- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/09/24
- 0 رائ
کاروان حسینی ان لوگوں سے تشکیل پایا تھا جو مدینہ منورہ سے امام حسینؑ کے ہمراہ نکلے تھے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ سے بھی اس امت کے کچھ نیک اور منتخب شدہ افراد کارواں حسینی میں شامل ہوئے۔ جن میں سے کچھ کربلا تک کاروان حسینی کے ہمراہ رہے اور روز عاشور شہادت کی سعادت سے فیضیاب ہوئے جبکہ کچھ کو امام حسینؑ نے کوئی نہ کوئی ذمہ داری دے کر بعض مقامات پر روانہ کیا۔ جن میں بعض وہیں پر شہید کر دیئے گئے اور بعض واپس پلٹ آئے۔
بہر حال ہم یہاں پر مکہ مکرمہ میں کاروان حسینی سے ملنے والے افراد کو ان کے علاقوں کے اعتبار سے مندرجہ ذیل چند ایک گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
ا- اہل مدینہ
۲-نا معلوم مقام سے آنے والے افراد (چونکہ کاروان حسینی میں بعض ایسے افراد بھی تھے جن کے شہر یا علاقہ کا نام تاریخ میں ذکر نہیں ہوا)
۳-اہل کوفہ
۴-اہل بصرہ
ا- اہل مدینہ
ابن عساکر لکھتے ہے: امام حسینؑ نے کسی کو مدینہ بھیجا اور بنی عبد المطلب کی اولاد میں سے مرد، خواتین، بچوں پر مشتمل انّیس افراد نے خود کو تیزی سے آپؑ تک پہنچادیا۔[1] یہ بات مخفی نہ رہے کہ اس روایت کے متن میں مدینہ منورہ سے آنے والے بنی ہاشم کے اس گروہ کے ناموں کو واضح نہیں کیا گیا ہے۔ جیسا کہ کتب تاریخ میں ان ہاشمی افراد کے نام جو مدینے سے کاروان حسینی کے ہمراہ مکہ آئے تھے تفصیل کے ساتھ نہیں ملتے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر کتب کے اندر امام حسینؑ کے ہمراہ مدینہ منورہ سے نکلنے والے ہاشمیوں کے ناموں کو اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[2] اس بنا پر امام حسینؑ کے ہمراہ نکلنے والے تمام ہاشمیوں کے نام کا پتہ لگانا انتہائی دشوار ہے۔[3] وگرنہ مکہ مکرمہ میں کاروان حسینی سے ملنے والے افراد کے نام معلوم کرنا آسان ہو جاتا۔ یہی چیز باعث بنی کہ موضوع مجمل و مبہم ہی رہ جائے۔ ہاں البتہ بعض تاریخی دلائل اشارہ کر رہے ہیں۔[4] کہ امام حسینؑ اپنی اور اپنے بھائی امام حسنؑ کی تمام اولاد اور محمد حنفیہ و عمر اطرف کے علاوہ اپنے سب بھائیوں کو اپنے ہمراہ مدینہ سے لے گئے تھے۔[5]
نیز یہ دلائل اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں۔[6]کہ جناب مسلم بن عقیل مدینہ منورہ سے امام حسینؑ کے ہمراہ نکلے تھے۔ البتہ یہ بات اس موضوع کو اجمال سے تفصیل کی جانب نہیں لے جاسکتی کیونکہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جناب عقیل کی اولاد میں سے کتنے افراد امام حسینؑ کے ہمراہ مدینہ منورہ سے نکلے تھے اور کون مکہ مکرمہ میں ساتھ جا ملے تھے۔ ہاں التبہ کتب تاریخ میں یہ نقل ہوا ہے کہ جناب عبد اللہ بن جعفر کے دو فرزند عون و محمد اپنے باپ کے ہمراہ امام حسینؑ سے ملنے کے لیے گئے اور کاروان حسینی کے مکہ مکرمہ سے نکلتے وقت اس میں شامل ہو گئے۔[7]جبکہ بعض دیگر منابع اس بات کی حکایت کر رہے ہیں کہ ان کے والد گرامی نے مدینہ منورہ سے ان دونوں کو ایک نامہ دے کر امام حسینؑ کی خدمت میں بھیجا اور وہ وہاں سے امام حسینؑ کے ہمراہ ہوئے۔[8] “یہ وہ آخری معلومات ہیں جو مکہ مکرمہ میں کاروان حسینی میں شامل ہونے والے بنی ہاشم کے سلسلہ میں ہاتھ آئی ہیں جبکہ بنی ہاشم کے علاوہ کسی اور کے بارے یہ نہیں ملتا کہ کوئی دوسرا شخص مدینہ منورہ سے آکر کاروان حسینی میں شامل ہو گیا ہو۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ تنہا جنادہ بن کعب بن حرث انصاری ہی تھا جو مدینہ منورہ سے اپنے خاندان کے ہمراہ نکلا اور مکہ مکرمہ میں جا کر کاروان حسینی میں شامل ہوگیا۔ چونکہ تاریخ میں کہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مکہ مکرمہ، بصرہ، کوفہ یا کسی اور شہر کے رہنے والے ہوں۔ شاید وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ عمرہ یا سنہ 60 ہجری میں حج کے ارادہ سے آئے ہوں اور پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر کاروان حسینی میں شامل ہو گئے ہوں اور پھر کربلا تک امامؑ کا ساتھ دیا ہو۔ البته عبد الرحمن بن عبد رب انصاری خزرجیؓ کی داستان بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ ہم نے ان دونوں افراد کو عمار بن حسان طائیؓ کے ہمراہ ذکر کیا ہے جبکہ قومی احتمال یہ ہے کہ عمار بن حسان طائیؓ کو فہ کے رہنے والے تھے۔
۲۔ نا معلوم مقام سے آنے والے افراد
الف. جنادة بن كعب بن حرث انصاری خزرجی
سماوی کہتا ہے: جنادہ، ان افراد میں سے تھے کہ جو اپنے خاندان کے ساتھ مکہ سے امامؑ کے ساتھ شامل ہوئے۔ عاشور کے دن میدان جنگ میں گئے اور پہلے ہی حملے میں شہید ہو گئے۔[9] بعض تاریخی منابع میں ان کو جنادہ بن حارث انصاری کے نام سے یاد کیا ہے۔[10] جیسا کہ ان کا بیٹا جو ان کے بعد شہید ہوا، عمرو بن جنادہ کے نام سے ذکر ہوا ہے۔[11] لیکن سماوی نے ان کے بیٹے کا نام عمر بن جنادہ بیان کیا ہے۔ لیکن سماوی نے ان افراد کے نام ذکر کرتے وقت جو اپنے خاندان کے ہمراہ امام سے جاملے تھے، جنادہ موصوف کو جنادہ بن حرث سلمانی کے نام سے یاد کیا ہے۔ نمازی کا عقیدہ ہے کہ جنادہ بن حرث انصاری اور جنادہ بن کعب بن حارث انصاری ایک ہی شخص کا نام ہے اور وہ معتقد ہے کہ یہ شخص، جنادہ بن حارث سلمانی ازدی کے علاوہ کوئی اور ہے کہ جسے مامقانی نے رسول اللہﷺ اور امیر المؤمنینؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ نمازی نے جنادہ نامی شخص کو زیارت ناحیہ یا رجبیہ میں نہیں پایا ہے، جبکہ اس کے برعکس مامقانی [12] نے دونوں زیارتوں میں اس جملے (السلام علی حیان بن حارث سلمانی ازدی) کو پایا ہے اور زیارت کا متن بھی یہی ہے۔[13]
ب. عبدالرحمن بن عبد رب انصاری خزرجی
سماوی کہتا ہے: وہ نامدار صحابی اور امیر المؤمنینؑ کے مخلص ساتھیوں میں سے تھے۔ ابن عقدہ نے اصبغ بن نباتہ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: (ایک دن) امیر المؤمنین نے فرمایا: جس شخص نے اپنے کانوں سے رسول اللہﷺ کی زبانی حدیث غدیر کو سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے اور جس نے نہیں سنا ہے وہ بیھٹا رہے۔ اس وقت مندرجہ ذیل افراد یعنی ابو ایوب انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن، ابو زینب، سہل بن حنیف، خزیمہ بن ثابت، عبد الله بن ثابت، حبشی بن جناده سلولی، عبید بن عازب، نعمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری، ابو فضالہ انصاری، عبد الرحمن بن عبد رب انصاری اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول خداﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:آگاہ ہو جاؤ! خدائے عز و جل میرا ولی ہے اور میں مؤمنوں کا ولی ہوں۔ آگاہ ہو جاؤ!جس کا میں ولی ہوں، اس کا یہ علی ولی ہے۔ خدایا اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور اس کے دشمنوں کو اپنا دشمن قرار دے اور ہر اس شخص کا مدد فرما جوعلی کی مدد کرے۔
صاحب حدائق کہتے ہیں کہ: حضرت علیؑ نے اسی عبدالرحمن کو قرآن سکھایا تھا اور اس کی تربیت کی تھی۔[14] عبدالرحمن ان افراد میں سے ہے جو مکہ مکرمہ سے امام حسین کے ساتھ آئے تھے اور وہ پہلےحملے میں آنحضرت کے حضور شہید ہوا۔[15]
ج. عمار بن حسان طائی
مامقانی کہتے ہیں: وہ عمار بن حسان بن شریح ہے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ مخلص شیعہ اور مشہور بہادر انسان تھا۔ وہ مکہ مکرمہ سے امام حسینؑ کے ہمراہ چلا یہاں تک کہ کربلا پہنچا اور عاشورا کے دن آنحضرت کے حضور شہید ہوا۔ وہ شہادت کے اس عظیم درجہ پر پہنچا کہ زیارت ناحیہ میں درود شریف کو اپنے لئے مختص کرگیا۔
سماوی کہتا ہے: عمار مخلص شیعوں اور مشہور بہادروں میں سے تھے۔ آپ کے والد گرامی حسان امیر المؤمنینؑ کے اصحاب میں سے تھے۔ جمل اور صفین کی جنگوں میں آنحضرت کے ہمرکاب لڑے اور صفین کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ عمار، مکہ مکرمہ سے امام حسینؑ کے ہمراہ روانہ ہوئے یہاں تک کہ آنحضرت کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ سروی کہتا ہے کہ وہ پہلے حملے میں شہید ہو گئے تھے۔
سماوی کہتا ہے: عمار کے پوتوں میں سے، عبداللہ بن احمد بن عامر بن سلیمان بن صالح بن وہب بن عمار کے نام ذکر ہوئے ہیں جو راوی اور شیعہ علماء میں سے ہیں اور امیر المؤمنینؑ کی قضاوتوں کی کتاب کا مصنف بھی ہے اور اسے اپنے والد کے واسطہ سے امام رضاؑ سے نقل کرتے ہیں۔ زیارت ناحیہ اور رجعیہ میں بھی عمار پر اس طرح درود بھیجا گیا ہے: “السلام على عمار بن حسان بن شريح الطائي”
شوشتری[16] نے احتمال دیا ہے کہ: “عمار بن حسان طائی اور عمار بن ابی سلامہ دالانی”[17] ایک ہی آدمی کا نام ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ احتمال صحیح نہیں ہے کیونکہ زیارت ناحیہ میں ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ درود بھیجا گیا ہے۔ [18]
۳۔ مکہ میں آنحضرت کے ساتھ ملنے والے کوفی
الف. بریر بن حضیر ہمدانی مشرقی
بریر کا شمار تابعین میں سے ہوتا ہے وہ سن رسیدہ، پرہیزگار، معروف قاری قرآن، صحابی امیر المؤمنین اور کوفہ کے بنی ہمدان کے معزز فرد تھے۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ: وہ امام حسین کی خبر سن کر کوفہ سے مکہ پہنچے تاکہ حسینؑ سے جاملیں۔ وہ آپ کے ہمراہ چلے یہاں تک کہ شہادت کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ طبری سردی سے نقل کرتے ہوئے کہتا ہے: جب حر نے امام حسینؑ پر سختی کی تو امامؑ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور خطاب فرمایا: اما بعد، دنیا بدل گئی ہے۔۔۔
پھر امام ؑکے ساتھیوں نے بولنا شروع کیا اور ہر ایک نے آنحضرت کے رکاب میں اپنی جان قربان کرنے پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ تو بریر بھی ان افراد میں سے تھے، اٹھے اور کہنے لگے: خدا کی قسم، اے رسول خداﷺ کے فرزند، خدا نے آپ کے ذریعہ سے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم آپؑ کے رکاب میں لڑیں اور ہمارا جسم آپ کی راہ میں ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے یہاں تک کہ آپ کے نانا قیامت آکر ہماری شفاعت فرمائیں۔ وہ لوگ جو اپنے پیا پیامبرﷺ کی بیٹی کے فرزند کو تباہ کرنا چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے، وائے ہو ان پر کل کس منہ سے خدا کے ساتھ ملاقات کرینگے ؟! افسوس ہے۔ ان پر اس دن کا جس دن آگ میں گریہ دیپکار کی فریاد بلند کرینگے!
ابو مخنف کہتا ہے: نویں محرم کے دن امام حسینؑ نے فرمایا: خیمے لگائے جائیں۔ اس وقت بریر عبد الرحمن سے مذاق کر کے اسے ہنسا رہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: تجھے خدا کی قسم مجھے معاف کر دے یہ وقت مذاق کرنے کا نہیں ہے!
بریر نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے خاندان کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نہ تو جوانی میں اور نہ ہی بڑھاپے میں کبھی مذاق کرتا تھا۔ لیکن خدا کی قسم اس وقت جس چیز سے ہم ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس کی خوشخبری کو اپنے دل کے کانوں سے سن رہا ہوں۔ خدا کی قسم، ہمارے اور حور العین کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے کہ ہم ان پر حملہ ور ہوں اور وہ اپنی تلواروں سے ہم پر حملہ کر دیں۔کاش وہ ابھی حملہ کر دیتے۔
ب. شوذب بن عبداللہ ہمدانی شاکری
یہ شاکر کا غلام ہے۔[19] شوذب شیعہ کے سربراہوں اور بزرگان میں سے تھا اور بہت ہی کم تعداد کے نامور بہادروں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ حافظ اور امیر المؤمنینؑ کی احادیث کا حامل تھا۔
حدائق الوردیہ کا مصنف کہتا ہے: شوذب کہیں بیھٹے تو شیعہ حدیث سننے کے لئے اس کے پاس آتے تھے۔ وہ شیعوں کے رہنماؤں اور بزرگوں میں سے تھا۔[20] وہ حضرت مسلم کا کوفہ آنے کے بعد، عابس کے ہمراہ مکہ آیا اور کو فیوں کی طرف سے حضرت مسلم کا دعوت نامہ کو امام حسینؑ تک پہنچایا اور آنحضرت کے ساتھ رہے یہاں تک کہ کر بلا آئے؟[21] جب جنگ شروع ہوئی تو برہنہ پرکار کرنے لگے، عابس نے اس کو بلایا اور جو کچھ اس کے دل میں گزر رہا تھا دریافت کیا، اور اصلی واقعہ معلوم ہونے کے بعد میدان میں جاکر شجاعانہ انداز میں لڑے اور بالآخرہ شہادت پر فائز ہوئے۔[22]
ج. قیس بن مستہر صیداوی
وہ قیس بن مستہر بن خالد بن جندب بن اغلبه بن دوران بن اسد بن خزیمہ اسدی الصیداوی ہیں۔ صیدا، قبیلہ اسد کے ایک گروہ کا نام ہے۔ قیس بنی صیدا کے شرافت مند اور بہارد مردوں میں سے تھے۔ وہ اہلبیت کے مخلص دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ دوسری دفعہ جب کوفیوں نے امام کو نامہ لکھا تو وہ ارحبی اور سلولی کے ہمراہ قاصد کے عنوان سے امام کی خدمت میں پہنچے۔
۴- مکہ میں امام سے جاملنے والے اہل بصرہ
بصریوں میں سے سات افراد کا ایک گروہ اس امت کے اچھے لوگوں میں سے مکہ مکرمہ میں امام حسینؑ سے جاملا اور وہ یہ ہیں:
الف. حجاج بن بدر حمیمی سعدی
یہ اہل بصرہ اور بنی سعد بن تمیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نے یزید بن مسعود نہشلی کے جواب کو مکہ میں امام حسینؑ کے پاس پہنچایا ہے۔ جب آنحضرتؑ کی خدمت میں پہنچے تو آپ کے ساتھ ہی رہے یہاں تک کہ کربلا میں حضرت کے رکاب میں شہید ہوئے۔[23]
صاحب حدائق لکھتے ہیں:[24] وہ عاشور کے دن ظہر کے بعد جنگ میں گئے اور درجہ شہادت پر فائر ہوئے۔ دیگر نے کہا ہے کہ: وہ ظہر سے پہلے پہلے ہی حملے میں شہید ہو گئے تھے۔”[25]
ب. قعنب بن عمر نمری
وہ بصرہ کے شیعوں میں سے تھے اور حجاج سعدی کے ہمراہ امام حسینؑ سے جاملے اور بالآخر کربلا میں آنحضرت کے حضور میں جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ “القائمیات” [26] کہا جاتا ہے۔
ج. ادہم بن امیه عبدی
ادہم، بصرہ کے شیعوں اور ان افراد میں سے تھے جو ماریہ بنت منتقد عبدی کے گھر میں جمع ہوا کرتے تھے۔ اس نے یزید بن ثبیط کے ہمراہ مکہ میں امام حسینؑ کے پاس جانے کا قصد کیا اور اسی شہر میں کاروان حسینی سے جاملے۔ سر انجام عاشور کے دن آنحضرت کے رکاب میں شہید ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ امام حسینؑ کے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پہلے حملہ ہی میں شہید کر دئے گئے تھے۔ نمازی کا عقیدہ یہ ہے کہ ادہم بن امیہ صحابی تھے۔
د. سیف بن مالک عبدی
سیف، بھی بصرہ کے شیعوں اور ان افراد میں سے تھے۔ جو ماریہ بنت منقذ کے گھر میں جمع ہوا کرتے تھے۔ وہ یزید بن ثبیط کے ہمراہ مکہ میں امامؑ کے پاس پہنچے اور آنحضرت کے ہمراہ رہے یہاں تک کہ سر انجام کربلا میں نماز ظہر کے بعد جنگ لڑتے ہوئے درجہ شہادت پر ہو گئے۔
ه. عامر بن مسلم عبدی اور اس کا غلام سالم
عامر، بھی بصرہ کے شیعوں اور ان افراد میں سے تھے جو اپنے غلام سالم کے ساتھ یزید بن ثبیط اور دیگر افراد کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں کاروان حسینی سے جاملے۔ یہ دونوں امامؑ کے ساتھ رہے یہاں تک کہ روز عاشورہ کربلا میں آنحضرتؑ کے رکاب میں شہادت نصیب ہوئی۔
کہا گیا ہے کہ وہ دونوں بھی پہلے حملہ میں شہید ہوئے تھے۔[27] خدا کا شکر بجالاتا ہوں کہ مجھے یہ توفیق عطا کی تاکہ اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔
نتیجہ
امام حسینؑ جب دین اسلام کی حفاظت کی خاطر مدینہ منورہ سے نکلے تو کچھ منتخب شدہ افراد، مدینہ کے رہنے والے، مکہ کے رہنے والے، بصرہ کے رہنے والے، اور نا معلوم علاقہ سے آنے والے افراد بھی کاروان حسینی میں شامل ہوئے اور شھادت جیسی نعمت سے فیضیاب ہوئے اور اپنی جان امام حسینؑ کے قدموں پر قربان کیں۔
حوالہ جات
[1] ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج۸، ص۱۷۸
[2] طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۷۱
[3] مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۳۴۶
[4] ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۱
[5] مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۳۴۶
[6] مفید، الارشاد، ص۲۱۹
[7] طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۷
[8] ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص ۷۵
[9] سماوی، ابصار العین، ص۱۵۸
[10]شوشتری، مقتل الحسین، ج۲، ص۱۲۵
[11] سماوی، ابصار العین، ص۱۵۹
[12] مامقانی، تنقیح المقال ، ج۱، ص۲۳۴
[13] نمازی، مستدرکات علم الرجال، ج۲، ص۲۳۹
[14] مامقانی، تنقیح المقال، ج۲، ص۱۴۵
[15] سماوی، ابصار العین، ص۱۵۸
[16] شوشتری، قاموس الرجال، ج۸، ص۷
[17] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۵، ص۷۲
[18] مجلسی، بحارالانوار، ج۳۵، ص ۷۲ اور ۷۳
[19] طبری، تاریخ طبری، ص۳۲۹
[20] سماوی، ابصار العین، ص۱۲۶
[21] نمازی، مستدرکات علم الرجال، ج۴، ص۲۲۱
[22] سماوی، ابصار العین ، ص۱۲۹-۱۳۰
[23] سماوی، ابصار العین، ص ۲۱۳-۲۱۴
[24] محلی، الحدائق الوردیۃ، ص۱۲۲
[25] سماوی، ابصار العین، ص۲۱۳-۲۱۴
[26] دو زیارت نامہ رجبیہ اور ناحیہ، کو “القائمیات” کہا جاتا ہے۔
[27] سماوی، ابصار العین، ص۱۹۱
منابع
۱-ابن اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، دار الاضواء، بیروت، لبنان،۱۴۱۱
۲-ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، دار الفکر،بیروت، لبنان،۱۳۵۷
۳-اخطب خوارزم، موفق بن احمد،مقتل الحسین، انوار الھدی، قم، ایران،۱۴۲۳
۴-سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین، زمزم ھدایت ،قم، ایران،۱۳۸۴
۵- شوشری، محمد تقی، قاموس الرجال، جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم. مؤسسة النشر الإسلامي، قم، ایران،۱۴۱۰
۶-طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، اساطیر، تھران، ۱۳۶۲
۷-علامہ مجلسی، بحار الانوار لدر الاخبار الائمۃ الاطھار، دار المعارف للمطبوعات، بیروت، لبنان، ۱۴۲۱
۸-مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، آل البیت،۱۳۹۲
۹-محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیۃ فی مناقب ائمۃ الزیدیۃ، مکتبۃ بدر، صنعا، یمن، ۱۴۲۳
۱۰-مفید، محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد، قم ایران،۱۴۱۳
۱۱-نمازی شاھرودی، علی، مستدرکات علم الرجال الحدیث، فرزند مولف، تھران، ایران، ۱۴۱۴
مضمون کا مآخذ
امام حسینؑ کے مکّی ایّام،شیخ نجم الدین طبسی،ترجمہ ناظم حسین اکبر،دلیل ما، قم، ۱۳۹۲