اسراف و تبذیر کے مہلک اثرات قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسراف و تبذیر کے مہلک اثرات قرآن کی روشنی میں

کپی کردن لینک

اسراف کا بنیادی مفہوم کسی بھی ایسے عمل سے عبارت ہے جو اس کے لیے مقرر کردہ عقلی، شرعی یا عرفی حد سے تجاوز کر جائے۔ مثال کے طور پر، کھانے میں حد سے زیادہ کھانا یا معروف طریقے سے ہٹ کر انفاق کرنا، اسراف کہلائے گا۔ اس کا معیار کسی شے کے مقام اور شان سے تجاوز کرنا ہے[1]۔

اسراف کا دائرہ کار محض مال و دولت تک محدود نہیں ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ وقت کا ضیاع، اپنی صلاحیتوں کو بے مقصد کاموں میں صرف کرنا، اور قدرتی وسائل جیسے پانی اور توانائی کا بے دریغ استعمال بھی اسراف و تبذیر کی سنگین شکلوں میں سے ہے۔ یہاں تک کہ جذبات کے اظہار اور عبادات میں غلو کرنا جو شریعت کے مزاج کے خلاف ہو، بھی اسراف کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی نفسیاتی وجوہات میں تکبر، دکھاوا، اور ناشکری شامل ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اسراف ہر اس تجاوز کو کہا جاتا ہے جو متعین حدود و ضوابط سے باہر ہو[2]۔

اسراف اور تبذیر کا باہمی تعلق

"تبذیر” کا لغوی معنی بکھیرنا یا منتشر کرنا ہے۔ اس کی اصل "بذر” یعنی بیج ڈالنے سے ہے۔ بعد میں، استعارے کے طور پر یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال ہونے لگا جو اپنے مال کو ضائع کرتا ہے۔ ایسے شخص کو "مبذّر” کہا گیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں”۔[3]

"شیطانوں کے بھائی” ہونے کی تعبیر انتہائی دلچسپ اور قابل غور ہے۔ شیطان کا کام اللہ کے نظام کو بگاڑنا اور ناشکری کو فروغ دینا ہے۔ جو شخص تبذیر کا ارتکاب کرتا ہے، وہ بھی درحقیقت یہی کام کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر برباد کرتا ہے، جو کہ عین شیطانی عمل ہے۔ تبذیر کی عملی مثالوں میں شادی بیاہ کی تقریبات میں اتنا کھانا پکانا جو بعد میں کچرے میں پھینک دیا جائے، یا محض نمود و نمائش کے لیے قیمتی اشیاء کو تباہ کرنا شامل ہیں۔ یہ عمل نعمت کو تلف کرنے کے مترادف ہے، اور اللہ کی نعمت کو جان بوجھ کر ضائع کرنا اس کی کھلی نافرمانی ہے[4]۔

اگرچہ معاشی تناظر میں اسراف و تبذیر کے الفاظ میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن اسراف و تبذیر کے درمیان فرق یہ ہے کہ "تبذیر” کا اطلاق خاص طور پر مال کو بے مقصد اور غیر معقول طریقے سے ضائع اور تلف کرنے پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، "اسراف” کا دائرہ کار وسیع ہے اور اس میں وہ صورتیں بھی شامل ہیں جہاں مال ضائع تو نہیں ہوتا لیکن خرچ بےموقع اور ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک شخص بھوک نہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ کھانا کھا لیتا ہے، یہ اسراف ہے۔ لیکن جب کوئی شخص قابلِ استعمال خوراک کو کچرے میں پھینک دیتا ہے، تو یہ تبذیر ہے، کیونکہ اس نے نعمت کو براہِ راست تلف کر دیا ہے۔ لہٰذا، اسراف و تبذیر دونوں ہی ناپسندیدہ اعمال ہیں، لیکن تبذیر کی نوعیت زیادہ سنگین ہے کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست وسائل کی بربادی سے ہے۔

اسراف کے مہلک اثرات اور نتائج

اسلام میں ہر اس عمل کی مذمت کی گئی ہے جس میں فرد یا معاشرے کے لیے نقصان ہو۔ اسراف و تبذیر ایک عظیم معاشرتی آفت کے طور پر مختلف جہتوں سے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اسراف و تبذیر جیسے قبیح عمل کے تباہ کن اثرات بیان کیے جا رہے ہیں۔

1. محبتِ الٰہی سے محرومی

اسراف کرنے والا شخص یادِ خدا سے غافل ہو کر رفتہ رفتہ اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم معاشی معاملات میں اسراف کو محبتِ خدا سے محرومی کا سبب قرار دیتا ہے:

الف۔ ﴿… وَلَا تُسۡرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُسۡرِفِينَ[5]

یہ آیتِ مبارکہ واضح کرتی ہے کہ نعمت کا صحیح استعمال شکر ہے اور غلط استعمال ناشکری۔ جب کوئی بندہ اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈال کر اسراف کا ارتکاب کرتا ہے، تو وہ خود کو اللہ کی محبت کے دائرے سے باہر نکال لیتا ہے۔ یہ محرومی تمام روحانی محرومیوں کی جڑ ہے[6]۔

ب۔ ﴿… وَكُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ وَلَا تُسۡرِفُوٓاْۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلۡمُسۡرِفِينَ[7]

یہاں کھانے پینے جیسی بنیادی ضرورت میں بھی اعتدال کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اسراف صرف مال کی کثرت میں نہیں، بلکہ کھانے پینے کی عادات میں بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسراف کی ناپسندیدگی کو اپنی عدمِ محبت سے جوڑا ہے، جو اس عمل کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ محبتِ الٰہی سے محرومی کا مطلب ہے توفیقِ الٰہی اور برکت سے محروم ہو جانا۔

2. مقامِ بندگی سے محرومی

انفاق میں اسراف و تبذیر انسان کو اللہ تعالیٰ کے مقامِ بندگی تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ قرآن مجید فرماتا ہے: ﴿وَٱلَّذِينَ إِذَآ أَنفَقُواْ لَمۡ يُسۡرِفُواْ وَلَمۡ يَقۡتُرُواْ وَكَانَ بَيۡنَ ذَٰلِكَ قَوَامٗا[8]

"عباد الرحمن” یعنی رحمٰن کے بندوں کی یہ صفت ان کی پوری زندگی کے رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ بندگی کا جوہر ہی یہی ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو اپنے مالک کے احکام کے تابع کر دے۔ اللہ نے خرچ کرنے میں دو انتہاؤں، یعنی اسراف اور بخل، دونوں سے منع کر کے اعتدال کا حکم دیا ہے۔ جو شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، وہ عملی طور پر بندگی کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے۔ اسراف کرنے والا دراصل اپنے نفس کا بندہ ہوتا ہے، نہ کہ رحمٰن کا[9]۔

3. ہدایتِ الٰہی سے محرومی

اسراف و تبذیر انسان کو ہدایتِ الٰہی سے محروم کر دیتا ہے۔

الف۔ ﴿… إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهۡدِي مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٞ كَذَّابٞ[10]

یہاں اسراف کو کذب (جھوٹ) کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اسراف کرنے والا شخص عملی طور پر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے۔ جب انسان حد سے تجاوز کو معمول بنا لے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور حق بات قبول کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ ہدایت ایک نور ہے جو پاکیزہ دلوں میں اترتا ہے، جبکہ اسراف و تبذیر دل کو آلودہ کر دیتا ہے[11]۔

ب۔ ﴿… كَذَٰلِكَ يُضِلُّ ٱللَّهُ مَنۡ هُوَ مُسۡرِفٞ مُّرۡتَابٌ[12]

اس آیت میں اسراف کو "مرتاب” یعنی شک کرنے والے کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اسراف کرنے والا اکثر اللہ کے وعدوں اور آخرت کے معاملے میں شک میں مبتلا ہوتا ہے، اسی لیے دنیا کی نمود و نمائش پر بے دریغ خرچ کرتا ہے۔ یہ شک اور حد سے تجاوز کا رویہ اسے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے[13]۔

4. خوف و ہراس کا ماحول

اسراف کی عادت معاشرے میں گھٹن اور خوف پیدا کرتی ہے۔ قرآن کریم فرعون کی سرکشی کو اسراف سے تعبیر کرتا ہے: ﴿… وَإِنَّ فِرۡعَوۡنَ لَعَالٖ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلۡمُسۡرِفِينَ[14]

فرعون کا اسراف صرف مال میں نہیں، بلکہ طاقت اور اختیار میں بھی تھا۔ اس نے خدائی کا دعویٰ کر کے سب سے بڑی حد کو توڑا۔ جب حکمران طبقہ اسراف میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ عوام کا استحصال کرتا ہے اور ظلم و ستم کا بازار گرم کرتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خوف اور گھٹن کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ یوں اسراف و تبذیر ایک اجتماعی ظلم اور فساد کا نظام قائم کر دیتا ہے[15]۔

5. درماندگی اور لوگوں کی ملامت

انفاق میں زیادتی انسان کو درماندہ اور دوسروں کی ملامت کا مستحق بنا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ ٱلۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُومٗا مَّحۡسُورًا[16]

یہ آیت اسلامی معیشت کے سنہری اصول، یعنی اعتدال کو بیان کرتی ہے۔ "ملوم” (ملامت زدہ) اور "محسور” (درماندہ) کے الفاظ بہت معنی خیز ہیں۔ جب انسان اپنی تمام پونجی لٹا دیتا ہے تو پہلے اس کے اہل و عیال اسے ملامت کرتے ہیں، پھر جب وہ خود ضرورت مند ہوتا ہے تو لوگ اسے ملامت کرتے ہیں۔ اسراف و تبذیر انسان کو معاشرے کا فعال رکن بنانے کی بجائے ایک بے بس فرد بنا دیتا ہے[17]۔

6. رحمتِ الٰہی سے ناامیدی

گناہوں میں اسراف انسان کے دل میں رحمتِ الٰہی سے ناامیدی پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلۡ يَٰعِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِ…﴾[18]

"جانوں پر اسراف” ایک جامع اصطلاح ہے جس میں ہر وہ گناہ شامل ہے جس سے انسان خود کو اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے۔ جب انسان مسلسل گناہوں میں حد سے تجاوز کرتا ہے تو شیطان اسے ناامیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ، اللہ کی بے پایاں رحمت کا دروازہ کھولتی ہے اور بتاتی ہے کہ گناہوں میں کتنا ہی اسراف و تبذیر کیوں نہ ہو، توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے[19]۔

7. غربت و افلاس

اسراف و تبذیر کے نمایاں معاشی اثرات میں سے ایک غربت ہے۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: "سَبَبُ الْفَقْرِ الْإِسْرَافُ” یعنی "اسراف غربت کا سبب ہے”[20]۔

یہ اصول انفرادی اور اجتماعی، دونوں سطحوں پر لاگو ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر، جو شخص اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے، وہ غربت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اجتماعی سطح پر، جب کوئی قوم اپنے قدرتی وسائل کو ضائع کرتی ہے تو وہ مجموعی طور پر غربت اور پسماندگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسراف و تبذیر وسائل اور ضروریات کے درمیان توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔

8. ہلاکت و بربادی

اسراف و تبذیر معاشرے کو عیش پرستی اور تجمل پرستی کی طرف لے جاتا ہے جو زوال کا باعث ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: ﴿…وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ[21]۔

یہاں "ہلاکت” سے مراد صرف جسمانی موت نہیں، بلکہ اخلاقی، روحانی اور تہذیبی موت بھی شامل ہے۔ جب کوئی قوم اسراف و تبذیر کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو وہ اپنی تخلیقی صلاحیتیں کھو دیتی ہے اور اس کے افراد آرام طلب ہو جاتے ہیں۔ ایسی قومیں اندرونی یا بیرونی طور پر تباہی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

9. ہم جنس پرستی

قرآن کریم کے مطابق شہوت رانی میں زیادتی قومِ لوط میں لواطت کے رجحان کا باعث بنی:

﴿إِنَّكُمۡ لَتَأۡتُونَ ٱلرِّجَالَ شَهۡوَةٗ مِّن دُونِ ٱلنِّسَآءِ بَلۡ أَنتُمۡ قَوۡمٞ مُّسۡرِفُونَ[22]۔

یہاں "مسرفون” (حد سے گزرنے والے) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت کی قائم کردہ حدود سے تجاوز ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ جب انسان جنسی خواہش کی تسکین میں فطری راستے سے تجاوز کرتا ہے تو اس کی خواہشات بے لگام ہو کر اسے غیر فطری طریقوں کی طرف مائل کرتی ہیں، جو دراصل شہوت میں اسراف کا نتیجہ ہے[23]۔

10. مجاہدین کی فتح میں رکاوٹ

اسراف راہِ خدا میں جہاد کرنے والوں کی فتح میں رکاوٹ بنتا ہے۔ قرآن میں اللہ والے مجاہدین کی دعا کا تذکرہ ہے جو اپنی ناکامی کا سبب اپنے گناہوں اور معاملات میں "اسراف” کو قرار دے رہے ہیں: ﴿… رَبَّنَا ٱغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسۡرَافَنَا فِيٓ أَمۡرِنَا..﴾[24]

کامیابی کے لیے مادی اسباب کے ساتھ روحانی پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ جب کوئی قوم اسراف و تبذیر اور عیش پرستی میں مبتلا ہو جاتی ہے تو اس کی قوتِ ارادی کمزور ہو جاتی ہے اور وہ مشکلات برداشت کرنے کی صلاحیت کھو دیتی ہے۔ فتح کے لیے اللہ کی مدد ضروری ہے، اور اللہ کی مدد متقی اور منضبط لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے[25]۔

11. برے اعمال کا مزین ہو جانا

اسراف و تبذیر کی عادت مسرف لوگوں کی نظر میں ان کے برے اعمال کو خوشنما بنا دیتی ہے: ﴿… كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلۡمُسۡرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ[26]۔

جب انسان مسلسل حد سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اور صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے اسراف و تبذیر کو اپنی شان اور سخاوت قرار دینے لگتا ہے۔ شیطان اس کی نظر میں اس کے ہر برے عمل کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہ روحانی ہلاکت کی آخری منزل ہے، جہاں انسان کی اصلاح کے راستے بند ہو جاتے ہیں[27]۔

نتیجہ

اسراف و تبذیر ایک ایسی تباہ کن بلا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کو زوال اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ اسراف و تبذیر کا عمل نہ صرف انسان کو اللہ کی محبت، ہدایت اور رحمت سے محروم کرتا ہے بلکہ اسے غربت، ذلت، درماندگی اور آخرکار ہلاکت کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ معاشی عدم استحکام، سماجی بگاڑ اور اخلاقی گراوٹ جیسے سنگین مسائل کی جڑیں بھی کہیں نہ کہیں اسراف و تبذیر میں پیوست ہیں۔ اس مہلک بیماری سے بچنے کا واحد راستہ اسلامی تعلیمات، یعنی میانہ روی اور اعتدال کو اپنانا ہے۔ لہٰذا، اسراف و تبذیر کی ہر شکل سے پرہیز کرنا دنیوی فلاح اور اخروی نجات کے لیے ناگزیر ہے۔

حوالہ جات

[1] مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن۔
[2] قرشی، قاموس قرآن، ج1، ص173۔
[3] سورہ اسراء آیت 27۔
[4] طبرسی، مجمع البیان، ج8، ص300۔
[5] سورہ انعام آیت 141۔
[6] طباطبائی، المیزان، ج7، ص501۔
[7] سورہ اعراف آیت 31۔
[8] سورہ فرقان آیت 67۔
[9] مترجمان، تفسیر ہدایت، ج8، ص47۔
[10] سورہ غافر آیت 28۔
[11] قرائتی، تفسیر نور، ج10، ص25۔
[12] سورہ غافر آیت 34۔
[13] مصطفوی، تفسیر روشن، ج11، ص81۔
[14] سورہ یونس آیت 83۔
[15] طبرسی، مجمع البیان، ج11، ص34۔
[16] سورہ اسراء آیت 29۔
[17] حسینی شاہ عبد العظیمی، تفسیر اثنا عشری، ج11، ص25۔
[18] سورہ زمر آیت 53۔
[19] کلینی رازی، الکافی، ج4، ص55۔
[20] کلینی رازی، الکافی، ج4، ص53۔
[21] سورہ انبیاء آیت 9۔
[22] سورہ اعراف آیت 81۔
[23] طباطبایی، المیزان، ج8، ص233۔
[24] سورہ آل عمران آیت 147۔
[25] طباطبایی، المیزان، ج10، ص28۔
[26] سورہ یونس آیت 12۔
[27] قرائتی، تفسیر نور، ج5، ص190۔

فہرست منابع

1. القرآن الكريم
2. حسینی شاہ عبدالعظیمی، حسین بن احمد۔ تفسیر اثنا عشری۔ تہران: میقات، 1366۔
3. راغب اصفہانی، حسین بن محمد۔ ترجمہ مفردات الفاظ قرآن۔ مترجم: سید غلام رضا خسروی حسینی۔ قم: دار العلم، 1376۔
4. طبرسی، ابو علی الفضل بن الحسن۔ ترجمہ مجمع البیان فی تفسیر القرآن۔ تحقیق: رضا ستودہ۔ تہران: فراہانی، 1360۔
5. طباطبائی، محمد حسین۔ ترجمہ تفسیر المیزان۔ قم: دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، 1374۔
6. قرائتی، محسن۔ تفسیر نور۔ تہران: مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1383۔
7. قرشی، سید علی اکبر۔ قاموس قرآن۔ تہران: دار الکتب الاسلامیہ، 1375۔
8. کلینی رازی، محمد بن یعقوب۔ الکافی۔ تہران: اسلامیہ، 1362۔
9. مترجمان۔ تفسیر ہدایت۔ مشہد: بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1377۔
10. مصطفوی، حسن۔ التحقیق فی کلمات القرآن الکریم۔ تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1374۔
11. مصطفوی، حسن۔ تفسیر روشن۔ تہران: مرکز نشر کتاب، 1380۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

رضوانی، علی، آثار و پیامدهای اسراف و تبذیر از منظر قرآن کریم (قرآن کریم کی نظر میں اسراف و تبذیر کے اثرات اور نتائج)، مهندسی فرهنگی، فروردین و اردیبهشت 1390، شمارہ 51 و 52، صفحہ 10-18۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے