قرآن کی علمی جامعیت اور تمام جہات سے اس کی ہمہ گیری

قرآن کی علمی جامعیت اور تمام جہات سے اس کی ہمہ گیری

2025-02-09

35 بازدید

قرآن کی علمی جامعیت ایک واضح ترین دلیل یہ ہے کہ وہ کائنات اور انسان کے وجودی پہلوؤں کی شناخت کے سلسلے میں انسان ساز معارف، ادب، اخلاق، معاشرت اور مکمل قانون حیات کا حامل ہے۔ اہل بیت (ع) نے انسانی ضرورت کے تمام معارف کے زاویے سے قرآن کی علمی جامعیت کے سلسلہ میں پرزور تائید اور تاکید فرمائی ہے۔

امیر المؤمنین (ع) اور قرآن کی علمی جامعیت

وہ ان کے لئے ایک ایسا نسخہ لائے، جس میں سابقہ کتابوں کی تعلیمات موجود ہیں۔ یہ گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والا اور حلال و حرام کو بیان کرنے والا ہے۔ وہ نسخہ یہی قرآن مجید ہے۔ اس سے سوال کرو تاکہ وہ تمہیں جواب دے۔ البتہ وہ ہرگز تمہارے ساتھ گفتگو نہیں کرے گا بلکہ میں تمہارے لئے قرآن کے بارے میں گفتگو کروں گا۔ قرآن مجید میں ماضی کا اور قیامت تک کا علم اور تمہارے درمیان انجام پانے والے امور کا حکم اور تمہارے اختلافی مسائل کا بیان موجود ہے۔ اگر تم لوگ ان سب چیزوں کے بارے میں مجھ سے سوال کرو گے تو میں تمہیں آگاہ کروں گا۔[1]

امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) قرآن کی علمی جامعیت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں: تمام ضروری احکام، علوم اور اختلافی مسائل کے حامل، قرآن کو قرار دیتے ہیں لیکن اس نکتے کی بھی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ان تمام معارف کو قرآن سے سمجھنا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے اور ان علوم کو قرآن سے سمجھنے اور حاصل کرنے کے لئے مفسر کی ضرورت ہے۔ البتہ ہر مفسر نہیں بلکہ خود آپ جیسے مفسرین اور وہ افراد جو پیغمبر اکرم (ص) کے خاص علوم کے وارث ہیں۔

امام باقر (ع) اور قرآن کی علمی جامعیت

امام (ع) بیان فرماتے ہیں: "جب میں تمہارے لئے کوئی بات بیان کروں تو مجھ سے پوچھو تاکہ میں اسے خدا کی کتاب سے واضح کردوں”۔ پھر فرمایا: "پیغمبر خدا (ص) نے قیل و قال کرنے، مال کو ضائع کرنے اور زیادہ سوال کرنے سے منع فرمایا ہے”۔ امام (ع) سے پوچھا گیا: فرزند رسول! یہ بات خدا کی کتاب میں کہاں موجود ہے؟ حضرت نے فرمایا: خداوند عزّ و جل فرماتا ہے: "لاَ خَيْرَ في‏ كَثيرٍ مِنْ نَجْواهُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاحٍ بَيْنَ النَّاسِ"[2] ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر اس شخص کی جو کسی صدقے، کار خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے

حضرت امام محمد باقر (ع) قرآن کی علمی جامعیت کے بارے میں ہر قسم کے شبہات کو دور کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "بیشک خداوند متعال نے امت کی ضرورت کی کسی چیز کو اپنی کتاب میں نازل فرمانے اور اپنے پیغمبر (ص) کے لئے بیان کرنے سے گریز نہیں کیا ہے۔ (خدا نے) ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ایک رہنما معین کیا ہے نیز اس کے حدود سے تجاوز کرنے والوں کے لئے سزا مقرر فرمائی ہے”۔[3]

امام صادق (ع) اور قرآن کی علمی جامعیت

امام صادق (ع) قرآن کی علمی جامعیت اور اس کے ذریعے ہر فرد کی فکری ضروریات کی تکمیل کے سلسلے میں فرماتے ہیں: "خداوند متعال نے ہر چیز کا بیان قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے یہاں تک کہ خدا کی قسم بندوں کی ضرورت کی کسی چیز کو فروگزاشت نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے بارے میں قرآن مجید میں کوئی آیت ضرور نازل کی ہے۔ پس کوئی بندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ کاش اس مسئلے کا قرآن مجید میں ذکر ہوا ہوتا”۔[4][5]

کبھی ائمہ اطہار (ع) قرآن کی علمی جامعیت اور اس کی ہمہ گیری کو بیان کرنے، اپنے اصحاب کو قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے کے طریقہ کار کی تعلیم دینے اور قرآن مجید کے تمام معانی و اسرار سے ان (اہل بیت) کی آگاہی کے بارے میں زور دینے کے لئے اپنے اصحاب کو ان (ائمہ) کے کلام میں قرآن مجید کے آثار کی جستجو کرنے کی دعوت دیتے تھے۔

قرآن کی علمی جامعیت کے بارے میں چند نظریے پائے جاتے ہیں: قرآن کی علمی جامعیت کے اصول کی تائید قرآن مجید اور موثق احادیث سے ہوتی ہے۔ معروف اور اہم مفسرین اور قرآن مجید کے محققین نے اسے تسلیم کیا ہے۔ بحث صرف اس جامعیت کے دائرے کی وسعت میں ہے۔ اس بارے میں درج ذیل تین اہم نظریات پائے جاتے ہیں:

پہلا نظریہ: علمی جامعیت اور انسان کی سعادت

بعض لوگ معتقد ہیں کہ قرآن کی علمی جامعیت انسان کی سعادت کے لئے مطلوب اصول و احکام پر مشتمل ہے اور بس۔ بالفاظ دیگر چونکہ قرآن مجید انسان سازی کی کتاب ہے جو فرد اور معاشرے کے کمال و ارتقاء کے لئے نازل ہوئی ہے اس لئے واضح ہے کہ اگر کہیں قرآن مجید کی جامعیت کی بات ہو تو اس سے مراد اسی دائرے میں اس کی ہمہ گیری ہے اس سے زیادہ نہیں۔ اس نظریے کے مطابق آیتِ شریفہ؛ "تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ"[6] میں كُلِّ شَيْ‏ءٍ (ہر چیز) سے مراد وہی امور ہیں جو ابدی سعادت کی طرف انسان کی رہنمائی کے لئے ضروری ہیں۔

اس نظریے کے مطابق اس سوال کا جواب کہ بعض احکام دین مثلا نماز کی کیفیت وغیرہ قرآن مجید میں کیوں مذکور نہیں ہیں، یہ ہے کہ قرآن مجید نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے یا تو خود ہی ضروری احکام بیان کئے ہیں یا ان کے بارے میں ایسے رہنما اصول بیان کئے ہیں جن کی روشنی میں انسان خدا کے احکام کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن نے لوگوں کو پیغمبر (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی پیروی کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کر کے خدا کے احکام کی تفصیل سے آگاہ ہوسکیں۔

بنا بریں چونکہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے اس لئے قرآن کی علمی جامعیت اور اس کی ہمہ گیری اسی ہدف کے دائرے میں ہوگی۔ ایسا نہیں کہ قرآن مجید ایک بڑا دائرة المعارف ہو جس میں ریاضی، جغرافیہ، کیمسٹری، فزکس اور علم نباتیات جیسے علوم کی تمام جزئیات موجود ہوں۔[7]

نامور مفسر علامہ طبرسی آیتِ شریفہ "وَنَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ء" کے ذیل میں قرآن کی علمی جامعیت کی یوں وضاحت کرتے ہیں:

ہم نے تم پر کتاب یعنی قرآن نازل کی جو ہر چیز کے لئے تبیان ہے یعنی یہ ہر مشکل چیز کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ (ہم نے قرآن بھیجا) تاکہ یہ ضروری شرعی امور کو بیان کرے۔ لوگوں کو دینی امور میں جس چیز کی بھی ضرورت ہے اسے کتاب مبین میں بیان کردیا گیا ہے۔ یہ بیان گاہے واضح طور پر قرآن سے یا پیغمبر (ص) اور آپ کے جانشینوں کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے سے یا امت کے اجماع سے سامنے آتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ سب باتیں قرآن مجید سے حاصل ہوئی ہیں۔ [8]

قرآن کی علمی جامعیت کے سلسلے میں علامہ طباطبائی کا بیان یہ ہے کہ ہر چیز کے لئے تبیان ہے تبیان (جیسا کہ کہا گیا ہے) بیان کے معنی میں آیا ہے۔ چونکہ قرآن مجید تمام لوگوں کے لئے ہدایت کی کتاب ہے اور ہدایت کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں ہے لہذا بظاہر ”كُلِّ شَيْ‏ء“ سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جو ہدایت کی طرف پلٹتی ہیں جیسے مبدأ و معاد سے مربوط معارف، اخلاق حسنہ، آسمانی شریعتیں، قصص اور مواعظ جو لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ضروری ہیں۔ قرآن مجید ان سب کا تبیان ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ تمام علوم کے لئے تبیان ہو۔[9]

دوسرا نظریہ: تمام علوم و معارف کا دریافت

قرآنی آیات تمام علوم و معارف پر مشتمل ہیں اس نظریے کے مطابق قرآن مجید کی آیات میں دقت اور غور و خوض کرنے کے ذریعے مختلف علوم و معارف کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ بعض مفسرین سے منسوب ہے۔

تیسرا نظریہ: انسان کی ہدایت کے لئے ضروری معارف

قرآن کی علمی جامعیت کا ظاہر ہدایت بشر کے ضروری اصولوں پر مبنی ہے، مثلا مبدأ، معاد، اخلاق حسنہ، الہی شریعتوں، قصص اور مواعظ سے متعلق معارف پر مشتمل ہے، اس سے زیادہ نہیں جبکہ قرآن کا باطن سارے شعبوں کے تمام علوم و معارف پر مشتمل ہے، یہاں تک کہ کائنات میں واقع ہوچکنے یا آئندہ واقع ہونے والے تمام حوادث سے مربوط علوم بھی قرآن مجید میں موجود ہیں یعنی جو کچھ اس وسیع کائنات میں موجود ہے اس کی علمی صورتیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔

البتہ عام لوگوں کا ان باتوں کو قرآن مجید سے سمجھنا ممکن نہیں بلکہ صرف وہی لوگ ان سے آگاہی رکھتے ہیں جنہیں قرآن مجید کے باطن کا علم بخشا گیا ہو۔ وہ پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) ہیں۔ ہاں جو لوگ پیغمبر خدا (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) سے قربت کے باعث طہارت و پاکیزگی کے ایک خاص مقام تک پہنچے ہیں، وہ بھی قرآن مجید کے باطنی علوم کے کچھ حصوں سے آگاہ ہوجاتے ہیں۔ یہ نظریہ قرآن مجید کی آیات کے ظاہر کے مطابق ہے اور اہل بیت (ع) کی احادیث سے بھی ثابت ہے۔

اہل بیت (ع) کی احادیث اس نکتے کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر کو دانشور اور عام لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا ایک باطن بھی ہے جو ایک عمیق سمندر کے مانند ہے۔ اس میں بہت سے ایسے مسائل پوشیدہ ہیں جن تک ہماری فکر کی رسائی نہیں۔ قرآن مجید کے اس خاص شعبے کا علم پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے معصوم جانشینوں کے پاس ہے۔ اس بحث کی ابتداء میں وہ احادیث نقل کی گئی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کی علمی جامعیت اور اس کا ظاہر ان تمام معارف پر مشتمل ہے، جو انسان کی ہدایت کے لئے ضروری ہیں۔

اس لئے ہم یہاں پر صرف ان احادیث کو بیان کریں گے جو اس بات کی تأکید کرتی ہیں کہ قرآن مجید کا باطن تمام علوم اور قابل فہم امور، پر مشتمل ہے۔

1. قرآن علم و ہدایت کا منبع

امام علی (ع) فرماتے ہیں: "یہ قرآن مجید ہے اس سے پوچھو تاکہ یہ تمہارے ساتھ بات کرے۔ البتہ یہ ہرگز تمہارے ساتھ براہ راست گفتگو نہیں کرے گا بلکہ میں اس حوالے سے تمہارے ساتھ بات کروں گا۔ قرآن مجید میں ماضی کا اور روز قیامت تک کا علم اور ہر وہ جو حکم تمہارے درمیان ہونا چاہئے سب کچھ موجود ہے۔ جن امور میں تم اختلاف کرتے ہو ان کا بیان بھی اس میں موجود ہے۔ اگر تم ان کے بارے میں مجھ سے پوچھو گے تو میں تمہیں آگاہ کروں گا”۔

2. قرآن کی گہرائی و ایک الٰہی خزانہ

آپ (ع) مزید فرماتے ہیں: "قرآن مجید کا ظاہر خوبصورت ہے۔ اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے۔ اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہیں اور اس کے نوادر تمام نہیں ہوتے۔ تاریکیاں اس کے سوا کسی اور چیز سے زائل نہیں ہوتیں”۔ [10]

3. ماضی، مستقبل اور اختلافات کا حل

امام جعفر صادق (ع) قرآن کی علمی جامعیت کے سلسلے میں مزید فرماتے ہیں: "خدا کی کتاب میں تمہارے ماضی اور مستقبل کی خبر اور تمہارے اختلافات کا حل موجود ہیں اور ہم اس کا علم رکھتے ہیں”۔[11]

4. قرآن سے حاصل کردہ علم غیب، اہل بیت کا انمول خزانہ

آپ (ع) مزید فرماتے ہیں: "خدا کی قسم! جو کچھ آسمانوں میں ہے، جو کچھ زمین میں ہے، جو کچھ بہشت میں ہے، جو کچھ جہنّم میں ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا علم ہمارے پاس ہے”۔ حماد (راوی) کہتا ہے: میں مبہوت ہوکر حضرت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حضرت نے تین بار فرمایا: اے حماد! یہ خدا کی کتاب میں موجود ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "وَ يَوْمَ نَبْعَثُ في‏ كُلِّ أُمَّةٍ شَهيداً عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ جِئْنا بِكَ شَهيداً عَلى‏ هؤُلاءِ وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ هُدىً وَ رَحْمَةً وَ بُشْرى‏ لِلْمُسْلِمينَ"[12]

قیامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انہیں میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے پیغمبر!) ہم آپ کو ان سب کا گواہ بنا کر لے آئیں گے۔ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے۔ یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔ جو کچھ ہم نے کہا وہ سب اُس کتاب سے کہا جس میں ہر چیز کا بیان ہے۔[13]

اس کے علاوہ عبدالاعلیٰ، ابوعبیدہ اور عبداللہ بن بشر خثعمی کہتے ہیں: ہم نے سنا کہ حضرت نے فرمایا: جو کچھ آسمانوں، زمین، بہشت اور جہنّم میں ہے نیز جو کچھ آج تک واقع ہوچکا ہے اور جو کچھ واقع ہوگا میں ان سب کو جانتا ہوں۔ پھر آپ (ع) نے ایک لمحہ خاموشی اختیار کی۔ آپ نے محسوس کیا کہ سامعین تعجب میں پڑگئے ہیں اور ان پر یہ بات سخت گزری ہے۔ تب آپ (ع) نے فرمایا: "میں ان سب چیزوں کو خدا کی کتاب سے جانتا ہوں کیونکہ خداوند متعال اپنی کتاب کے بارے میں فرماتا ہے”: "فيه تبيان کلّ شیء“۔[14]

اہل بیت (ع) کے علم کی روشنی میں قرآن کی جامعیت

ان احادیث نے تمام علوم و معارف یہاں تک کہ ماضی اور مستقبل کے واقعات کے لحاظ سے قرآن کی جامعیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے لیکن یہ علوم، جیسا کہ احادیث میں ذکر ہوا ہے، عام علوم کی طرح نہیں ہیں۔ عام افراد یہاں تک کہ دانشور حضرات بھی انہیں تحقیق، کوشش اور غور و فکر سے حاصل نہیں کر سکتے بلکہ یہ خاص علوم ہیں جو صرف پیغمبر اکرم (ص) اور اہل بیت اطہار (ع) کے پاس ہیں۔

تمام علوم و معارف کے حوالے سے قرآن کی علمی جامعیت کے بارے میں تیسرا نظریہ اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث سے بھی ہمآہنگ ہے اور قرآن مجید کی ظاہری آیات کے بھی مطابق ہے۔[15]

رہی یہ بات کہ اہل بیت (ع) ان علوم کو قرآن مجید کے باطن سے کیسے حاصل کرتے ہیں تو یہ اسرار الٰہی میں سے ایک سر ہے جس کی صرف بعض خصوصیات کی طرف روایات میں اشارہ ہوا ہے۔ اس کی مثال وہ متعدد احادیث ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال کے حوادث کا علم اسی سال شب قدر کو امام زمان (ع) کے قلب پر نازل ہوتا ہے۔ یہی حال ان روایات کا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تاویل اور اس کے باطنی علوم نیز حروف مقطعات اور ان کے اسم اعظم الٰہی پر مشتمل ہونے کا علم ائمہ اہل بیت (ع) کے پاس ہے۔

علامہ طباطبائی نے اس بات کے احتمال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید تمام علوم کا جامع ہے اور یہ بات روایات سے مطابقت رکھتی ہے۔ قرآن کی علمی جامعیت کی کیفیت کے بارے میں وہ یوں اظہار نظر فرماتے ہیں: قرآن مجید میں آیا ہے کہ قرآن تمام چیزوں کا تبیان (بیان کرنے والا ہے) اور اس کتاب میں ہر وہ امر مذکور ہے جو ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوگا۔

اگر یہ روایتیں صحیح ہوں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ تبیان کا دائرہ دلالتِ لفظی والے بیان سے وسیع تر ہو۔ کچھ بعید نہیں کہ قرآن مجید میں ایسے اشارات اور رموز موجود ہوں جو ایسے اسرار اور پوشیدہ امور کو اجاگر کریں جنہیں عام فکر و فہم درک نہ کرسکے۔

معروف شیعہ محدث اور مفسر فیض کاشانی، قرآن کی علمی جامعیت اور اس کے تمام علوم پر مشتمل ہونے کی کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں: بعض ارباب علم و معرفت نے مذکورہ احادیث کی وضاحت میں کچھ نکات بیان کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: اشیاء کے بارے میں علم کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم: محدود اور متناہی علم

جزئی، حسی، محدود اور کسبی علم ہے۔ وہ یہ کہ انسان کسی چیز کا علم حاصل کرنے کے لئے حس سے استفادہ کرتا ہے مثلاً کسی چیز کو دیکھتا ہے یا خود تجربہ کرتا ہے یا اپنے کانوں سے سنتا ہے یا کسی کی گواہی کو سنتا ہے، یا خود اجتہاد کرتا ہے و غیرہ و غیرہ۔

اس قسم کا علم قابل تغیر و زوال، محدود اور متناہی ہوتا ہے۔ ایسا علم آفاقی اور ہمہ گیر نہیں ہوسکتا کیونکہ اس علم سے متعلق چیز کی ماہیت، اس کے وجود کے وقت، اس سے پہلے اور اس کے زوال یا نابودی کے بعد مختلف ہوتی ہے۔ (مثلا کسی عمارت کو تعمیر کرنے سے پہلے اس کے انجنیئر کا علم کچھ اور ہوتا ہے، تعمیر کے دوران اس کے علم کی نوعیت اور ہوتی ہے اور اس عمارت کے خراب ہو جانے کے بعد اس کے علم کی نوعیت اور طرح کی ہوتی ہے)۔

دوسری قسم: مطلق اور لامحدود علم

یہ کلّی، مطلق اور لامحدود علم ہے جو اسباب و علل اور غایات کے علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اس قسم کا علم وحدت، کلیت اور بساطت کی صفات کا حامل نیز ایک عقلی امر ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے: ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز ایک علت یا سبب کی حامل ہوتی ہے۔ سبب کا سلسلہ مسبب الاسباب یا علۃ العلل تک پہنچتا ہے۔ جس چیز کو اس کے سبب یا علت سے پہچانا جاتا ہے اس کی پہچان قطعی، دائمی اور ناقابل تغیر ہوتی ہے۔

پس جو شخص خداوند متعال کو اس کے اوصاف کمال اور صفات جلال سے پہچانے اور جان لے کہ وہ وجود کا سرچشمہ اور ہر قسم کے وجودی فیوضات کا فاعل ہے نیز وہ مقرب فرشتوں اور تدبیر کرنے والے فرشتوں کو پہچان لے جو کلی اور عقلی اہداف کے لئے مسخر ہیں اور ہمیشہ عبادت کی حالت میں رہتے ہیں اور ان میں سستی اور تھکاوٹ کا وجود نہیں ہوتا۔

لہذا وہ کائنات اور مادی دنیا کی مختلف صورتوں کو خدا کے اذن سے بڑھاتے رہتے ہیں اور آگاہ ہوجائے کہ یہ سارے امور اسباب اور مسببات کے سلسلے پر مبنی ہیں توایسا شخص تمام امور سے آگاہ ہوجاتا ہے اور ان امور کے احوال و احکام کو سمجھنے لگتا ہے۔

بحث کا خلاصہ

ائمہ معصومین (ع) کی روایات کے زیر سایہ، قرآن کی علمی جامعیت اس کے ہر پہلو میں واضح ہے یہ صرف دینی تعلیمات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے تمام شعبے، جیسے اخلاق، معاشرت، قانون، معیشت، سائنس اور فلسفہ پر عمیق اور گہری رہنمائی فراہم کرتا ہے قرآن میں انسان کی تخلیق، کائنات کے نظام، معاشرتی انصاف اور فطرت کے اصولوں پر قرآن کی علمی جامعیت کو بخوبی درک کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات

[1]. کلینی، کافی، ج1، ص61۔

[2]. سورہ نساء، آیت 114۔

[3]. کلینی، کافی، ج1، ص59۔

[4]. مجلسی، بحار الانوار، ج89، ص78، ح9۔

[5]. فیض کاشانی، تفسیر صافی، مقدمہ7، (کافی سے منقول)۔

[6]. سورہ نحل، آیت، 89۔

[7]. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج11، ص361؛ معرفت، التفسیر و المفسرون، ج2، ص485/ 489۔

[8]. طبرسی، مجمع البیان، ج6، ص190۔

[9]. طباطبائی، تفسیر المیزان، ج17، ص268۔

[10]. شریف رضی، نہج البلاغة، خطبہ 18؛ مجلسی، بحار الانوار، ج2، ص284، ح1۔

[11]. کلینی، الکافی، ج1، ص61۔

[12]. سورہ نحل، آیت 89۔

[13]. عیاشی، تفسیر عیاشی، ج2، ص266۔

[14]. کلینی، الکافی، ج1، ص26۔

[15]. سورہ نحل، آیت 89؛ سورہ یوسف، آیت 111۔

فہرست منابع

  1. قرآن مجید
  2. طباطبائی، محمد حسین، تفسیر المیزان، دار الکتب الاسلامیة، تہران، 1375ق۔
  3. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، نشر المرتضی، مشہد ایران، 1403ق۔
  4. طوسی، محمد بن حسن، الامالی، دار الثقافة، قم، 1414ق۔
  5. عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، مطبعة العلمیة، تہران، 1380ق۔
  6. فیض کاشانی، محمد محسن، تفسیر الصافی، مکتبة الصدر، تہران، 1415ق۔
  7. کلینی، ابو جعفر محمد بن یعقوب، اصول کافی، دار الکتب الاسلامیة، تہران، 1407 ہجری قمری۔
  8. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، موسسة الوفا، بیروت، 1403ق۔
  9. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیة تہران، 1374ش۔
  10. معرفت، محمد ھادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، الجامعة الرضویة مشہد، 1428ق۔

مضمون کا مآخذ (ترمیم کے ساتھ)

ترابی، مرتضی، اہل بیت (ع) کی قرآنی خدمات، ترجمہ سید قلبی حسین رضوی، اہل البیت قم، ج1، ص97 تا 120، 1442ق۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے