امام حسن مجتبى (ع) كي خلافت اور صلح کا مختصر جائزہ

امام حسن مجتبى (ع) كي خلافت اور صلح کا مختصر جائزہ

کپی کردن لینک

امام حسن مجتبى (ع) کی خلافت اور صلح، اسلامی تاریخ کا ایک اہم دور رہا ہے۔  امام حسن مجتبى (ع) نے ثابت کیا کہ بعض اوقات امن کو برقرار رکھنا اور مسلمانوں کے درمیان اتحادی قیادت فراہم کرنا زیادہ اہم ہوتا ہے بجائے اس کے کہ کسی بھی لڑائی میں شامل ہو جائیں۔

امام حسن مجتبى (ع) كی خلافت

21/ رمضان المبارك 40 ھ ق كى شام كو حضرت على (ع) كى شہادت ہوگئی۔ اس كے بعد لوگ شہر كى جامع مسجد ميں جمع ہوئے۔ امام حسن مجتبى (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور اپنے پدر بزرگوار كى شہادت كے اعلان اور ان كے تھوڑے سے فضائل بيان كرنے كے بعد اپنا تعارف كرايا۔ پھر بيٹھ گئے اور عبداللہ بن عباس كھڑے ہوئے اور كہا لوگو يہ امام حسن مجتبى (ع) تمہارے پيغمبر (ص) كے فرزند حضرت على (ع) كے جانشين اور تمہارے امام (ع) ہيں ان كى بيعت كرو۔

لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں ميں آپ (ع) كے پاس آتے اور بيعت كرتے رہے۔[1] نہايت ہى غير اطمينان نيز مضطرب و پيچيدہ صورت حال ميں كہ جو آپ (ع) كو اپنے پدر بزرگوار كى زندگى كے آخرى مراحل ميں در پيش تھے آپ (ع) نے حكومت كى ذمہ دارى سنبھالي۔

امام حسن مجتبى (ع) نے حكومت كو ايسے لوگوں كے درميان شروع كيا جو مبارزہ اور جہاد كى حكمت عملى اور اس كے اعلى مقاصد پر چنداں ايمان نہيں ركھتے تھے چونكہ ایک طرف آپ (ع) پيغمبر (ص) و على (ع) كى طرف سے اس عہدہ كے لئے منصوب تھے اور دوسرى طرف لوگوں كى بيعت اور ان كى آمادگى نے بظاہر ان پر حجت تمام كردى تھى۔

اس لئے آپ (ع) نے زمام حكومت كو ہاتھوں ميں ليا اور تمام گورنروں كو ضرورى احكام صادر فرمائے اور معاويہ كے فتنہ كو سلا دينے كى غرض سے لشكر اور سپاہ كو جمع كرنا شروع كيا، معاويہ كے جاسوسوں ميں سے دو افراد كى شناخت اور گرفتارى كے بعد قتل كرا ديا۔ آپ (ع) نے ایک خط بھى معاويہ كو لكھا كہ تم جاسوس بھيجتے ہو؟ گويا تم جنگ كرنا چاہتے ہو جنگ بہت نزديك ہے منتظر رہو انشاء اللہ۔[2]

امام حسن مجتبى (ع) اور معاويہ كى كارشكنی

جس بہانہ سے قريش نے حضرت على (ع) سے روگردانى كى اور ان كى كم عمرى كو بہانہ بنايا معاويہ نے بھى اسى بہانہ سے امام حسن مجتبى (ع) كى بيعت سے انكار كيا۔[3] وہ دل ميں تو يہ سمجھ رہے تھے كہ امام حسن مجتبى (ع) تمام لوگوں سے زيادہ مناسب ہيں ليكن ان كى رياست طلبى نے ان كو حقيقت كى پيروى سے باز ركھا۔

معاويہ نے نہ صرف يہ كہ بيعت سے انكار كيا بلكہ وہ امام (ع) كو درميان سے ہٹا دينے كى كوشش كرنے لگا كچھ لوگوں كو اس نے خفيہ طور پر اس بات پر معين كيا كہ امام (ع) كو قتل كر ديں۔ اس بنا پر امام حسن مجتبى (ع) لباس كے نيچے زرہ پہنا كرتے تھے اور بغير زرہ كے نماز كے لئے نہيں جاتے تھے، معاويہ كے ان مزدوروں ميں سے ایک شخص نے ایک دن امام حسن مجتبى (ع) كى طرف تير پھينكا ليكن پہلے سے كئے گئے انتظام كى بنا پر آپ (ع) كو كوئی صدمہ نہيں پہونچا۔[4]

معاويہ نے اتحاد كے بہانہ اور اختلاف كو روكنے كے حيلہ سے اپنے عمال كو لكھا كہ ”تم لوگ ميرے پاس لشكر لے كر آو” پھر اس نے اس لشكر كو جمع كيا اور امام حسن مجتبى (ع) سے جنگ لڑنے كے لئے عراق كى طرف بھيجا۔[5]

امام حسن مجتبى (ع) نے بھى حجر بن عدى كندى كو حكم ديا كہ وہ حكام اور لوگوں كو جنگ كے لئے آمادہ كريں۔[6]

امام حسن مجتبى (ع) كے حكم كے بعد كوفہ كى گليوں ميں منادى نے ”الصّلوة الجامعة” كى آواز بلند كى اور لوگ مسجد ميں جمع ہوگئے امام حسن مجتبى (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا: ”معاويہ تمہارى طرف جنگ كرنے كے لئے آرہا ہے تم بھى نُخَيلہ كے لشكر گاہ كى طرف جاؤ …” پورے مجمع پر خاموشى طارى رہى۔

حاتم طائي كے بيٹے عدى نے جب ايسے حالات ديكھے تو اٹھ كھڑا ہوا اور اس نے كہا سبحان اللہ يہ كيسا موت كا سناٹا ہے جس نے تمہارى جان لے لى ہے؟ تم امام (ع) اور اپنے پيغمبر (ص) كے فرزند كا جواب نہيں ديتے … خدا كے غضب سے ڈرو كيا تم كو ننگ و عار سے ڈر نہيں لگتا …؟

پھر امام حسن مجتبى (ع) كى طرف متوجہ ہوا اور كہا ”ميں نے آپ (ع) كى باتوں كو سنا اور ان كى بجا آورى كے لئے حاضر ہوں۔ پھر اس نے مزيد كہا۔ اب ميں لشكرگاہ ميں جا رہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ ميرے ساتھ آجائے۔ قيس بن سعد، معقل بن قيس اور زياد بن صَعصَعہ نے بھى اپنى پرزور تقريروں ميں لوگوں كو جنگ كى ترغيب دلائي پھر سب لشكرگاہ ميں پہنچ گئے۔”[7]

امام حسن مجتبى (ع) كے پيروكاروں كے علاوہ ان كے سپاہيوں كو مندرجہ ذيل چند دستوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے:

1۔ خوارج، جو صرف معاويہ سے دشمنى اور ان سے جنگ كرنے كى خاطر آئے تھے نہ كہ امام حسن مجتبى (ع) كى طرف دارى كے لئے۔

2۔ حريص اور فائدہ كى تلاش ميں رہنے والے افراد جو مادى فائدہ اور جنگى مال غنيمت حاصل كرنے والے تھے۔

3۔ شک كرنے اور متزلزل ارادہ كے حامل افراد جن پر ابھى تك امام حسن مجتبى (ع) كى حقانيت ثابت نہيں ہوئي تھي، ظاہر ہے كہ طبعى طور پر ايسے افراد ميدان جنگ ميں اپنى جاں نثارى كا ثبوت نہيں دے سكتے تھے۔

4۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے قبيلہ كے سرداروں كى پيروى ميں شركت كى تھى ان ميں كوئي دينى جذبہ نہ تھا۔[8]

امام حسن مجتبى (ع) نے لشكر كے ايك دستہ كو حَكَم كى سردارى ميں شہر انبار بھيجا، ليكن وہ معاويہ سے جاملا اور اس كى طرف چلا گيا۔ حَكَم كى خيانت كے بعد امام (ع) مدائن كے مقام ”ساباط” تشريف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد كو عبيداللہ بن عباس كى سپہ سالارى ميں معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے روانہ كيا اور قيس بن سعد كو بھى اس كى مدد كے لئے منتخب فرمايا كہ اگر عبيداللہ بن عباس شہيد ہوجائيں تو وہ سپہ سالارى سنبھال ليں۔

معاويہ ابتداء ميں اس كوشش ميں تھا كہ قيس كو دھوكہ ديدے۔ اس نے دس لاكھ درہم قيس كے پاس بھيجے تاكہ وہ اس سے مل جائے يا كم از كم امام حسن مجتبى (ع) سے الگ ہوجائے، قيس نے اس كے پيسوں كو واپس كر ديا اور جواب ميں كہا: ”تم دھوكہ سے ميرے دين كو ميرے ہاتھوں سے نہيں چھين سكتے۔”[9]

ليكن عبيداللہ بن عباس صرف اس پيسہ كے وعدہ پر دھوكہ ميں آگيا اور راتوں رات اپنے خاص افراد كے ايك گروہ كے ساتھ معاويہ سے جاملا صبح سويرے لشكر بغير سرپرست كے رہ گيا، قيس نے لوگوں كے ساتھ نماز پڑھى اور اس واقعہ كى رپورٹ امام حسن مجتبى (ع) كو بھيج دى۔[10]

قيس نے بڑى بہادرى سے جنگ كى چونكہ معاويہ نے قيس كو دھوكہ دينے كے راستہ كو مسدود پايا اس لئے اس نے عراق كے سپاہيوں كے حوصلہ كو پست كر دينے كے لئے دوسرا راستہ اختيار كيا۔ اس نے امام حسن مجتبى (ع) كے لشكر ميں، چاہے وہ مَسكن[11] ميں رہا ہو يا مدائن ميں، چند جاسوس بھيجے تاكہ وہ جھوٹى افواہيں پھيلائيں اور سپاہيوں كو وحشت ميں مبتلا كريں۔

مقام مَسكن ميں يہ پروپيگنڈہ كر ديا گيا كہ امام حسن مجتبى (ع) نے معاويہ سے صلح كى پيشكش كى ہے اور معاويہ نے بھى قبول كرلى ہے۔[12] اور اس كے مقابل مدائن ميں بھى يہ افواہ پھيلا دى كہ قيس بن سعد نے معاويہ سے سازباز كر لى اور ان سے جاملا ہے۔[13]

ان افواہوں نے امام حسن مجتبى (ع) كے سپاہيوں كے حوصلوں كو توڑ ديا اور يہ پروپيگنڈے امام (ع) كے اس لشكر كے كمزور ہونے كا سبب بنے جو لشكر ہر لحاظ سے طاقتور اور مضبوط تھا۔

معاويہ كى سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح كے موافق نہ تھے انہوں نے فتنہ و فساد پھيلانا شروع كر ديا۔ انھيں لوگوں ميں سے كچھ افراد نہايت غصّہ كے عالم ميں امام (ع) كے خيمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ كر لے گئے يہاں تك كہ امام حسن مجتبى (ع) كے پير كے نيچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس كو بھى كھينچ لے گئے۔[14]

ان كى جہالت اور نادانى يہاں تك پہنچ گئي كہ بعض لوگ فرزند پيغمبر كو (معاذ اللہ) كافر كہنے لگے۔ اور ”جراح بن سَنان” تو قتل كے ارادہ سے امام (ع) كى طرف لپكا اور چلّا كر بولا، اے حسن (ع) تم بھى اپنے باپ كى طرح مشرك ہوگئے (معاذاللہ) اس كے بعد اس نے حضرت كى ران پر وار كيا اور آپ (ع) زخم كى تاب نہ لاكر زمين پر گر پڑے، امام حسن مجتبى (ع) كو لوگ فوراً مدائن كے گورنر ”سعد بن مسعود ثقفي” كے گھر لے گئے اور وہاں كچھ دنوں تك آپ (ع) كا علاج ہوتا رہا۔[15]

اس دوران امام حسن مجتبى (ع) كو خبر ملى كہ قبائل كے سرداروں ميں سے كچھ نے خفيہ طور پر معاويہ كو لكھا ہے كہ اگر عراق كى طرف آجاؤ تو ہم تم سے يہ معاہدہ كرتے ہيں كہ امام حسن مجتبى (ع) كو تمہارے حوالے كر ديں۔

معاويہ نے ان كے خطوط كو امام حسن مجتبى (ع) كے پاس بھيج ديا اور صلح كى خواہش ظاہر كى اور يہ عہد كيا كہ جو بھى شرائط آپ (ع) پيش كريں گے وہ مجھے قبول ہيں۔[16]

ان دردناك واقعات كے بعد امام حسن مجتبى (ع) نے سمجھ ليا كہ معاويہ اور اس كے كارندوں كى چالوں كے سامنے ہمارى تمام كوششيں نقش بر آب كے سوا كچھ نہيں ہيں۔ ہمارى فوج كے صاحب نام افراد معاويہ سے مل گئے ہيں لشكر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق كا دامن چھوڑ ديا ہے ممكن ہے كہ معاويہ بہت زيادہ تباہى اور فتنے برپا كر دے۔

مذكورہ بالا باتوں اور دوسرى وجوہ كے پيش نظر امام حسن مجتبى (ع) نے جنگ جارى ركھنے ميں اپنے پيروكاروں اور اسلام كا فائدہ نہيں ديكھا۔

اگر امام (ع) اپنے قريبى افراد كے ہمراہ مقابلہ كے لئے اٹھ كھڑے ہوتے اور قتل كر ديئے جاتے تو نہ صرف يہ كہ معاويہ كى سلطنت كے پايوں كو متزلزل كرنے يا لوگوں كے دلوں كو جلب كرنے كے سلسلہ ميں ذرّہ برابر بھى اثر نہ ہوتا، بلكہ معاويہ اسلام كو جڑ سے ختم كر دينے اور سچے مسلمانوں كا شيرازہ منتشر كر دينے كے ساتھ ساتھ اپنى مخصوص فريب كارانہ روش كے ساتھ لباس عزا پہن كر انتقام خون امام حسن مجتبى (ع) كے لئے نكل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول (ص) كے خون كا داغ اپنے دامن سے دھو ڈالتا خاص كر ايسى صورت ميں جب صلح كى پيشكش معاويہ كى طرف سے ہوئي تھى اور وہ امام (ع) كى طرف سے ہر شرط قبول كر لينے پر تيار نظر آتا تھا۔

بنابراين (بس اتنا) كافى تھا كہ امام حسن مجتبى (ع) نہ قبول كرتے اور معاويہ ان كے خلاف اپنے وسيع پروپيگنڈے كے ذريعہ اپنى صلح كى پيشكش كے بعد ان كے انكار كو خلاف حق بنا كر آپ (ع) كى مذمت كرتا۔ اور كيا بعيد تھا۔ جيسا كہ امام (ع) نے خود پيشين گوئي كر دى تھي۔ كہ ان كو اور ان كے بھائي كو گرفتار كر ليتا اور اس طريقہ سے فتح مكہ كے موقع پيغمبر (ص) كے ہاتھوں اپنى اور اپنے خاندان كى اسيرى كے واقعہ كا انتقام ليتا۔ اس وجہ سے امام (ع) نے نہايت سخت حالات ميں صلح كى[17] پيشكش قبول كر لي۔

امام حسن مجتبى (ع) اور معاہدہ صلح

معاہدہ صلح امام حسن مجتبى (ع) كا متن، اسلام كے مقدس مقاصد اور اہداف كو بچانے ميں آپ (ع) كى كوششوں كا آئينہ دار ہے۔ جب كبھى كوئي منصف مزاج اور باريك بين شخص صلح نامہ كى ايك ايك شرط كى تحقيق كرے گا تو بڑى آسانى سے فيصلہ كر سكتا ہے كہ امام حسن مجتبى (ع) نے ان خاص حالات ميں اپنى اور اپنے پيروكاروں اور اسلام كے مقدس مقاصد كو بچاليا۔

صلح نامہ كے بعض شرائط ملاحظہ ہوں:

1۔ امام حسن مجتبى (ع) زمام حكومت معاويہ كے سپرد كر رہے ہيں اس شرط پر كہ معاويہ قرآن و سيرت پيغمبر (ص) اور شائستہ خلفاء كى روش پر عمل كرے۔[18]

2۔ بدعت اور على (ع) كے لئے ناسزا كلمات ہر حال ميں ممنوع قرار پائيں اور ان كى نيكى كے سوا اور كسى طرح ياد نہ كيا جائے۔[19]

3۔ كوفہ كے بيت المال ميں پچاس لاكھ درہم موجود ہيں، وہ امام حسن مجتبى (ع) كے زير نظر خرچ ہوں گے [20] اور معاويہ ”داراب گرد” كى آمدنى سے ہر سال دس لاكھ درہم جنگ جمل و صفين كے ان شہداء كے پسماندگان ميں تقسيم كرے گا جو حضرت على (ع) كى طرف سے لڑتے ہوئے قتل كر ديئے گئے تھے۔[21]

4۔ معاويہ اپنے بعد كسى كو خليفہ معين نہ كرے۔[22]

5۔ ہر شخص چاہے وہ كسى بھى رنگ و نسل كا ہو اس كو مكمل تحفظ ملے اور كسى كو بھى معاويہ كے خلاف اس كے گذشتہ كاموں كو بنا پر سزا نہ دى جائے۔[23]

6۔ شيعيان على (ع) جہاں كہيں بھى ہوں محفوظ رہيں اور كوئي ان سے معترض نہ ہو۔[24]

امام حسن مجتبى (ع) نے اور دوسرى شرطوں كے ذريعہ اپنے بھائي امام حسين (ع) اور اپنے چاہنے والوں كى جان كى حفاظت كى اور اپنے چند اصحاب كے ساتھ جن كى تعداد بہت ہى كم تھى ايك چھوٹا سا اسلامى ليكن با روح معاشرہ تشكيل ديا اور اسلام كو حتمى فنا سے بچاليا۔

امام حسن مجتبى (ع) اور معاويہ كى پيمان شكني

معاويہ وہ نہيں تھا جو معاہدہ صلح كو ديكھ كر امام حسن مجتبى (ع) كے مطلب كو نہ سمجھ سكے۔ اسى وجہ سے صلح كى تمام شرطوں پر عمل كرنے كا عہد كرنے كے باوجود صرف جنگ بندى اور مكمل غلبہ كے بعد ان تمام شرطوں كو اس نے اپنے پيروں كے نيچے روند ديا اور مقام نُخَيلہ ميں ايك تقرير ميں صاف صاف كہہ ديا:

”ميں نے تم سے اس لئے جنگ نہيں كى كہ تم نماز پڑھو، روزہ ركھو اور حج كے لئے جاؤ بلكہ ميرى جنگ اس لئے تھى كہ ميں تم پر حكومت كروں اور اب ميں حكومت كى كرسى پر پھنچ گيا ہوں اور اعلان كرتا ہوں كہ صلح كے معاہدہ ميں جن شرطوں كو ميں نے ماننے كے لئے كہا تھا ان كو پاؤں كے نيچے ركھتا ہوں اور ان كو پورا نہيں كروں گا۔”[25]

لہذا اس نے اپنے تمام لشكر كو اميرالمؤمنين (ع) كى شان ميں ناسزا كلمات كہنے پر برانگيختہ كيا۔ اس لئے كہ وہ جانتا تھا كہ ان كى حكومت صرف امام كى اہانت اور ان سے انتقامى رويہ كے سايہ ميں استوار ہوسكتى ہے۔ جيسا كہ مروان نے اس كو صاف لفظوں ميں كہہ ديا كہ ”على كو دشنام ديئے بغير ہمارى حكومت قائم نہيں رہ سكتى۔”[26]

دوسرى طرف اميرالمؤمنين (ع) كے چاہنے والے جہاں كہيں بھى ملتے ان كو مختلف بہانوں سے قتل كر ديتا تھا۔ اس زمانہ ميں تمام لوگوں سے زيادہ كوفہ كے رہنے والے سختى اور تنگى سے دوچار تھے۔ اس لئے كہ معاويہ نے مغيرہ كے مرنے كے بعد كوفہ كى گورنرى كو زياد كے حوالہ كر ديا تھا اور زياد شيعوں كو اچھى طرح پہچانتا تھا، وہ ان كو جہاں بھى پاتا بڑى بے رحمى سے قتل كر ديتا تھا۔[27]

امام حسن مجتبى (ع) کا مدينہ كى طرف واپسي

معاويہ ہر طرف سے طرح طرح كى امام حسن مجتبى (ع) كو تكليفيں پہنچانے لگا۔ آپ (ع) اور آپ (ع) كے اصحاب پر اس كى كڑى نظر تھى ان كو بڑے سخت حالات ميں ركھتا اور علي (ع) و خاندان على (ع) كى توہين كرتا تھا۔

يہاں تك كہ كبھى تو امام حسن مجتبى (ع) كے سامنے آپ (ع) كے پدر بزرگوار كى برائي كرتا اور اگر امام (ع) اس كا جواب ديتے تو آپ (ع) كو بھى ادب سكھانے كى كوشش كرتا۔[28]

كوفہ ميں رہنا مشكل ہوگيا تھا اس لئے آپ نے مدينہ لوٹ جانے كا ارادہ كيا۔ ليكن مدينہ كى زندگى بھى امام حسن مجتبى (ع) كے لئے عافيت كا سبب نہيں بنى اس لئے كہ معاويہ كے كارندوں ميں سے ايك پليد ترين شخص مروان مدينہ كا حاكم تھا، مروان وہ ہے جس كے بارے ميں پيغمبر (ص) نے فرمايا تھا: ”ہو الوزغ بن الوزغ، الملعون بن الملعون”[29]

اس نے امام (ع) اور آپ كے اصحاب كا جينا مشكل كر ديا تھا يہاں تك كہ امام حسن مجتبى (ع) كے گھر تك جانا مشكل ہوگيا تھا، باوجودےكہ امام (ع) دس برس تك مدينہ ميں رہے ليكن ان كے اصحاب، فرزند پيغمبر كے چشمہ علم و دانش سے بہت كم فيض ياب ہوسكے۔

خاتمہ

امام حسن مجتبیٰ (ع) کی خلافت کا آغاز حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد ہوا، جب لوگوں نے آپ (ع) کی بیعت کی۔ اس وقت سیاسی حالات پیچیدہ اور غیر مستحکم تھے، اور معاویہ نے آپ کی بیعت سے انکار کیا۔ امام حسن (ع) نے اسلام کے مقدس مقاصد کی حفاظت کے لئے کچھ شرائط کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا، لیکن معاویہ نے اس معاہدے کی تمام شرائط کی خلاف ورزی کی۔

 

حوالہ جات

[1] مفيد، الإرشاد، ص۱۸۸۔
[2] مفيد، الإرشاد، ص۱۸۹؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۳۱؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۵۳۔ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّكَ دَسَسْتَ اَلرِّجَالَ لِلاِحْتِيَالِ وَ اَلاِغْتِيَالِ وَ أَرْصَدْتَ اَلْعُيُونَ كَأَنَّكَ تُحِبُّ اَللِّقَاءَ وَ مَا أَوْشَكَ ذَلِكَ فَتَوَقَّعْهُ إِنْ شَاءَ اَللَّهُ۔
[3] امام حسين عليه ‌السلام كے مقابل معاويہ كى منطق سے واقفيت كے لئے امام حسن مجتبى (ع) كے نام معاويہ كا وہ خط پڑھا جائے جس كو ابن ابى الحديد نے اپنى شرح كى ج 16 / 37 پر درج كيا۔
[4] مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۲۳۔
[5] ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۳۷-۳۸؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۶۰۔
[6] مفيد، الإرشاد، ص۱۸۹؛ مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۴۶؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۳۸؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۶۱۔
[7] ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۳۷؛ مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۵۰۔
[8] مفيد، الإرشاد، ص۱۸۹؛ مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۴۶۔
[9] الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۴۔
[10] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۰۔
[11] مسكن منزل كے وزن پر ہے۔ نہر دجيل كے كنارے پر ايك جگہ ہے جہاں قيس كى سپہ سالارى ميں امام حسن مجتبى (ع) كا لشكر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔
[12] الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۴۔
[13] الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۴۔
[14] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۰؛ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۵؛ مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۴۷؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۴۱؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۶۳۔
[15] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۰۔
[16] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۱-۱۹۰؛ الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۱۵۔
[17] مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۱۷؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۴۲-۴۱؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۱۴۔
[18] مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۶۵۔
[19] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۱؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۶۳۔؛ قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۲۳۷؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۴۔
[20] م‍ن‍ق‍ری‍وس‌ ص‍دق‍ی‌، تاريخ دول الإسلام، ج۱، ص۵۳؛ قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۲۳۸؛ ابن‌ جوزی‌، تذکرة الخواص، ص۱۸۰؛ طبری، تاریخُ الطبری، ج۵، ص۱۶۰۔
[21] جوہرة الكلام؛ قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۳۳۷۔
[22] مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۶۵۔
[23] ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۴۳۔
[24] مفيد، الإرشاد؛ قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۲۳۷؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۴۔
[25] حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۲۳۷؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۴۳؛ طبری‌، ذخائر العقبی ميں اتنا مزيد ہے كہ معاويہ نے شروع ميں ان شرائط كو مطلقاً قبول نہيں كيا اور دس آدميوں كو منجملہ قيس بن سعد كے مستثنى كيا اور لكھا كہ ان كو جہاں بھى ديكھوں گاان كى زبان اور ہاتھ كاٹ دوں گا امام حسن مجتبى (ع) نے جواب ميں لكھا كہ: ايسى صورت ميں، ميں تم سے كبھى بھى صلح نہيں كرونگا، معاويہ نے جب يہ ديكھا تو سادہ كاغذ آپ كے پاس بھيجديا اور لكھا كہ آپ جو چاہيں لكھديں ميں اسكو مان لونگا اور اس پر عمل كرونگا۔
[26] مجلسی، بِحارُالاَنوار، ج۴۴، ص۴۹؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۱۵-۱۴؛ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ص۷۰؛ مفيد، الإرشاد، ص۹۱۔
[27] ابن‌ حجر هیتمی‌، الصواعق المحرقة، ص۳۳۔ (لايستقيم لنا الامر الا بذالك اى بسبّ علي۔)
[28] قرشی، حياة الإمام الحسن، ج۲، ص۳۵۶۔
[29] مفيد، الإرشاد، ص۱۹۱؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۱۶، ص۴۷۔

فہرست منابع

1. ابن ابي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۷۵ ش۔
2. ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص للعلامة سبط ابن الجوزي، تهران، مکتبة نينوی الحديثة، ۱۴۲۶ ھ ق۔
3. ابن حجر هیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقة فی الرد علی أهل البدع و الزندقة، قم، مکتبة القاهرة، ۱۳۸۵ ھ ق.
4. ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، قم، الشريف الرضي، ۱۴۱۶ ھ ق۔
5. طبری، محب الدین احمد بن عبدالله، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی، قاهره، مکتبة القدسي، ۱۳۵۶ ھ ق۔
6. طبری، محمد بن جریر بن یزید، تاریخُ الطبری، بیروت، موسسة الاعلمی، ١٤٠١ ھ.ق۔
7. قرشی، باقر شریف، حياة الإمام الحسن بن علي عليهما السلام: دراسه و تحلیل، بیروت، دار البلاغة، ۱۴۱۳ ھ ق -۱۹۹۳ م۔
8. مجلسی، محمد باقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تهران، دارالکتب الاسلامیة، ۱۳۱۵ ھ.ق۔
9. مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، ۱۴۱۳ ھ ق ۔
10. م‍ن‍ق‍ری‍وس ص‍دق‍ی، رزق ال‍ل‍ه، تاريخ دول الإسلام، فجاله – مصر، مطبعة الهلال، ۱۳۲۵ ھ ق – ۱۹۰۷ م۔
11. الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب؛ تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار الكتب العلمية، ۱۳۵۸ ھ.ق۔

 

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ (س) اور ائمہ معصومين عليهم ‌السلام كى حيات طيبة)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، 1428 ھ ق؛ ص ۶۶ الی ۷۹۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے