حضرت امام علی (ع) کی ناکثین، قاسطین اور مارقین کے خلاف جنگیں اسلامی تاریخ کے اہم دورانیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ تینوں باطل گروہ اس وقت سامنے آئے جب امام علی (ع) نے خلافت سنبھالی اور اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کی کوششیں شروع کیں۔
حضرت امام علی (ع) كے اصلاح طلب اقدامات جس طرح غريب اور ستم رسيدہ طبقہ كے لئے مسرت كا باعث تھے اسى طرح قريش كے غرور، خود بينى اور فوقيّت كے جذبہ پر كارى ضرب تھے، اس وجہ سے جب ثروت مندوں كے چيدہ افراد اور بڑے طبقہ نے اپنى ذاتى منفعت اور اپنى اجتماعى حيثيت كو خطرے ميں ديكھا تو حضرت امام علی (ع) كے ساتھ مذاكرہ اور مالى و حقوقى مسائل ميں آپ (ع) كى سياست ميں تبديلى سے مايوس ہونے كے بعد، علم مخالفت بلند كر ديا اور لوگوں كو بيعت توڑ دينے پر بھڑكانے، مختلف بہانوں سے آپ (ع) كى حيثيت كو كمزور كرنے اور داخلى جنگ و اختلاف كو ہوا دينے لگے.
حضرت امام علی (ع) نے اپنے بعض ارشادات ميں اپنے مخالفين كو تين گروہوں ميں تقسيم كيا ہے اور فرمايا ہے كہ:
”ميں جب امر خلافت كے لئے اٹھا تو ایک گروہ نے بيعت توڑ دى اور كچھ لوگ دين سے باہر نكل گئے اور ایک گروہ نے شروع سے ہى طغيان و سركشى كي۔”.[1]
اب حضرت امام علی (ع) كى اسلامى حكومت كے بالمقابل ان تينوں گروہوں كے موقف كو مختصراً بيان كيا جائے گا:
الف. ناكثين (عہد توڑ دينے والے)
پيسے كے پرستار، لالچى اور تفرقہ پرداز افراد، حضرت امام علی (ع) كى سياست كے مقابلہ ميں آرام سے نہيں بيٹھے. انہوں نے پہلا فتنہ بصرہ ميں كھڑا كيا. اس فتنہ كے بيچ بونے والے افراد طلحہ و زبير تھے، يہ دونوں بصرہ اور كوفہ كى گورنرى كا مطالبہ كر رہے تھے [2] اور حضرت امام علی (ع) كے سامنے انہوں نے صريحا اظہار كر ديا كہ ہم نے اس لئے آپ (ع) كى بيعت كى ہے كہ خلافت كے كام ميں آپ (ع) كے ساتھ شريک رہيں.[3]
ليكن حضرت امام علی (ع) نے ان كى خواہش كى موافقت نہيں كى اور دونوں آخر ميں عمرہ كے بہانہ سے مكہ چھوڑ كر مدينہ چلے گئے اور وہاں جناب عائشہ كى مدد اور جناب عثمان كے زمانہ كے بر طرف شدہ حكمران مكہ كے توسط سے طلحہ و زبير نے ایک سازش تيار كى، ان كى اس ساز باز سے ”ناكثين” كا مركزى ڈھانچہ تشكيل پا گيا.
ان لوگوں نے امويوں كى دولت سے استفادہ كرتے ہوئے خون عثمان كے انتقام كى آڑ ميں عائشہ كى رہبرى ميں ایک لشكر تيار كر ليا اور بصرہ كى طرف چل پڑے اور بصرہ كا دفاع كرنے والوں پر حملہ كر ديا، طرفين ميں شديد ٹكراؤ ہوا بہت سے لوگ قتل اور مجروح ہوئے اور حاكم بصرہ عثمان بن حنيف كے گرفتار ہوجانے كے بعد شہر بصرہ ان كے قبضہ ميں آگيا.
حضرت امام علی (ع) ”شام” سے جنگ كرنے كے وسائل مہيا كرنے ميں لگے ہوئے تھے (اس لئے كہ معاويہ نے قانونى طور پر خلافت سے سر كشى كا اعلان كر كے حضرت امام علی (ع) كى بيعت كو رد كر ديا تھا) جب عائشہ، طلحہ اور زبير كى شورش كى خبر حضرت امام علی (ع) تک پہونچى تو آپ (ع) امت كے تفرقہ سے ڈرے اور آپ (ع) نے يہ سمجھا كہ ان لوگوں كا خطرہ معاويہ كى سر كشى سے زيادہ اہم ہے. اگر فورى طور پر اس فتنہ كى آگ كو خاموش نہ كيا گيا تو ممكن ہے كہ خلافت حق كى بنياد متزلزل ہوجائے.
اس وجہ سے حضرت امام علی (ع) ان لوگوں سے جنگ پر آمادہ ہوگئے اور آپ (ع) كا لشكر جلد ہى مدينہ سے باہر آگيا، مقام ”رَبذہ”[4] سے آپ (ع) نے كوفہ والوں كے لئے خطوط اور نمائندے بھيجے اور ان كو اپنى مدد كے لئے بلايا.
چنانچہ حضرت امام علی (ع) كے نمائندہ امام حسن (ع) اور عمار ياسر كى كوششوں كى بنا پر كوفہ كے ہزاروں افراد، حضرت امام علی (ع) كى مدد كے لئے كوفہ چھوڑ كر مقام ”ذى قار” [5] ميں آپ (ع) سے ملحق ہوگئے.
حضرت امام علی (ع) نے ان پيمان شكنوں سے ٹكراؤ سے پہلے مختلف ذرائع سے صلح كى كوشش كى اور اپنى طرف سے خون ريزى سے بچنے كے لئے انتہائي كوشش كى ليكن كاميابى حاصل نہ ہوسكى اس لئے كہ شورش كرنے والے جنگ كا پختہ ارادہ كر چكے تھے.
حضرت امام علی (ع) كو مجبوراً ان سے جنگ كرنا پڑى اور شديد جنگ كے بعد، يہ فتنہ آپ (ع) كى فتح يابى اور ”ناكثين” كى شكست فاش پر ختم ہوا. بہت سے لوگ قتل ہوئے اور بقيہ شام كى طرف بھاگ گئے يہ جنگ تاريخ ميں ”جنگ جمل” كے نام سے مشہور ہے.
ب. قاسطين (حق سے منحرف ہونے والے)
جب حضرت امام علی (ع) نے اسلامى معاشرہ كى فرماں روائي كى ذمہ دارى قبول كى تھى تو اسى وقت سے يہ ارادہ كر ليا تھا كہ پیغمبر اکرم (ص) كى سيرت كو، جو مدت سے بھلائي جا چكى تھى زندہ كر ديں گے، قانون الہى سے ہر طرح كى سركشى اور تمرد كى كوشش كو ختم كر ديں گے اور بنى اميہ كى روش كو كہ جس كے سربراہ اور اس قانون شكنى كو جارى ركھنے والے معاويہ كو اسلامى معاشرے سے ہٹا ديں گے.
لہذا حضرت امام علی (ع) نے اپنى حكومت كے پہلے ہى دن سے يہ طے كر ليا تھا كہ معاويہ كو شام كى گورنرى سے معزول كر ديں گے، اس سلسلہ ميں كسى كى بات يا سفارش حتى ابن عباس كى بات بھى آپ (ع) كے مؤقف كو بدلنے ميں مؤثر نہ ہوسكي. كيونكہ آپ (ع) كسى بھى صورت ميں معاويہ كے وجود كو اسلامى حكومت ميں برداشت نہيں كرسكتے تھے.
اولاً: اسلامى حكومت ميں معاويہ جيسے گورنروں كا وجود، عثمان كى حكومت كے خلاف مسلمانوں كى شورش كا اہم ترين سبب تھا. مسلمانوں نے بار بار ان لوگوں كو برطرف اور معزول كرنے كا مطالبہ كيا تھا. اب اگر حضرت امام علی (ع) ان كو (اگرچہ تھوڑى اور محدود مدت كے لئے بھى) باقى ركھتے تو لوگ نئی حكومت كے بارے ميں كيا فيصلہ كرتے؟
ثانياً: شام ميں معاويہ اور اس كى حكومت نے جو مقام و حيثيت پيدا كر لى تھى اس سے حضرت على (ع) نے بخوبى يہ اندازہ لگا ليا تھا كہ معاويہ كسى طرح بھى شام كى حكومت سے دست بردار نہيں ہوگا. اب اگرحضرت امام علی (ع) كى طرف سے بھى تائيد ہوجاتى تو ہوسكتا تھا كہ كل اسى تائيد كو معاويہ اپنى حقّانيت كى سند سمجھ ليتا اور اس كو آپ (ع) كى حكومت كے خلاف استعمال كرتا.
حضرت امام علی (ع) بخوبى جانتے تھے كہ معاويہ اپنى زندگى ميں شام ميں مركزى حكومت كے نمائندہ اور مامور كى حيثيت سے عمل نہيں كر رہا ہے. بلكہ وہ شام كو اپنى حكومت سمجھتا ہے اور اس سرزمين پر اس كے سارے پروگرام اور كام حكومت كے اس سربراہ جيسے تھے جس نے خود حكومت كى بنياد ركھى ہو اور مختلف ذرائع سے اپنا اقتدار قائم كيا ہو.
معاويہ معروف اور صاحب نفوذ شخصيتوں كو خريد ليتا تھا اور قيمت كے ذريعہ دوسروں كو محروم كر كے اور لوگوں كے امن و امان كو چھين كر ایک گروہ كو مال و ثروت فراہم كرتا تھا. وہ كسانوں، تاجروں اور تمام ماليات ادا كرنے والوں كو شديد ظلم كا نشانہ بناتا اور ان سے مطلوبہ مال لے كر عربى قبائل كے ان رؤسا كو ديتا كہ، جو اس كى فوج كى مدد سے آزادى پسند ہر طرح كى تحريک كو كچلنے كے لئے آمادہ ہوتے تھے. اس طرح انہوں نے اپنے آپ كو بہت دنوں تک اپنے منصب پر باقى ركھنے كے لئے آمادہ كر ركھا تھا.
معاويہ اور عثمان كا كرتا
معاويہ، حضرت امام علی (ع) كو اچھى طرح جانتا تھا وہ اس بات سے بے خبر نہيں تھا كہ حضرت امام علی (ع) بہت جلد اسے تمنّاؤں كى كرسى سے نيچے كھينچ ليں گے اور اس كى مادى خواہشوں، آرام طلبيوں اور ہوس اقتدار كے درميان ایک مضبوط بند باندھ ديں گے. اس لئے معاويہ نے اپنى جھوٹى حكومت كى بنياد كو مضبوط كرنے اور اپنے مقاصد تک پہونچنے كے لئے انقلابى مسلمانوں كے ہاتھوں عثمان كے قتل كو بہترين موقع اور ذريعہ سمجھا. اسى وجہ سے اس نے قتل عثمان كو بہت بڑا بنا كر پيش كيا اور شديد پروپيگنڈہ كے ذريعہ اس كو ايسا حادثہ و فاجعہ بنا ديا كہ شام والوں كے دل لرز گئے.
معاويہ نے حكم ديا كہ عثمان كے خون آلود كرتے كو ان كى بيوى ”نائلہ” كى كٹى ہوئي انگلى كے ساتھ جس كو نعمان بن بشير لايا تھا [6] دمشق كى جامع مسجد كے منبر كى بلندى پر لٹكايا جائے اور اس نے شام كے كچھ بوڑھوں كو اس كُرتے كے ارد گرد نوحہ سرائي اور عزادارى كے لئے آمادہ كيا.[7] اس طرح انہوں نے شام كے لوگوں كے جذبات كو مركزى حكومت كے خلاف بھڑكا ديا اور ان كو اتنا غصہ دلايا كہ وہ معاويہ سے بھى زيادہ غيظ و غضب ميں آگئے اور معاويہ سے زيادہ جنگ اور انتقام كے لئے آمادہ نظر آنے لگے.
طلحہ و زبير اور عائشہ كى شورش نے بھى، جو عثمان كى حمايت كے نام پر وجود ميں آئي تھي، معاويہ كے كام كو اور آسان بنا ديا. اب معاويہ ان چيزوں كى مدد سے شام والوں كو برانگيختہ كرسكتا تھا اور ان كو جس طرف چاہتا لے جاسكتا تھا.
جنگ کی ابتدا
معاويہ كے اردگرد جب دنياپرست اور بے ايمان لوگ جمع ہوگئے تو معاويہ جنگ كے لئے تيار ہو گيا تا كہ حق و عدل والى، شرعى حكومت سے ٹكرا جائيں، معاويہ كا لشكر صفين ميں پہنچا اور فرات كے كنارے خيمہ زن ہوگيا اس كے ساتھيوں نے اصحاب حضرت امام علی (ع) پر پانى بند كر ديا.
حضرت امام علی (ع) كوفہ ميں تھے جب آپ (ع) كو خبر ملى كہ معاويہ ایک كثير لشكر كے ساتھ صفين ميں پہنچ چكا ہے تو آپ (ع) اس سے مقابلہ كے لئے آمادہ ہوئے، حضرت امام علی (ع) كے سپاہيوں كى فوج سيلاب كى طرح اٹھى اور فرات كے كنارے پہنچ كر[8] معاويہ كے لشكر كے سامنے آگئي ليكن آپ (ع) كے سپاہيوں نے ديكھا كہ فرات تک پہنچنے كا راستہ نہيں ہے.
حضرت امام علی (ع) نے خون ريزى نہ ہونے كى بڑى كوشش كى ليكن كامياب نہ ہوئے جنگ ناگزير تھي، آپ (ع) كے سپاہيوں نے جنگ كے شروع ہى ميں شاميوں كو فرات كے كنارے سے بھگا ديا اور شام كے لشكر كو بھارى نقصان پہنچايا. جب عراق كے لشكر نے فرات كو اپنے ہاتھوں ميں لے ليا تو حضرت امام علی (ع) نے بڑے پن كا ثبوت ديا اور فرمايا: ”چھوڑ دو ان كو پانى لينے دو …”
اس كے بعد دونوں لشكروں كے درميان چھوٹے چھوٹے حملے ہوتے رہے. حضرت امام علی (ع) نہيں چاہتے تھے كہ اجتماعى حملہ شروع ہو. اس لئے كہ آپ (ع) كو يہ اميد تھى كہ دشمن، حق كے سامنے اپنى گردن جھكا دیں گے اور جنگ سے ہاتھ روک لیں گے ليكن دشمن اسى طرح آمادہ پيكار رہے. طرفين اس كشيدگى كے جارى رہنے سے تھک گئے اس اعتبار سے ان كے درميان، صلح و موافقت كى كوئي اميد باقى نہ رہى.
جب حضرت امام علی (ع) نے حالات كا يہ رخ ديكھا تو اپنے اصحاب كو ایک بڑى جنگ كے لئے آمادہ كر ليا. معاويہ بھى جنگ كے لئے تيار ہوگيا نتيجہ ميں دونوں گروہوں كى آپس ميں مڈ بھيڑ ہوئي ”ليلة الہرير” [9] ميں سخت ترين جنگ ہوئي. ايسى جنگ كہ جس ميں سپاہى نماز كے وقت كو سمجھ نہيں پا رہے تھے اور بغير آرام كئے ہوئے مسلسل جنگ كر رہے تھے.[10]
حضرت امام علی (ع) كے سپہ سالار، مالك اشتر نہايت مردانگى سے ميدان ميں حملہ كر رہے تھے اور اپنے دلير اور نامور لشكر كو دشمن كى طرف بڑھاتے جاتے تھے، پھر معاويہ كو ايسى شكست ہوئي كہ اس كے سپاہيوں كى تمام صفيں ٹوٹ گئيں اور ايسا لگتا تھا كہ حضرت امام علی (ع) كا لشكر، فتحياب ہوجائے گا. ليكن معاويہ، عمرو عاص كى مدد سے مكر و فريب كى فكر كرنے لگا اور دھوكہ سے قرآن كو نيزہ پر بلند كر ديا جس كى بنا پر آپ (ع) كے سپاہيوں ميں اختلاف اور شورش برپا ہوگئی.
آخر كار اپنے ساتھيوں كى طرف سے نہايت اصرار پر مجبور ہو كرحضرت امام علی (ع) نے ابوموسى اشعرى اور عمرو عاص كى حكميت پر چھوڑ ديا كہ وہ لوگ اسلام اور مسلمانوں كى مصلحتوں كا مطالعہ كريں اور اپنے نظريہ كا اعلان كريں.
مسئلہ حكميت كو قبول كرنے كے سلسلہ ميں حضرت امام علی (ع) اس منزل تک پہونچ گئے تھے كہ اگر اس كو قبول نہ كرتے تو شايد اپنے ہى كچھ سپاہيوں كے ہاتھوں قتل كر ديئے جاتے اور مسلمان شديد بحران ميں مبتلا ہو جاتے.
جب حكمين كے فيصلہ سنانے كا وقت آگيا تو دونوں نے اپنے نظريہ كو ظاہر كيا، عمرو عاص نے ابوموسى اشعرى كو دھوكہ ديا اور اس نے حكومت معاويہ كو برقرار ركھا، اس بات نے معاويہ كى حيلہ گرى كو آشكار كر ديا.
ج. مارقين (اسلام سے خارج ہونے والے)
حكمين كے واقعہ كے بعد، كچھ مسلمان جو حضرت امام علی (ع) كے ساتھ تھے انہوں نے آپ (ع) كے خلاف خروج كيا اور اس حكميت كو قبول كر لينے كى بناء پر آپ (ع) كو تنقيد كا نشانہ بنانے لگے كہ جس كے قبول كر لينے كا يہى لوگ اصرار كر رہے تھے.
ان لوگوں كو چند دنوں كے بعد اپنى غلطى كا پتہ چل گيا اور وہ نادم ہوئے، انہوں نے اس بات كى كوشش كى كہ حضرت امام علی (ع) عہد و پيمان توڑ ديں[11] ليكن آپ (ع) پيمان توڑنے والوں ميں سے نہ تھے.
خوارج نے حضرت امام علی (ع) كے مقابلہ ميں صف آرائي كر لي، انہوں نے فتنہ و فساد برپا كيا. كوفہ سے باہر نكل پڑے اور ”نہروان”[12] ميں خيمہ زن ہوگئے يہ لوگ بے گناہ افراد سے متعرض ہوئے اور قتل و غارتگرى كر كے لوگوں ميں خوف و دہشت طارى كر رہے تھے.
حضرت امام علی (ع) كوشش كرنے لگے كہ لوگوں كو دوبارہ معاويہ سے جنگ پر آمادہ كيا جائے اور لوگوں نے دوسرى بار بھى آپ (ع) كى دعوت كو قبول كيا.
جب حضرت امام علی (ع) نے خوارج كى قتل و غارتگرى اور فساد كو ديكھا تو خوارج كے خطرہ كو معاويہ كے خطرہ سے بڑا محسوس كيا. چونكہ وہ لوگ مركز خلافت كے قريب تھے. اگر حضرت امام علی (ع) كے سپاہى معاويہ سے لڑنے كے لئے جانا چاہتے تو انہيں خوارج كے حملہ كا سامنا كرنا پڑتا اس لئے كہ خوارج اپنے علاوہ مسلمانوں كے تمام فرقوں كو كافر سمجھتے اور ان كے مال اور خون كو حلال جانتے تھے.[13]
اس وجہ سے حضرت امام علی (ع) كے سپاہيوں نے نہروان كى جانب كوچ كيا. دونوں لشكروں ميں جنگ چھیڑ جانے سے پہلے آپ (ع) نے اس بات كى كوشش كى منطق كے ذريعہ ان لوگوں كے شبہات كو ان كے سامنے بيان كر كے ان كى ہدايت كى جائے اور خونريزى كا سد باب كيا جائے. ليكن افسوس كہ وہ نادان، خرد سے عاري، ہٹ دھرم، استدلال اور حقيقت ميں سے كچھ بھى سمجھنے پر آمادہ نہ تھے.
جب حضرت امام علی (ع) ان كى ہدايت سے مايوس ہوگئے اور يہ يقين ہوگيا كہ وہ لوگ راہ حق كى طرف ہرگز نہيں لوٹيں گے، تب آپ (ع) نے ان كے ساتھ جنگ كى. حضرت امام علی (ع) كے لشكر نے دائيں اور بائيں طرف سے دشمن پر يلغار كر دى اور خوارج كو درميان ركھ كر نيزہ و شمشير كے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے. ابھى تھوڑى دير بھى نہ گذرى تھى كہ نو افراد كے علاوہ سب كو قتل كر ڈالا.
حضرت امام علی (ع) كى شہادت
آخر كار حضرت امام علی (ع) نے تقريباً پانچ سال تک حكومت كرنے كے بعد 19رمضان المبارك كى شب 40 ھ ق كو نماز صبح كى ادائيگى كى حالت ميں مسجد كوفہ ميں، پليدترين انسان ابن ملجم كى زہر آلود تلوار سے جو خوارج ميں سے تھا محراب حق ميں ضربت كھائي اور آپ (ع) كا چہرہ آپ (ع) كے خون سے گل رنگ ہوگيا.
اور دو روز بعد رمضان المبارك كى 21 ويں شب كو جام شہادت نوش كيا. شہادت كے بعد ان كے جسد اطہر كو نجف كى مقدس سرزمين ميں سپرد خاك كيا گيا.
خاتمہ
یہ جنگیں اس بات کی مظہر ہیں کہ امام علی (ع) نے عدل و انصاف کے قیام اور دین کی حفاظت کے لیے اپنی قوت اور حکمت کا استعمال کیا۔ ان کی قیادت میں یہ معرکے اسلامی معاشرت کے سیاسی اور اجتماعی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک جنگ اہم تاریخی سبق فراہم کرتی ہے۔
حوالہ جات
[1] ۔ ”فلما نہضت بالأمر نكثت طائفة و مرتت أخرى و قسط آخرون” سید رضی، نہج البلاغة، خطبہ شقشقية۔
[2] ۔ ابن اثير، كامل، ج2، ص196۔
[3] ۔ یعقوبی، تاريخ يعقوبى، ج2، ص180؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغة، ج1، ص230۔
[4] ۔”رَبذہ” مدينہ كا ايک ديہات ہے جو مدينہ سے تين ميل كے فاصلہ پر واقع ہے اور مشہور صحابى ”جناب ابوذر” وہيں مدفون ہيں۔ حموی، معجم البلدان، ج3، ص27۔
[5] ۔ ”ذى قار” بكر بن وائل سے متعلق كوفہ اور واسط كے درميان ايک ايسا حصہ تھا جہاں پانى موجود تھا۔ حموی، معجم البلدان، ج4، ص293۔
[6] ۔ ابن اثير، كامل، ج3، ص192۔
[7] ۔ منقری، وَقْعَةُ صِفّین، ص۱۲۷۔
[8] ۔ طرفين كے لشكر كى تعداد ميں اختلاف ہے. مسعودى نے مروج الذہب ميں حضرت امام علی (ع) كے لشكر كى تعداد نوے ہزار اور معاويہ كے لشكر كى تعداد پچاسى ہزار لكھى ہے. مسعودى، مروج الذہب جلد 2، ص 375.
[9] ۔ لغت ميں ”ہرير” سردى كى وجہ سے كتے كى نكلنے والى آواز كے معنى ميں ہے. چونكہ اس رات شدت جنگ اور دونوں طرف سے سواروں كى يلغار كى بنا پر دونوں چلّا رہے تھے. اسى لئے اس رات كو ليلة الہرير كہتے ہيں. معجم البلدان، جلد 5، ص 43؛ مجمع البحرين، جلد 3، ص 518 مادہ ہَرَرَ.
[10] ۔ منقری، وَقْعَةُ صِفّین، ص475.
[11] ۔ يعني: وہ عہد و پيمان جو جنگ بندى كے بعد حضرت امام علی (ع) اور معاويہ كے درميان منعقد ہوا تھا.
[12] ۔ نہروان، واسط اور بغداد كے درميان ایک وسيع جگہ ہے جہاں اسكان و صافيہ جيسے شہر اس علاقہ ميں واقع تھے. حموی، معجم البلدان، ج5، ص324.
[13] ۔ شہرستانى، ملل ونحل، ج2، ص118.122.
منابع و مآخذ
۱: ابن ابي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، 1375 ش۔
۲: ابن الأثير، علي بن أبي الكرم، الكامل في التاريخ، بيروت، دار الكتاب العربي، ٤١٧ ھ.ق۔
۳: سید رضی، نَهجُ البَلاغة، قم، دار الهجرة، ۱۴۰۹ھ ق۔
۴: شہرستانى، محمد بن عبدالکریم، المِلل و النَّحَل، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۲۷ ھ ق۔
5: طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرين و مطلع النيرين، قم، بنياد بعثت، 1414 ھ ق۔
۶: مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّهَب و مَعادنُ الجَوهَر، قم، دار الهجرۃ، ۱۴۰۹ ھ ق۔
۷: منقری، نصر بن مزاحم، وَقْعَۃ صِفّین، بیروت، المؤسسۃ العربية الحديثۃ، ۱۳۸۲ ھ ق۔
۸: یاقوت حموی، یاقوت بن عبدالله، معجم البلدان، بيروت، دار إحياء الثراث العربي، 1315 ھ ق.
۹: یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب؛ تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار الكتب العلميۃ، 1358 ھ.ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ (س) اور ائمہ معصومين عليهم السلام كى حيات طيبة)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، 1428 ھ ق؛ ص 29 الی 39۔