با ایمان افراد کے لئے اس طرح دعائے مغفرت کرتے ہیں:

’’ٱغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا۟ وَٱتَّبَعُوا۟ سَبِيلَكَ‘‘

ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی پیروی کی ہے۔

قرآن مجید اصحاب پیغمبر (ص) میں سے ان افراد کی ستائش کرتا ہے جو کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں اور آپس میں مہربان ہیں، رکوع و سجود بجا لاتے ہیں، خدا کے کرم و خوشنودی کے طالب ہیں اور ان کے چہروں پر سجدوں کی نشانیاں نمایاں ہیں۔[8]

اس کے علاوہ قرآن عفو و بخشش اور عظیم اجر کا حقدار ان اصحاب رسول کو جانتا ہے جو خدا پر ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیتے ہیں۔[9]

مذکورہ آیات اور ان کے علاوہ دیگر آیات اس بات کی گواہ ہیں کہ مہاجرین و انصار یا سابقین و تابعین کے عنوان، سعادتمند و نجات یافتہ ہونے کے لئے کافی شرط نہیں ہیں۔ بلکہ اس فضیلت کے ضمن میں دیگر فضائل، جیسے نیک اعمال کی انجام دھی اور برے کاموں سے پرہیز کی شرط بھی ضروری ہے، ورنہ یہ لوگ درج ذیل آیات کے زمرے میں شامل ہوں گے:

’’فَإِن تَرْضَوْا۟ عَنْهُمْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ‘‘

اللہ تعالٰی فاسقوں کے گروہ سے راضی نہیں ہوتا۔[10]

’’وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ ٱلظَّٰلِمِينَ‘‘

اللہ تعالٰی ظالموں کو دوست نہیں رکھتا۔[11]

پیغمبر (ص) ایمان کے بلند ترین مقام پر فائز اور فضیلت و اخلاق کا نمونہ تھے، لیکن پھر بھی اللہ تعالٰی واضح الفاظ میں آپ (ع) کو خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے:

’’لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَٰسِرِينَ‘‘[12]

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمہارے تمام اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمہارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔

بیشک پیغمبر (ص) کا قوی ایمان اور آپ کی عصمت ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کو شرک کی طرف مائل نہیں کرسکتی، لیکن یہاں پر قرآن مجید آپ سے مخاطب ہوکر در حقیقت دوسروں کو خبردار کرتا ہے کہ چند نیک اعمال کے دھوکے میں نہ رہیں بلکہ کوشش کریں کہ زندگی کی آخری سانس تک اسی نیک حالت پر باقی رہیں۔

اس بنا پر ہمیں ہرگز یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ پیغمبر (ص) کا صحابی ہونا اور سابقین و تابعین کے زمرے میں شمار ہونا کسی کو ایسا تحفظ بخش دے گا کہ اگر وہ بعد میں کوئی غلط قدم بھی اٹھائے، پھر بھی خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔ اور عادل صحابہ کی صف سے خارج نہیں ہوگا!

انہی مہاجرین اور انصار یا سابقین و تابعین میں سے بعض افراد خود پیغمبر (ص) کے زمانے میں ہی مرتد ہوگئے تھے اور پیغمبر خدا (ص) کی جانب سے انہیں سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا گیا، اس وقت کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ: اے پیغمبر (ص)! خداوند کریم ان سے راضی ہوگیا ہے، آپ انہیں کیوں یہ سخت سزا سنا رہے ہیں؟

عادل صحابہ کے کالے کرتوت

جن کو کچھ افراد پاک دامن اور عادل صحابہ تصور کرتے ہیں ان کے کچھ کرتوتوں کی فہرست ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ عبد الله بن سعد بن ابی سرح: وہ مہاجرین میں سے تھا اور کاتب وحی تھا اس کے بعد مرتد ہوگیا اور اس نے کہا:

میں بھی خدا کی طرح کی باتیں نازل کرسکتا ہوں![13]

فتح مکہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے چند افراد کے قتل کا حکم دے دیا اور فرمایا: جہاں کہیں وہ ملیں انہیں فوراً قتل کردیا جائے، ان میں سے ایک یہی ”عبدالله“ تھا، لیکن فتح مکہ کے بعد اس نے عثمان کے ہاں پناہ لے لی، کیونکہ وہ عثمان کا رضاعی بھائی (جو کسی دوسری ماں کا دودھ پینے کی وجہ سے رضاعی بھائی کہلاتا ہے) تھا۔ عثمان کی سفارش اور اصرار کے سبب پیغمبر (ص) نے اسے چھوڑ دیا۔

پیغمبر (ص) اس شخص سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اس کو معاف کرنے کے بعد آنحضرت نے اپنے اصحاب سے فرمایا: جب تم لوگوں نے دیکھا کہ میں اسے معاف کرنے سے انکار کررہا ہوں اس وقت تم لوگوں نے اسے قتل کیوں نہیں کرڈالا؟[14]

2۔ عبید اللہ بن جحش: وہ اسلام کے سابقین اور مہاجرین حبشہ میں سے تھا، لیکن حبشہ ہجرت کرنے کے بعد اسلام چھوڑ کر اس نے عیسائی دین قبول کرلیا۔

3۔ حکم بن عاص: وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے، لیکن پیغمبر اسلام (ص) نے چند وجوہات کی بنا پر اسے طائف جلا وطن کردیا۔

4۔ حرقوص بن زہیر: اس نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی، لیکن غنائم کی تقسیم پر اس نے پیغمبر اسلام (ص) سے تند کلامی کی اس پر رحمة للعالمین پیغمبر (ص) برہم ہوگئے اور فرمایا: وائے ہو تم پر، اگر میں انصاف و عدالت کی رعایت نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟! اس کے بعد اس کے خطرناک مستقبل کے بارے میں فرمایا: حرقوص ایک ایسے گروہ کا سردار بنے گا جو دین اسلام سے اسی طرح دور ہوجائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل کر دور جاتا ہے“[15]

پیغمبر اسلام (ص) کی یہ پیشین گوئی آپ کی رحلت کے سالوں بعد حقیقت ثابت ہوئی۔ یہ شخص خوارج کا سردار بنا اور جنگ نہروان میں حضرت علی (ع) کی تلوار سے قتل ہوا۔

یہ اس سیاہ فہرست کے چند نمونے تھے جس میں بہت سے اصحاب پیغمبر (ص) (مہاجر و انصار) موجود ہیں۔ پیغمبر اسلام (ص) کے صحابیوں کی تحقیق کے دوران ہمیں چند دوسرے افراد بھی نظر آتے ہیں جیسے: حاطب بن ابی بلتعہ، جو اسلام کے خلاف جاسوسی کرتا تھا یا ولید بن عقبہ، جسے قرآن مجید نے سورہ حجرات[16] میں فاسق کہا ہے یا خالد بن ولید، جس کا نامہ اعمال اس کے کالے کرتوتوں سے بھرا پڑا ہے۔

کیا صحابیوں میں ایسے افراد کی موجودگی کے باوجود بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی سابقین اور تابعین سے راضی ہوچکا ہے اب کسی کو بھی ان کی طرف ٹیڑھی نگاہ سے دیکھنے کا حق نہیں ہے اور یہ سب پاک دامن اور عادل صحابہ ہیں؟!

 

نتیجہ

خدا کی رضا و خوشنودی ان لوگوں کے اعمال سے جڑی ہوئی ہے جنہوں نے اسلام اور رسول (ص) کی حمایت کی، خاص طور پر غربت کے دور میں اور یہی لوگ عادل صحابہ کی فہرست میں آتے ہیں۔ تاہم، یہ خوشنودی اس بات پر منحصر ہے کہ ان کا ایمان برقرار رہے اور وہ کوئی ایسا عمل نہ کریں جو ان کے کفر یا فسق کا باعث بنے۔

 

حوالہ جات

[1]۔ سورہ توبہ، آیت۱۰۰۔

[2]۔ سورہ فتح، آیت۱۸۔

[3]۔ سورہ احزاب، آیت۱۲۔

[4]۔ سورہ توبہ، آیت۴۷۔

[5]۔ سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص۴۳۰۔

[6]۔ .?Russell, Why I Am Not a Christian

[7]۔ سورہ حشر، آیت۸۔

[8]۔ سورہ فتح، آیت۲۹۔

[9]۔ سورہ فتح، آیت۲۹۔

[10]۔ سورہ توبہ، آیت۹۶۔

[11]۔ سورہ آل عمران، آیت۵۷۔

[12]۔ سورہ زمر، آیت۶۵۔

[13]۔ سورہ انعام، آیت۹۳۔

[14]۔ ابن حجر عسقلانی، الاصابة، ج۲، ص۳۸۔

[15]۔ ان افراد میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات علم رجال کی کتابوں، جیسے: الاستیعاب، الاصابة، اسد الغابة وغیرہ میں درج ہیں۔

[16]۔ سورہ حجرات، آیت۶۔

 

فہرست منابع

1۔ قرآن مجید۔

2۔ .Russell, Bertrand. Why I Am Not a Christian?, London, Watts & Co., 1927

3۔ ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة في تمییز الصحابة، بیروت، دار الكتب العلمية، ۱۴۱۵ھ ق۔

4۔ ابن ھشام، عبد الملك، السيرة النبوية لابن هشام، بیروت، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي وأولاده، ۱۳۷۵ھ ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، سولھویں فصل، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ھ ش۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے