- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 8 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/01/08
- 0 رائ
اس سلسلہ میں ایک واقعہ نقل ھوا ھے جو افسانہ ”غرانیق“ کے نام سے مشھور ھے، افسانہ یہ (گڑھا گیا) ھے کہ پیغمبر اکرم(ص) مشرکین کے سامنے سورہ ”نجم “کی تلاوت فرما رھے تھے اور جس وقت اس آیت پر پھنچے:
< اٴَفَرَاٴَیْتُمْ اللاَّتَ وَالْعُزَّی وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْاٴُخْرَی>[1]
اس موقع پر شیطان نے آنحضرت(ص) کی زبان پر یہ دو جملے جاری کردئے: ”تِلکَ الغَرَانیقُ العُلیٰ وَاٴنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرتَجیٰ“ ”وہ بلند مقام پرندے ھیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ھے“۔[2] جیسے ھی مشرکین نے یہ دو جملے سنے تو خوشی میں پھولے نہ سمائے، اور ان لوگوں نے کھا: ”محمد“ نے اب تک ھمارے خداؤں کا نام خیر و نیکی سے نھیں لیا، اسی موقع پر رسول خدا(ص) نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی سجدہ کیا، سب مشرکین قریش بہت خوش ھو گئے، اور وھاں سے متفرق ھو گئے، لیکن کچھ دیر نہ گزری تھی کہ جناب جبرئیل امین نازل ھوئے اور پیغمبر اکرم(ص) کو خبر دی کہ یہ دو جملے میں آپ کے لئے لے کر نازل نھیں ھوا تھا! بلکہ یہ شیطان کی طرف سے القا کئے گئے تھے! اور اس وقت یہ آیت نازل ھوئی:
<وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلاَنَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ>[3]
” اور ھم نے آپ سے پھلے کوئی ایسا رسول یا نبی نھیں بھیجا ھے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھر خدا نے شیطان کی ڈالی ھوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحب حکمت ھے“، اور پیغمبر اور دوسرے مومنین کو تاکید کی گئی ھے۔[4]
اگر اس حدیث کو قبول کرلیا جائے تو انبیاء علیھم السلام کی عصمت یھاں تک کہ وحی دریافت کرنے کے سلسلہ میں بھی مخدوش ھوجاتی ھے، اور انبیاء علیھم السلام کا اعتماد ختم ھوجاتا ھے۔
ھم یھاں پر پھلے سورہ حج کی آیت نمبر ۵۲ کو ان جعلی روایات سے جدا کرتے ھیں اور یہ دیکھتے ھیں کہ آیت کیا کہتی ھے، اور پھر اس طرح کی روایات کی تنقید اور تردید کریں گے: روایت کے جعلی اور جھوٹی ھونے سے قطع نظر اس آیت کے الفاظ اور مفھوم انبیاء علیھم السلام کی عصمت پر کوئی خدشہ وارد نھیں کرتے، بلکہ انبیاء علیھم السلام کی عصمت کی دلیل ھیں، کیونکہ آیت کہتی ھے کہ جس وقت انبیاء کوئی مثبت آرزو کرتے ھیں (قرآن مجید میں ”اُمنیہ “ کا لفظ آیا ھے جو ھر طرح کی آروز کے لئے بولا جاتا ھے، لیکن یھاں انبیاء علیھم السلام کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے ایک مثبت آرزو کے معنی ھيں، کیونکہ اگر مثبت آرزو نھیں تھی تو پھر شیطان ایسے جملے کیوں القا کرتا) لہٰذا جب وہ کوئی مثبت آرزو کرتے ھیں تو شیطان ان پر حملہ آور ھوتا ھے، لیکن ارادہ و عمل میں تاثیر سے پھلے خداوند عالم شیطانی الھامات کو نابود کردیتا ھے، اور اپنی آیات کو استحکام بخشتا ھے۔
(توجہ رھے کہ ”فَیَنْسَخُ اللهُ “ میں لفظ ”فا“ بلا فاصلہ ترتیب کے لئے ھے یعنی خداوند عالم بلافاصلہ فوری طور پر شیطانی الھامات کو ختم کردیتا ھے)، اس بات پر گواہ قرآن مجید کی دیگر آیات ھیں جو صراحت کے ساتھ کہتی ھیں:
< وَلَوْلاَاٴَنْ ثَبَّتْنَاکَ لَقَدْ کِدْتَ تَرْکَنُ إِلَیْہِمْ شَیْئًا قَلِیلاً>[5]
”اور اگر ھماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ھوتا تو آپ (بشری طور پر) کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ھو جاتے“۔
سورہ اسراء کی بہترویں آیت اس بات کی نشاندھی کرتی ھے کہ کفار و مشرکین یہ کوشش کرتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کو آسمانی وحی سے منحرف کردیں، لیکن خداوند عالم کبھی بھی اس بات کی اجازت نھیں دیتا کہ یہ لوگ اپنے وسوسوں میں کامیاب ھوجائیں۔(غور کیجئے )
اسی طرح سورہ نساء میں بیان ھوتا ھے: < وَلَوْلاَفَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طَائِفَةٌ مِنْہُمْ اٴَنْ یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاَّ اٴَنفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِنْ شَیْءٍ>[6]
”اور اگر آپ پر فضل خدا اور رحمت پروردگار کا سایہ نہ ھوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بھکانے کا ارادہ کرلیا تھا اور یہ اپنے علاوہ کسی کو گمراہ نھیں کر سکتے اور آپ کو کوئی تکلیف نھیں پھنچا سکتے“۔
یہ باتیں اس بات کی نشاندھی کرتی ھیں کہ خداوند عالم اپنی تائیدات اور امداد کے ذریعہ پیغمبر اکرم(ص) پر جن و انس کے شیطانوں کے وسوسوں کا اثر نھیں ھونے دیتا، اور ان کو ھر طرح کے انحراف سے محفوظ رکھتا ھے۔
یہ بات اس صورت میں ھے کہ جب ”اُمنیہ“ کے معنی ”آروز“ ”منصوبہ “اور ”نقشہ“ مراد لیں (کیونکہ اس لفظ کی باز گشت تقدیر ، تصویر اور فرض کی طرف ھے) لیکن اگر ”اُمنیہ“ کے تلاوت کے معنی مراد ھوں جیسا کہ بہت سے مفسرین نے احتمال دیا ھے، یھاں تک کہ بعض افراد نے ”حسان بن ثابت“ کے اشعار کو اسی مدعا کے اثبات کے لئے شاھد قرار دیا ھے[7] اسی طرح فخر رازی نے اپنی تفسیر میں بھی کھا ھے: لغوی اعتبار سے ”تمنی“ دو معنی کے لئے آیا ھے، ایک ”منی“ قلبی آرزو کے معنی میں اور دوسرے ”تمنی“ تلاوت اور قرائت کے معنی میں ھے۔[8]
اس صورت میں آیت کا مفھوم یہ ھوگا کہ جس وقت خدا کی طرف سے بھیجے ھوئے انبیاء؛ کفار و مشرکین کے سامنے آیات کی تلاوت کرتے ھیں اور ان کو وعظ و نصیحت کرتے ھیں تو شیطان (اور شیطان صفت لوگ) ان کی باتوں کے ساتھ میں اپنی باتوں کو بھی القاء کرتے ھیں، جیسا کہ خود رسول اسلام(ص) کے ساتھ بھی ایسا ھوا ھے، سورہ فصلت کی آیت نمبر ۲۶ میں ارشاد ھے:<وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لاَتَسْمَعُوا لِہَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ >[9]
”اور کفار آپس میں کہتے ھیں کہ اس قرآن کو ھر گز مت سنو اور اس کی تلاوت کے وقت ھنگامہ کرو شاید اسی طرح ان پر غالب آجاؤ“۔
اس معنی کے لحاظ سے سورہ حج آیت نمبر ۵۳ کا مفھوم بھی واضح و روشن ھو جاتا ھے جیسا کہ ارشاد ھے:
<لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ>
”تاکہ وہ شیطانی القا کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنا دے جن کے قلوب میں مرض ھے اور جن کے دل سخت ھو گئے ھیں“۔[10]
ایسا تو آج کل بھی ھوتا ھے کہ جب قوم و ملت کی اصلاح کرنے والے علما اور واعظین معاشرہ کے لئے مفید باتیں پیش کرتے ھیں تو کج فکر اور منحرف افراد اپنی شیطانی حرکتوں، غلط پروپیگنڈوں اور بیھودہ نعروں کے ذریعہ ان مفید باتوں کے اثر کو ختم کردینا چا ہتے ھیں، یہ در اصل معاشرہ کے تمام لوگوں کے لئے امتحان ھے، اور اسی موقع پر سنگدل اور بیمار دل لوگ جادّہ حق سے منحرف ھوجاتے ھیں، جبکہ مومنین انبیاء علیھم السلام کی حقانیت کو بہتر طریقہ سے پہچان لیتے ھیں اور انبیاء علیھم السلام کی دعوت کے سامنے تسلیم ھوجاتے ھیں:
<وَلِیَعْلَمَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ اٴَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُؤْمِنُوا بِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوبُہُمْ۔۔۔>[11]
”اور اس لئے بھی کہ صاحبان علم کو معلوم ھو جائے کہ یہ وحی پروردگار کی طرف سے برحق ھے اور اس طرح وہ ایمان لے آئیں، اور پھر ان کے دل اس کی بارگاہ میں عاجزی کا اظھار کریں“۔
ھماری مذکورہ گفتگو سے یہ واضح ھو جاتا ھے کہ محل بحث آیت میں انبیاء علیھم السلام کی عصمت کے برخلاف کوئی چیز نھیں پائی جاتی، بلکہ جیسا کہ ھم نے اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا ھے کہ یہ آیت عصمت پر مزید تاکید کرتی ھے، کیونکہ خداوندعالم اس آیت میں فرماتا ھے کہ جب انبیاء وحی کو حاصل کرتے ھیں یا اپنے مقاصد کے لئے دوسرا قدم اٹھاتے ھیں تو ان کی شیطانی وسوسوں سے محافظت فرماتا ھے، (قارئین کرام!) اب ھم اس سلسلہ میں گڑھے گئے افسانہ کی طرف پلٹتے ھیں آخر کار نوبت یہ پھنچ گئی کہ بعض شیطان صفت افراد نے پیغمبر اکرم(ص) کی عظمت کو گھٹانے کے لئے کتاب ”شیطانی آیات“ لکھ ڈالی اور اس طرح کے جعلی افسانوں کا سھارا لیا۔
افسانہ غرانیق کی رواتیوں پر تنقید اور تردید
جیسا کہ ھم نے عرض کیا کہ گزشتہ آیات میں نہ صرف یہ کہ عصمت انبیاء کے برخلاف کوئی چیز نھیں پائی جاتی بلکہ یہ آیات خود عصمت انبیاء پر دلیل ھیں، لیکن اھل سنت کی دوسرے درجہ کی کتابوں میں کچھ ایسی روایات ھيں جو ھر لحاظ سے عجیب ھیں، لہٰذا ان کی الگ سے بحث ھونا چاہئے، جن روایات کی طرف ھم نے آغاز کلام میں اشارہ کیا ھے یہ کبھی ابن عباس سے اور کبھی سعید بن جبیر اور کبھی بعض دیگر صحابہ و تابعین سے نقل کی جاتی ھیں۔[12]
جبکہ اس طرح کی روایات مکتب اھل بیت علیھم السلام میں موجود نھیں ھے، اور بعض اھل سنت کے علما کے بقول صحاح ستہ میں بھی اس طرح کی روایات نھیں ھیں، لیکن ”تفسیر مراغی“ میں بیان ھوا ھے: ”بے شک یہ احادیث ملحدین اور اسلامی دشمنوں کی طرف سے گڑھی گئی ھیں، کیونکہ ایسی روایات کسی بھی معتبر کتاب میں نھیں ملتیں، اور دین اسلام کے اصول اور تعلیمات اسلام ان کی تکذیب اور تردید کرتی ھیں، عقل سلیم بھی ان کے باطل ھونے پر گواھی دیتی ھے، لہٰذا تمام علمائے اسلام پر ان کی تردید کرنا واجب ھے اور اپنے (قیمتی) وقت کو ان کی تفسیر و تاویل میں صرف نہ کریں، خصوصاً جبکہ موثق راویوں نے ان کے جعلی اور جھوٹے ھونے پر صریح الفاظ میں بیان کیا ھے۔[13]
یھی معنی ایک دوسری طرح تفسیر ”جواھر“ (مولفہ طنطاوی) میں بیان ھوئے ھیں: ”اس طرح کی احادیث صحاح ستہ ”صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطاٴ بن مالک، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن داؤد“ میں نھیں آئی ھیں[14] لہٰذا کتاب ”تیسیر الوصول لجامع الاصول“ جس میں صحاح ستہ کی تفسیری روایات کو جمع کیا گیا ھے، اس روایت کو سورہ نجم کی آیات میں بیان نھیں کیا ھے، لہٰذا اس طرح کی احادیث کے لئے اھمیت کا قائل ھونا مناسب نھیں ھے، اور نہ ھی ان کا ذکر نا مناسب ھے، ان پر اعتراض کرنا اور جواب دینا تو دور کی بات ھے۔ یہ احادیث جھوٹی اور جعلی ھیں“![15]
علامہ فخر الدین رازی ان روایات کے جعلی ھونے کے سلسلہ میں اس طرح کہتے ھیں: صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ھوا کہ جس وقت سورہ نجم کی تلاوت فرمائی تو جن و انس، مسلمان اور مشرکین نے سجدہ کیا، لیکن اس حدیث میں ”غرانیق“ کی کوئی بات نھیں ھے، اسی طرح یہ حدیث (جو صحیح بخاری سے نقل ھوئی ھے) دوسرے متعدد طریقوں سے نقل ھوئی ھے لیکن ان میں سے کسی میں بھی ”غرانیق“ کا لفظ نھیں آیا ھے۔[16]
نہ صرف مذکورہ مفسرین بلکہ دیگر علما و مفسرین جیسے ”قرطبی“ نے اپنی تفسیر ”الجامع“ میں اور سید قطب نے ”فی ظلال“ وغیرہ میں اسی طرح تمام شیعہ بزرگ علمانے بھی اس طرح کی روایات کو خرافات قرار دیتے ھوئے جعلی مانا ھے اور ان کی نسبت دشمنان اسلام کی طرف دی ھے۔
اس کے باوجود عجیب نھیں ھے کہ اسلام دشمن خصوصاً معاند مستشرقین نے اس طرح کی روایات کا بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا ھے، اور اس کو بہت ھی آب و تاب کے ساتھ نقل کیا ھے، اور ھم دیکھتے ھیں کہ آج کے دور میں شیطان رشدی نے ”آیات شیطانی“ نامی کتاب لکھ ڈالی، خیالی داستان میں بہت ھی نازیبا الفاظ کے ساتھ اسلامی مقدسات کی توھین کی ھے، بلکہ یھاں تک کہ بڑے بڑے انبیاء جن کو سبھی آسمانی ادیان احترام کی نگاہ سے دیکھتے ھیں، (جیسے حضرت ابراھیم علیہ السلام) کی شان میں بھی گستا خی، جسارت اور توھین کی ھے۔
………………….
حواله جات
[1] سورہ نجم، آیت ۱۹، ۲۰، ”کیا تم لوگوں نے لات و عزیٰ کو دیکھا ھے اور منات جو ان کا تیسرا ھے اسے بھی دیکھا ھے“۔ (کیا وہ خدا کی بیٹیاں ھیں؟)
[2] ”غرانیق“، (مزدور کے وزن پر) ”غرنوق“ کی جمع ھے، ایک سیاہ اور سفید رنگ کا پرندہ ھے، لیکن اس کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی آیا ھے، (نقل از قاموس اللغہ)
[3] سورہ حج، آیت ۵۲۔
[4] اس حدیث کو اکثر مفسرین نے مختصر تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ھے اور پھر اس واقعہ پر تنقید کی ھے۔
[5] سورہٴ اسراء، آیت ۷۴۔
[6] سورہٴ نساء، آیت ۱۱۳۔
[7] شعر یہ ھے: تمنی کتاب الله اٴوّل لیلة و آخرھا لاقیٰ حمام المقادر
”تاج العروس“ شرح قاموس اور اسی طرح خود ”قاموس“ میں ”تمنی کتاب “کے معنی تلاوت کتاب کے لئے ھیں، اس کے بعد ”ازھری“ سے نقل کیاھے کہ تلاوت کو اس وجہ سے ”اُمنیہ“ کھا جاتا ھے کیونکہ تلاوت کرنے والا جب ”آیہٴ رحمت“ پر پھنچتا ھے تو رحمت کی آرزو کرتا ھے، اور جب عذاب کی آیت پر پھنچتا ھے تو عذاب سے نجات کی امید کرتا ھے، لیکن صاحب ”مقائیس اللغہ“ کا اس بات پر عقیدہ ھے کہ اس لفظ کا تلاوت پر اطلاق کرنا اس وجہ سے ھے کہ اس میں ایک طرح کی اندازہ گیری اور اس آیت سے گزرنا ھوتا ھے۔
[8] تفسیر فخر رازی، جلد ۲۳، صفحہ ۵۱۔
[9] سورہٴ فصلت، آیت۲۶۔
[10] اگرچہ آخری آیت کی تفسیر اس معنی کے لحاظ سے اعتراض سے خالی نھیں ھے، کیونکہ انبیاء پر شیطانی وسوسہ اگرچہ خدائی امداد کے ذریعہ فوراً نیست و نابود ھو جاتا ھے، لیکن اس کے ذریعہ منافقین اور بیمار دل لوگوں کے لئے باعث امتحان نھیں ھوسکتا، کیونکہ یہ وسوسہ ظاھر نھیں ھوتے بلکہ انبیاء علیھم السلام پر ان وسوسوں کا اثر نھیں ھوتا کیونکہ فوراً ھی خداوندعالم ان کو ختم کر دیتا ھے۔
مگر یہ کھا جائے کہ مراد یہ ھے کہ جب انبیائے الٰھی اپنی آرزو اور اھداف کو عملی بنانا چاہتے ھیں تو اس موقع پر شیاطین تخریب اور وسوسوں کے ذریعہ حملہ آور ھوتے ھیں اور اس موقع پر امتحان کی بھٹی گرم ھوجاتی ھے، لہٰذا ان تینوں آیات(سورہ حج آیات نمبر ۵۲، ۵۳ اور ۵۴) میں ھم آھنگی اور انسجام برقرار ھو جاتا ھے۔
عجیب بات تو یہ ھے کہ بعض مفسرین نے پھلی آیت میں مختلف احتمالات ذکر کئے ھیں، جب کہ بعد والی آیات کی ھم آھنگی اور انسجام کو باقی نھیں رکھ پائے ھیں۔(غور کیجئے)
[11] سورہ حج، آیت ۵۴۔
[12] اس سلسلہ میں اھل سنت کی روایات سے مزید آگاھی کے لئے کتاب الدر المنثور، جلد چھارم صفحہ ۳۶۶ تا ۳۶۸ پر سورہ حج، آیت ۵۲ کے ذیل میں رجوع فرمائیں۔
[13] تفسیر مراغی، جلد ۱۷، صفحہ ۱۳۰، مذکورہ آیات کے ذیل میں۔
[14] توجہ رھے کہ موطا ابن مالک کا شمار صحاح ستہ میں نھیں ھے بلکہ اس کی جگہ پر سنن ابن ماجہ ھے۔
[15] تفسیر جواھر، جلد ۶، صفحہ ۴۶۔
[16] تفسیر فخر رازی، جلد ۲۳، صفحہ ۵۰۔