- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 3 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/03/04
- 0 رائ
اسم مبارک: عباس
القاب: افضل الشہداء، باب الحوائج، قمرِ بنی ھاشم، شہنشاہِ وفا، علمدار، غازی، سقائے سکینہ۔
کنیت: ابوالفضل
حضرت عباس علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں
ولادت با سعادت
حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھا۔ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالبؑ کے مشورے سے جو انساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا عطا کرے جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسینؑ کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن عباسؑ ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی۔
ابتدائی زندگی
حضرت علی علیہ السلام نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ حضرت علی علیہ السلام سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ حاصل کئے۔ 14سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدر کہلانے لگے۔ حضرت عباس علیہ السلام بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور و مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصوصاً کربلا کے لئے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبرگیری اور فلاح و بہبود کے لئے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثارووفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہوگیا ہے اور اسی لئے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے۔
جنگ صفین
جنگ صفین حضرت علی علیہ السلام اور شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان مئی۔جولائی 657 ء میں ہوئی۔ اس جنگ میں حضرت عباس علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کا لباس پہنا اور بالکل اپنے والد علی علیہ السلام کے طرح زبردست جنگ کی حتیٰ کہ لوگوں نے ان کو علی ہی سمجھا۔ جب علی علیہ السلام بھی میدان میں داخل ہوئے تو لوگ ششدر رہ گئے۔ اس موقع پر علی علیہ السلام نے اپنے بیٹے عباس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ عباس ھیں اور یہ بنو ھاشم کے چاند ھیں۔ اسی وجہ سے حضرت عباس علیہ السلام کو قمرِ بنی ھاشم کہا جاتا ھے۔
واقعہ کربلا اور حضرت عباسؑ
واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قرار دیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 یا زیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے:
”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہو گئے آپ نے بڑا ہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“۔