- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 17 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/11/25
- 0 رائ
طبری نے جنگ جمل میں شرکت کرنے کے لئے کوفیوں کی رضاکارانہ آمادگی کے بارے میں اس طرح روایت کی ہے:
”امیرالمومنین علی ںنے ہاشم بن عتبہ کوایک خط دے کر ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا حاکم تھا کے پاس کوفہ بھیجا۔ اس خط میں ابو موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ کوفیوں کی ایک فوج کمک کے طور پرجنگ کے لئے اس کے ساتھ بصرہ بھیج دے۔ چوں کہ ابو موسیٰ اشعری نے امام کے حکم کی نافرمانی کی اور کوفیوں کو امام کی مدد کے لئے بھیجنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا اس لئے حضرت نے اپنے بیٹے حسن اور عمار یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا اور ابو موسیٰ کو کوفہ کی حکومت سے معزول کر دیا۔
حسن ابن علی اور عمار یاسر کوفہ میں داخل ہوئے اور مسجد میں تقریر و ہدایت کرنے لگے ان دونوں کی تقریر وں کا یہ نتیجہ نکلا کہ کوفہ کے باشندوں نے بصرہ کی جنگ میں شرکت کی آمادگی کا اعلان کیا اور تقریباً بارہ ہزار جنگجو کوفی حضرت علی ںکے ساتھ ملحق ہوگئے۔
نیزطبری بصرہ میں حضرت علی ں کی موجودگی کے بارے میں روایت کرتا ہے:
”تین دن تک دونوں متخاصم فوجوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھیں کوئی جنگ نہ ہوئی۔بلکہ حضرت علی ـ،بعض افراد کو ایلچیوں کے طور پر ان کے (طلحہ،زبیر و عائشہ) پاس بھیجتے رہے اور پیغام دیتے رہے کہ اس نافرمانی،اختلاف اور دشمنی سے باز آجائیں۔
طبری نے ان تین دنوں کے دوران دو طرفہ خط و کتابت اور گفتگو کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے۔لیکن اس کے ایک حصہ کو ابن قتیبہ،ابن اعثم اور سید رضی نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔
منجملہ درج ذیل خط یہ ہے جو امام نے طلحہ و زبیر کے پاس لکھ کر بھیجا تھا:
”خد ا کی حمد و ثنا اور پیغمبر خدا ۖپر درود و سلام کے بعد،دونوں بخوبی جانتے ہو اور دل سے اقرار بھی کرتے ہو اگر چہ زبان پر نہیں لاتے اور اعتراف نہیں کرتے ہو، کہ میں نے کسی کو لوگوں کے پاس نہیں بھیجا تھا اور ان سے یہ نہیں چاہاتھا کہ میری بیعت کریں بلکہ یہ لوگ ہی تھے جنھوں نے مجھے حکومت اور بیعت قبول کرنے پر مجبور کیا اور تب تک ارام سے نہ بیٹھے جب تک میرے ہاتھ پر خلافت کے لئے بیعت نہ کرلی۔
تم دونوں بھی ان کے ساتھ تھے بارہا میرے پاس آئے ہو اور مجھ سے اصرار کرتے رہے ہو کہ میں حکومت قبول کرلوں۔تملوگ میری خلافت کے لئے میرے ہا تھ پر بیعت کرنے تک آرام سے نہ بیٹھے۔جن لوگوں نے میری خلافت کو قبول کرتے ہوئے میری بیعت کی انھوں نے یہ کام اس لئے نہیں کیا ہے کہ اس کے بدلے میں انھیں کوئی مال وثروت ملے اور نہ زور و زبردستی،دھمکی اور خوف وہراس سے میری بیعت کی ہے۔
بہر حال اگر تم دونوں نے اپنی مرضی اور اختیار سے میرے ساتھ عہد و پیمان کرکے میری خلافت کی بیعت کی ہے تو،یہ راہ جو تم نے اختیار کی ہے (بغاوت،مخالفت اور مسلمانوں کے در میان اختلاف اندازی )سے جتنا جلد ممکن ہوسکے ہاتھ کھینچ لو اور دل سے خداکے حضور توبہ کرو اور اگر اپنی مرضی کے بر خلاف میری بیعت کی ہے تو تمھارے لئے کوئی عذر و بہانہ نہیں ہے بلکہ یہ میرا حق بنتا ہے کہ تم سے یہ پوچھوں کہ اس ظاہرداری اور دو رخی کا سبب کیا تھا؟ تم لوگوں نے کیوں ظاہر ی طور پر میرے ہاتھ پر بیعت کی (اور میری حکومت کے مقاصد کے سلسلے میں جانثاری کا اعلان کیا؟) اور باطن میں میرے ساتھ مخالفت اور امت اسلامیہ میں اختلاف و افتراق کے بیج بوئے؟ اپنی جان کی قسم !تم دونوں دیگر مہاجرین سے کچھ کم فضیلت نہیں رکھتے تھے،تم بے بس و کمزور نہیں تھے کہ ظاہر داری اور تقیہ سے اپنے دل کی خواہشات چھپاتے۔تم دونوں کے لئے (میری بیعت کرنے کے بعد اس سے منہ موڑکر رسوائی مول لینے سے) بہت آسان یہ تھا کہ اسی دن میری بیعت نہ کرتے اور میری خلافت کو قبول نہ کرتے۔تم لوگوں نے اپنی مخالفت اور بغاوت کے سلسلے میں عثمان کے خون کا بہانہ بنایا ہے اور یہ افواہ پھیلائی ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے۔میرے اور تمھارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ حَکَم ہوں جو نہ تمھارے طرفدار ہیں اور نہ میرے بلکہ غیر جانبدار ہیں،تا کہ معلوم ہوجائے کہ عثمان کے قاتل کون ہیں۔اس وقت جو اس سلسلے میں جتنا مجرم قرار پائے اسی قدر سزا کا مستحق ہوگا۔
پس اے دو بوڑھو! ان (بے بنیاد و بیہودہ) افکار کو اپنے دماغ سے نکال باہر کرو اور اس احمقانہ اقدام سے پرہیز کرو، اگر چہ یہ تمھاری نظرمیں بہت ننگ وعار ہے، لیکن قیامت کے دن اس سے بڑے ننگ یعنی آتش جہنم سے دوچار نہ ہوگے۔ والسلام
اس کے بعد عبداللہ بن عباس کو مامور کیا کہ زبیر سے تنہائی میں ملاقات کرے اور اس سے یوں تاکید کی:
” طلحہ کے پیچھے نہ جانا، کیوں کہ اگر اسے دیکھو گے تو اس بیل کے مانند پاؤگے جو اپنا سر نیچے کئے ہوئے اپنے سینگوں سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آمادہ ہے وہ ایک متکبر،خود غرض اور تند خو آدمی ہے، وہ مشکل، سخت اور بڑا کام شروع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ بہت آسان ہے۔
لیکن اس کے بر عکس زبیر سے ملنا۔وہ نرم مزاج، در گزر کرنے والا اور بات سننے والا ہے۔ اس سے کہنا کہ تیرا ماموں زاد بھائی کہتا ہے: تم حجاز میں (اس کی جائے پیدئش میں) میرے آشنا اور حامی تھے، اب کیا ہوا کہ عراق میں (بے وطنی میں) نا آشنا، میری مخالفت اور دشمنی پر تلے ہوئے ہو؟
(حضرت اس زیبا اور دلچسب بیان میں فرماتے ہیں: عرفتنی بالحجاز وانکرتنی بالعراق فما عدا مما بدا؟)
ابن عباس کہتے ہیں: میں نے امام کے پیغام کو کسی کمی بیشی کے بغیرزبیر تک پہنچا دیا۔ زبیر چند لمحات کے لئے غور فکر میں پڑا، پھر جواب کے طور پر صرف اتنا کہا: ان سے کہنا: اس راہ میں تمام موجود ہ مشکلات اور خوف و ہراس کے باوجود ہم امید وار ہیں۔
عبداللہ ابن زبیر نے بھی مجھ سے مخاطب ہو کر کہا: (الف) ان سے کہنا: ہمارے درمیان خون عثمان کا مسئلہ در پیش ہے اور خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ اس شوریٰ کو وا گزار کرنا ہے جس کی تشکیل عمر نے کی تھی۔ اس صورت میں تمھیں جاننا چاہئے کہ ان میں سے دو افراد یعنی طلحہ و زبیر ایک طرف ہوں گے اور ام المومنین عائشہ بھی ان کی حمایت سے ہاتھ نہیں کھینچیں گی۔ جو اثر ورسوخ عائشہ عوام میں رکھتی ہیں، اس کے پیش نظر یہ دونوں بھی انھیں نہیں چھوڑیں گے اور اگر مسئلہ لوگوں کے انتخاب پر منحصر ہوا تو اکثریت عائشہ اور ان کے طرفداروں کی ہوگی۔ اس صورت میں تم اکیلے رہ جائو گے۔
ابن عباس کہتے ہیں: میں ابن زبیر کی ان باتوں سے سمجھ گیا کہ اس کی گفتگو کے پیچھے صرف جنگ حکم فرما ہے۔ میں علی علیہ السلام کے پاس آیا اور انھیں حالات سے آگاہ کیا۔
امام نے ابن عباس کو ایک بار پھر عائشہ کے پاس درج ذیل پیغام دے کر بھیجا:
” خدائے تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے گھر میں رہو اور کسی صورت میں گھر سے باہر……[1] نہ نکلو اور تم خود اسے بخوبی جانتی ہو۔مسئلہ حقیقت میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے تمھیں اکسایا ہے اور تمھاری کمزوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر آسانی کے ساتھ اپنے حق میں اور تمھارے نقصان میں اقدام کیا ہے اور تمھیں اپنے گھر، رسول خدا ۖکے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ عہد وپیمان جو تم نے ان کے ساتھ باندھا ہے اور ان کے ساتھ ہم فکری اور تعاون کر رہی ہو، اس سے تم نے لوگوں کو مصیبت ونابودی سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف وافتراق کے شعلے بھڑکائے ہیں۔
اس کے باوجود تمہارے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ اپنے گھر چلی جاؤ اور کسی بھی صورت دشمنی، جنگ اور برادر کشی کی مرتکب نہ ہو!۔
اگر تم اس نصیحت کو قبول کرکے اپنے گھر نہ لوٹیں اور اس فتنہ کی آگ کو، کہ جسے تم نے خود بھڑکایا ہے، نہ بجھایا تو بلاشک ایک خونیں جنگ رونما ہوگی اور یہ جنگ انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نابود کرکے رکھ دے گی اور اس کی ذمہ داری کسی شک وشبہ کے بغیر اس جنگ کی آگ کو ہوا دینے والوں کے ذمہ ہوگی۔
لہٰذا، اے عائشہ! خدا سے ڈرو، اس اختیار کی گئی راہ سے پیچھے ہٹ کر توبہ کرو، خدائے تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خطاؤں کو معاف کرنے والاہے۔ ایسا نہ ہو کہ ابن زبیر اور طلحہ سے تمھاری رشتہ داری تمھیں اس جگہ پر کھینچ لے جائے، جس کا انجام جہنم کی آگ ہے!!
امام کے ایلچی عائشہ کے پاس پہنچے اور پیغام پہنچا دیا۔ اس نے امام کے جواب میں صرف اتنا کہا: میں فرزند ابو طالب کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتی، کیونکہ فصاحت اور استدلال کی قدرت میں اس کی ہم پلہ نہیں ہوں۔
ایک اور روایت میں آیا ہے کہ طلحہ نے بلند آواز میں اپنے دوستوں سے مخاطب ہوکر کہا: ان لوگوں سے جنگ کے لئے اٹھو! تمھارے پاس فرزند ابوطالب کے استدلال کے مقابلے میں استدلال کی کوئی طاقت نہیں ہے۔
عبد اللہ بن زبیر نے بھی اس روز ایک تقریر کی اور اس کے ضمن میں بولا اے لوگو! علی بن ابیطالب نے خلیفہ بر حق عثمان بن عفان کو قتل کیاہے۔اب ایک بڑے لشکر کے ہمراہ تمھاری طرف آیا ہے تاکہ تمہاری سرزمین کو تسخیر کرے اور تمھیں اپنی اطاعت پر مجبور کرے۔
اب تمہاری باری ہے کہ مردانہ وار اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور اپنے خلیفہ کے قتل کے انتقام میں اپنی عزت و آبرو کا تحفظ کرو اور اپنی شرافت، عفت، اولاد واموال بالاخر اپنی شخصیت کا خیال رکھو اور جان کی بازی لگاکر ان کا تحفظ کرو۔ کیا تم جیسے دلاوروں، ناموس کے شدید محافظوں اور عثمان و عائشہ کی راہ میں جانثاری کرنے والوں کے ہوتے ہوئے رواہے کہ کوفی تمھارے شہرووطن پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کریں؟!
انھوں نے تم پر حملہ کیا ہے، تمھاری شخصیت کی بے حرمتی کی ہے، تمھارے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ اس وقت موقع ہے کہ جوش میں آجاؤ اور ہر قسم کی مروت کو بالائے طاق رکھ دو۔ ان کے اسلحہ کا جواب اسلحہ سے دو اور ان سے جنگ کرو۔ علی سے جنگ کرنے میں کسی قسم کی پریشانی اور وسواس سے دوچار نہ ہو، کیونکہ وہ اپنے علاوہ کسی کو خلافت و حکومت کے لائق و سزاوار نہیں سمجھتا۔ خدا کی قسم اگر اس نے تم لوگوں پر تسلط جمانے میں کامیابی پائی تو تمھارے دین و دنیا دونوں کو نابود کر دے گا اور تمھیں ذلیل و خوار کرکے رکھ دے گا….. اور اسی طرح کی بہت سی باتیں کہیں۔
ابن زبیر کی اس تقریر کی رپورٹ علی کو پہنچادی گئی۔ امام نے اپنے بیٹے حسن سے مخاطب ہوکر فرمایا: بیٹے! کھڑے ہوکر ابن زبیر کا جواب دو!۔
علی کا بیٹا کھڑا ہو اور بارگاہ الٰہی میں حمد وثناء اور پیغمبر اسلام ۖپر درود و سلام کے بعد بولا:
لوگو! ہم نے اپنے باپ کے بارے میں ابن زبیر کی باتیں سن لیں کہ وہ کہتا ہے: عثمان کو انھوں نے قتل کیا ہے، کتنی بڑی تہمت ہے !۔ اے مہاجر و انصار! اے مسلمانو! تم بہتر جانتے ہو کہ زبیر عثمان کے بارے میں کیا کہتا تھا اور اس کا کیا نام رکھا تھا اور اسے کس نام سے لوگوں میں مشہور کرتا تھا، اور آخر میں اس نے ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا اور کیسے ظلم وستم عثمان پرڈھائے!
اور طلحہ! یہ وہی طلحہ ہے کہ ابھی عثمان زندہ تھے کہ اس نے ان کے خلاف مخالفت اور بغاوت کا پرچم بلند کیا، اس پرچم کو بیت المال پر نصب کیا اور حق وانصاف کو پائمال کرتے ہوئے بیت المال پر ڈالا، جب کہ عثمان ابھی زندہ اور خلیفہ تھے!
عثمان کی خلافت کی پوری مدت کے دوران ان دو افراد کے اس کے ساتھ برتاؤ (اس کے ساتھ اتنی بے وفائی اور ظلم کرنے کے بعد بالاخر انھیں خاک وخون میں غلطاں کیا) کے پیش نظر ان کے لئے یہ سزاوار نہ تھا کہ ہمارے باپ پر عثمان کے قتل کی تہمت لگائیں اور ان کے خلاف بدگوئی کریں! اگر ہم چاہیں تو ضرورت کے مطابق ان کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتے ہیں۔
لیکن، یہ جو کہتے ہیں کہ علی زبردستی قدرت حاصل کرکے لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں ابن زبیر، جو سب سے بڑی دلیل پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے باپ نے علی کی دل سے بیعت نہیں کی ہے بلکہ ہاتھ سے بیعت کی ہے۔ یہ بات کہکر اس نے خود بیعت کا اعتراف و اقرار کیا ہے اور اس کے بعد بہانہ تراشیاں کرتاہے۔ اگر وہ سچ کہتا ہے تو اس سلسلے میں دلیل وبرہان پیش کرے، لیکن وہ ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔
اور، ابن زبیر کا اس پر تعجب کرنا کہ کوفیوں نے بصرہ کے لوگوں پرحملہ کیاہے، تو یہ تعجب بے جاہے۔ آخر یہ کون سی حیرت کی بات ہے کہ حق وحقیقت کے حامی گمراہوں اور بدکاروں پرحملہ کریں؟
اما، عثمان کے دوست اور ان کی مدد کرنے والے، ہمیں ان کے ساتھ کوئی جنگ واختلاف نہیں ہے، بلکہ ہماری جنگ اونٹ سوار اس خاتون اور اس کے حامی باغیوں اور تخریب کاروں سے ہے نہ کہ عثمان کے طرفداروں اور حامیوں کے ساتھ! (الف)
جب امام کے ایلچی، عائشہ، طلحہ و زبیر سے مل کر واپس آئے اور ان کے پیغام کو جس میں خون اور اعلان جنگ کی بوتھی امام کی خدمت میں پہنچا دیا، تو علی ںاٹھے اور خدا کی حمد وثنا اور پیغمبر اسلام ۖ پر درود وسلام بھیجنے کے بعد فرمایا:
اے لوگو! میں ان سے مہربانی اور نرمی سے پیش آیا تاکہ وہ شرم وحیا کریں اور دوسرے لوگوں کے اکسانے پر مسلمانوں میں تفرقہ واختلاف پیدا کرنے سے باز آئیں۔
میں نے عہد شکنی اور بیعت توڑنے پر ان کی تنبیہ کی اور ان کی بغاوت اور گمراہی کو واضح کرکے انھیں دکھا کر گوش زد کردیا اور حق وحقیقت کا راستہ دکھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی تاکہ وہ ہوش میں آکر باطل کے مقابلے میں حق کی پیروی کریں۔لیکن انھوں نے ایک نہ مانی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کو حقیقت پر ترجیح دی اور میری دعوت قبول نہ کی۔اس کے بر عکس مجھے ہی دھمکی دینے لگے اور مجھے پیغام بھیجا کہ ان کی تلواروں اور نیزوں کے حملوں کے لئے خود کوآمادہ کروں۔حقیقت میں وہ طولانی آرزؤں کی خوش فہمیوں میں مبتلا ہوکر غرور وغلط فہمیوں کے شکار ہوگئے ہیں۔
سوگ منانے والے ان کے سوگ میں نالہ وفریاد بلند کریں۔آخر وہ میرے بارے میں کیا……..[2] سوچتے ہیں؟ اور مجھے کس قسم کا آدمی سمجھتے ہیں؟ جب کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے اور اپنے پورے وجود سے محسوس کیا ہے کہ میں وہ مرد نہیں ہوں جو دشمن کی جنگ کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہوجاؤں گا یا تلواروں کی جھنکار اور میدان کار زار کے شور وغل سے وحشت کروں گا۔ ولقد انصف القارہ من راماھا۔[3]
اس وقت وہ مجھے کیسا پاتے ہیں؟ میں وہی علی اور وہی ابوالحسن ہوں جو کل مشرکین کی گنجان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتاتھا اور ان کی طاقت کو چورچور کرکے رکھ دیتاتھا اور آج بھی اس قدرت اور اطمینان کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کروں گا اور کسی قسم کا خوف وہراس نہیں کروں گا۔مجھے اس وعدۂ الٰہی پر ایمان ہے جو اس نے مجھے دیاہے اور اس راہ میں اپنی حقانیت پر یقین رکھتاہوں اور اس مستحکم ایمان میں کسی قسم کے تذبذب سے دوچار نہیں ہوں……. یہاں تک کہ فرمایا:
خداوندا !تو جانتاہے کہ طلحہ نے میری بیعت توڑدی ہے اور یہ وہی تھا جس نے عثمان کے…….[4]
خلاف بغاوت کی اور سر انجام اسے قتل کیا،اسکے بعد بے قصور مجھ پر اسے قتل کرنے کی تہمت لگائی۔ خداوندا ! اسے خود نمائی کی فرصت نہ دے!
خداوندا! زبیرنے ہماری رشتہ داری سے چشم پوشی کی اور میرے ساتھ قطع رحم کیا اور بیعت توڑدی اور میرے دشمنوں کو میرے خلاف جنگ کرنے پر اکسایا۔خداوندا!جس طرح مناسب ہو آج مجھے اس کے شر سے نجات دے!اس کے بعد آپ ںمنبر سے نیچے تشریف لائے۔
جنگ سے پہلے امام کی سفارشیں
حاکم، ذہبی اور متقی لکھتے ہیں: حضرت علی نے جنگ جمل کے دن بلند آواز سے اپنے سپاہیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
اس سے پہلے کہ وہ جنگ شروع کریں تم کو حق نہیں ہے کہ کسی پر تیر یا نیزہ برساؤیاتلوار سے حملہ کرکے جنگ میں پہل کرو۔بلکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ان سے مہربانی اورملائمت سے پیش آؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو اور دوستانہ گفتگو کرو۔ کیونکہ جو یہاں پر امام کی اطاعت کرکے کامیاب ہوا، وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ہوگا۔
راوی کہتا ہے: دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں۔ظہر تک دونوں طرف سے کسی قسم کا اقدام نہ ہوا۔صرف ”جمل”کے خیرخواہ بیچ بیچ میں فریاد بلند کرتے تھے:(یالثارات عثمان) ”عثمان کے خون کا انتقام لینے میں جلدی کرو۔امیرالمومنین نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا:
خداوندا!عثمان کے قاتلوں کو آج نابود کردے!
دوسرے راویوں اور مؤلفین نے بھی بیان کیاہے:
جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے صف آرا ہوئیں،امام نے اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
خدا کا شکر ہے کہ تم، میرے پیرو،حق پر ہو۔اس لئے خودداری،مہربانی اور جوانمردی سے پیش آنا تاکہ انھیں کوئی بہانہ ہاتھ نہ آئے۔ان کے لئے جنگ شروع کرنے کا کوئی موقع وفرصت فراہم نہ کرنا تاکہ وہ خود جنگ شروع کریں اور یہ تمھاری حقانیت کی ایک دلیل ہوگی۔
جب جنگ شروع ہوگی،تو زخمیوں پر رحم کرنا اور انھیں قتل نہ کرنا۔جب دشمن شکست کھاکر بھاگنے لگے تو فراریوں کاپیچھا نہ کرنا۔میدان جنگ میں مقتولین کو برہنہ نہ کرنا۔ان کے کان اور ناک نہ کاٹنا اور انھیں مثلہ نہ کرنا۔
جب ان کے شہر ووطن پر قابض ہوجاؤ تو ان کی عصمتیں نہ لوٹنا،حکم کے بغیر کسی گھر میں داخل نہ ہونا اور ان کے مال وثروت پرڈا کا نہ ڈالنا۔
مسعودی نے اس کے بعد امام ںکے بیانات کو یوں نقل کیا ہے: … ان کا مال وثروت تم لوگوں پر حرام ہے، مگر وہ چیزیں جو دشمن کے فوجی کیمپ میں جنگی اسلحہ مویشی، غلام اور کنیز کی صورت میں تمھارے ہاتھ آئیں۔اس کے علاوہ ان کا باقی تمام مال وثروت اسلامی قوانین اور قرآن مجید کے مطابق ان کی میراث ہے اور ان کے وارثوں سےمتعلق ہے۔
کسی کو کسی عورت کے ساتھ تند کلامی کرنے اور اسے اذیت پہنچانے کا حق نہیں ہے، چاہے وہ تمھیں برا بھلا بھی کہے اور تمھاری بے احترامی بھی کرے،حتیٰ تمھارے مقدسات اور کمانڈروں کو گالیاں بھی دے۔کیونکہ وہ عقل ونفسیات کے لحاظ سے کمزور ہیں اور قابل رحم ہیں۔جس زمانہ میں ہم رسول خدا ۖ کے ہمراہ کفار سے جنگ کررہے تھے ہمیں حکم ملاتھا کہ ان (عورتوں )سے در گزر کریں باوجود اس کے کہ وہ مشرک وکافر تھیں۔زمانہ قدیم میں اگر کوئی مرد اپنے عصا یا لاٹھی سے کسی عورت کو اذیت پہنچاتا تھا، تو اس مرد کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کو بھی اس ناشائستہ کام کی وجہ سے ملامت ومذمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے جنگ کا آغاز
حاکم نے مستدرک میں لکھاہے کہ زبیر نے اپنے حامیوں سے کہا: حضرت علی ـ کے سپاہیوں پر تیروں کی بارش کرو !گویا زبیر اس طرح جنگ شروع کرنے کا اعلان کرنا چاہتا تھا۔
ابن اعثم اور دیگر لوگ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ نے کہا: مجھے مٹھی بھر کنکریاں دے دو!اس کے بعد مٹھی بھر کنکریاں حضرت علی ںکی سپاہ کی طرف پھینکنے کے بعد پوری طاقت کے ساتھ فریاد بلند کی: چہرے سیاہ ہو جائیں !۔
عائشہ کا یہ عمل،رسول خدا ۖکے جنگ حنین میں مشرکین کے ساتھ کئے گئے عمل کی تقلید تھا عائشہ کے اس کام کا رد عمل یہ ہوا کہ حضرت علی ںکی سپاہ میں ایک مرد عائشہ سے مخاطب ہو کر بولا: یہ تم نہیں تھیں جس نے کنکریاں پھینکیں بلکہ یہ شیطان تھا جس نے کنکریاں پھینکیں۔[5]
طبری اور دیگر مورخین نے روایت کی ہے:
حضرت علی ںنے جمل کے دن قرآن مجید کو ہاتھ میں لیا اور اپنے سپاہیوں میں گھوماتے ہوئے فرمایا:
” ہے کوئی جو اس قرآن مجید کو دشمن کے پاس لے جائے اور انھیں اس پرعمل کرنے کی دعوت دے چاہے قتل بھی ہو جائے؟ کوفیوں سے ایک نوجوان سفید قبا پہنے ہوئے آگے بڑھا اور بولا ”میں” ہو ں امام نے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور اس کی کمسنی کو دیکھ کر اس سے منہ موڑ کر اپنی بات کو پھر سے دہرانے لگے۔دوبارہ اسی نوجوان نے اس جاںنثاری کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا پھر حضرت علی ـنے قرآن مجید کو اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
نوجوان، جمل کے خیر خواہ سپاہیوں کی طرف بڑھا اور امام کی فرمائش کے مطابق انھیں قرآن مجید پر عمل کرنے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کی دعوت دی بصرہ کے جنگ افروزوں نے علی کے اس اقدام پر ایک لمحہ کے لئے بھی فکر کرنے کی اپنے آپ کو تکلیف نہیں دی اور بزدلانہ طور پر اس نوجوان پر حملہ کرکے تلوار سے اس کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔جوان نے قرآن مجید کو اپنے بائیں ہاتھ میں اٹھا لیا اور اپنی تبلیغ جاری رکھی۔اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ نوجوان نے ہاتھ کٹے دونوں بازئوںسے قرآن مجید اپنے سینے پر رکھ کر بلند کیا جب کہ اس کے کٹے ہوئے دونوں ہاتھوں سے خون کا فوارہ جاری تھا اور یہ خون قرآن مجید اور اس کی سفید قبا پر بہہ رہا تھا، پھر بھی وہ اپنی تبلیغ میں مصروف تھا کہ سر انجام اسے قتل کردیا گیا۔
طبری نے اسی داستان کو ایک اور روایت کے مطابق حسب ذیل بیان کیا ہے:
” حضرت علی ـنے اپنے حامیوں سے مخاطب ہو کر کہا: تم میں سے کون شخص آمادہ ہے جو اس قرآن مجید کو ان کے پاس لے جاکر انھیں اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دے،اگر چہ اس کا ہاتھ بھی کاٹا جائے وہ قرآن مجید کو دوسرے ہاتھ سے بلند کرے اور اگر وہ ہاتھ بھی کاٹا جائے تو قرآن مجید کو اپنے دانتوں سے پکڑ لے؟! ایک کمسن نوجوان نے اٹھ کر کہا: میں ہوں حضرت علی ـبار بار اپنی بات دہراتے ہوئے اپنے حامیوں میں جستجو کرتے تھے، لیکن اس نوجوان کے علاوہ کسی نے علی کی بات کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علی ـنے قرآن مجید اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا: یہ قرآن مجید انھیں پیش کرنا اور کہنا،خدا کی کتاب اول سے آخر تک ہمارے اور تمھارے درمیان حَکَم و منصف ہے۔ ایک دوسرے کا خون بہانے کے سلسلے میں خدا کو مد نظر رکھیں اور بلا سبب ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔
نوجوان قرآن مجید کو ہاتھ میں لئے دشمن کی سپاہ کی طرف بڑھا اور ماموریت کے مطابق تبلیغ کرنے لگا۔جیسے کہ بیان ہوا،اس کے ہاتھ کاٹے گئے یہاں تک کہ اس نے قرآن مجید کو دانتوں سے بکڑ لیا اور سر انجام اسے قتل کر دیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت علی ـنے کہا: چوں کہ انھوں نے قرآن مجید کا احترام نہیں کیا،لہٰذا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے۔
اس نوجوان کی ماں اپنے بیٹے کے سوگ میں اس طرح شیون کرتی تھی:
”خدا وندا! (میرا بیٹا مسلم) ان سے نہ ڈرا اور انھیں کتاب خدا کی طرف دعوت دی ان کی ماں (عائشہ) کھڑی دیکھ رہی تھی کہ کس طرح وہ سرکشی اور گمراہی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں اور وہ انھیں اس سے منع نہیں کرتی تھی جب کہ ان کی داڑھی خون سے خضاب ہو رہی تھی”
ابو مخنف نے لکھا ہے:
اس نوجوان پر ماتم کرنے والی خاتون کا نام ام ذریح عبدیہ تھا۔
ابن اعثم لکھتا ہے: وہ نوجوان خاندان مجاشع سے تھا اورجس نے اس کے ہاتھ تلوار سے کاٹے وہ عائشہ کے غلاموں میں سے ایک تھا۔
مسعودی نے لکھا ہے:
عمار یاسر دو فوجوں کے درمیان کھڑے ہو کر بولے: اے لوگو!تم نے اپنے پیغمبر ۖسے انصاف نہیں کیا ہے،کیوں کہ اپنی عورتوں کو اپنے گھروں میں رکھ کر ان کی زوجہ (عائشہ) کو میدان کارزار میں کھینچ لائے ہو اور انھیں جنگجوئوں کی تلوار وں اور نیزوں کے درمیان لئے ہوئے ہو!!
مسعودی مزید روایت کرتا ہے: عائشہ تختوں سے بنی ایک محمل میں بیٹھی تھیں۔اس محمل کو ٹاٹ اور گائے کی کھال سے ڈھانپا گیا تھا اسے نمدہ کے فرش سے مضبوط کیا گیا تھا۔جنگی ہتھیار وں اور تلواروں کی ضربوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے اوپر لوہے کی زرہ ڈالی گئی تھی۔ اس طرح یہ محمل ایک مضبوط آہنی قلعہ کے مانند اونٹ پر رکھی گئی تھی۔ عمار جب ان لوگوں سے خطاب کرنے کے لئے آگے بڑھے تو عائشہ کی محمل کے پاس جاکر ان سے یوں سوال کیا:
تم ہمیں کس چیز کی دعوت دیتی ہو اورہم سے کیا چاہتی ہو؟
عائشہ نے جواب دیا: عثمان کے خون کا انتقام!
عمار نے کہا: خدا سر کش کو نابود کرے اور اسے بھی نابود کرے جو ناحق کسی چیز کا طالب ہو!
اس گفتگو کے بعد عمار نے پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: اے لوگو! تم بہتر جانتے ہو کہ ہم میں سے کن کے ہاتھ عثمان کے خون سے رنگین ہیں؟
یہاں پر جمل کے خیر خواہوں نے عمار پر تیروں کی بوچھار کردی اسی حالت میں عمار نے عائشہ سے مخاطب ہو کر فی البدیہہ یہ شعر پڑھے:
”فتنہ کی بنیاد تم نے ڈالی اور پہلی بار تم نے ہی عثمان پر شیون و زاری بھی کی لہٰذا طوفان و ہوا تم سے تھے اور بارش بھی تم ہی سے تھی۔ تم نے ہی عثمان کو قتل کرنے کا حکم دیا ہم اسی کو عثمان کا قاتل جانتے ہیں جس نے اس کے قتل کا حکم جاری کیا ہے”
چوں کہ عمار کی طرف تیربرس رہے تھے۔وہ مجبور ہوکر اپنے گھوڑے کو موڑ کر امام کے لشکر کی طرف لوٹے اور حضرت علی ـسے مخاطب ہوکر بولے: اے امیرالمومنین! آپ کو کس چیز کا انتظار ہے؟ ان لوگوں کے دماغ میں جنگ و خوں ریزی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے۔
ماخذ: ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
……………….
حواله جات
[1] . وقال لی ابنہ عبداللہ: قل لہ بیننا و بینک دم خلیفة و وصیة خلیفة،واجتماع اثنین و انفراد واحد، وأم مبرورة و مشاورة العامة: قال ابن عباس فعلمت انہ لیس وراء ھذا الکلام الا الحرب.
[2] . علی تواضع اور مہربانی سے پیش آتے تھے تا کہ شاید کوئی بات بن جائے اور جنگ نہ چھڑے،بے گناہوں کا خون نہ بہے اور اس سے زیادہ مسلمانوں میں اختلاف وافتراق پیدا نہ ہو۔اس لئے مسلسل پیغام دیتے رہے،خط لکھتے رہے،صبر وشکیبائی سے کام لیتے رہے،نصیحت وہدایت فرماتے رہے،حقائق کی وضاحت فرماتے رہے تاکہ جمل کے خیر خواہوں کی طرف سے بھڑکائی گئی فتنہ وبغاوت کی آگ کو تدبیر وتلاش سے بجھاسکیں۔شاید وہ اس کی ناکام کوشش کررہے تھے تاکہ درخشاں وتاباں ماضی اور صدر اسلام میں جانثار یوں کے مالک اصحاب جیسے،طلحہ وزبیر کو منحوس اور بدترین حوادث کی زد میں آنے سے بچالیں۔کیونکہ ان کو اقتدار اور حکومت کی ہوس نے اس حد تک اندھا بنادیاتھا کہ انھوں نے دین خدا،حقیقت اسلام حتیٰ پیغمبر اسلام ۖکی تمام نصیحتوں کوبھی پس پشت ڈال دیاتھا۔کیا حقیقت میں ان کے اس اقدام کو جس کے نتیجہ میں اتنے انسانوں کا خون بہایاگیا خدا اور پیغمبرۖکی نافرمانی کے علاوہ کسی اور چیز سے تعبیر کیا جاسکتاہے؟ اور قیامت کے دن خدا کے سامنے وہ کیا جواب دیں گے؟!
[3] . (حقیقت میں انھوں نے اپنے برپا کئے ہوئے فتنہ وبغاوت کے سلسلے میں بھیجے گئے میرے ایلچیوں کے جواب میں مجھے میدان جنگ کی دعوت دی ہے اور مجھے جنگ کی دھمکیاں دی ہیں اور جنگ وپیکار کے بارے میں میرے ساتھ حق وانصاف پر مبنی برتاؤ کیا ہے)
چھوڑو انھیں گرجنے دو، وہ ذرا رجز خوانی کرلیں اور جنگ کا بازار گرم کرلیں،تب وہ جان لیں گے کہ ہم خود نمائی کے محتاج نہیں ہیں۔انھوں نے ہمیں بہت پہلے جنگ کے میدان میں دیکھا ہے اور کارزاروں میں میرے ہاتھ کی کاری ضربوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔
[4] . ”وقد انصف القارہ من راماھا”عربی زبان میں ایک ضرب المثل ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ قبیلہ قارہہ کے افراد تیر اندازی اور کمان چلانے میں کافی ماہر اور صاحب شہرت تھے۔اس فن میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا۔لہٰذا جب طلحہ وزبیر نے امام کوجنگ کی دعوت دی،تو گویا یہ ایسا ہے کہ قبیلۂ قارہ کے تیر اندازوں کو تیر اندازی کی دعوت دی ہے اور انھیں دھمکی دے رہے ہیں۔اسی بناء پر امام نے اس مثل کو اپنے کلام میں بیان کیاہے۔
[5] . ”وقد انصف القارہ من راماھا”عربی زبان میں ایک ضرب المثل ہے اور اس کا موضوع یہ ہے کہ قبیلہ قارہہ کے افراد تیر اندازی اور کمان چلانے میں کافی ماہر اور صاحب شہرت تھے۔اس فن میں کوئی ان کاہم پلہ نہ تھا۔لہٰذا جب طلحہ وزبیر نے امام کوجنگ کی دعوت دی،تو گویا یہ ایسا ہے کہ قبیلۂ قارہ کے تیر اندازوں کو تیر اندازی کی دعوت دی ہے اور انھیں دھمکی دے رہے ہیں۔اسی بناء پر امام نے اس مثل کو اپنے کلام میں بیان کیاہے۔
منبع: http://www.duas.org/