- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/07/04
- 0 رائ
تاريخى اعتبار سے مذھب شيعہ کے ماننے والے کو سب سے پھلے حضرت علي(ع) کا شيعہ يا پيرو کار کھا گيا ھےـ مذھب شيعہ کى پيدائش يا آغاز کا زمانہ وہ زمانہ ھے جب پيغمبر اکرم (ص)اس دنيا ميں موجود تھے ـ پيغمبر اکرم کى ولادت سے لے کر23 سالہ زمانۂ بعثت تک اور تحريک اسلام کى ترقى کے دوران بھت سے ايسے اسباب و واقعات رونما ھوئے جن کے نتيجے ميں خود رسول خدا(ص) کے اصحاب ميں ايک ايسى جماعت کا پيدا ھونا ناگزير اور لازمى ھوگيا تھاـ مندرجہ ذيل امور اس امر کى توثيق کرتے ھيں(1)
(1)- رسو ل خدا کو اپنى بعثت کے اوائل ميں ھى قرآن مجيد کى آيت کے مطابق حکم ملا کہ اپنے خويش و اقارب کو اپنے دين کى طرف بلائيں ـ لھذا آپ نے واضح طور پر ان لوگوں سے فرمايا کہ جو شخص تم ميں سب سے پھلے ميرى دعوت کو قبول کرے گا وھى ميرا وصى ، وزير او ر جانشين ھوگا ـ حضرت علي(ع) نے سب سے پھلے اسلام قبول کيا اور پيغمبر اکرم(ص) نے بھى ان کے ايمان کو تسليم کرليا اور اپنے وعدہ کو پورا کياـ
فطرى طورپريہ بات محال ھے کہ ايک تحريک کا قائداور رھبر اپنى تحريک کے آغاز ميں اپنے قرابت داروں اورـ دوستوں ميں سے ايک شخص کو اپنے وزير، جانشين يا نائب کے طور پر دوسروں کے سامنے پيش کرے ليکن اپنے فداکار اور جاں نثار اصحاب اور دوستوں سے اس کا تعارف نہ کرائے يا اس کى صرف وزارت اور جانشينى کو خود بھى قبول کرے اور دوسروں سے بھى قبول کرائے ليکن اپنى دعوت اور تحريک کے پورے عرصے ميں اس کو وزارت اور جانشينى کے فرائض سے معزول رکھے اور اس کى جانشينى کو نظر انداز کرتے ھوئے اس کے اور دوسروں کے درميان کوئى فرق روانہ رکھےـ
(2)- پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے کئى مستفيض اور متواتر روايات جو شيعہ اور سنى دونوں ذرائع سے ھم تک پھنچى ھيں کے ذريعے واضح طور پر فرمايا ھے کہ حضرت على عليہ السلام اپنے قول و فعل ميں خطا اور گناہ سے پاک ھيں، وہ جو کچھ بھى کھتے ھيں يا جو کام بھى انجام ديتے ھيں وہ دين اسلام کى دعوت و تبليغ کے ساتھ مطابقت رکھتا ھے نيز وہ اسلامى معارف کے بارے ميں سب سے زيادہ جانتے ھيں ـ
(3)- حضرت على عليہ السلام نے بھت گراں بھا خدمات انجام ديں اور بے اندازہ فدا کارياں کيں مثلاً ھجرت کى رات دشمنوں کے نرغے ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے بستر مبارک پر سوئےـ بدر، احد، خندق اور خيبر کى جنگوں ميں اسلام کو حاصل ھونے والى فتوحات آپ ھى کے ايثار کا نتيجہ تھيں اگر ان ميں سے ايک معرکے ميں بھى على عليہ السلام موجود نہ ھوتے تو دشمنان حق کے ھاتھوں اسلام اور اھل اسلام کى بيخ کنى ھوجاتى ـ(2)
(4)- غدير خم کا واقعہ جس ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے حضرت على عليہ السلام کواپنے جانشين کے طور پرمسلمانوں کے سامنے پيش کيا اور ان کو اپنا وصى بناياـ(3)
ظاھر ھے کہ ان خصوصى امتيازات اور فضائل(4) کے علاوہ جو سب افراد کے لئے قابل قبول تھے حضرت على عليہ السلام کے ساتھ پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بے اندازہ محبت(5) نے فطرى طور پر رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اصحاب ميں سے ايک بڑى تعداد کوان کى فضيلت اور حقيقت کاشيفتہ بناديا تھاـ يھى وجہ تھى کہ انھوں نے حضرت على عليہ السلام کومنتخب کيا اور ان کے گرد جمع ھوگئے اوران کى پيروى اور اطاعت شروع کردى يھاں تک کہ بعض لوگوں نے اس پسنديدگى کى وجہ سے آپ سے حسد بھى کرنا شروع کرديا اورآپ کے دشمن ھو گئےـ
ان سب کے علاوہ شيعۂ علي(ع) اور شيعۂ اھلبيت(ع) کا لفظ پيغمبر اکرم(ص) کى احاديث ميں بھت زيادہ نظر آتا ھےـ
شيعہ اقليت کى سنى اکثريت سے جدائى کى وجہ اور اختلافات کا پيدا ھونا
رسول پاک صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم ، صحابۂ کرام اور تمام مسلمانوں کى نظر ميں حضرت على عليہ السلام کى قدرو منزلت کے باعث آپ کے پيروکاروں کو يقين تھا کہ آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى رحلت کے بعد خلافت اور رھبرى حضرت على عليہ السلام کا مسلمہ حق ھےـ اس کے علاوہ تمام شواھد و حالات بھى اس عقيدے کى تصريح کرتے تھے ، سوائے ان واقعات کے جو پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى بيمارى کے زمانے ميں رونما ھوئے(6) ليکن ان لوگوں کى توقعات کے بالکل بر خلاف ٹھيک اس وقت جب کہ پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت فرمائى اور ابھى آپ کى تجھيز و تکفين بھى نھيں ھوئى تھى اور اھلبيت عليھم السلام اور بعض اصحاب کفن و دفن کے انتظامات کررھے تھے، خبر ملى کہ ايک جماعت نے جو بعد ميں اکثريت کى حامل ھوئى، نھايت جلد بازى ميں پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے اھل و عيال، رشتہ داروں اور پيروکاروں سے مشورہ کئے بغير حتى ان کو اطلاع ديئے بغير، ظاھرى خير خواھى اور مسلمانوں کى بھبودى کى خاطر مسلمانوں کے لئے خليفہ کا انتخاب کرلياھےـ اس کى خبر حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيروکاروں کو خليفہ کے انتخاب کے بعد دى گئى تھى ـ(7) حضرت رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے کفن و دفن کے بعد جب حضرت على عليہ السلام اور آپ کے پيروکاروں عباس، زبير، سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار وغيرہ کو اس واقعے کى اطلاع ملى تو انھوں نے انتخابى خلافت اور خليفہ کو انتخاب کرنے والوں پر سخت اعتراضات کئے اور اس ضمن ميں احتجاجى جلسے بھى ھوئے مگر جواب ديا گيا کہ مسلمانوں کى اسى ميں بھترى ھےـ
يھى اعتراضات تھے جنھوں نے اقليت کو اکثريت سے جدا کرديا تھا اورحضرت على عليہ السلام کے پيروکاروں کو معاشرے ميں ”شيعۂ علي(ع)“ کے نام سے پھچنوايا تھا البتہ حکومت اور خلافت کے مامو رين بھى سياسى لحاظ سے کڑى نظر رکھے ھوئے تھے کہ مذکورہ اقليت اس نام سے مشھور نہ ھو اوراسلامى معاشرہ اکثريتى اور اقليتى گروھوں ميں تقسيم نہ ھونے پائے کيونکہ وہ خلافت کو اجماع امت جانتے تھےـ
البتہ شيعہ شروع سے ھى وقتى سياست کے محکوم ھوگئے تھے ليکن صرف اعتراضات کے ذريعے کوئى کام انجام نھيں دے سکتے تھے ـادھر حضرت على عليہ السلام بھى مسلمانوں اور اسلام کى خاطر اور کافى طاقت و قوت نہ رکھنے کى وجہ سے ايک خونى انقلاب برپا نہ کرسکے ليکن يہ اعتراض کرنے والے اپنے عقيدے اورنظريے کے لحاظ سے اکثريت کے تابع نہ ھوئے اور پيغمبر اکرم کى جانشينى اورعلمى رھبرى کو حضرت علي(ع) کاحق سمجھتے نيز علمى ومعنوى مرکز صرف حضرت علي(ع) کوھى مانتے رھے اورساتھ ھى دوسروں کو بھى حضرت علي(ع) کى طرف دعوت ديتے رھےـ
جانشينى اورعلمى رھبرى کے دومسائل
اسلامى تعليمات کے مطابق شيعوں نے جو کچھ سيکھا تھا اس پرمعتقد تھے ـ جو چيز معاشرے کے لئے سب سے زيادہ اھميت کى حامل تھى وہ يہ تھى کہ اسلامى تعليمات اور دينى ثقافت کو واضح کياجائے اور دوسرے مرحلے ميں ان کومعاشرے ميں مکمل طور پر نافذ اور جارى کيا جائےـ
دوسرے يہ کہ ايک دينى حکومت، حقيقى اسلامى انتظام اور نظم ونسق کو معاشرے ميں مضبوط اور محفوظ رکھا جائے اور اسے نافذ کيا جائے اس طرح کہ لوگ خدا کے سوا کسى اور کى پرستش نہ کريں اور مکمل آزادى اور انفرادى و اجتماعى انصاف سے بھرہ ور ھوں ـ يہ دونوں کام اس شخص کے ھاتھوں انجام پائيں جس کى عصمت اور حفاظت خداوند تعاليٰ کى طرف سے ھوـ ورنہ ممکن ھے ايسے اشخاص اقتدار و حکومت اور علمى رھبرى کو اپنے ھاته ميں لے ليں جو اپنے فرائض کى ذمہ دارى ميں فکرى انحراف ياخيانت سے محفوظ نہ ھوں اور اس طرح اسلام کى آزادى بخش عادلانہ حکومت اور ولايت آھستہ آھستہ استبدادى سلطنت اور قيصر و کسريٰ جيسى حکومتوں ميں تبديل ھوکر رہ جائے ـمقدس دينى علوم او رديگر معارف ميں تبديلياں پيدا ھو جائيں اور بوالھو س و خود غرض دانشور يا عام افراد ان ميں اپنى مرضى سے کمى بيشى کرديں ـ لھذا ايک ايسے شخص کى ضرورت تھى جس کى تصديق پيغمبر اکرم نے کى ھو اور وہ شخص اپنے قول و فعل ميں پاک اور پختہ ھو، اس کے طور طريقے کتاب خدا اورسنت رسول کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ھوں ـ ايسے شخص صرف حضرت علي(ع) تھےـ(8)
اگر چہ اکثر لوگ کھتے ھيں کہ اگر قريش حضرت علي(ع) کى خلافت حقہ کے مخالف تھے تو اس صورت ميں ضرورى تھا کہ مخالفوں کو حق کى اطاعت پر مجبور کيا جاتا اور سرکش لوگوں کو سر اٹھانے کى اجازت نہ دى جاتى نہ کہ قريش کى مخالفت کے ڈر سے حق کو پامال کياجاتا، جيسا کہ خليفۂ اول نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کى تھى جنھوں نے زکوٰة دينا بند کردى تھى ليکن زکوٰة لينے سے چشم پوشى نھيں کى تھى ـ
حقيقت يہ ھے کہ جس چيز نے شيعوں کو انتخابى خلافت کے قبول اور تسليم نہ کرنے پرابھارا وہ يہ تھى کہ ان کو بعد ميں رونما ھونے والے ناگوار اتفاقات و حوادث کا خوف تھا يعنى اسلامى حکومت کے نظام اور طريقوں ميں بدعنوانى اور فساد کے نتيجے ميں دين مبين اسلام کى بنيادى تعليمات ميں خرابى لازمى نظر آتى تھى ـ اتفاق سے بعد ميں رونما ھونے والے حوادث بھى اس عقيدے يا پيشينگوئى کو تقويت دے رھے تھےـ جس کے نتيجے ميں شيعہ جماعت اپنے عقيدے پر زيادہ سے زيادہ مضبوط ھوتى جارھى تھى يا يوں کھاجائے کہ ظاھرى طور پر ايک چھوٹى سى جماعت ايک بڑ ى اکثريت کو اپنے اندر ضم کرنے چلى تھى ليکن باطنى طور پر اھلبيت(ع) سے اسلامى تعليمات کے حصول اور اپنے طريقے کى طرف لوگوں کو دعوت دے رھى تھى اور اپنے عقائد پرمصر تھى مگر اس کے ساتھ ھى اسلامى طاقت کى ترقى اور حفاظت کے پيش نظر حکومت کے ساتھ اعلانيہ مخالفت بھى نھيں کرتى تھى حتى کہ شيعہ، اکثريت کے دوش بدوش جھاد پر جاتے اور رفاہ عامہ کے کاموں ميں حصہ ليتے تھے اور خود حضرت علي(ع) اسلام کے مفادات کى خاطر لوگوں کى رھنمائى کيا کرتے تھے(9)
……………………….
حوالہ جات:
(1) تاريخ طبرى ج/2 ص / 63 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 116 ، البدايہ و النہايہ ج/ 3 ص / 39 ، غاية المرام ص / 320
(2) مختلف تواريخ اور جامع کتب احاديث
(3) حديث غدير خم شيعہ اور اہلسنت کے درميان مسلمہ احاديث ميں سے ہے اور ايک سو سے زيادہ اصحاب نے اسنا د اور مختلف عبارات کے ساتھ اس کو نقل کيا ہے اور عام و خاص کتابوں ميں لکھى ہوئى ہے تفصيل کے لئے ديکھئے کتاب غاية المرام ص /79 ،اور طبقات جلد غدير اور کتاب الغدير
(4) تاريخ يعقوبى طبع نجف ج/ 2 ص / 137 140 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 156 ، صحيح بخارى ج / 4 ص /107 ، مروج الذہب ج/ 2 ص /437 ، تاريخ ابى الحديد ج/ 1 ص 127 161
(5) صحيح مسلم ج / 15 ص / 176 ، صحيح بخارى ج / 4 ص / 207 ، مروج الذہب ج/ 2 ص 23 437 ، تاريخ ابو الفداء ج/ 1 ص / 127 181
(6) آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے مرض الموت کى حالت ميں اسامہ بن زيد کى سر کردگى ميں ايک لشکر تيار کيا اور تاکيد کى کہ سب لوگ اس جنگ ميں شرکت کريں اور مدينے سے باہر نکل جائيں ايک جماعت نے آپ کے حکم کى خلاف ورزى کى اس ميں ابو بکر اور عمر بھى تھے اس واقعہ نے پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کو بہت زيادہ صدمہ پہنچايا (شرح ابن ابى الحديد طبع مصر ج/ 1 ص / 53 ) پيغمبر اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے رحلت کے وقت فرمايا کہ قلم اور دوات لاؤ تاکہ ميں تمہارے لئے ايک چٹھى لکھوں کہ تمہارى ہدايت اور راہنمائى کا باعث بنے اور تم گمراہ ہونے سے بچ جاؤ حضرت عمر نے اس کام سے منع کر ديا اور کہا کہ آپ کا مرض بہت زيادہ بڑھ گيا ہے اور شديد بخار کى حالت ميں آپ کو ہذيان ہے ( تاريخ طبرى ج /2 ص / 436 ، صحيح بخارى ج / 3 ، صحيح مسلم ج/ 5 ، البدايہ و النہايہ ج / 5 ص / 227 ، تاريخ ابن ابى الحديد ج / 1 ص 133 )
(7) شرح ابن ابى الحديد ج/ 1 ص/ 58 123 تا 135 ، تاريخ يعقوبى ج/ 2 ص / 102 ، تاريخ طبرى ج/ 2 ص / 445 تا 460
(8) البدايہ و النہايہ ج/ 7 ص 360
(9) تاريخ يعقوبى ص/ 111 126 129.