قرآن کی عظمت حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں میں

قرآن کی عظمت حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں میں

2025-01-31

55 بازدید

امام زین العابدین (ع) نے ختم قرآن کی دعا میں قرآن کی عظمت کے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ہم قرآن کی عظمت اور اس کی توصیف میں اس دعا کی اہمیت کے پیش نظر اس کے چند اقتباسات کو قارئین کرام کی خدمت میں نقل کرتے ہیں۔

قرآن ایک درخشاں نور

چوتهے امام (ع) قرآن کی عظمت،  نور درخشاں سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "خداوندا! تو نے میری مدد فرمائی، تو میں نے قرآن مجید کی تلاوت کو اختتام تک پہنچایا۔ یہ وہ کتاب ہے جسے تو نے درخشاں نور بناکر نازل فرمایا اور اسے اپنی طرف سے نازل کردہ ہر کتاب کا محافظ قرار دیا اور اپنے ہر بیان کردہ کلام پر اسے فضیلت بخشی۔ یہ کتاب فرقان ہے۔ تو نے اس کے ذریعے حلال و حرام کو جدا فرمایا ہے۔ یہ وہ قرآن ہے جس کے ذریعے تو نے احکام شریعت کو بیان فرمایا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے تو نے اپنے بندوں کے لئے تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

یہ تیری وحی ہے جسے تو نے اپنے پیغمبر محمد (ص) پر نازل فرمایا ہے۔ تو نے اسے ایک ایسا نور قرار دیا ہے جس کی پیروی کے ذریعے گمراہی اور نادانی کی تاریکی سے نجات حاصل کر کے راہِ حق کی ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ تصدیق کی غرض سے غور سے سننے والوں کے لئے یہ (قرآن) شفاء ہے۔ یہ عدل کی وہ ترازو ہے جس کی زبان بیانِ حق سے منحرف نہیں ہوتی۔

یہ ہدایت کا ایک ایسا نور ہے جس کے استدلال اور برہان کی روشنی شاہدوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔ یہ نجات کا پرچم ہے۔ جو شخص اس کی روش اپنائے وہ گمراہ نہیں ہوگا۔ اس کی عصمت کا دامن تھامنے والوں تک ہلاکت خیز ہاتھ نہیں پہنچ پاتے”۔[1]

قرآن ایک علمی مرکز اور معرفت کا سرچشمہ

امام زین العابدین (ع) اس جملے میں قرآن کی عظمت اور اس کی علمی ہمہ گیری کی طرف اشارہ کرنے کے بعد یہ بتاتے ہیں کہ قرآن ہدایت و تشریع کا سرچشمہ اور خداوند متعال کے حلال و حرام کو بیان کرنے والی کتاب ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نجات صحیح معرفت پر مبنی ایمان اور اس معرفت سے سازگار اور خلقت انسان کے مقصد سے ہماہنگ لائحہ پر عمل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

امام زین العابدین (ع) قرآن کی عظمت کے سلسلے میں بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید انسان کی نجات کے لئے ضروری دونوں مذکورہ عناصر یعنی صحیح معرفت اور صحیح عمل کے بیان کا حامل ہے۔

اسی لئے فرماتے ہیں: تو نے اسے ایک ایسا نور قرار دیا ہے جس کی پیروی کر کے ہم گمراہی اور نادانی کی تاریکی سے نجات حاصل کر کے راہِ حق کی ہدایت پاسکتے ہیں۔ تصدیق کی غرض سے سننے والوں کے لئے یہ (قرآن) شفاء ہے۔ یہ عدل کی وہ ترازو ہے جس کی زبان بیانِ حق سے منحرف نہیں ہوتی۔

امام زین العابدین (ع) بعد کے جملے میں اس نکتے کی یادآوری فرماتے ہیں کہ قرآن کی عظمت اور اس کی تلاوت ایک خاص نعمت ہے جو انسان کو خدا کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اور اس نعمت کی شکر گزاری کی توفیق بھی اسے خداوند متعال سے مانگنی چاہئے۔

قرآن مجید بندگی کا آئینہ

اس موقع پر امام (ع) قرآن کی عظمت کے سلسلہ میں ارشاد فرماتے ہیں: "خداوندا! اب جبکہ تو نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں میری مدد فرمائی ہے اور میری زبان کی گرہوں کو اس کی عبارات کی خوبیوں سے کھول دیا ہے، پس مجھے ان لوگوں میں سے قرار دینا جو اس کتاب کے حق کا کماحقہ احترام کرتے ہیں اور اس کی محکم آیات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے اعتقاد کے ساتھ تیری بندگی کرتے ہیں نیز متشابہ آیات کو قبول کرتے اور اس کے محکمات (واضح دلائل) کا سہارا لیتے ہیں”۔[2]

اس کے بعد امام (ع) صاحب وحی یعنی حضرت محمد (ص) اور علوم وحی کے حاملین اور قرآن کی عظمت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں:

"خداوندا! تو نے اس (قرآن مجید) کو اپنے پیغمبر محمد (ص) پر سربستہ اور مجمل صورت میں نازل فرمایا اور اس کے عجائبات کا علم مکمل طور پر اُن پر الہام کیا اور ہمیں اس کی تفسیر کردہ علم کا وارث قرار دیا اور اس کے علم سے بےخبر لوگوں پر ہمیں برتری عطا فرمائی اور ہمیں ان لوگوں پر رفعت بخشنے کے لئے جو اس (قرآن) کو حمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، علم قرآن کا حامل بنایا”۔[3]

امام (ع) اس جملے میں اس نکتے کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن مجید کو وحی کے ذریعے اور اس سے مربوط علوم کو الہام کے ذریعے حاصل کیا پھر یہی علوم اہل بیت (ع) کو وراثت میں ملے۔

امام (ع) کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی عظمت اور اس کے ظاہری معارف کے علاوہ پوشیدہ باطنی علوم بھی رکھتا ہے۔ ان علوم سے صرف خاص افراد یعنی پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) آگاہ ہیں اور یہی دوسروں پر ان کی برتری کا موجب ہے۔

اسی طرح قرآن کی عظمت کا بھی پتہ چل جاتا ہے کہ قرآن ایک بے مثال عظمت کا مالک ہے جو کہ صرف پیغمبر اکرم (ص) فرشتۂ وحی کے ذریعہ اس کے مخاطب قرار پائے ہیں اور آپ کے علاوہ کسی شخص کو یہ شرف حاصل نہیں ہوا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد صرف اہل بیت اطہار (ع) ہیں جن کے پاس قرآنی علوم کے خزانے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کسی شخص کو ان علوم کی گہرائیوں تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ یہ بات قرآن کی عظمت کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت (ع) کی عظمت کی دلیل ہے۔

اس دعا کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے امام (ع)، خداوند متعال سے قرآن مجید کے وحی ہونے کے یقین اور اس سے تمسک حاصل کرنے کی توفیق کی دعا مانگتے ہیں کیونکہ واضح ہے کہ قرآن کی عظمت اور اس کے وحی ہونے پر یقین حاصل کئے بغیر اس کے معارف سے پورا پورا فائدہ اٹھانا اور اس کی برکتوں سے مستفید ہونا ممکن نہیں ہے۔

قرآن مجید انسانی تربیت کا مکمل نسخہ

امام سجاد (ع) اپنی دعا کے اس فقرے میں قرآن کی عظمت اور انسانوں کی تربیت اور خدا کے فضل و شرف کی طرف اشارہ فرماتے ہیں:

"خداوندا! جس طرح تو نے ہمارے دلوں کو اس (قرآن) کے حقائق کا حامل بنایا اور اپنی رحمت سے اس کا فضل و شرف ہمیں بتایا اسی طرح اس کے خطیب محمد (ص) اور ان کے اہل بیت (ع)، (جواس کے خزانہ دار ہیں) پر درود بھیج اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اعتراف کرتے ہیں کہ یہ کتاب تیری جانب سے نازل ہوئی ہے تاکہ اس کی تصدیق میں ہمارے لئے کسی قسم کا شک و شبہ رکاوٹ نہ بنے اور راہ راست سے منحرف ہونے کا وسوسہ ہمارے دلوں میں پیدا نہ ہونے پائے۔

خداوندا! محمد (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) پر درود بھیج اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس (قرآن) کی رسی کو پکڑے ہوئے ہیں، شبہ انگیز امور کے شر سے آیات قرآنی کی پناہ گاہ کا سہارا لیتے ہیں، اس کی رحمت کے سایہ میں آرام کرتے ہیں، اس کے نور سحر سے ہدایت پاتے ہیں، اس کے نور کی تابندگی کی پیروی کرتے ہیں، اس کے چراغ سے نورانیت حاصل کرتے ہیں اور کسی دوسرے سے ہدایت نہیں چاہتے”۔[4]

اس کے بعد والے جملے میں مزید امام سجاد (ع) قرآن کی عظمت، انسان کی تربیت، گناہ کی آلودگیوں سے نجات اور اخلاقی فضائل سے آراستہ ہونے کے سلسلے میں قرآن مجید کے اعجاز آفرین اثرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خداوندا! جس طرح تو نے محمد (ص) کو اس (قرآن) کے ذریعے اپنے معرفت کی علامت قرار دیا اور ان کے اہل بیت کے ذریعے اپنی خوشنودی کے راستے واضح کئے اسی طرح محمد (ص) اور ان کے اہل بیت (ع) پر درود بھیج اور قرآن مجید کو ہمارے لئے فضیلت کے بلندترین درجات تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دے۔ اسے (ہمارے لئے) ایک ایسا وسیلہ قرار دے جس کے ذریعے ہم امن و سلامتی کے مقام تک پہنچ سکیں۔ اسے ہمارے لئے عرصۂ قیامت میں نجات پانے کا سبب قرار دے اور اسے (ہمارے لئے) ایک ایسا وسیلہ قرار دے جس کے طفیل ہم دائمی گھر کی نعمتوں تک پہنچ سکیں۔

خداوندا! محمد اور اُن کے اہل بیت پر درود بھیج اور قرآن مجید کے طفیل گناہوں کے بھاری بوجھ کو ہمارے کندھوں سے اٹھالے۔

ہمیں نیکوں کا حسن اخلاق عطا فرما اور ہمیں ان افراد کا پیرو قرار دے جو رات کے اوقات میں اور دن کے آغاز اور اختتام پر قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ اس (قرآن) کی پاکیزگی کے ذریعے تو ہمیں ہر ناپاکی اور آلودگی سے پاک فرما دے اور ہمیں ان کا پیرو قرار دے جو اس (قرآن مجید) کے نور سے روشنی پاچکے ہیں اور ان کی خواہشات انہیں نیک کام انجام دینے سے نہیں روک سکی ہیں اور ان (خواہشات) کا فریب انہیں تیری اطاعت سے باز نہیں رکھ سکا ہے۔

خداوندا! محمد اور اُن کے اہل بیت پر درود بھیج اور قرآن مجید کو تاریک رات کے اندھیروں میں ہمارا مونس بنا، اسے شیطان کے داموں اور وسوسوں کے خطرات کے مقابلے میں ہمارا نگہبان قرار دے، اور ایسا اہتمام کر کہ وہ ہمیں گناہ کی طرف قدم بڑھانے سے روکے اور ہماری زبانوں کو باطل گفتگو میں پڑنے سے گونگا کردے اور انہیں کوئی نقصان بھی نہ پہونچے۔

خداوندا! ہمارے بدن کے اعضاء کو گناہ سے آلودہ ہونے سے بچا لے اور عبرت و تدبر کے طومار کو جسے غفلت کے ہاتھوں نے لپیٹ دیا ہے، کھول دے تاکہ اس (قرآن) کے عجائبات اور اس کی سبق آموز نصیحتوں اور مثالوں کا علم و فہم (جن کو برداشت کرنے سے مستحکم و پائیدار پہاڑ بھی عاجز و ناتواں ہیں) ہمارے دلوں تک پہنچے۔

قرآن مجید دنیا و آخرت کا مسیحا

امام زین العابدین (ع) نے اپنی دعا کے اختتام پر قرآن کی عظمت اور اس کے بے نظیر دنیوی و اخروی اثرات کی طرف اپنے گہربار کلمات کے ذریعے رہنمائی فرمائی:

"خداوندا! محمد (ص) اور ان کے اہل بیت (ع) پر درود بھیج اور قرآن مجید کے ذریعے ہماری ظاہری بھلائی کا سلسلہ جاری رکھ۔ ہماری باطنی سلامتی کو در پیش وسوسوں کے خطرات کو دور فرما۔ ہمارے دلوں کی ناپاکیوں اور گناہ کے زنگ کو اس (قرآن) کے پانی سے دھو دے۔ ہمارے درہم برہم امور کو اس (قرآن) کے ذریعے منظم کردے اور قیامت کے دن کی جان لیوا گرمی میں پیاس کی شدت کو اس کے ذریعے بجھا دے اور بڑے خوف کے دن (جب ہمیں قبروں سے نکالا جائے گا) اس (قرآن) کے ذریعے ہمیں امن و امان کا لباس پہنا دے”۔[5]

ان پر معنیٰ جملوں میں سے ہر جملہ انسان کی تہذیب و تربیت کے میدان میں قرآن کی عظمت اور اس کے معجزنما اثرات کے ایک گوشے کی طرف اشارہ ہے اور مجموعی طور پر اس نکتے کو بیان کرتا ہے کہ قرآن مجید، ایک انسان کامل کی تربیت کے لئے ایک ہمہ گیر اور جامع نظام حیات ہے۔ قرآن مجید انسان کو گزشتہ غلطیوں کے تکرار سے روکنے کے ساتھ ساتھ اسے رفتار و کردار کی خرابیوں سے دور کر کے عالم ملکوت کی طرف پرواز کرنے کی طاقت بخشتا ہے۔

امام (ع) قرآن کی عظمت کے کچھ اور مزید آثار و برکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خداوندا! محمد اور ان کے اہل بیت پر درود بھیج اور قرآن کے ذریعے ہماری تنگدستی کی تلافی فرما۔ ہماری زندگی میں وسعت و خوشحالی اور ہمارے رزق میں کشادگی و فراخی نازل فرما۔

ہمیں بری عادتوں اور پست خصلتوں سے دور رکھ اور کفر و نفاق کے دلدل سے بچا تاکہ تیری یہ کتاب قیامت کے دن ہمیں تیری خوشنودی اور بہشت کی طرف رہنمائی کرے اور دنیا میں تیرے غضب سے اور تیرے حدود کو پامال کرنے سے روکے اور تیری بارگاہ میں ہمارے حق میں گواہی دے کہ ہم تیرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانتے تھے۔[6]

امام (ع) ان جملوں میں رزق کی فراوانی اور خوشحال زندگی کے حصول میں قرآن مجید کے اثرات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔ اگرچہ امام (ع) نے ان اثرات کی کیفیت کو بیان نہیں فرمایا ہے لیکن ممکن ہے کہ ان اثرات کی کیفیت یہ ہو کہ قرآن مجید پر عمل مفید کوششوں نیز خدا کی عطا کردہ نعمتوں اور وقت سے صحیح فائدہ اٹھانے کا سبب بنتا ہے اور انسان کے لئے پسندیدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

یہ امر لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے اور اچھے کاموں کے لئے لوگوں کے اس کی طرف رجوع کرنے کا سبب بنتا ہے نیز قرآن مجید سے انس و محبت اور اس کے احکام پر عمل، خداوند متعال کی خصوصی تائید حاصل کرنے کا سبب بنتا ہے اور یہ چیزیں رزق کی فراوانی کے اسباب ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔

اس کے بعد امام (ع) قرآن کی عظمت کے معنوی آثار کی اہمیت کے پیش نظر پھر سے اس کا ذکر فرماتے ہیں اور قرآن مجید کو انسان کے لئے کفر و نفاق اور پست صفات کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والے کے طور پر پہچنواتے ہیں اور آخر میں انسان کے لئے ابدی زندگی کے سخت مراحل جیسے: موت، عالم برزخ اور موت کے بعد کے سفر میں قرآن مجید کی ہمراہی کے لازم ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امام اس سلسلے میں فرما تے ہیں:

خداوندا! محمد (ص) اور ان کے اہل بیت پر درود بھیج اور ہمارے لئے جان کنی اور نالہ و فریاد کی سختی کو قرآن مجید کے طفیل آسان فرما۔

خداوندا! زندگی کے آخری لمحات کو آسان فرما جب روح حلقوم تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب کون علاج کرنے والا ہے اور موت کا فرشتہ جان لینے کے لئے غیب کے پردے کے پیچھے سے ظاہر ہو کر اجل کی کمان سے جدائی کے خوفناک تیر زندگی کی طرف پھینکتا ہے اور موت کے تلخ مشروب کو زہر ہلاہل کے مانند زندگی کے منہ میں انڈیلتا ہے اور دوسری دنیا کی طرف ہمارا کوچ نزدیک ہوتا ہے اور قبریں قیامت تک کے لئے ہماری آرام گاہیں بن جاتی ہیں۔۔۔[7]

بحث کا خلاصہ

امام سجاد (ع) نے قرآن کی عظمت کو اپنی دعاؤں میں بہت نمایاں طور سے بیان فرمایا ہے آپ نے قرآن کو اللہ کا کلام اور ہدایت کا بہترین وسیلہ قرار دیا ہے۔ قرآن نور ہدایت ہے جو انسان کی روح کو زندہ رکھتا ہے اور اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا واحد ضامن ہے۔ آپ (ع) نے دعاؤں اور زبور آل محمد (ص) کے اسلوب میں تلاوت اور قرآن کی عظمت پر انمول کلمات کے ذریعے اس کی اہمیت اور تأثیر کو اجاگر فرمایا ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[2]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[3]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[4]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[5]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[6]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

[7]۔ صحیفہ سجادیہ، دعائے ختم قرآن، دعا نمبر42۔

فہرست منابع

  1. امام زین العابدین، علی بن الحسین (ع)، صحیفہ سجادیہ، آستان قدس مشھد۔

مضمون کا مآخذ (ترمیم ساتھ)

ترابی، مرتضی، اہل بیت (ع) کی قرآنی خدمات، ترجمہ سید قلبی حسین رضوی، اہل البیت قم، ج1، ص97 تا 120، 1442 ہجری قمری۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے