- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 6 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2022/08/24
- 0 رائ
یہ مسئلہ نبوت کے مسائل میں سے ھے جسے ایک ایسے برھان کے ذریعہ ثابت کرنا ھوگا کہ جو تین مقدمات پر مشتمل ھو۔
پھلا مقدمہ یہ ھے انسان کی خلقت کا ھدف یہ ھے کہ وہ اپنے مختار ھونے کے ساتھ اعمال کے ذریعہ راہ تکامل کو انتھائی کمال تک طے کرے، ایسا کمال کہ جو انسان کے مختار ھوئے بغیر قابل دست رسی نھیں ھے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انسان کو اس لئے خلق کیا گیا ھے، کہ وہ خدا کی اطاعت و عبادت کے ذریعہ اپنے وجود میں رحمت الٰھی کی دریافت کی لیاقت پیدا کرے، جو صرف اور صرف انسان کامل سے مخصوص ھے، اورخدا کاا رادہ بھی انسان کی سعادت اور اس کے کمال سے متعلق ھے لیکن چونکہ یہ سعادت اختیاری افعال انجام دئے بغیر میسر نھیں ھے اس مسئلہ نے بشری زندگی کو دو راھے پر کھڑا کردیا ھے ،تا کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاھے انتخاب کرے جن میں سے ایک راستہ شقاوت کی طرف جاتا ھے جو بالتبع ارادہ الٰھی سے متعلق ھے نہ بالاصالةً۔
یہ مقدمہ عدل و حکمت الٰھی کی بحث کے ضمن میں واضح ھوگیا۔
دوسرا مقدمہ: یہ ھے کہ غور و فکر کے ذریعہ اختیار و انتخاب کرنا، مختلف ا مور کی انجام دھی میں بیرونی عوامل کا مھیا ھونا اور ان کی طرف باطنی کشش کے پائے جانے کے علاوہ امور کے صحیح یا غلط ھونے اور اسی طرح شائستہ اور ناشائستہ راستو ں کی ضرورت ھے، اور انسان اسی صورت میں غور و فکر کے ساتھ انتخاب کر سکتا ھے کہ جب ھدف اور اس تک پھنچنے والے راستہ کو اچھی طرح جانتا ھو ، اور اس کے فراز و نشیب ، پیچ و خم سے پوری طرح آگاہ ھو لہذا حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ ایسی معرفت کے حصول کے لئے خدا وند متعال ضروری وسائل و امکانات ، بشر کے اختیار میں قرار دے، وگرنہ اس کی مثال اس شخص کی ھوگی جو کسی کو اپنے مھمان سرا پر دعوت دے، لیکن اسے اس کا پتہ اور وھاں تک جانے والے راستہ کی نشاندھی نہ کرے ، ظاھرھے کہ ایسا عمل حکمت اور غرض کے خلاف ھوگا۔
یہ مقدمہ بھی چونکہ واضح ھے لہٰذا ا س کے لئے زیادہ وضاحت کی ضرورت نھیں ھے۔
تیسرا مقدمہ :یہ ھے کہ انسانوں کی وہ معمولی معرفت جو حس و عقل کی بنیاد پر حاصل ھوتی ھے اگر چہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ھے لیکن سعادت حقیقی اور راہ کمال کو فردی و اجتماعی ، مادی و معنوی، دنیوی و آخروی پھلوں کے لحاظ سے پہچاننے کے لئے کافی نھیں ھے، اور اگر ان مشکلات کے حل کے لئے کوئی اور راستہ نہ ھو تو انسان کی خلقت سے خدا کا ھدف پورا نھیں ھو سکتا۔
ان مقدمات کی بدولت ھم اس نتیجہ تک پھنچے ھیں کہ حکمت الٰھی کا تقاضا یہ ھے کہ راہ تکامل کی پہچان کے لئے حس و عقل کے علاو ہ کوئی دوسرا راستہ انسان کے اختیار میں ھونا چاھیے، تا کہ انسان براہ راست یا ایک یا چند واسطہ کے ذریعہ اس سے مستفید ھو سکے، ھاں،یہ وھی وحی کا راستہ ھے جسے خدا نے اپنے انبیاء ( ع)کے اختیار میں دے دیا ھے، جس سے عوام، انبیاء ( ع)کے ذریعہ اور انبیاء (علیہم السلام)براہ راست مستفید ھوتے ھیں، اور جو چیز کمال نھائی اور سعادت کے حصول میں ضروری ھے اسے انسانوں کے اختیار میں قرار دیا ھے۔
ان تینوں مقدموں میں تیسرے مقدمہ کی بہ نسبت ممکن ھے کسی کے دل میں کوئی شبہ پیدا ھو لہٰذا اس سلسلہ میں تھوڑی سی وضاحت کریں گے تا کہ اس طرح راہ تکامل کی تشخیص میں علوم بشری کی کمزوری اور بشر کیلئے راہ وحی کی ضرورت پوری طرح روشن ھوجائے۔
اسانی علوم کی ناکامی۔
زندگی کے صحیح راستہ کو اس کے تمام جوانب کے ساتھ پہچاننے کے لئے ضروری ھے کہ سب سے پھلے انسان کے آغاز و انجام نیز بقیہ موجودات کے ساتھ اس کے روا بط اور مخلوقات کے ساتھ اس کی معاشرت کے علاوہ سعادت و شقاوت میں اثر انداز ھونے والے مختلف پھلوٴں کا جانا ضروری ھے نیز مصالح و مفاسد ،سود و زیاں میں کمی اور زیادتی کی تشخیص بھی ضروری ھے، تا کہ اس طرح کھربوں انسان کے وظائف مشخص ھو سکیں، جو مختلف طبیعی اور اجتماعی شرائط اور بدنی او روحی تفاوت و اختلافات کے ساتھ زندگی گذار رھے ھیں، لیکن ان تمام امور پر ایک یا چند افراد کی بات کیا ہزاروں علو م انسانی کے ماھرین بھی اکٹھا ھوجائیں تو بھی ایسے پیچیدہ فارمولے کو کشف کرکے اسے منظم اصول و قوانین کی ایسی شکل نھیں دے سکتے کہ جو تمام انسانوں کے لئے فردی و اجتماعی، مادی، معنوی، دنیوی و اخروی اعتبار سے مصالح و مفاسد کی ضمانت دے سکے، اس کے علاوہ بے شمار مصالح و مفاسد کے ٹکراؤ کے دوران جو اکثر اوقات پیش آتے ھیں ان میں اھم کو انتخاب کر کے وظیفہ کو معین کرنا بھی ان کی استطاعت کے باھر ھے۔
تاریخ بشر میں بدلتے ھوئے قوانین نے اس بات کو ثابت کردیا ھے کہ ہزاروں سال تک ہزاروں حقوق دانوں کی تحقیق و جستجو سے آج تک کامل اور عیب و نقص سے مبرا قوانین کا ایک مجموعہ وجود میں نھیں آسکا ،بلکہ ھمیشہ قانون کو وضع کرنے والے ایک مدت کے بعد اپنے ھی وضع کردہ قانون میں خطا سے آگاہ ھوئے، یا تو اسے بدل دیا یا پھر اسے کسی دوسرے وضع کردہ قانون کے ذریعہ کامل کردیا۔
لیکن اس مقام پر اس مطلب کی طرف توجہ مبذول رھے ،کہ انھوں نے بہت حد تک اپنے قوانین کو وضع کرنے میں الٰھی قوانین کا سھارا لیا ھے اور یہ بھی معلوم رھے، کہ قانون گذاروں کی تمام سعی و کوشش دنیوی اور اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لئے صرف ھوتی رھی ھے، لیکن کبھی بھی انھوں نے اخروی منافع کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور دنیوی قوانین سے اس کا کوئی موازنہ نھیں کیا، بلکہ اگر وہ اس مسئلہ کو مد نظر رکھ کر قو انین وضع کرتے تو کبھی بھی اس راہ میں کامیاب نہ ھوتے، اس لئے کہ مادی اور دنیوی مصلحتوں کو ایک حد تک تجربوں کے ذریعہ معین کیا جاسکتا ھے لیکن معنوی اور اخروی مصلحتیں کسی بھی حال میںتجربہ حسی کے قابل نھیں ھیں، اور پوری طرح سے اس کے مصالح کا اندازہ نھیں لگایا جاسکتا، اسی طرح ان کے لئے مصالح اخروی اور مصالح دنیوی کے ٹکراؤ کے ھنگام اھم ومھم کو تشخیص دینا بھی غیر ممکن ھے؟
بشر کے موجودہ قوانین کی حالت کو دیکھتے ھوئے ہزاروں سال پھلے جینے والے انسانوں کے علوم کا انداہ لگایا جا سکتا ھے اور یہ قطعی نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ھے کہ گذشتہ ادوار میں جینے والے اس عصر میں جینے والوں کے مقابلہ میں زندگی کے صحیح راستہ کی تشخیص میں نھایت ناتواں تھے، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس عصر کے انسانوں سے ہزاروں سالہ تجربات کے پیش نظر کامل قوانین کے مجموعہ کو وضع کرنے میں کامیابی حاصل کر بھی لی ھے یا بالفرض یہ قوانین انسانوں کی اخروی سعادت کے ضامن بھی بن گئے ھیں، لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ھے کہ کس طرح ہزاروں انسانوں کو ان کی جھالت میں چھوڑ دینا حکمت الٰھی سے سازگار ھے؟
نتیجہ۔ آغاز سے انجام تک انسانوں کی خلقت کا ھدف اسی صورت میں قابل تحقّق ھے کہ جب زندگی کے حقائق اور فردی و اجتماعی وظائف کی معرفت کے لئے حس و عقل سے ماورا کوئی دوسرا راستہ بھی موجود ھو، اور وہ راستہ وحی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نھیں ھوسکتا۔
اس بحث کی روشنی میں یہ مطلب بھی واضح ھوگیا کہ اس برھان کا تقاضا یہ ھے کہ اس زمین پر قدم رکھنے والے سب سے پھلے انسان کا نبی ھونا ضروری ھے تا کہ وہ وحی کے ذریعہ زندگی کے صحیح طریقہ کو پہچانے اور ھدف خلقت اُس کے متعلق متحقق ھوجائے اور اس کے بعد آنے والے انسان اسی کے ذریعہ ھدایت یافتہ ھوں۔
بعثت انبیاء (علیہم السلام)کے فوائد
انبیاء الٰھی انسانوں کے کمال کو مشخص کرنے اور وحی کو دریافت کرنے کے بعد لوگوں کے سامنے اُسے بیان کرنے کے علاوہ انسانوں کے تکامل(بتدریج کمال تک پھنچنے) کے لئے دوسرے مھم راستوں سے بھی آگاہ تھے جو درج دیل ھیں۔
۱۔ بہت سے ایسے مطا لب ھیں کہ جنھیں درک کرنے کے لئے انسانی عقول میں طاقت نھیں ھے، بلکہ اسے سمجھنے کے لئے گذشتہ زمانے کے علاوہ بے شمار تجربوں کی ضرورت ھے یا پھر وہ مطالب حیوانی خواھشات میں ملوث ھونے اور مادیات سے وا بسطہ ھونے کی وجہ سے فراموشی کا شکار ھوگئے ھیں، یا پھر زھریلی تبلیغات اور لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈوں کی وجہ سے مخفی ھوگئے ھیں، ایسے مطالب بھی انبیاء الٰھی کی جانب سے بیان کئے جاتے ھیں جنھیں پے درپے تذکرات اور بار بار تکرار کے ذریعہ پوری طرح فراموش ھونے سے بچا لیا جاتا ھے اور صحیح تعلیم کے ذریعہ ایسی زھریلی تبلیغات کے اثرات سے محفوظ کردیا جاتا ھے۔
یھیں سے انبیاء ( ع)کا ”مذکِّر“ اور ”نذیر“ اور قرآن کا ”ذکر“ اور تذکرہ“ جیسی صفات سے متصف ھونا سمجھ میں آتا ھے امام علی علیہ السلام بعثت انبیاء (علیہم السلام)کی حکمتوں کو بیان کرنے کے دوران فرماتے ھیں<لِیسَتاٴدُوھم میثاقَ فِطرَتہ و یُذکِّروھم مَنسِيِّ نِعمَتِہ وَ یَحتجّوا عَلَیھم بِالتّبلیغ>یعنی خدا نے اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجا تا کہ لوگوں سے پیمان فطرت پر وفاداری کا اقرار لیں، فراموش شدہ نعمتوں کی یاد دلائیں اور تبلیغ کے ذریعہ اتمام حجت کریں:
۲۔ انسان کے تکامل(کمال کے آخری درجہ تک پھنچنے) کے مھم ترین عوامل میں سے اسوہ اور نمونہ کا ھونا ھے کہ جس کی ا ھمیت علم نفسیات ثابت ھے انبیاء الٰھی انسان کامل اور دست الٰھی کے ھاتھوں تربیت پانے کی وجہ سے اس کردار کو بہترین صورت میں پیش کرتے ھیں، لوگوںکو اپنی تعلیمات کامیابی حاصل کرنے کے علاوہ ان کی تربیت اور تزکیہ کا اہتمام بھی کرتے ھیں، اور ھمیں یہ معلوم ھے کہ قرآن میں تعلیم و تزکیہ کو باھم ذکر کیا گیا ھے یھاں تک کہ بعض مقامات پر تزکیہ کو تعلیم پر مقدم کیا گیا ھے۔
۳۔ لوگوں کے درمیان انبیاء ( ع)کے موجودھونے کی برکات میں سے ایک برکت یہ بھی ھے کہ صورتحال کے موافق ھوتے ھی لوگوں کی سیاسی، اجتماعی رھبری کو بھی سنبھالتے ھیں، اور یہ امر بخوبی روشن ھے کہ ایک سماج کے لئے معصوم رھبر کا ھونا عظیم نعمتوں میں سے ھے اس لئے کہ اس کے ذریعہ سماج کی بہت سی مشکلات کو روک دیا جاتا ھے، اور سماج اختلاف ،گمراھی اور کج روی سے نجات پاجاتا ھے اور کمال کی جانب گامزن ھوجاتا ھے۔