- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : سیدعلی عباس نقوی
- 2024/11/09
- 0 رائ
صلاح و مشورہ کی حقیقت اور اس کی اہمیت کا علم، انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ دو مختلف آراء کا امتزاج نئی راہیں کھولتا ہے، جس طرح بجلی کی چنگاری سے روشنی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح مشورہ بھی فکر کو جلا بخشتا ہے۔
قرآن کریم پیغمبر اکرم (ص) کو حکم دیتا ہے کہ زندگی کے مختلف امور میں مشورہ کرو۔ چنانچہ قرآن میں ذکر ہوا ہے:
’’وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ‘‘ [1]
یعنی اپنے فیصلوں میں ان سے مشورہ کرو اور جب فیصلہ کر لو توخدا پر بھروسہ کرو۔ بلا شبہ خدا توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
خداوند عالم ایک دوسری آیت میں صاحبان ایمان کی یوں تعریف کرتاہے:
’’وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ‘‘ [2]
یعنی جو لوگ اپنے خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں اور کاموں کی بنیاد، ان کا آپسی مشورہ ہے۔ اور جو کچھ خدا انہیں رزق دیتا ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور نقل، دونوں نے مشورے کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ اور کیا اچھا ہو کہ مسلمان اسلام کے اس عظیم دستور کی پیروی کریں، جس میں ان کی سعادت و خوشبختی اور سماج کی ترقی پوشیدہ ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی اور مشورہ کی حقیقت و اہمیت
رسول اللہ (ص) نے مشورہ کی حقیقت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے، نہ صرف لوگوں کو یہ روش اپنانے کا حکم دیا، بلکہ آپ نے اپنی زندگی میں خود بھی خدا کے اس فرمان پر عمل کیا ہے۔ جبکہ جنگ میں، ابھی دشمن کا سامنا نہیں ہوا تھا، بدر کے صحرا میں آگے بڑھنے اور دشمن سے مقابلے کے سلسلے میں آپؐ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا، جس سے مشورہ کی حقیقت اور اہمیت بخوبی اجاگر ہوتی ہے۔
اور ان سے فرمایا: ”اشیروا علیَّ أیها الناس“ قریش سے جنگ کے سلسلے میں تم لوگ اپنا نظریہ بیان کرو کہ ہم لوگ آگے بڑھ کر دشمن سے جنگ کریں یا یہاں سے ہی واپس ہو جائیں؟ مہاجرین و انصار کی اہم شخصیتوں نے دو الگ الگ اور متضاد مشورے دیئے، لیکن آخر کار پیغمبر اکرم (ص) نے انصار کا مشورہ قبول کیا۔ [3]
اُحد کی جنگ میں بڑے بوڑھے لوگ قلعہ بندی اور مدینہ میں ہی ٹھرنے کے طرفدار تھے، تاکہ برجوں اور مکانوں کی چھتوں سے دشمن پر تیر اندازی اور پتھروں کی بارش کر کے شہر کا دفاع کریں، جبکہ جوان اس بات کے طرفدار تھے کہ شہر سے باہر نکل کر جنگ کریں اور بوڑھوں کے نظریے کو زنانہ روش سے تعبیر کرتے تھے۔ یہاں پیغمبر اسلام (ص) نے دوسرے نظریہ کو اپنایا۔ [4]
جنگ خندق میں پیغمبر اسلام (ص) نے ایک فوجی کمیٹی تشکیل دی اور مدینہ کے حساس علاقوں کے گرد خندق کھودنے کا، جناب سلمان کا مشورہ قبول کیا اور اس پر عمل کیا۔ [5]
طائف کی جنگ سے بھی مشورہ کی حقیقت اور اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے، جس میں لشکر کے بعض سرداروں کے مشورے پر فوج کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا۔ [6]
مشورہ کی حقیقت پر توجہ
لیکن اس بات پر توجہ ہونی چاہئے کہ کیا صرف مشورہ اور تبادلہ خیالات ہی مشکلات کا حل ہے، یا یہ کہ پہلے عقل و فکر کے اعتبار سے با نفوذ مرکزی شخصیت جلسہ تشکیل دے، اور تمام آراء کے در میان سے ایک ایسی رائے منتخب کرے اور اس پر عمل کرے جو اس کی نظر میں بھی حقیقت سے قریب ہو۔
معمولاً مشوروں کے جلسوں میں مختلف افکار و نظریات پیش کئے جاتے ہیں، اور ہرشخص اپنے نظریہ کا دفاع کرتے ہوئے دوسروں کی آراء کو ناقص بتاتا ہے۔ ایسے جلسے میں ایک مسلم الثبوت رئیس و مرکزی شخص کا وجود ضروری ہے، جو تمام لوگوں کی رائے سنے اور ان میں سے ایک قطعی رائے منتخب کرے۔ ورنہ دوسری صورت میں مشورے کا جلسہ کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہو جائے گا۔
مشورہ اور توکل علی اللہ
اتفاق سے وہ پہلی ہی آیت جو پیغمبر اسلام (ص) کو اپنے ساتھیوں سے مشورے کا حکم دیتی ہے، مشورہ کے بعد یوں خطاب کرتی ہے: ”فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ“ پس جب تم فیصلہ کر لو تو خدا پر بھروسہ کرو۔ اس خطاب سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ، مشورے کے بعد فیصلہ کرنے والی مرکز ی شخصیت خود پیغمبر اکرم (ص) کی ذات ہے۔ لہٰذا پیغمبر (ص) کو ہی فیصلہ کرنا اور خدا پر توکل کرنا چاہئے۔
ایک جماعت کا قائد، جو کسی مشورے کا اجلاس بلاتا ہے، لوگوں کے عام خیال سے مختلف، اپنی نظر میں بہتر فیصلہ لے سکتا ہے۔ مثلاً پیغمبر اکرم (ص) نے صلح حدیبیہ کے معاملے میں اپنے صحابہ کے خیالات کے برعکس فیصلہ لیا تھا جو بعد میں ثابت ہوا کہ بہت ہی درست تھا۔
اسلامی اور جمہوری حکومتوں میں مشورہ کا فرق
اسلام میں مشورہ اور جمہوری حکومتوں کے مشورے، جس میں ملکی قوانین پاس کرنا پارلمینٹ اور سینٹ، دونوں مجلسوں کے اختیار میں ہے اور حکومت کا صدر، صرف ان دو مجلسوں کے تصویب شدہ قوانین کا اجرا کرنے والا ہے میں، زمین آسمان کا فرق ہے۔
یہاں حکومت کا رئیس و حاکم، جو خود پیغمبر اکرم (ص) ہیں، اقلیت یا اکثریت کی آراء کے مطابق عمل کرنے پر مجبور نہیں ہے۔ بلکہ آخری رائے یا آخری فیصلے کا اظہار، چاہے وہ اہل مجلس کی رائے کے، موافق ہو یا مخالف، خود پیغمبر اکرم (ص) کے اوپر ہے۔ اور یہ پہلے عرض کیا جا چکا کہ مشورے کے بعد قرآن کریم، پیغمبر اکرم (ص) کو حکم دیتا ہے کہ اب آپ خدا پر توکل کریں، فیصلہ کریں اور آگے بڑہیں۔
با ایمان معاشرہ اور مشورہ کی حقیقت
دوسری آیت کا مطلب بھی یہی ہے۔ دوسری آیت تبادلہ خیال کو با ایمان معاشرے کی ایک بہترین خوبی شمار کرتی ہے۔ لیکن یہ با ایمان معاشرہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں ہرگز ایک نافذ اور مطلق العنان رئیس سے خالی نہیں تھا، اور عقل یہ کہتی ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی، با ایمان معاشرے کو ایسی شخصیت سے خالی نہیں رہنا چاہئے۔ یہ آیت ایسے معاشروں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جنہوں نے حاکم و رہبر کے تعین کا مرحلہ طے کر لیا ہے۔
خلیفہ کا انتخاب، جمہوری یا الٰہی
اور اب امامت و خلافت کے مسائل میں مشورہ کی حقیقت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بعض علمائے اہل سنت کا، ان آیات سے مشورے کے ذریعے خلیفے کے انتخاب کو صحیح قرار دینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں، مذکورہ آیات ان معاشروں سے متعلق ہیں، جن میں حاکم کے تعین کی شکل پہلے سے حل ہوچکی ہے۔
اور مشورتی جلسے اس کے حکم سے تشکیل پاتے ہیں۔ تا کہ مسلمان اپنے دوسرے امور میں تبادلہ خیال کریں، خاص طور پر پہلی آیت جو صاف طور پر پیغمبر (ص) سے جو مسلمانوں کے رہبر ہیں، خطاب کرتی ہے کہ، مشورے کے بعد فیصلہ کر لو اور اس کے مطابق عمل کرو۔
اس کے علاوہ عمومی افکار و خیالات کی طرف رجوع اس سلسلے میں ہے، جس میں خداوند عالم کی طرف سے مسلمانوں کے لئے کوئی فریضہ معین نہ کیا گیا ہو۔ ایسے میں مسلمان تبادلہ خیال کے ذریعے اپنا فریضہ معلوم کر سکتے ہیں، لیکن جس امر میں نص کے ذریعے سب کا فریضہ معین کیا جا چکا ہے اس میں مشورے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ”حباب منذر“ پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئے اور فوج کے مرکز کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی درخواست کی تو پیغمبر (ص) سے خطاب کرکے عرض کیا ”فان کان عن امر سلّمنا و ان کا عن الرای فالتاخر عن حصنهم“ [7] یعنی اگر اس سلسلے میں کوئی الٰہی حکم ہے تو ہم تسلیم ہیں اور اگر ایسی بات ہے کہ ہم اس میں اپنی رائے دے سکتے ہیں تو لشکر اسلام کی مرکزی کمان کو، دشمن کے قلعے سے دوری میں ہی بھلائی ہے۔
خلافتِ امیرالمؤمنینؑ کا انتخاب
حضرت علی (ع) کی خلافت و جانشینی کا موضوع ایسا مسئلہ ہے جسے بہت سے نقلی دلائل نے ثابت اور واضح کر دیا ہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے خدا کے حکم سے بہت سے موقعوں پر مثلاً یوم الدار، غدیر خم، اور بیماری کے ایام میں ان کی خلافت و جانشینی کو صراحت سے بیان کر دیا ہے، اب مشورے کے ذریعے آنحضرت کی جانشینی کے، تعیین کے مسئلے کا حل کیا جانا، کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا یہ عمل نص کے مقابلے میں اجتھاد اور خدا کے قطعی حکم یا دلیل کے مقابل اپنے نظریہ کا اظہار نہیں ہے؟
قرآن مجید ایک آیت کے ضمن میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے : ’’جب پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید نے اپنی بیوی جناب زینب کو طلاق دے دی اور پیغمبر اکرم (ص) نے خدا کے حکم سے جناب زینب سے شادی کر لی تو یہ بات مسلمانوں کو بہت بری لگی کیونکہ جاہلیت کے زمانہ میں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اور جس طرح نسبی بیٹے کی بیوی سے شادی نا پسندیدہ اور حرام تھی اسی طرح منہ بولے بیٹے کی بیوی سے بھی شادی ناروا اور قبیح سمجھی جاتی تھی۔
مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ آنحضرت ہمارے نظریات کے پیرو ہوں گے اور ہمارے خیالات کا احترام کرتے ہوئے ہمارے مشورہ کی حقیقت سے با خبر رہیں گے، جبکہ پیغمبر اکرم (ص) نے یہ عمل خداوند عالم کے حکم سے اور جاہلیت کے رسم و رواج کو غلط قرار دینے کے لئے انجام دیا تھا۔ اور ظاہر ہے کہ خدا کے حکم کے ہوتے ہوئے عام لوگوں کے افکار و خیالات کی طرف توجہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مندرجہ ذیل آیت کے ذریعے ان موارد میں اپنی مداخلت اور اپنے خیالات کے اظہار کو شدت سے محکوم کیا ہے، جن میں اللہ کے حکم نے مسلمانوں کے لئے کوئی خاص فریضہ معین کر دیا ہو۔ قرآن فرماتا ہے : ”وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا“ [8]
یعنی جب خدا اور اس کا رسول کسی سلسلے میں حکم دے دیں پھر کسی مومن یا مومنہ کو اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں ہے (انہیں بہر حال خدا کے حکم کی پیروی کرنا ہوگی) اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کے فرمان سے سرتابی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔
نتیجہ
مشورہ کی حقیقت اور اہمیت کو اجاگر کرنے میں قرآن و سنت کی تعلیمات بھرپور رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ مشورہ صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک ایسا تصور ہے جو مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف فیصلے بہتر ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی بھی پیدا ہوتی ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ سورہ آل عمران: آیت ۱۵۹
[2]۔ سورہ شوریٰ: آیت ۳۸
[3]۔ ابن ہشام، السيرة النبوية، ج۱، ص۶۱۵؛ واقدی، المغازی، ج۱، ص۴۸
[4]۔ ابن ہشام، السيرة النبوية، ج۲، ص۶۳؛ واقدی، المغازی، ج۱، ص۲۰۹
[5]۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۲۲
[6]۔ واقدی، المغازی، ج۳، ص۹۲۵
[7]۔ واقدی، المغازی، ج۳، ص۹۲۵
[8]۔ سورہ احزاب: آیت ۳۶
منابع
1۔ قرآن کریم
2۔ ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دار صادر، بیروت ۱۳۸۵ ھ ق
3۔ ابن ہشام، عبدالملک، السيرة النبوية، دار إحياء التراث العربي، بیروت ١٣٧٥ ھ ق
4۔ واقدی، محمد بن عمر، المغازی، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بیروت ۱۴۰۹ ھ ق
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
سبحانی، جعفر، امت کی رہبری؛ ترجمہ سید احتشام عباس زیدی، قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام، ۱۳۷۶ ھ ش