خطبہ فدکیہ، حضرت فاطمہ زہرا (س) کا ایک عظیم اور تاریخی خطبہ ہے، جو نہ صرف امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے ایک نورانی پیغام ہے، بلکہ اس میں اہل بیت (ع) کے مقام، امامت کی حقیقت اور اسلامی حکومت کے اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے اس خطبے میں اپنی مخلصانہ کوششوں سے اہل بیت (ع) کی علمی، اخلاقی اور روحانی برتری کو اجاگر کیا، اور اس بات کی وضاحت کی کہ وہ اللہ کے منتخب رہنما ہیں۔
خطبہ فدکیہ میں امامت اور اہل بیت (ع)
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ فدکیہ ایک تاریخی اور اہم پیغام تھا جس نے امت مسلمہ کو اہل بیت (ع) کے علمی، روحانی اور اخلاقی مقام کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس خطبے میں حضرت فاطمہ (س) نے اہل بیت (ع) کو دین کی حقیقی رہنمائی کے مرکز کے طور پر پیش کیا اور ان کی پیروی کو مسلمانوں کی ہدایت اور کامیابی کے لئے ضروری قرار دیا۔ اس خطبے کا مقصد صرف اہل بیت (ع) کے حقوق کی بازیابی نہیں تھا بلکہ ایک مخلصانہ دعوت بھی تھی کہ امت اپنی اصل قیادت کی طرف واپس لوٹ آئے۔
خطبہ فدکیہ میں قرآن و اہل بیت (ع) کی ہدایت اور ان کی پیروی کے فوائد کو بیان کرتے ہوئے، حضرت فاطمہ (س) نے امت مسلمہ کو اپنی حقیقی قیادت کی طرف دعوت دی۔ اس خطبے میں اللہ کی کتاب، پیغمبر (ص) کے بعد علی (ع) کی رہنمائی اور اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
حضرت فاطمہ (س) نے اس خطبے میں نہ صرف امامت کے اہمیت کو واضح کیا بلکہ اہل بیت (ع) کی برتری اور ان کی مخصوص حیثیت کو بھی اجاگر کیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں نے امامت اور اہل بیت (ع) کے مقام کو نہایت واضح اور جامع انداز میں بیان کیا ہے۔ خطبہ فدکیہ کے اہم مضامین پر ایک نظر سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ:
اس خطبے کے مطابق، امامت ایک الٰہی نظام ہے جو انسانوں کی ہدایت اور دین کے نفاذ کے لئے ضروری ہے۔ اہل بیت (ع) اس نظام کے حقیقی وارث اور محافظ ہیں، جنھیں اللہ نے خاص فضائل، علم، اور عصمت کے ساتھ نوازا ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) اہل بیت (ع) کے بارے میں یوں فرماتی ہیں:
وَ نَحْنُ بَقِيَّةٌ اِسْتَخْلَفَها عَلَيْكُمْ، وَ مَعَنا كِتابُ اللّهِ النّاطِقُ، وَ الْقُرْآنُ الصّادِقُ، وَ النُّورُ السّاطِعُ، وَ الضِّياءُ اللاّمِعُ بَيِّنَةٌ بَصائِرُهُ، وَ آىٌ مُنْكَشِفَةٌ سَرائِرُهُ، وَ بُرْهانٌ فِينا مُتَجَلِّيَةٌ ظَواهِرُهُ، مُدِيمٌ لِلْبَرِيَّةِ اسْتِماعُهُ، مُغْتَبِطَةٌ بِهِ اَشْياعُهُ۔ قائِدٌ اِلَى الرِّضْوانِ اتِّباعُهُ، مُؤَدٍّ اِلىٰ النَّجاةِ اسْتِماعُهُ فِيهِ تِبْيانُ حُجَجِ اللّهِ الْمُنَوَّرَةِ، وَ مَواعِظُهُ الْمُكَرَّرَةُ، وَ عَزَائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ، وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ، وَ اَحْكامُهُ الْكافِيَةُ، وَ بَيِّناتُهُ الْجالِيَةُ، وَ جُمَلُهُ الشّافِيَةُ، وَ فَضائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ، وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ، وَ رَحْمَتُهُ الْمَرْجُوَّةُ وَ شَرائِعُهُ الْمَكْتُوبَةُ۔
ہم وہ باقیات ہیں جو اللہ نے تم پر خلافت دی ہے، اور ہمارے ساتھ اللہ کی وہ کتاب ہے جو بولنے والی ہے، اور سچا قرآن ہے، اور وہ روشن نور ہے، اور چمکتا ہوا ضیاء ہے، جس کی بصیرتیں واضح ہیں، اور آیات اس کے رازوں کو ظاہر کرتی ہیں، اور ہمارے درمیان وہ برہان ہے جو اس کے ظاہری پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے، جسے تمام مخلوقات ہمیشہ سنتی رہتی ہیں، اور اس کے پیروکار اس پر خوش ہوتے ہیں۔ وہ رہنما ہے جو رضا کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور جو اس کی پیروی کرے گا، وہ نجات پائے گا۔
اس میں اللہ کے روشن دلائل کی وضاحت ہے، اور اس کی بار بار کی نصیحتیں ہیں، اور اس کی پختہ عزم کی تفصیل ہے، اور اس کی ممنوعات سے بچنے کی تنبیہ ہے، اور اس کے احکام کافی ہیں، اور اس کی واضح نشانیاں ہیں، اور اس کی شافی باتیں ہیں، اور اس کے فضائل مطلوب ہیں، اور اس کی اجازتیں عطا کی گئی ہیں، اور اس کی رحمت کی امید کی جاتی ہے، اور اس کے نوشتہ شریعت ہیں۔
۱۔ اہل بیت (ع) کا مقام اور امامت کی حقیقت
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خطبہ فدکیہ میں اہل بیت (ع) کے مقام کو نہایت واضح اور جامع انداز میں بیان کیا۔ آپ نے کہا کہ اہل بیت (ع) ہی امت کے حقیقی رہنما ہیں اور ان کی پیروی ہی انسانوں کو ہدایت کی طرف لے جائے گی۔ حضرت فاطمہ (س) نے یہ بھی کہا کہ امامت ایک الٰہی نظام ہے جو دین کے نفاذ اور انسانوں کی ہدایت کے لئے ضروری ہے۔ اہل بیت (ع) کو اللہ نے خاص فضائل، علم اور عصمت کے ساتھ نوازا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان کے بغیر دین کی تکمیل ممکن نہیں ہے اور ان کی پیروی ہی امت کے فلاح کی ضامن ہے۔
حضرت فاطمہ (س) کے خطبہ فدکیہ میں یہی پیغام تھا کہ اہل بیت (ع) کی اطاعت دین کی بقا کے لئے ضروری ہے، کیونکہ وہ اس الٰہی نظام کے حقیقی وارث اور محافظ ہیں۔ اگر امت حقیقی وارث اور سچے محافظ کو چھوڑ کر، گمراہ لوگوں کے ہاتھوں حکومت کا اختیار دے اور ان سے ہدایت اور حقیقت کی امید رکھے تو یہ بڑی بھول ہے۔ تاریخ بھی اسی کی تایید کرتی ہے۔
۲۔ اہل بیت (ع) کا الٰہی انتخاب
حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں اس بات کو واضح کیا کہ اہل بیت (ع) کو اللہ نے ایک خاص حکمت کے تحت منتخب کیا ہے تاکہ وہ دین کی سربراہی کریں اور امت کی رہنمائی کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندوں کو انبیاء اور اوصیاء کے ذریعے ہدایت دی اور اہل بیت (ع) کو اس سلسلے کا تسلسل بنایا۔ حضرت فاطمہ (س) نے اہل بیت (ع) کے اس انتخاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کا یہ انتخاب امت کے لئے ایک عظیم نعمت ہے اور اسے تسلیم کرنا امت کی فلاح کے لئے ضروری ہے۔
۳۔ اہل بیت (ع) کے فضائل
خطبہ فدکیہ میں حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اہل بیت (ع) کی علمی، اخلاقی اور روحانی برتری کو اجاگر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اہل بیت (ع) وہ ہستیاں ہیں جو دین کے محافظ ہیں اور قرآن کی تفسیر و تفہیم کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) کے مطابق اہل بیت (ع) نہ صرف امت کے رہبر ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے بہترین عملی نمونہ ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اہل بیت (ع) کا علم اللہ کی طرف سے خاص طور پر ان کو عطا کیا گیا ہے اور ان کے ذریعے ہی امت کو صحیح رہنمائی مل سکتی ہے۔
۴۔ حضرت علی (ع) کی امامت کا خاص مقام
حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں حضرت علی (ع) کے مقام کو خاص طور پر بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت علی (ع) دین کی حقیقی قیادت کے اہل ہیں کیونکہ وہ نبی اکرم (ص) کے قریب ترین ساتھی، علم کا دروازہ اور شجاعت و عدلت کا مظہر ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا کہ اگر امت حضرت علی (ع) کی قیادت اور امامت کو قبول کرتی تو وہ عدل و انصاف کے راستے پر رہتی اور کبھی گمراہ نہ ہوتی۔ ایسا نہیں کہ حضرت امام علی (ع) کے ساتھ دوسرے رقیب بھی ہدایت کا برابر طراط مستقیم ہو۔ باقی سب کے سب صرف اور صاف گمراہی ہی گمراہی ہیں۔
حضرت فاطمہ (س) نے علی (ع) کی شجاعت، علمیت اور عدل کی خصوصیات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہی اس امت کے حقیقی رہنما ہیں اور ان کی قیادت امت کی فلاح کے لئے ضروری ہے۔ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھ لیا جائے، خطبہ فدکیہ میں حضرت علی (ع) کی طرف اشارہ، کوئی نئے نکتے کے بجائے، ایک یاد دہانی ہے۔ وہی وعدہ جو رسول اللہ (ع) نے غدیر خم میں امت سے لیا ہے۔
۵۔ امت کی خیانت اور اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی
حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں امت کی طرف سے اہل بیت (ع) کے حقوق کی پامالی اور امامت کو نظرانداز کرنے پر شدید تنقید کی۔ آپ نے فرمایا کہ امت نے نبی اکرم (ص) کے احکام کو چھوڑ کر ذاتی مفادات اور دنیاوی لالچ کے تحت ایک غلط راستے کا انتخاب کیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے کہا کہ یہ نہ صرف اہل بیت (ع) کے حقوق کی خلاف ورزی تھی بلکہ امت کے زوال کا سبب بھی بنی۔ آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امت نے اہل بیت (ع) کو نظرانداز کیا اور ان کی رہنمائی سے دور ہوگئی، جو کہ ایک سنگین غلطی تھی۔
۶۔ اہل بیت (ع) کی ہدایت اور ان کی پیروی
حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں اہل بیت (ع) کو دین کی اصل روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اہل بیت (ع) قرآن کے حقیقی محافظ ہیں اور ان کی پیروی ہی مسلمانوں کو فرقہ واریت اور گمراہی سے بچا سکتی ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے کہا کہ اہل بیت (ع) کے بغیر امت کبھی بھی صحیح راستے پر نہیں چل سکتی، اور ان کی رہنمائی ہی امت کو ہدایت کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اگر امت محمدی (ص)، اہل بیت (ع) کے بجائے دوسرے راستوں کے ذریعے ہدایت پانے کی کوشش کی تو وہ کوششیں رائیگاں ہو جائے گی اور گمراہی ان کی قسمت ہوگی۔
۷۔ امامت کی اہمیت اور اس کا نظام
حضرت فاطمہ (س) نے خطبہ فدکیہ میں یہ بھی واضح کیا کہ امامت دین کی روح ہے اور اس کے بغیر امت بے راہرو ہو جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ امامت کا نظام اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لئے قائم کیا گیا ہے، اور اس نظام کو ترک کرنا امت کے زوال کا سبب بنے گا۔ حضرت فاطمہ (س) نے کہا کہ اگر امت امامت کے نظام کو تسلیم کرتی تو وہ کبھی بھی غلط راستوں پر نہ چلتی اور ہمیشہ حق کی پیروی کرتی۔
۸۔ خطبہ فدکیہ کا مقصد اور اس کا اثر
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ فدکیہ نہ صرف اہل بیت (ع) کے حقوق کی بازیابی کی کوشش تھا بلکہ یہ امت کو ان کی اصل قیادت کی طرف واپس لوٹانے کی ایک مخلصانہ دعوت بھی تھا۔ حضرت فاطمہ (س) نے اس خطبے میں اہل بیت (ع) کے فضائل اور ان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پیروی ہی امت کی فلاح اور دین کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ آپ نے اس خطبے کے ذریعے امت کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ وہ اپنی اصل قیادت کو تسلیم کرے اور اس کے ذریعے دین کے اصولوں کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرے۔
۹۔ خطبہ فدکیہ کا روحانی اور سماجی اثر
خطبہ فدکیہ کا اثر نہ صرف سیاسی نہیں بلکہ روحانی اور سماجی بھی تھا۔ حضرت فاطمہ (س) نے اس خطبے میں امت کو ایک نئے روحانی سفر پر چلنے کی دعوت بھی دی۔ آپ نے اہل بیت (ع) کو دین کی اصل روشنی اور نور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی پیروی اور اطاعت ہی انسانوں کو حقیقی سکون اور فلاح کی طرف لے جا سکتی ہے۔ حضرت فاطمہ (س) کا یہ پیغام آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک اہم رہنما ہے اور انہیں اپنی اصل قیادت کی طرف لوٹنے کی ترغیب دیتا ہے۔ حقیقت یہ پیغام رسول اللہ (ص)، کی مشہور حدیث ’’حدیث الثقلین‘‘ کی وضاتح ہے۔
خطبہ فدکیہ کا مشہور فقرہ
حضرت فاطمہ زہرا (س) کے خطبہ فدکیہ میں بیان کردہ جملہ «وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ» ایک گہرا اور جامع مفہوم رکھتا ہے، جو دین اسلام کے نظام اور امت کی وحدت کے لئے اہل بیت (ع) کے مرکزی کردار کو واضح کرتا ہے۔ اس جملے کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لئے درج ذیل نکات پر غور کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اطاعتِ اہل بیت (ع): دین کا نظام (طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ)
حضرت فاطمہ (س) فرماتی ہیں کہ ہماری اطاعت دین کے نظام کو قائم رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل بیت (ع) کی پیروی کرنا دین اسلام کو اس کی اصلی شکل میں برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اہل بیت (ع) کو اللہ اور رسول (ص) کی طرف سے خاص علم اور عصمت عطا کی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ دین کے حقیقی معانی اور احکام کو بغیر کسی تحریف کے بیان کر سکتے ہیں۔ جب امت اہل بیت (ع) کی اطاعت کرتی ہے، تو دین کے احکام درست طریقے سے نافذ ہوتے ہیں اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم رہتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی معاشرے میں ہر فرد اپنی مرضی سے دین کی تفسیر کرنے لگے، تو اس سے اختلافات اور گمراہیاں پیدا ہوں گی۔ لیکن اگر ایک مرکزی اور معصوم قیادت (یعنی اہل بیت) کی پیروی کی جائے، تو دین کا نظام منظم اور مستحکم رہے گا۔
۲۔ امامتِ اہل بیت (ع): تفرقے سے حفاظت (اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ)
دوسرے فقرے میں حضرت فاطمہ (س) فرماتی ہیں کہ ہماری امامت تفرقے سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ امامت سے مراد وہ روحانی اور سیاسی قیادت ہے جو امت کو متحد رکھتی ہے۔ تاریخ میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کسی قوم یا مذہبی گروہ میں قیادت کا بحران پیدا ہوا، تو اس کے نتیجے میں تفرقے اور گروہ بندیوں نے جنم لیا۔ اہل بیت (ع) کی امامت اس تفرقے کو روکنے کا ذریعہ ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو ایک مرکز کے گرد جمع کرتے ہیں۔
امامت کا یہ تصور حدیث ثقلین سے بھی ملتا ہے، جس میں رسول اللہ (ص) نے فرمایا: «میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: اللہ کی کتاب (قرآن) اور میری عترت (اہل بیت)۔ اگر تم ان دونوں کو تھامے رہو گے، تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے»۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن اور اہل بیت (ع) دونوں امت کی رہنمائی اور وحدت کے لئے ضروری ہیں۔
۳۔ امت کی وحدت کے لئے اہل بیت (ع) کا کردار
حضرت فاطمہ (س) کے اس بیان کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اہل بیت (ع) کی قیادت صرف ایک مذہبی رہنمائی تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ معاشرے کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔ اہل بیت (ع) کی امامت معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی مسائل میں بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ جب امت اہل بیت (ع) کی قیادت کو تسلیم کرتی ہے، تو وہ ہر قسم کے اختلافات اور تنازعات سے محفوظ رہتی ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی معاشرے میں سیاسی یا معاشی بحران پیدا ہو، تو اہل بیت (ع) کی رہنمائی سے اس بحران کو حل کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ عدل و انصاف کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ اسی طرح، اگر مذہبی اختلافات پیدا ہوں، تو اہل بیت (ع) کے علم اور عصمت کی بدولت ان اختلافات کو دور کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ تاریخی تناظر میں اس بیان کی اہمیت
خطبہ فدکیہ اس وقت بیان کیا گیا جب حضرت فاطمہ (س) کو فدک کی زمین سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس خطبہ فدکیہ میں انہوں نے نہ صرف اپنے حق کے لئے آواز اٹھائی، بلکہ امت کو یہ بھی یاد دلایا کہ اہل بیت (ع) کی اطاعت اور امامت ہی دین اور امت کے استحکام کی ضمانت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر امت اہل بیت (ع) کو نظر انداز کرے گی، تو اس کے نتیجے میں تفرقہ اور گمراہی پیدا ہو گی۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ فدکیہ ایک گہرا پیغام دیتا ہے کہ دین کا نظام اور امت کی وحدت اہل بیت (ع) کی اطاعت اور امامت پر منحصر ہے۔ اہل بیت (ع) کی قیادت ہی امت کو تفرقے، گمراہی اور اختلافات سے بچا سکتی ہے۔ اس لئے، ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو اپنائے اور ان کی رہنمائی کو اپنے فردی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو دین اور امت دونوں کو استحکام اور کامیابی عطا کرتا ہے۔
خطبہ فدکیہ میں یہ پیغام بار بار واضح کیا گیا ہے کہ اہل بیت (ع) کی اطاعت اور امامت ہی دین اور امت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔ خطبہ فدکیہ کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ یہ وہ کچھ چیدہ چیدہ اشارات اور اکائیاں ہیں جو خطبہ فدکیہ میں اہل بیت (ع) اور امامت کے بارے میں ذکر کیا جا سکتا ہے۔ اگر پوری طرح کما حقہ، ان مذکورہ تمام نکات کو قرآن و حدیث کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرے تو مقالہ حاضر کیا، کئی جلد کتابیں بھی شاید حق ادا نہ کرے سکے۔
خاتمہ
حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ فدکیہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو نہ صرف اہل بیت (ع) کے حقوق کی بازیابی کے لئے ہے بلکہ امت مسلمہ کو ان کی اصل قیادت کی طرف واپس لوٹانے کا پیغام بھی دیتا ہے۔ اس خطبے میں حضرت فاطمہ (س) نے اہل بیت (ع) کے علمی، روحانی اور اخلاقی مقام کو واضح کیا اور امامت کے نظام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
خطبہ فدکیہ کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) نے ایک واضح اور جامع پیغام دیا کہ اہل بیت (ع) ہی امت کے حقیقی رہنما ہیں اور ان کی پیروی ہی امت کو ہدایت کی طرف لے جا سکتی ہے۔ یہ خطبہ آج بھی مسلمانوں کے لئے ایک رہنمائی ہے اور ان کے لئے ایک سبق ہے کہ وہ اپنی اصل قیادت کو تسلیم کریں اور دین کی اصل روشنی کی پیروی کریں۔
تألیف
برکت اللہ سینوی؛
کتاب خطبات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ترجمہ اقبال حیدر حیدری، قم ایران، موسسہ امام علی علیہ السلام (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین) سے اقتباس کرتے ہوئے۔