- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
- زمان مطالعه : 11 دقیقه
- توسط : ابوالحسن
- 2024/11/17
- 0 رائ
حضرت علی علیہ السلام ایک ایسے حاکم اسلامی اور خلیفہ تھے، جن کی خلافت کو سبھی قبول کرتے ہیں، اگر چہ شیعہ بلا فصل اور اہل سنت چوتھا۔ لہذا دونوں فریق کے لئے آپ کی سیرت نمونہ عمل ہے۔ ہم اس مختصر تحریر میں حاکم اسلامی کی ذمہ داریاں، مختلف پہلووں سیاسی اور اقتصادی وغیرہ بیان کر رہے ہیں:
١۔ حاکم اسلامی دوسروں سے پہلے خود عمل کرے
آپ نے فرمایا: “أیّھا الناس، إنِّي وَ اللہ ما أحثّکُم عَلیٰ طَاعَةٍ إلا وَ اَسْبقُکُم إلَیھا، وَ لا أنْھَاکمُ عَن مَعصِیَّةٍ اِلا وَ أَتَنَاھیٰ قَبلَکُمْ عَنھَا“[1] اے لوگوں خدا کی قسم میں نے تم کو کسی چیز کا حکم نہیں دیا، مگر یہ کہ پہلے خود میں نے اس پر عمل کیا ہے اور تم کو کسی چیز سے نہیں روکا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس سے خود پرہیز کیا ہے۔
کیا آپ نے رسول خدا کے بعد حضرت علی (ع) کے علاوہ کسی حاکم اسلامی کو دیکھا ہے جس نے اپنی زندگی اس طرح گذاری ہو؟
۲۔ حاکم اسلامی زندگی کے نشیب و فراز میں رعیت کا شریک ہو
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں حاکم اسلامی پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کے رنج و غم اور دکھ درد میں شریک ہو۔ اور کھانے پینے، رہنے سہنے یا لباس کے اعتبار سے اپنی رعایا پر برتری کا قائل نہ ہو۔
آپ فرماتے ہیں: “وَ لوَ شِئْتُ لَاْ ھْتَدَیْتُ الطَّرِیقَ اِلیٰ مُصَفّیٰ ھٰذا العَسْلِ وَ لُبَابِ ھٰذا القَمْحِ وَ نَسَائِج ھذا القَزِّ، وَ لٰکن ھَیہاتَ أنْ یَغلبَنِي ھَوايَ،وَ یَقُودَنِي جَشَعِيْ اِلیٰ تَخَیُّرِ الأطْعِمَةِ، وَ لعلَّ بِالحِجَاز أوْ الیَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ لَہ فِي القُرصِ، وَ لاعَھْدَ لہ بالشَّبَعِ، أو اَبِیتَ مِبطَاناً وَ حَولِي بُطُون غَرْثیٰ وَ أکْبَاد حَرّیٰ، أ اَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ یُقَال: ھٰذا أمِیرُ المُومِنِین، وَ لا اُشَارِکُھُمْ فی مَکارِہ الدَّھرِ”[2]
اگر میں حاکم اسلامی چاہتا تو خالص شہد، بہترین گیہوں اور ریشمی کپڑے پہن سکتا تھا، لیکن خدا نہ کرے مجھ پر خواہشات نفس غالب آجائے اور میری حرص مجھے لذیذ غذاؤں کی طرف کھینچ کر لے جائے، جبکہ ممکن ہے حجاز یا یمامہ میں ایسے افراد بھی ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی امید اور بھوک کو مٹانے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے! میں حاکم اسلامی شکم سیر ہو کر سو جاؤں اور میرے اطراف میں بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر موجود ہوں۔ کیا میں اسی بات پر فخر کروں کہ مجھے امیر المومنین کہا جائے، لیکن میں مشکلات اور ناگوار حالات میں مومنین کا شریک نہ رہوں؟
پوری تاریخ اسلام میں حضرت (ع) وہ حاکم اسلامی تھے جنھیں اللہ نے زمین پر علامت عدل بناکر خلق کیا اور ان کو اپنے رسول کا وصی اور خلیفہ قرار دیا۔
۳۔ حاکم اسلامی بیت المال میں احتیاط سے کام لے
حاکم اسلامی حضرت علی (ع) نے بیت المال میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے، ذرہ برابر بھی اپنے اہل و عیال کے اوپر خرچ نہیں کیا، بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کی مصلحتوں میں اور فقیر و ضعیف لوگوں پر خرچ کیا ہے۔ ہم چند نمونے بیان کر رہے ہیں:
پہلا نمونہ
آپ کے بعض اصحاب نے مشورہ دیا کہ آپ کچھ مال اپنے با اثر اصحاب پر خرچ کر دیں، تاکہ وہ آپ کے سخت ترین دشمن معاویہ کے خلاف جنگ کرنے پر لوگوں کو ابھاریں، آپ نے جواب میں فرمایا:
“أ تَامُرُوْنِي أَنْ أَطْلُبَ ألنَصْرَ بِالجَورِ فِیْمَن وُلِّیتُ عَلَیْہِ؟ وَ اللّٰہِ لا أَطُورُ بِہ ما سَمَرَ سَمِیْر، وَ مَا أمَّ نَجْم فِی السَّمَاء نَجْمَاً! لَو کانَ المَالُ لِيْ لَسَوَّیْتُ بَیْنَھُمْ، فَکَیْفَ وَ إنّمَا المَال ُ مالُ اللَّہِ”[3] کیا تم مجھے حاکم اسلامی کو اس بات کا مشورہ دے رہے ہو، کہ اپنی رعیت پر ظلم کر کے چند لوگوں کی مدد حاصل کروں؟ خدا کی قسم! جب تک زمانہ قائم ہے اور آسمان پر ستارے موجود ہیں، میں ہرگز یہ کام نہیں کروں گا۔ اگریہ میری ذاتی دولت ہوتی تو میں ان کے درمیان برابر سے تقسیم کردیتا مگریہ خدا کا مال ہے۔
دوسرا نمونہ
حاکم اسلامی حضرت علی (ع) نے بیت المال میں بے نہایت احتیاط کی ہے۔ آپ نے ہمیشہ اس مال کو کمزوروں، یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کیا ہے۔ امام کی احتیاط ہی تو تھی کہ جب آپ کو اطلاع ملی کہ والی بصرہ زیاد ابن امیہ نے مال مسلمین میں سے کچھ لے لیا ہے۔ آپ نے اس کو تحریرکیا: “وَ إنِّي اُقْسِمُ باللّٰہِ قَسَماً صادقاً لئن بَلَغَنِي أنَّک خُنْتَ مِنْ فَییء المُسْلِمِیْنَ شیئاً صغیراً أَوْ کَبِیراً لاَشُدَّنَّ عَلیْکَ شدَّةً تَدَعُکَ قَلیلَ الوَفْر ثَقِیْلَ الظَّھرِ ضَئِيلَ الأَمْر”[4]
میں خدا کی سچی قسم کھا کر کہتا ہوں، اگر مجھ کو اس بات کی خبر ملی کہ تم نے مسلمانوں کے مال سے چھوٹی یا بڑی قسم کی خیانت کی ہے، تو میں تم پر ایسی سختی کروں گا کہ تم نادار، سنگین پیٹھ والے اور حقیر ہو کر رہ جاو گے۔ یہ وہی عد ل و انصاف ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے چاہا ہے تاکہ مفلسی اور محرومی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔
تیسرا نمونہ
آپ کے بھتیجے اور داماد یعنی حضرت زینب (س) کے شوہر نامدار حضرت عبد اللہ بن جعفر مدینہ سے آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ سے مالی مدد مانگی، تو آپ نے فرمایا: “لا وَ اللَّہِ، مَا أَجدُ شیئاً إلا أَنْ تأمُرَ عَمَّکَ فَیُسرقَ فَیُعْطِیْکَ”[5] خدا کی قسم میرے پاس کچھ نہیں مگر یہ کہ تم اپنے چچا کو حکم دو کہ چوری کر کے تم کو عطا کرے۔ کیا آپ کو کسی حکومت میں اس قسم کا بے انتہا محتاط حاکم اسلامی تاریخ کے اوراق میں ملے گا؟ حضرت علی (ع) نے اپنی حیات طیبہ میں عملی ثبوت پیش کیا ہے۔
چوتھا نمونہ
زاذان کہتے ہیں کہ ایک روز میں قنبر کے ساتھ حاکم اسلامی حضرت علی (ع) کی خد مت میں پہنچا، تو قنبر نے امام سے کہا: یا امیر المومنین! میرے ساتھ تشریف لائیں، میں نے آپ کے لئے ایک چیز بچا کر رکھی ہے۔
آپ نے پوچھا: وہ کیا چیز ہے؟ قنبر نے عرض کی: میرے ساتھ تو تشریف لائیے، آپ قنبر کے ہمراہ ان کے گھر کی طرف تشریف لے گئے، تو دیکھا وہاں پر سونے اور چاندی کے ظروف سے بھرا ہوا ایک تھیلا رکھا ہوا ہے۔
قنبر نے کہا: مولا میں نے دیکھا کہ آپ نے اپنے لئے کچھ نہیں بچایا، بلکہ تمام مال غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردیا ہے، تو میں نے بیت المال سے اس کو آپ کے لئے بچا کر رکھ لیا تھا۔
حاکم اسلامی حضرت علی (ع) یہ سن کر غضبناک ہوئے اور آپ نے بلند آواز میں سختی سے فرمایا: “یَا قَنْبَر، لَقَدْ أحْبَبْتَ أن تُدْخِلَ بَیْتِي نَارَاً عَظِیمةً”[6] اے قنبر! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میرے گھر کو آتشکدہ میں تبدیل کردو؟[7]
پانچواں نمونہ
شبعی کا بیان ہے کہ ایک روز میں کوفہ میں اپنے بچپنے میں بچوں کے ساتھ اس میدان کی طرف گیا، جو مسجد کے سامنے تھا۔ میں نے دیکھا کہ حاکم اسلامی حضرت علی (ع) سونے چاندی کے دو ڈھیر کے پاس کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک تازیانہ ہے جس سے وہ لوگوں کو نزدیک ہونے سے روک رہے ہیں۔ پھر آپ مال کی طرف بڑھے اور اس کو تقسیم کردیا یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔
اس کے بعد خالی ہاتھ بیت الشرف کی طرف روانہ ہوگئے، اس منظر کو دیکھنے کے بعد میں اپنے والد کے پاس آیا اور ان سے کہا: آج میں نے دنیا کے بہترین حاکم اسلامی کو دیکھا ہے، میرے والد نے پوچھا: بیٹا وہ کون شخص ہے جس کو تم نے دیکھا ہے؟ میں نے کہا: وہ حاکم اسلامی حضرت علی بن ابی طالب (ع) ہیں۔ آج میں نے ان کو ایسے ایسے کرتے دیکھا، جب میں نے تمام واقعہ کو بیان کر دیا، تو وہ رونے لگے اورکہا: بیٹا! حقیقت میں تم نے دنیا کے بہترین حاکم اسلامی کو دیکھا ہے۔[8]
چھٹا نمونہ
ایک روز آپ کے بڑے بھائی، عقیل کوفہ میں وارد ہوئے اس حال میں کہ وہ شدید اقتصادی بحران میں مبتلا تھے۔ آپ کی خدمت میں آکر عرض کی: میں اس لئے آپ کی خدمت میں آیا ہوں کہ آپ میرے قرض کو ادا کردیں۔
آپ نے فرمایا: قرض کتنا ہے؟
عقیل نے جواب دیا: “چالیس ہزار”
حضرت علی نے فرمایا: خدا کی قسم میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے اور نہ ہی میں اس کے ادا کرنے پر قدرت رکھتا۔ ہاں اتنا صبر کریں کہ میری تنخواہ مل جائے تاکہ اس میں سے آپ کو دوں۔
عقیل بولے: میرے بھائی آپ کے ہاتھوں میں تو بیت المال ہے، اس کے باجود آپ تنخواہ کا انتظار کر رہے ہیں؟ حضرت نے عقیل کی سرزنش کی اور اسلامی نقطہ نگاہ سے جواب دیا: “أ تَأمُرونِيْ أَن اَفْتَحَ بَیْتَ المَالِ المُسلِمِین فَأُعْطِیکَ أَمْوَالَھُم و قَد تَوکَّلُوا عَلیٰ اللہ وَ أَقْفَلوُا عَلَیْھَا؟! وَ إنْ شِئْتَ أَخَذْتُ سَیفَکَ وَ أَخَذْت سَیفِي وَ خَرجْنَا جَمِیْعاً اِلیٰ الحَیرة[9] فَإنَّ فِیْہَا تُجَّاراً مَیَاسِیْرَ، فَدَخَلنَا عَلیٰ بَعْضِھِم فَأخَذْنَا مَالَہ”[10]
کیا آپ حاکم اسلامی کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے خزانے سے آپ کو کچھ عطا کروں، جبکہ وہ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اس کو انہوں نے مُقَفَّل کر رکھا ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں، تو آپ اپنی تلوار اٹھائیں اور میں اپنی شمشیر اور دونوں مل کر حیرہ کی طرف چلیں وہاں بہت سے تجار ہیں ان میں سے کسی ایک پر حملہ کر کے اس کے مال کو اپنے قبضہ میں لے لیں۔
یہ بات ایک حاکم اسلامی نے اپنے بھائی کو آزمانے کے لئے کہی اور اس راہ سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ آپ کا بھائی کبھی ایسے کام پرراضی نہیں ہوسکتا، آپ نے ان کو یہ بتانا چاہا کہ جب آپ اس طرح سے ایک شخص کے مال کو چھینے پر راضی نہیں ہیں تو میں حاکم اسلامی اتنے مسلمانوں کے مال میں سے ناحق آپ کو کیسے دیدوں؟
جناب عقیل کو مالی بحران کی موجوں نے غرق کر رکھا تھا لہٰذا بولے: اب میں معاویہ کے پاس جاکر اپنی مشکل حل کروں گا۔ آپ نے فرمایا: وہ تم خود جانو، اس کے بعد جناب عقیل نے کوفہ کو چھوڑ دیا اور شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
معاویہ کے پاس پہنچے تو معاویہ نے جناب عقیل کا خیر مقدم کیا اور ان سے پوچھا: آپ نے علی اور ان کے یار و مدد گار کو کس حالت میں چھوڑا؟ جناب عقیل نے اس کا جواب حق و صداقت کے ساتھ یوں دیا کہ وہ سب محمدؐ کے اصحاب کی طرح ہیں، لیکن میں نے ان کے درمیان رسول خدا کو نہ پایا اور تو اور تیرے اصحاب ابوسفیان کے اصحاب و مدد گار کی طرح ہیں، لیکن میں تمہارے درمیان ابو سفیان کو نہیں دیکھ رہاہوں۔
۴۔ حاکم اسلامی کی زندگی غریبوں جیسی ہو
اسلام میں حاکم اسلامی اور امام کا فلسفہ یہ ہے کہ حاکم اسلامی کا کی زندگی میں رہنے، کھانے پینے اور لباس وغیرہ رعیت کے غریب و فقیر لوگوں کی طرح ہو۔
اس سلسلے میں حضرت علی (ع) سے نے فرمایا: “إنَّ اللَّہَ تَعالیٰ جعَلَنِيْ إمَاماً لِخَلْقِہ، فَفَرَضَ عَلَيَّ التَقدیْر فِيْ نَفْسِيْ وَ مَطْعَمِيْ وَ مَشْرَبِي وَ مَلْبَسِيْ کَضُعَفَاء النَّاسِ كي يقتدي الفَقِیر بِفَقْرِي وَ لا یُطْغ الغنیَّ غِناَہُ”[11]
اللہ نے مجھ کو اپنی مخلوق کا امام قرار دیا ہے اور اس نے مجھ پر لازم قرار دیا ہے کہ میں اپنے نفس کو مشقت میں ڈالوں اور خورد و خوراک، لباس وغیرہ میں امت کے ضعیف و کمزور لوگوں کی طرح کام لوں، تاکہ غریب اپنی غربت میں میری اقتداء کرے اور مالدار کو اس کی مالداری غرور و تکبر اور سرکشی میں مبتلا نہ کر سکے۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا: “إنَّ اللّہَ فَرَضَ علیٰ أئمّةِ الحَقِّ أَن یُقَدِّرُوا أَنْفُسَھُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ کَیْ لا یَتَبَیّغَ بالفَقِیْرِ فَقْرُہُ” [12]
خدا وند عالم نے پیشوایان حق پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو غریب لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کریں تاکہ غریب پر اس کی غربت اور فقر غالب نہ آنے پائے، بلکہ وہ اپنی غربت میں بھی خوش حال نظر آئے اور یہ خیال کرے کہ میرا امام بھی تو میری طرح زندگی بسر کرتا ہے۔
۵۔ حاکم اسلامی برتری کا خاتمہ کرنے والا ہو
حاکم اسلامی حضرت (ع) نے وہ تمام امتیازات جو لوگوں نے شہنشاہوں کے لئے قائم کر رکھے تھے، ان سب کو ختم کردیا۔ صفین جاتے وقت جب آپ کا گذر”انبار” سے ہوا تو وہاں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں گرم جوشی سے آپ کا استقبال کیا۔
امام نے ان کے اس کام کی وجہ پوچھی: “مَا ھٰذہ الدِّوابُ الَّتِي مَعَکُمْ؟ وَ مَا أَرَدْتُمْ بِہٰذِا الذيْ صَنَعْتُمْ”؟ تم اپنے ساتھ یہ چوپائے کیوں لائے ہو اور تم نے اپنے اس استقبال سے کیا چاہتے ہو؟
انھوں نے جواب دیا: اے امیر المومنین! ہم نے جو آپ کا ایسا استقبال کیا ہے، یہ ہماری رسم ہے جس سے ہم اپنے حاکموں کی تعظیم کرتے رہے ہیں۔ یہ گھوڑے ہماری طرف سے آپ کے لئے ہدیہ ہیں۔ ہم نے آپ کے ہمراہ آنے والے تمام لوگوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا ہے۔ اور آپ کی سواریوں کے لئے بھی کافی مقدار میں چارہ فراہم کیا ہے۔
امام نے غصہ کے عالم میں ان کو اس کام سے روکا اور فرمایا: “أمَّا ھٰذا الذِّي زَعَمْتُمْ أَنَّہ مِنْکُمْ خُلُق تُعَظِّمُوْنَ بِہ الأُمَراء، فَوَ اللَّہِ مَا یَنْفَعُ ھٰذا الأُمَرَاء، وَ إنَّکُمْ المُشِقُّوْنَ بِہ عَلیٰ أَنْفُسِکُم وَ أبْدَانکُمْ، فَلَا تَعُودُوا لَہ، أَمَّا دَوَابُّکُمْ ھٰذہ فَإنْ أَحْبَبْتُم أنْ نَاخُذَھَا مِنْکُم فَنَحْسِبھَا مِن خَرَاجِکُم وَ أخَذْنَاھَا مِنْکُمْ، وَ أَمَّا طَعَامُکُمُ الذِّي صَنَعْتُم لَنَا فَإنَّا نَکْرَہُ مِنْ أمْوَالِکُمْ شَیْئاً إلا بِثَمَنٍ”[13]
جس رسم کے بارے میں تمہارا خیال یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ حاکم اسلامی کی تعظیم و تکریم کرتے ہو، تو خدا کی قسم یہ چیز حاکم اسلامی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، بلکہ تم صرف اپنے نفس اور جسم کو مشقت میں ڈالتے ہو۔ لہذا ایسے بلا وجہ کام کی عادت نہ ڈالو۔ ان سواریوں اور چوپاؤں کو جو تم ہمارے لئے ہدیہ کے طور پر لائے ہو، تو اگر تم چاہتے ہو کہ ہم انھیں قبول کرلیں، تو ہم ان کو تم سے لے تو لیں گے، لیکن ہم اس کو تمہارے خراج میں شمار کریں گے۔ وہ کھانا جو تم نے ہمارے لئے تیار کیا ہے، ہم بغیر قیمت نہیں لیں گے۔
کیا آپ کو عدالت کی ایسی تصویر کسی اور حاکم اسلامی میں مل سکتی ہے؟ امام نے اپنی سیرت اور اپنے کردار سے مثال قائم کر دی ہے۔ اس کے ذریعہ حکومت و سلطنت کے ان حریصوں کو رسوا کیا ہے، جو قدرت کی ہوس میں پاگل ہو جاتے ہیں۔
حاکم اسلامی حضرت علی (ع) کی نظر میں حاکم اسلامی کی منزلت ایک محافظ و نگہبان کی طرح ہے۔ جو لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف دعوت دیتا ہے اور ان کو انحراف سے بچاتا ہے۔
۶۔ حاکم اسلامی لوگوں کو آداب اسلامی سے آشنا کرائے
حضرت علی (ع) اپنے اصحاب سے فرمایا: “فَلا تُکلِّمُونِيْ بِمَا تُکَلَّمُ بِہ الجَبَابِرَةُ، و لا تتحفَّظُوْا مِنِّي بِمَا یُتَحَفَّظُ بِہ عِنْدَ أَھلِ البادِرَة، وَ لا تُخَالِطُوْنِيْ بالمُصانَعَةِ، وَ لا تَظُنُّوا بِيَ اسْتِثْقَالاً فِي حَقِّ قِیْلَ لِيْ وَ لا اِلتَمَاسَ اِعْظَامٍ لِنَفْسِي، فَإنّہ مَنْ اسْتَثْقَلَ الحَقَّ أَنْ یُقَالَ لَہ أوِ العَدْلَ أنْ یُعْرَضَ عَلَیْہ، کأنَ العَمَلُ بِھِمَا اثْقَلَ عَلَیْہ، فَلا تَکُفُّوا عَنْ مَقَالَةٍ بِحَقِ اَو مَشُورَةٍ بِعَدْلٍ،فَاِنِّي لَسْتُ فِي نَفْسِي بِفوق أَن أُخْطِیَٔ وَ لا آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِيْ، إلا أَنْ یَکْفِيَ اللَّہُ مِنْ نَفْسِيْ مَا ھُوَ أَمْلَکُ بِہ مِنِّي”[14]
دیکھو مجھ حاکم اسلامی سے اس لہجہ میں بات نہ کرنا جس لہجہ میں جابر بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور نہ مجھ سے اس طرح بچنے کی کوشش کرنا جس طرح طیش میں آنے والوں سے بچا جاتا ہے۔ نہ مجھ سے خوشامد کے ساتھ تعلقات رکھنا اور نہ میرے بارے میں یہ تصور کرنا کہ مجھے حرف حق گراں گزرے گا اور نہ میں اپنی تعظیم کا طلب گار ہوں۔ اس لئے کہ جو شخص بھی حرف حق کہنے کو گراں سمجھتا ہے یا عدل کی پیشکش کو ناپسند کرتا ہے، وہ حق و عدل پرعمل کو یقینا مشکل تر ہی تصور کرے گا۔
لہٰذا خبردار حرف حق کہنے میں تکلف نہ کرنا اور منصفانہ مشورہ دینے سے گریز نہ کرنا۔ اس لئے کہ میں ذاتی طور پر اپنے کو غلطی سے بالاتر نہیں تصور کرتا ہوں اورنہ اپنے افعال کو اس خطرہ سے محفوظ سمجھتا ہوں مگر یہ کہ میرا پروردگار میرے نفس کو بچالے کہ وہ اس کا مجھ سے زیادہ صاحب اختیار ہے۔
نتیجه
حاکم اسلامی حضرت علی (ع) کے کلام سے چند باتیں سامنے آتی ہیں:
١۔ حاکم اسلامی کو ایسے عظیم القاب اور ان بڑے اوصاف کے ساتھ خطاب نہ کرنا کہ جو ظالم و جابر امراء یا حکومت و سلطنت کے حریص لوگوں کے لئے اضافہ کئے جاتے ہیں۔
٢۔ حاکم اسلامی کے ساتھ ریاکاری اور ظاہری انکساری سے پیش نہ آنا۔ حکام سے وہ برتاؤ صحیح ہے کہ نصیحت اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اس ظاہر داری کے ساتھ نہ ہو کہ جس میں معاشرتی نفاق کی ملاوٹ ہو۔
٣۔ حاکم اسلامی کے بارے میں یہ خیال نہ کرنا کہ وہ حق بات کو ناپسند اور عدالت سے کام لینے سے بچےگا۔
٤۔ حاکم اسلامی کا ان چیزوں کو اہمیت دینا جو رعایا کے امور کی اصلاح کرتی ہیں۔
٥۔ حاکم اسلامی کا اظہار حق کرنا اور حکومت کو فرائض و وظائف کے انجام دینے پر مجبور کرنا۔
یہ بعض اہم نکات تھے جو ہمیں علمبردار فکر انسانی اور موسس حقوق بشر حضرت امام علی علیہ السلام کے کلام میں ملتے ہیں … اب ہم امت کی زعامت و قیادت کے لئے پیغمبر ؐکی طرف سے حضرت علیؑ کے انتخاب پر بحث کریں گے۔ اور یہ خلافت کی اہم بحثوں میں سے ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۰، ص۲۵۰، خطبہ١٧٥۔
[2]۔ سید رضی، نہج البلاغة، ج۳، ص۳، مکتوب٤٥۔
[3]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، ج۲، ص۱۰، خطبہ۱۲۶۔
[4]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، نامہ۲۰۔
[5]۔ ثقفى، الغارات، ج1، ص43۔
[6]۔ ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج2، ص199۔
[7]۔ شمس الدین، نظام الحکم و الادارة فی الاسلام، ص٢٣٥۔
[8]۔ شمس الدین، نظام الحکم و الادارة فی الاسلام، ص٢٣٨۔
[9]۔ حیرہ کوفہ کے ایک شہر کا نام ہے۔
[10]۔ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٣، ص٤٢٣۔
[11]۔ کلینی، اصول کافی، ج١، ص٤١٠۔
[12]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ۲۰۹۔
[13]۔ ابن مزاحم، وقعۃ صفین، ص١۶۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٣٣، ص٤٢٤ و ج۷۲، ص۳۵۶، ج١٠٠، ص۵۵۔
[14]۔ سید رضی، نہج البلاغہ، خطبہ۲۱۶۔
منابع
- ابن أبي الحديد، عبد الحميد، شرح نهج البلاغة، قم، مكتبة آية الله المرعشي النجفي، 1404ق۔
- ابن اثير، علي، أسد الغابة فى معرفة الصحابة، بيروت، دار الفكر، 1409ء/1989ق۔
- ابن مزاحم، نصر، وقعة صفين، قم، مكتبة آية الله المرعشي النجفي، 1404ق۔
- ثقفى، ابراهيم، الغارات، قم، دار الكتاب الإسلامي، 1410ق۔
- سید رضي، محمد بن حسين، نهج البلاغة (صبحي صالح)، قم، ہجرت، 1414ق۔
- شمس الدین، محمد مهدی، نظام الحکم و الادارة فی الاسلام، مکان غیر معلوم، الموسسه الدولیه للدراسات و النشر، 1411ق۔
- کلینی، محمد، الكافي، تهران، انتشارات اسلاميه، 1362ش۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار( ع)، بيروت، مؤسسة الوفاء، 1404ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):
قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، قم، مجمع جہانی اہل بیت، ۱۴۴۲ھ۔ق۔ ۲۰۲۱ء۔