- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 4 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/07/22
- 0 رائ
جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ قرآن مجید کے پھلے سورے کا نام ”فاتحة الکتاب“ ھے، ”فاتحة الکتاب“ یعنی کتاب (قرآن) کی ابتدا اور پیغمبر اکرم(ص) سے منقول بہت سی روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خود آنحضرت(ص) کے زمانہ میں اس سورہ کو اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔
یھیں سے ایک دریچہ اسلام کے مسائل میں سے ایک اھم مسئلہ کی طرف وا ھوتا ھے اور وہ یہ کہ ایک گروہ کے درمیان یہ مشھور ھے کہ ( پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں قرآن پراکندہ تھا بعد میں حضرت ابوبکر یا عمر یا عثمان کے زمانہ میں مرتب ھوا ھے)، قرآن مجید خود پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں اسی ترتیب سے موجود تھا جو آج ھمارے یھاں موجود ھے، اور جس کا سر آغاز یھی سورہ حمد تھا، ورنہ تو یہ پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ھونے والا سب سے پھلا سورہ نھیں تھا اور نہ ھی کوئی دوسری دلیل تھی جس کی بناپر اسے ”فاتحة الکتاب“ کے نام سے یاد کیا جاتا۔
اس کے علاوہ اور بہت سے شواھد اس حقیقت کی تائید کرتے ھیں کہ قرآن کریم اسی موجودہ صورت میں پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں جمع ھوچکا تھا۔
”علی بن ابراھیم(رہ)“ حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: قرآن کریم حریر کے کپڑوں ،کاغذ اور ان جیسی دوسری چیزوں پر متفرق ھے لہٰذا اس کو ایک جگہ جمع کرلو“ اس کے بعد مزید فرماتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اس نشست سے اٹھے اور قرآن کو ایک زرد رنگ کے کپڑے پر جمع کیا اور اس پر مھر لگائی: ”وَانطلقَ عَليَّ (ع)فَجمعہُ فِي ثوبٍ اٴصفرٍ ثُمَّ خَتَم علَیْہِ“[۱]
ایک دوسرا گواہ: ”خوارزمی“ اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلف اپنی کتاب ”مناقب“ میں ”علی بن ریاح“ سے نقل کرتے ھیں کہ قرآن مجید کو حضرت علی بن ابی طالب اور ابیّ بن کعب نے پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ ھی میں جمع کردیا تھا۔
تیسرا گواہ: اھل سنت کے مشھور و معروف موٴلفحاکم نیشاپوری اپنی کتاب ”مستدرک“ میں زید بن ثابت سے نقل کرتے ھیں:
زید کہتے ھیں: ” ھم لوگ قرآن کے مختلف حصوں کو پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں جمع کرتے تھے اور آنحضرت (ص)کے فرمان کے مطابق اس کی مناسب جگہ قرار دیتے تھے، لیکن پھر بھی یہ لکھا ھوا قرآن متفرق تھا ،حضرت رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اس کو ایک جگہ جمع کردیں ، اور ھمیں اس کی حفا ظت کے لئے تا کید کیا کرتے تھے“۔
عظیم الشان شیعہ عالم دینسید مرتضیٰ کہتے ھیں:قرآن مجید پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں اسی موجودہ صورت میں مرتب ھوچکا تھا“[۲]
طبرانی اور ابن عساکر دونوں ”شعبی“ سے نقل کرتے ھیں کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں انصار کے چھ افراد نے قرآن کو جمع کیا۔[۳] اور قتادہ نقل کرتے ھیں کہ میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم (ص)کے زمانہ میں کن لوگوں نے قرآن جمع کیا تھا؟ تو انھوں نے :ابیّ بن کعب، معاذ،زید بن ثابت اور ابوزید کا نام لیا جو سبھی انصار میںسے تھے[۴] اس کے علاوہ بھی بہت سی روایات ھیں جو اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ اگر ھم ان سب کو بیان کریں تو ایک طولانی بحث ھوجائے گی۔
بھر حال شیعہ اور سنی کتب میں نقل ھونے والی روایات جن میں سورہ حمد کو ”فا تحة الکتاب“ کا نام دیا جانا، اس موضوع کو ثابت کرنے کے لئے کافی ھے۔
سوال: یھاں ایک سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کس طرح اس بات پر یقین کیا جاسکتا ھے جبکہ بہت سے علما کے نزدیک یہ بات مشھور ھے کہ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد ترتیب دیا گیا ھے (حضرت علی کے ذریعہ یا دوسرے لوگوں کے ذریعہ)
اس سوال کے جواب میںھم یہ کہتے ھیں : حضرت علی علیہ السلام کا جمع کیا ھوا قرآن خالی قرآن نھیں تھا بلکہ قرآن مجید کے ساتھ سا تھ اس کی تفسیر اورشان نزول بھی تھی۔
البتہ کچھ ایسے قرائن وشواھد بھی پا ئے جا تے ھیںجن سے پتہ چلتا ھے کہ حضرت عثمان نے قرائت کے اختلاف کودور کرنے کے لئے ایک قرآن لکھا جس میں قرائت اور نقطوں کا اضافہ کیا (چونکہ اس وقت تک نقطوں کا رواج نھیں تھا) بعض لوگوں کا یہ کھنا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں کسی بھی صورت میں قرآن جمع نھیں کیا گیا تھا بلکہ یہ افتخار خلیفہ دوم یا حضرت عثمان کونصیب ھوا، تو یہ بات فضیلت سازی کا زیادہ پھلو رکھتی ھے لہٰذا اصحاب کی فضیلت بڑھا نے کے لئے نسبت دیتے ھیں اورروایت نقل کرتے ھیں۔
بھر حال اس بات پرکس طرح یقین کیا جاسکتا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) اتنے اھم کام پر کوئی توجہ نہ کریں جبکہ آنحضرت(ص) چھوٹے چھوٹے کاموں کو بہت اھمیت دیتے تھے، کیا قرآن کریم اسلام کے بنیادی قوانین کی کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب نھیں ھے؟! کیا قرآن کریم اعتقادات نیز اسلامی منصوبوں کی بنیادی کتاب نھیں ھے؟! کیا پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ میں قرآن کریم کے جمع نہ کرنے سے یہ خطرہ درپیش نہ تھا کہ اس کا کچھ حصہ نابود ھوجائے گا یا مسلمانوں کے درمیان اختلاف ھوجائے گا؟!
اس کے علاوہ مشھور و معروف حدیث ”ثقلین“ جس کو شیعہ اور سنی دونوں فر یقوں نے نقل کیا ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: ”میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں: ایک کتاب خدا(قرآن) اور دوسرے میری عترت (اھل بیت(ع))۔۔“ اس حدیث سے بھی ظاھر ھوتا ھے کہ قرآن کریم ایک کتاب کی شکل میں موجود تھا۔
اور اگر ھم دیکھتے ھیں کہ بعض روایات میں بیان ھوا ھے کہ خود آنحضرت(ص) کی زیرنگرانی بعض اصحاب نے قرآن جمع کیا، اور وہ تعداد کے لحاظ سے مختلف ھيں تو اس سے کوئی مشکل پیدا نھیں ھوتی، کیونکہ ممکن ھے کہ ھر روایت ان میں سے کسی ایک کی نشاندھی کرتی ھو۔[۵]
حواله جات
[۱] تاریخ القرآن ، ابو عبداللہ زنجانی صفحہ ۲۴۔
[۲] مجمع البیان ، جلد اول، صفحہ ۱۵۔
[۳] منتخب کنز العمال ، جلد ۲، صفحہ ۵۲۔
[۴] صحیح بخاری ، جلد ۶، صفحہ ۱۰۲۔
[۵] تفسیر نمونہ ، جلد اول، صفحہ ۸۔