- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 10 دقیقه
- توسط : غلامرضا شاکری
- 2024/11/23
- 0 رائ
ایمان حضرت ابوطالب (ع) کے بارے میں مختلف دلائل موجود ہیں جو شیعہ علماء کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ یہاں کچھ اہم دلائل بیان کیے جاتے ہیں۔
ایمان حضرت ابوطالب (ع)
تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علماء مثلاً ”ابن ابی الحدید“ شارح نہج البلاغہ نے اور ”قسطلانی“ نے ارشاد الساری میں اور ”زینی دحلان“ نے سیرة حلبی کے حاشیہ میں حضرت ابوطالب کو مومنین اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے۔
اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پر ایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں؟
جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بارہا خود اپنے فرزند کو پیغمبر اسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنا دیا کرتا تھا!! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے۔
یہی سبب ہے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب (ع) کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ”شجرہ خبیثہ بنی امیّہ“ کی حضرت علی (ع) کے مقام و مرتبہ کی مخالفت سے پیدا ہوئی ہے۔
کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب (ع) کی ذات ہی نہیں تھی کہ جو حضرت امام علی (ع) کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی ہو، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت امام علی (ع) سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجوانمردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب (ع) کا کوئی گناہ نہیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی (ع) جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔
ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل جو واضح طور پر ایمان حضرت ابوطالب کی گواہی دیتے ہیں میں سے کچھ دلائل مختصر اور فہرست وار بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تفصیلات کے لئے ان کتابوں کی طرف رجوع کریں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ اگرچہ کوئی ناانصاف ان دلائل کو انصاف کی نگاہ دیکھ لیں تو یقیناً ایمان حضرت ابوطالب پر اس عقیدہ مضبوط ہوگا۔
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر پہلی دلیل
حضرت ابوطالب (ع) پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت سے پہلے خوب اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا بھتیجا مقام نبوت تک پہنچے گا کیونکہ مورخین نے لکھا ہے کہ جس سفر میں حضرت ابوطالب (ع) قریش کے قافلے کے ساتھ شام گئے تھے تو اپنے بارہ سالہ بھتیجے محمد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس سفر میں انہوں نے آپ سے بہت سی کرامات مشاہدہ کیں۔
ان میں ایک واقعہ یہ ہے کہ جونہی قافلہ ”بحیرا“ نامی راہب کے قریب سے گزرا جو قدیم عرصے سے ایک گرجے میں مشغول عبادت تھا اور کتب عہدین کا عالم تھا، تجارتی قافلے اپنے سفر کے دوران اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے، تو راہب کی نظریں قافلہ والوں میں سے حضرت محمد (ص) پر جم کر رہ گئیں، جن کی عمر اس وقت بارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔
بحیرا نے تھوڑی دیر کے لئے حیران و ششدر رہنے اور گہری اور پُرمعنی نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا: یہ بچہ تم میں سے کس سے تعلق رکھتا ہے؟ لوگوں نے ابوطالب کی طرف اشارہ کیا، انہوں نے بتایا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔
”بحیرا“ نے کہا: اس بچہ کا مستقبل بہت درخشاں ہے، یہ وہی پیغمبر ہے کہ جس کی نبوت و رسالت کی آسمانی کتابوں نے خبر دی ہے اور میں نے اس کی تمام خصوصیات کتابوں میں پڑھی ہیں۔
حضرت ابوطالب اس واقعہ اور اس جیسے دوسرے واقعات سے پہلے دوسرے قرائن سے بھی پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت اور معنویت کو سمجھ چکے تھے اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایمان حضرت ابوطالب کے لئے زمینہ فراہم ہو چکا تھا۔
اہل سنت کے عالم شہرستانی (صاحب ملل ونحل) اور دوسرے علماء کی نقل کے مطابق:
”ایک سال آسمان مکہ نے اپنی برکت اہل مکہ سے روک لی اور سخت قسم کی قحط سالی نے لوگوں کو گھیر لیا تو حضرت ابوطالب (ع) نے حکم دیا کہ ان کے بھتیجے محمد (ص) کو جو ابھی شیر خوار ہی تھے لایا جائے، جب بچے کو اس حال میں کہ وہ ابھی کپڑے میں لپیٹا ہوا تھا، انہیں دیا گیا تو وہ اسے لینے کے بعد خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور تضرع و زاری کے ساتھ اس طفل شیر خوار کو تین مرتبہ اوپر کی طرف بلند کیا اور ہر مرتبہ کہتے تھے، پروردگارا، اس بچہ کے حق کا واسطہ ہم پر برکت والی بارش نازل فرما۔
”کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ افق کے کنارے سے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور مکہ کے آسمان پر چھا گیا اور بارش سے ایسا سیلاب آیا کہ یہ خوف پیدا ہونے لگا کہ کہیں مسجد الحرام ہی ویران نہ ہوجائے۔“
اس کے بعد شہرستانی لکھتا ہے کہ یہی واقعہ جو حضرت ابوطالب (ع) کی اپنے بھتیجے کے بچپن سے اس کی نبوت و رسالت سے آگاہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ان کے پیغمبر پر ایمان رکھنے کا ثبوت بھی ہے اور حضرت ابوطالب (ع) نے بعد میں اشعار ذیل اسی واقعہ کی مناسبت سے کہے تھے:
و أبيض يستسقى الغمم بوجهه / ثمال اليتامى عصمة للأرامل
يلوذ به الهلاك من آل هاشمٍ / فهم عنده في نعمة و فواضل
و ميزان عدل لا يخيس شعيرةً / و وزان صدق وزنه غير هائل[1]
”وہ ایسا روشن چہرے والا ہے کہ بادل اس کی خاطر سے بارش برساتے ہیں وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کے محافظ ہیں۔“
”بنی ہاشم میں سے جو چل بسے ہیں وہ اسی سے پناہ لیتے ہیں اور اسی کے صدقے میں نعمتوں اور احسانات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔”
”وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَو کے برابر بھی اِدھر اُدھر نہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک و شبہ کا خوف نہیں ہے۔“
“قحط سالی کے وقت قریش کا حضرت ابوطالب (ع) کی طرف متوجہ ہونا اور ابوطالب کا خدا کو آنحضرت کے حق کا واسطہ دینا شہرستانی کے علاوہ اور دوسرے بہت سے عظیم مورخین نے بھی نقل کیا ہے۔“[2]
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر دوسری دلیل
اس کے علاوہ مشہور اسلامی کتابوں میں حضرت ابوطالب (ع) کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو ہماری دسترس میں ہیں ان میں سے کچھ اشعار ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں:
وَاللَهِ لَن يَصِلوا إِلَيكَ بِجَمعِهِم / حَتّى أُوَسَّدَ في التُرابِ دَفينا
فَاِصدَع بِأَمرِكَ ما عَلَيكَ غَضاضَةٌ / وَاِبشِر بِذاكَ وَقَرَّ مِنهُ عُيونا
وَدَعَوتَني وَزَعَمتَ أَنَّكَ ناصِحٌ / وَلَقَد صَدَقتَ وَكُنتَ ثَمَّ أَمينا
و لقد علمت بأنّ دين محمّد / من خير أديان البريّة دينا[3]
”اے میرے بھتیجے خدا کی قسم جب تک ابوطالب مٹی میں نہ سوجائے اور لحد کو اپنا بستر نہ بنالے دشمن ہرگز ہرگز تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔“
”لہٰذا کسی چیز سے نہ ڈر اور اپنی ذمہ داری اور ماموریت کا ابلاغ کر، بشارت دے اور آنکھوں کو ٹھنڈا کر۔“
”تونے مجھے اپنے مکتب کی دعوت دی اور مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا ہدف و مقصد صرف پند و نصیحت کرنا اور بیدار کرنا ہے، تو اپنی دعوت میں امین اور صحیح ہے۔“
”میں یہ بھی جانتا ہوں کہ محمد کا دین و مکتب تمام دینوں اور مکتبوں میں سب سے بہتر دین ہے۔“
اور یہ اشعار بھی انہوں نے ہی ارشاد فرمائے ہیں:
ألم تعلموا أنّا وجدنا محمّداً / رسولاً كموسی خُطَّ في أوّل الكتبِ
وأنَّ عليه فی العباد محبّةً / ولا حيفَ فيمن خصَّه اللهُ بالحُبّ[4]
”اے قریش! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ محمد (ص) موسیٰ (ع) کی مثل ہیں اور موسیٰ (ع) کے مانند خدا کے پیغمبر اور رسول ہیں جن کے آنے کی پیشینگوئی پہلی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور ہم نے اسے پالیا ہے۔“
”خدا کے بندے اس سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں اور جسے خداوند متعال نے اپنی محبت کے لئے مخصوص کرلیا ہو اس شخص سے یہ لگاؤ بے موقع نہیں ہے۔“
ابن ابی الحدید نے حضرت ابوطالب (ع) کے کافی اشعار نقل کرنے کے بعد (کہ جن کے مجموعہ کو ابن شہر آشوب نے ”متشابھات القرآن“ میں تین ہزار اشعار کہا ہے) کہتا ہے: ”ان تمام اشعار کے مطالعہ سے ہمارے لئے کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ ابوطالب اپنے بھتیجے کے دین پر ایمان رکھتے تھے۔“
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر تیسری دلیل
ایمان حضرت ابوطالب پر ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے بہت سی ایسی احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو آنحضرت (ص) کی ان کے فدا کار چچا حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان پر گواہی دیتی ہیں۔ منجملہ ان کے کتاب ”ابوطالب مومن قریش“ کے مولف کی نقل کے مطابق ایک یہ ہے کہ جب ابوطالب (ع) کی وفات ہوگئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے ان کی تشیع جنازہ کے بعد اس سوگواری کے ضمن میں جو اپنے چچا کی وفات کی مصیبت میں آپ کر رہے تھے آپ یہ بھی کہتے تھے:
”ہائے میرے بابا! ہائے ابوطالب! میں آپ کی وفات سے کس قدر غمگین ہوں کس طرح آپ کی مصیبت کو میں بھول جاؤں، اے وہ شخص جس نے بچپن میں میری پرورش اور تربیت کی اور بڑے ہونے پر میری دعوت پر لبیک کہی، میں آپ کے نزدیک اس طرح تھا جیسے آنکھ خانہ چشم میں اور روح بدن میں۔“
نیز آپ ہمیشہ یہ کیا کرتے تھے: ”ما نالت قريش مني شيئا اكرهه حتي مات ابوطالب۔“[5]
”اہل قریش اس وقت تک کبھی میرے خلاف ناپسندیدہ اقدام نہ کرسکے جب تک ابوطالب کی وفات نہ ہوگئی۔“
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر چوتھی دلیل
ایک طرف سے یہ بات مسلم ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کو حضرت ابوطالب (ع) کی وفات سے کئی سال پہلے یہ حکم مل چکا تھا کہ وہ مشرکین کے ساتھ کسی قسم کا دوستانہ رابطہ نہ رکھیں، اس کے باوجود حضرت ابوطالب (ع) کے ساتھ اس قسم کے تعلق اور مہر و محبت کا اظھار اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) انہیں مکتب توحید کا معتقد جانتے تھے، ورنہ یہ بات کس طرح ممکن ہوسکتی تھی کہ دوسروں کو تو مشرکین کی دوستی سے منع کریں اور خود حضرت ابوطالب (ع) سے عشق کی حد تک مہر و محبت رکھیں اور یہ بھی ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر ایک مضبوط قرینہ ہے۔
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر پانچویں دلیل
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان احادیث میں بھی کہ جو اہل بیت پیغمبر (ص) کے ذریعہ سے ہم تک پہنچی ہیں حضرت ابوطالب کے ایمان و اخلاص کے بڑی کثرت سے مدارک نظر آتے ہیں، جن کا یہاں نقل کرنا طول کا باعث ہوگا، یہ احادیث منطقی استدلالات کی حامل ہیں ان میں سے ایک حدیث چوتھے امام حضرت امام زین العابدین (ع) سے نقل ہوئی ہے اس میں امام (ع) نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا ابوطالب مومن تھے؟ جواب دینے کے بعد ارشاد فرمایا:
”ان هنا قوماً يزعمون انه کافر“ اس کے بعد فرمایا کہ: ” تعجب کی بات ہے کہ بعض لوگ یہ کیوں خیال کرتے ہیں کہ ابوطالب کافر تھے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ اس عقیدہ کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت ابوطالب (ع) پر طعن کرتے ہیں کیا ایسا نہیں ہے کہ قرآن کی کئی آیات میں اس بات سے منع کیا گیا ہے (اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ) مومن عورت ایمان لانے کے بعد کافر کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور یہ بات مسلم ہے کہ فاطمہ بنت اسد (رض) سابق ایمان لانے والوں میں سے ہیں اور وہ حضرت ابوطالب (ع) کی زوجیت میں ابوطالب کی وفات تک رہیں“
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر چھٹی دلیل
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان تمام باتوں کو چھوڑتے ہوئے اگر انسان ہر چیز میں ہی شک کریں تو کم از کم اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں کرسکتا کہ حضرت ابوطالب (ع) اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کے درجہ اول کے حامی و مددگار تھے، ان کی اسلام اور پیغمبر کی حمایت اس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی کہ جسے کسی طرح بھی رشتہ داری اور قبائلی تعصبات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا اور کیا ایمان حضرت ابوطالب کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اور دلیل کی بھی ضرورت ہے؟
اس کا زندہ نمونہ شعب ابوطالب کی داستان ہے۔ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے پیغمبر اکرم (ص) اور مسلمانوں کا ایک شدید اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ کر لیا اور اپنے ہر قسم کے روابط ان سے منقطع کرلئے تو آنحضرت (ص) کے واحد حامی اور مدافع، حضرت ابوطالب (ع) نے اپنے تمام کاموں سے ہاتھ کھینچ لیا اور برابر تین سال تک ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درہ کی طرف لے گئے جو مکہ کے پھاڑوں کے درمیان تھا اور ”شعب ابوطالب “ کے نام سے مشہور تھا اور وہاں پر سکونت اختیار کر لی۔
ان کی فدا کاری اس مقام تک جا پہنچی کہ قریش کے حملوں سے بچانے کےلئے کئی ایک مخصوص قسم کے برج تعمیر کرنے کے علاوہ ہر رات پیغمبر اکرم (ص) کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزند دلبند حضرت علی (ع) کو ان کی جگہ پر سلا دیتے اور جب حضرت علی (ع) کہتے: ”بابا جان! میں تو اسی حالت میں قتل ہوجاؤں گا“ تو ابوطالب جواب میں کہتے: میرے پیارے بچے! بردباری اور صبر ہاتھ سے نہ چھوڑو، ہر زندہ موت کی طرف رواں دواں ہے، میں نے تجهے فرزند عبد اللہ کا فدیہ قرار دیا ہے۔
یہ بات اور بھی طالب توجہ ہے کہ جو حضرت علی (ع) باپ کے جواب میں کہتے ہیں کہ بابا جان میرا یہ کلام اس بنا پر نہیں تھا کہ میں راہ محمد میں قتل ہونے سے ڈرتا ہوں، بلکہ میرا یہ کلام اس بنا پر تھا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں کس طرح سے آپ کا اطاعت گزار اور احمد مجتبیٰ (ص) کی نصرت و مدد کے لئے آمادہ و تیار ہوں۔
قارئین کرام ! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص بھی تعصب کو ایک طرف رکھ کر غیر جانبداری کے ساتھ حضرت ابوطالب (ع) کے بارے میں تاریخ کی سنہری سطروں کو پڑھے گا تو وہ ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا ہمصدا ہوکر کہے گا:
و لولا ابوطالب و ابنُه / لما مثلَ الدينُ شخصاً فقاما
فذاک بمکةَ آوی و حامي / و هذا بيثربَ جَسَّ الحِماما[6]
”اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو ہرگز مکتب اسلام باقی نہ رہتا اور اپنا قد سیدھا نہ کرتا، ابوطالب تو مکہ میں پیغمبر کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور علی یثرب (مدینہ) میں حمایت اسلام کی راہ میں گرداب موت میں ڈوب گئے“
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر ساتویں دلیل
ایمان حضرت ابوطالب (ع) پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ابوطالب کی تایخ زندگی، جناب رسالت مآب (ص) کے لئے ان کی عظیم قربانیاں اور رسول اللہ (ص) اور مسلمانوں کی ان سے شدید محبت کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوطالب (ع) کی موت کے سال کا نام ”عام الحزن“ رکھا۔
یہ سب باتیں اس امر کی دلیل ہیں کہ حضرت ابوطالب (ع) کو اسلام سے عشق تھا اور وہ جو پیغمبر اسلام (ص) کی اس قدر مدافعت کرتے تھے وہ محض رشتہ داری کی وجہ سے نہ تھی بلکہ اس دفاع میں آپ کی حیثیت ایک مخلص، ایک جاں نثار اور ایسے فدا کار کی تھی جو اپنے رہبر اور پیشوا کا تحفظ کر رہا ہو۔
نتیجہ
حضرت ابوطالب (ع) کی زندگی کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی ہر موقع پر مدد اور حمایت کی اور خود بھی توحید اور رسالت پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے اشعار، وصیت، اہل بیت (ع) کی گواہی، قریش کی مخالفت، پیغمبر اکرم (ص) کی محبت، جیسے مختلف دلائل سے ایمان حضرت ابوطالب (ع) کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ کلینی، الکافی، ج۱، ص۴۴۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۳۶۔
[2]۔ علامہ امینی نے اسے اپنی کتاب ”الغدیر“ میں ”شرح بخاری“، ”المواھب اللدنیہ“، ”الخصائص الکبریٰ“، ”شرح بہجتہ المحافل“، ”سیرہ حلبی“، ”سیرہ نبوی“ اور ”طلبتہ الطالب“ سے نقل کیا ہے۔
[3]۔ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۳، ص۳۰۶۔
[4]۔ بغدادى، خزانة الأدب، ج۱، ص۲۶۱۔
[5]۔ ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج۳، ص۱۲۰۔
[6]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۴، ص۸۴۔
منابع
- ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن هبة الله، شرح نهج البلاغه، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۷۵ش۔
- ابن كثیر، إسماعیل بن كثیر، البدایة والنهایة، بیروت، دارالكتب العلمیة، ۱۴۳۴هـ ق۔
- امینی، عبد الحسین، اَلْغَدیر فِی الْکِتابِ وَ السُّنّة وَ الْاَدَب، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۶۳ش۔
- البغدادی، عبد القادر بن عمر، خزانة الأدب و لب لباب لسان العرب، القاهرة، مكتبة الخانجی، ١٤١٨ هـ ق- ١٩٩٧م۔
- کلینی، محمد ابن یعقوب، الکافی، تهران، دارالكتب الإسلامیة، ۱۴۰۷هـ ق۔
- مجلسی، محمد باقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تھران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۳۱۵هـ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مکارم شیرازی، ناصر، رسول اکرم (ص) کی سوانح حیات، ترجمہ علامہ صفدر حسین، ص۸ تا ۱۵.