- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 7 دقیقه
- توسط : مهدی سرافراز
- 2023/12/11
- 0 رائ
(رسول الله صلی الله علیہ و آل وسلم کی ولادت سے ایک سال بعد)
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام قبیلۂ قریش کے چشم و چراغ اور ہاشم بن عبد مناف کے فرزند تھے اور بنو ہاشم ان کے والد سے منسوب ہیں۔ ان کا سلسلۂ نسب ابراہیم خلیل اللہ(ع) تک پہنچتا ہے۔ ان کی والدہ ماجدہ سلمی بنت عمرو کا تعلق قوم خزرج بنو نجار سے ہے۔ رسول اللہ(ص) کی ہجرت مدینہ کے بعد آپ(ص) کے اصحاب و انصار میں شامل ہوئے۔(١)
نام اور کنیت
عبدالمطلب علیہ السلام کا نام “شیبہ” اور کنیت “ابو حارث” ہے۔(٢)
جبکہ شیخ صدوق کے مطابق ان کا نام “عامر” ہے(٣)
منقول ہے کہ انہیں دوسرے اسماء اور القاب سے بھی پکارا جاتا تھا جیسے: عامر، سید البطحاء، ساقی الحجیج، ساقی الغیث، غیث الوری فی العام الجدب، أبو السادۃ العشرۃ، عبد المطّلب، حافر زمزم، (٤) ، ابراہیم ثانی (٥) اور فیّاض۔
عبدالمطلب علیہ السلام کے لقب سے ان کی شہرت کے بارے میں منقول ہے: “ہاشم علیہ السلام کی وفات کے چند سال بعد ان کے بھائی اور عبدالمطلب علیہ السلام کے چچا “مطلّب” انہیں یثرب سے مکہ لے کر آئے۔(٦) مکہ کے لوگوں نے انہیں مطلب کے ہمراہ دیکھا تو اس گمان سے کہ انہیں مطلب نے غلام کے طور پر یثرب سے خرید لیا ہے، انہیں عبدالمطلب علیہ السلام کے عنوان سے پکارا اور یہ لقب ہمیشہ کے لئے مستقر ہوگیا۔(ابن اثیر، أسدالغابة، ج6، ص151۔)
ولادت
عبدالمطلب علیہ السلام کے والد ماجد ہاشم علیہ السلام یثرب کے سفر پر گئے تو وہاں بنو نجار کی ایک خاتون “سلمی بنت عمرو بن زید” سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔(٧) انھوں نے اپنے بیٹے عبدالمطلب علیہ السلام کی پیدائش سے قبل موجودہ فلسطین کے شہر غزہ کا سفر اختیار کیا اور وہیں دنیا سے رخصت ہوکر مدفون ہوئے۔(٨) مؤرخین کے درمیان اختلاف کو ملحوظ رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ عبدالمطلب علیہ السلام سات سال یا کچھ زیادہ عرصے تک اپنی والدہ کے ساتھ یثرب میں رہے۔(٩) بالآخر ان کے چچا یثرب چلے گئے اور انہیں اپنے ساتھ مکہ لے آئے-(١٠)
مطلّب ـ جو اپنے بھائی ہاشم علیہ السلام کے انتقال کے بعد ان کے مناصب کو سنبھالے ہوئے تھے اور اپنے قبیلے کے سربراہ تھے ـ کچھ عرصہ بعد سرزمین یمن کے ایک علاقے “ردمان” میں دنیا سے رخصت ہوئے اور آباء و اجداد سے انہیں ورثے میں ملنے والے تمام مناصب ان کے بھتیجے عبدالمطلب علیہ السلام کو منتقل ہوئے اور آنجناب اپنی فیاضی اور انتظام امور میں حسن تدبیر کے بدولت مکہ میں سیاست و کرامت و آقائی پر فائز ہوئے اور ان کا چرچا عام اور ان کی برتری عیاں ہوئے اور قریش نے بھی ان کی برتری تسلیم کرلی۔(١١) – (١٢)
عبدالمطلب کی شخصیت
یعقوبی کہتے ہیں: “عبدالمطلب علیہ السلام” ان دنوں قریش کے سرور و سردار تھے اور ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا، کیونکہ جو عظمت و کرامت اللہ نے انہیں عطا کی تھی کسی کو عطا نہیں کی تھی، خدا نے مکہ میں چاہ زمزم سے اور طائف میں ذوالہرم سے انہیں سیراب کردیا تھا، قریش قریش اپنے اموال میں ان سے فیصلے کراتے تھے، اور وہ ہر بار قحط کے ایام میں لوگوں کو کھانا کھلاتے تھے حتی کہ وہ پرندوں اور پہاڑوں کے درندوں کو بھی کھلا دیتے تھے۔
حضرت ابو طالب علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
ونطعم حتّی یأکل الطیر فضلنا *** إذا جعلت أیدی المفیضین ترعد
جب جوئے بازوں کے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں (جب سخاوت مند بخل کا راستہ اپناتے ہیں) ہم لوگوں کو اس قدر کھانا کھلاتے ہیں کہ پرندے بھی اضافی طعام سے پیٹ بھر لیتے ہیں۔
“عبدالمطّلب علیہ السلام” بتوں کی پوجا سے دور تھے اور اللہ کو وحدانیت کے ساتھ جانتے تھے اور نذر کی وفا کرتے تھے، اور ایسی سنتوں کی بانی ہوئے جن میں سے بعض کو خداوند متعال نے قرآن کریم میں نازل فرمایا۔(١٣)
یعقوبی اپنی سند سے رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:
“خداوند متعال میرے جد امجد عبدالمطلب علیہ السلام کو تنہا ـ پیغمبروں کے چہرے اور بادشاہوں کی ہیبت دے کر ـ محشور کرے گا”۔(١٤)
زمزم کی کھدائی
تاریخ مکہ کے مآخذ کی روایات کے مطابق، مکہ پر عبدالمطلب علیہ السلام کے جد امجد قصی بن کلاب کے تسلط سے قبل قبیلۂ جرہم اس شہر کے فرمانروا تھے۔ اس قبیلے کے مظالم کی وہ سے دوسرے قبائل نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ بالآخر قبیلۂ خراعہ اور بنو جرہم کے درمیان جنگ میں بنو جرہم کو شکست ہوئی۔
بنو جرم کے آخری حکمران “عمر بن حارث”، کعبہ کے اموال کے تحفظ کی غرض سے کعبہ میں داخل ہوا اور کعبہ کے لئے لائے گئے جواہرات اور عمدہ تحائف کو چاہ زمزم میں پھینکا اور کنویں کو مٹی سے بھر کر جواہرات اور تحائف کو چھپا دیا۔
برسوں بعد عبدالمطلب علیہ السلام نے اس کنوں کو تلاش کرنا چاہا۔ مروی ہے کہ انھوں نے خواب میں کنویں کا مقام تلاش کرلیا اور حکم ملا کہ اس کو کھود لیں۔ عبدالمطلب نے زمزم کو کھود لیا اور جواہرات کو پالیا اور کعبہ کی تعمیر اور نگہداشت کے لئے خرچ کیا اور چاہ زمزم پانی سے بھر گیا۔(١٥)
عبدالمطلب کی نذر
بعض روایات کے مطابق، عبدالمطلب علیہ السلام کو چاہ زمزم کے وقت قریش کی طرف سے مخالفتوں اور رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ چنانچہ انھوں نے نذر مانی کہ اگر خداوند متعال انہیں 10 بیٹے عطا فرمائے تو ان میں سے ایک کو اللہ کی راہ میں، کعبہ کے پاس، قربان کردیں اور خداوند متعال نے ان کی یہ حاجت پوری کی۔
عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں کی تعداد 10 تک پہنچی تو انھوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ عبداللہ علیہ السلام کے نام نکلا اور آخر کار صلاح مشوروں کے بعد انھوں نے عبداللہ کے بجائے 100 اونٹوں کی قربانی دی [اور خداوند متعال نے اونٹوں کی اسی تعداد کو ایک انسان کی دیت قرار دیا]۔
علی دوانی نے عبدالمطلب علیہ السلام کی یکتا پرستی کے سہارے ـ نیز اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ بیٹوں کی قربانی کی نذر بت پرستوں کی رسموں میں سے تھی اور یہ کہ اس ماجرا کے نقل کرنے والوں میں ضعیف اور انجانے راوی پائے جاتے ہیں ـ نذر کے اس واقعے کو جعلی افسانہ قرار دیتے ہوئے اس کو امویوں کی تشہیری مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اموی کہ اس وسیلے سے امیرالمؤمنین علی(ع) کے آباء و اجداد کا رتبہ گھٹانا چاہتے تھے اور یوں علی علیہ السلام کے فضائل اور مقام و منزلت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے۔(١٦)
اپ کا ایمان
روایات کے مطابق جناب عبدالمطلب علیہ السلام دین حنیف پر تھے اور انھوں نے کبھی بھی بت کی پوجا نہیں کی ہے۔ تیسری صدی ہجری کے مؤرخ مسعودی نے عبدالمطلب کے دین کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک [مشترکہ] قول یہ ہے کہ عبدالمطلب علیہ السلام سمیت رسول اللہ(ص) کے اجداد میں سے کسی نے بھی بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔(١٧)
شیخ صدوق نے امام صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے امام علی (ع) سے مخاطب ہوکر فرمایا: “عبدالمطلب علیہ السلام نے کبھی بھی قمار بازی (جوا بازی) نہیں کی اور بتوں کی پوجا نہیں کی اور وہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے باپ ابراہیم خلیل (ع) کے دین پر ہوں”۔(١٨)
عبدالمطلب کی سنتیں
شیخ صدوق اپنی کتاب خصال میں امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا:
“عبدالمطلب علیہ السلام نے جاہلیت کے دور میں پانچ سنتیں نافذ کردیں اور خداوند متعال نے ان سب کو اسلام میں مقرر فرمایا:
1۔ سوتیلی ماں کو بیٹے پر حرام قرار دیا اور خداوند متعال نے فرمایا:
“وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتاً وَسَاء سَبِيلا (ترجمہ: اور عورتوں میں سے ان سے شادی نہ کرو جن میں تمہارے باپ داداتصرف ازدواجی کرچکے ہوں، سوا اس کے جو پہلے ہوچکا۔ یہ بڑا ہی سخت گناہ ہے اور ناراضگی کی بات اور بہت بُرا طریقہ ہے) [ سورہ نساء–22] “۔
2۔ انھیں ایک خزانہ ملا ـ ممکن ہے خزانے سے مراد وہی اشیاء ہوں جو قبیلۂ جرہم نے چاہ زمزم کو مٹی سے بھرتے وقت اس کی تہہ میں میں پھینک دی تھیں ـ اور اس کا خمس بطور صدقہ مستحقین کے درمیان بانٹ دیا اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا:
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ… (ترجمہ: اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو چیز بھی تم بطور غنیمت حاصل کرو تو بلاشبہ اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے ہو گا……..) [ سورہ انفال–؟] ۔۔(١٩)
3۔ جب انھوں نے چاہ زمزم کو کھودا تو اس کو سقایۃ الحاج 😊 حجاج کی نوشیدنی) کا نام دیا اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا:
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ يَسْتَوُونَ عِندَ اللّهِ (ترجمہ: کیا تم نے (محض) حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آبادی و مرمت کا بندوبست کرنے (کے عمل) کو اس شخص کے (اعمال) کے برابر قرار دے رکھا ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لے آیا اور اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟) [ سورہ توبہ–؟] ۔
4۔ عبدالمطلب نے 100 اونٹوں کو ایک مرد کی دیت قرار دیا اور خداوند متعال نے اسی قاعدے کو اسلام میں نافذ کیا۔
5۔ طواف کے چکروں کی تعداد قریش میں نامعلوم تھی اور عبدالمطلب نے طواف کے لئے سات چکر قرار دیئے اور خداوند متعال نے بھی طواف کے لئے سات چکروں کے اس قاعدے کو نافذ فرمایا۔(٢٠)
یعقوبی لکھتے ہیں: عبدالمطلب نے ایسی سنتوں کی بنیاد رکھی کہ رسول خدا(ص) نے بھی انہیں نافذ کیا اور ان کی تائید میں آیات الہی نازل ہوئیں اور یہ سنتیں کچھ یوں تھیں:
– نذر کی وفا؛
– دیت کے لئے سو اونٹوں کا تعین؛
– محارم کے ساتھ نکاح کی ممانعت؛
– چھت کے راستے گھروں میں داخلے کی ممانعت؛
– چور کا ہاتھ منقطع کرنا؛
– بیٹیوں کے قتل سے نہی؛
– مباہلہ؛
– شراب کو حرام قرار دینا؛
– زنا کو حرام قرار دینا اور زانی اور زانیہ پر حد کا نفاذ؛
– قرعہ؛
– برہنگی کی حالت میں طواف کی ممانعت؛
– مہمان کی تکریم؛
پ – اک اور جائز اموال میں سے حج کے اخراجات کی ادائیگی؛
– حرام مہینوں کی تعظیم؛
– ریا اور منافقت کی نفی۔(٢١)
مشہور روایات کے مطابق رسول خدا(ص) کی ابھی آٹھ سال کے تھے جب عبدالمطلب دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔(٢٢)
وفات
مؤرخین کے درمیان اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے، وفات کے وقت ان کی عمر 82 یا 108 برس اور بعض مؤرخین کے مطابق 140 برس تھی۔
مروی ہے کہ قبل از موت، عبدالمطلب علیہ السلام کے اقدامات میں سے ایک یہ تھا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا: میری موت سے قبل مجھ پر گریہ و بکاء کرو اور مرثیہ پڑھو تا کہ جو کچھ میری موت کے بعد کہنا چاہتے ہو موت سے قبل خود سن لوں اور بیٹیوں میں سے ہر ایک نے اپنے والد کے لئے ایک مرثیہ کہا اور سب روئیں۔
ام ایمن سے منقول ہے کہ رسول خدا(ص) اپنے دادا عبدالمطلب کے جنازے کے پیچھے پیچھے چلتے رہے اور روتے رہے حتی کہ ان کی میت کو مقبرہ حجون میں ان کے جد امجد قصی بن کلاب کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا-(٢٣)
…………………….
حوالہ جات
١- ابن اثیر، أسد الغابة، ج 6، ص151۔
٢- ابن عبد البرّ، الاستیعاب، ج1، ص27۔
٣- صدوق، امالي؛ ص 700۔
٤- مجلسی، بحار الانوار، ج15،
٥- تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 11، بیروت، 1379هجری قمری۔
٦- تاریخ الطبری / فارسی ترجمه، ج3، ص802۔
٧- بلاذری، أنساب الأشراف، ج1، ص65۔
٨- بلاذری، وہی ماخذ، ج1، ص65۔
٩- ابن هشام، السیرة النبویه، ج1، ص137
١٠- رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی محمد(ص)، ج1، ص91۔
١١- ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص77۔
١٢- تاریخ ابن خلدون/ترجمه متن، ج1، ص386۔
١٣- ترجمه فارسی تاریخ یعقوبی، ج1، ص363۔
١٤- ترجمه فارسی تاریخ یعقوبی، ج1، ص363۔
١٥- ابن کثیر الدمشقی؛ البدایه و النهایه، ج2، ص244۔
١٦- دوانی، علی؛ تاریخ اسلام ازآغاز تاهجرت، ص54۔
١٧- مسعودی، مروج الذهب، ج2، ص109۔
١٨- صدوق، خصال، ج1، ص455
١٩- غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، ج1، ص206۔
٢٠- صدوق، خصال، ج1، ص455۔
٢١- غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، ج1، ص207۔
٢٢- ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج2، ص282۔
٢٣- ابن اثیر؛ اسدالغابه فی معرفة الصحابة، ج1، ص23۔
منبع: https://ur.wikishia.net/