- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- 2022/01/19
- 0 نظر
عدل کے ماتحت يہ احساس پيدا ھوتا ھے کہ اُس کا قانون جو اس کے تمام کاموں ميں جاري ھے وہ عدالت ھے لھذا وہ بندوں سے بھي انصاف اور عدالت کا طالب ھے ۔ اُس نے ھميں ايک امانت دي ھے جس کا نام ھے ” قوت اختيار “ ھميں اس اختيار کو قانون ِ عدالت کے مطابق صرف کرنا چاھئے ۔
اس عقيدہ سے اس برادري ميں جو انسانيت کے حدود ميں قائم کي گئي ھے ،تبادلهٴ حقوق اور انصاف و مساوات کي بنياديں مضبوط ھوتي ھيں ۔ اس برادري کے افراد ايک دوسرے کو حقارت کي نگاہ سے نھيں ديکھتے کيونکہ يہ ظلم ھے ۔ وہ سمجھتے ھيں کہ ايک کو دوسرے پر دولت و ثروت يا طاقت و اقتدار ميں جو فوقيت نظر آتي ھے بالکل وقتي ھے اور عارضي ۔خالق کي نگاہ ميں ان سب کے لئے ايک قانون ھے ۔ گناہ امير کرے يا غريب ھر ايک کو سزا ملے گي ، ھر ايک کو جزا ملے گي وھاں اُس کي دولت مندي کچھ کام نہ آسکے گي ۔ نہ وہ رشوت دے کر اپنے بچاؤ کا سامان نکال سکے گا ۔ اسي طرح اچھا کام امير کرے يا غريب کرے ھر ايک کو جزا ملے گي ۔ اُس کي غربت اُس کي کس مپرسي کا باعث نہ ھو گي ۔ اس طرح ھر شخص کو اپنے فرائض کا احساس پيدا ھوتا ھے اور اپنے اعمال کي جانچ کي ضرورت پڑتي ھے ۔ افراط اور تفريط، اسراف اور کنجوسي سب ظلم ھيں اور ھر چيز ميں وسط کا نقطھ، عدالت کا مرکز ھے ۔ انساني کمالات کي دنيا اسي اعتدال کے نقطہ پر مبني ھے ۔
خدا کو عادل سمجھنا ، اس اعتدال کي پابندي کا واحد محرک ھے اور اسي لئے جو اس اعتدال پر قائم رھيں انھيں عادل کھا جاتا ھے اور سچّے مسلمان وھي ھيں جو عدالت کي صفت سے مزین ھو
توحيد سے عالم انسانيت ايک مشترک نقطہ کي طرف متوجہ ھوتي ھے جو سب کا مرکز قرار پائے ۔ ھزار نسل ، وطن ، قوم اور رنگ کے تفرقوں کے باوجود دنيا خدائے واحدکے اقرار سے ايک ايسے نظام ميں منسلک ھو جاتي ھے جس پر حاکم خود اسکي ذات ھے جو سب کا خالق اور معبود ھے ۔
علاوہ ازيں اس سے انسان ميں احساس پيدا ھوتا ھے کہ وہ مطلق العنان نھيں ھے ۔ اگر سب ذاتي خواھشوںکے غلام ھوتے تو ھر ايک کي طبيعت اور خواھش کے اختلاف سے مقصد اور عمل ميں اختلاف پيدا ھو سکتا تھا مگر يہ سب ايک حاکم کے فرماں بردار ھيں اس لئے اُن کا آھنگ عمل اور مقصد ايک ھونا چاھئے ۔ يہ حاکم کيسا ھے ؟ حاضر و ناظر ھے ۔ ھر جگہ موجود ھے اور ھر بات کو جانتا ھے ۔ اس لئے انسان کو ھوشيار رھنا چاھئے کہ کوئي بات خلاف قانون بجا نہ لائے ،کسي کام کو چوري چھپے کرتے ھوئے مطمئن نہ ھو کہ کسي نے نھيں ديکھا کيونکہ اُسي نے ديکھا ھے جس کے ھاتہ ميں جزا وسزا ھے ۔
وہ ايک اکيلا ھے ۔ کوئي اُ س کا مدّ مقابل نھيں۔ اس لئے بس اُسي کي رضا مندي کي فکر رھنا چاھئے اور اُسي کي ناراضگي سے اجتناب چاھئے اُس کي طاقت ھر ايک پر غالب ھے اس لئے ناحق کسي طاقت سے مرعوب نھيں ھونا چاھئے ۔ وہ ھر بات پر قادر ھے اس لئے اپني ناتواني سے کبھي نا اُميدنھيں ھونا چاھئے ۔
اس عقيدہ سے ايسي انساني برادري کي تشکيل ھوتي ھے جس ميں ھر ايک دوسرے کے ساتھ اتحاد و مساوات کا احساس رکھتا ھو اور سب ايک نصب العين پر گامزن ھوں ۔ سب اپني خواھشوں کو مشترک مقصد اور اُصول ميں فنا کر ديں اورخلوت و جلوت ھر حالت ميں، سب اپنے واحد حاکم کي رضا مندي کے طلبگار رھيں اور کسي وقت قانون کے احترام کو ھاتہ سے نہ جانے ديں ۔ اس جماعت کے افراد ميں خود داري ھو کہ وہ کسي مادّي طاقت کے سامنے سر نہ جھکائيں ، بلند حوصلگي ھو کہ کسي دشوار مقصد کو نا ممکن نہ سمجھيں اور اعتماد ھو جس سے کبھي اپنے دل ميں ياس کا گزر نہ ھونے ديں ۔
يھي وہ عناصر ترقي ھيں جو بلند مرتبہ اقوام کے شايان شان ھيں ۔