فضائل حضرت علی (ع) احادیث رسول اکرم (ص) کی روشنی میں

فضائل حضرت علی (ع) احادیث رسول اکرم (ص) کی روشنی میں

کپی کردن لینک

رسول اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کے بارے میں جو کچھ بھی فرمایا ہے، وہ عین حقیقت ہے۔ آپ نے مختلف مقامات پر فضائل حضرت علی (ع) اور آپ کے افضل ہونے کو بیان فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رسول خدا کی طرح سب سے افضل ہیں اور ان کی جانشینی کے مستحق ہیں۔ ہم نمونہ کے طور پر چند حدیثیں بیان کرتے ہیں:

۱. نبی شہر علم حضرت علی (ع) اس کا دروازہ

فضائل حضرت علی (ع) میں سے ہے کہ رسول خدا (ص) نے آپ کو اپنے اس شہر کا دروازہ قرار دیا ہے، جو ہر شہر سے زیادہ وسیع ہے۔ یہ حدیث آپ کی منزلت، عظمت شان و شوکت اور عزت و بزرگی کی دلیل ہے۔

اسی طرح سے اور دیگر احادیث ہیں جو فضائل حضرت علی (ع) کی دلیل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض روایات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

۱۔ جابر بن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے کہ میں نے حدیبیہ کے دن رسول خدا (ص) حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے دیکھا کہ آپ فرما رہے تھے: "هذا أَمِیرُ البررة ِقَاتِلُ الفَجَرةِ، مَنصُوْر مَن نَصرَہُ، مَخذُول مَنْ خَذَلَہُ” یہ نیک اور متقی لوگوں کا امیر ہے، فاجروں کو قتل کرنے والا ہے۔ جو ان کی مدد کرے گا، اس کی ضرور مدد ہو گی، جو ان کی بے حرمتی کرے گا، وہ خود ذلیل و رسوا ہوگا۔

پھر آپ نے بلند آواز میں فرمایا: "أَنَا مِدِینَةُ العِلْمِ وَ عَلِي بَابُھَا، فَمَنْ أرَادَ البَیْتَ فَلْیَأتِ البَابَ”[1] میں شہر علم ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہیں، جو گھر میں آنے کا قصد رکھتا ہے اس کو دروازہ سے آنا چاہیئے۔

۲۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: "أَنَا مَدِینَةُ العِلْمِ، وَ عَلِي بَابُھَا فَمَنْ أَرَادَ المَدِینَةَ فَلْیَأتِھَا مِنْ بَابِھَا”[2] میں شہر علم ہوں اور علی ا س کا دروازہ ہیں، شہر میں آنے والے کو کے دروازہ سے آنا چاہیئے۔

۳۔ ابن حجر عسقلانی نے روایت کی ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا: "عَلِيٌ بَابُ عِلْمِي، وَ مُبَیِّنُ لِأُمَّتِي مَا أُرْسِلْتُ بِہِ مِنْ بَعْدِي حُبُّہُ إیْمَانٌ وَ بُغْضُہُ نِفَاقٌ وَ النَّظَرُ إلَیْہِ رَافَةٌ”[3] علی (ع) میرے علم کا دروازہ اور میرے بعد میرے پیغام رسالت کو بیان کرنے والے ہیں۔ ان کی محبت ایمان اور ان کی دشمنی نفاق ہے۔ اور ان کی طرف نگاہ کرنا رحمت ہے۔

۲۔ نبی کی حکمت کا دروازہ حضرت علی (ع)

فضائل حضرت علی (ع) میں سے یہ بهی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی احادیث میں بار بار اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ حضرت علی (ع) ان کی حکمت کا دروازہ ہیں۔ جو حدیثیں مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

ا۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "أَنا دارالحِکْمَةِ وَ عَلِي بَابُھَا”[4] میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔

٢۔ رسول خدا (ص) کا فرمان ہے: "أَنَا مَدِیْنَةُ الحِکْمَةِ وَ عَلِي بَابُھَا فَمَنْ أَرَاد َالحِکْمَةَ فَلیَأتِ البَابَ”[5] میں حکمت کا شہر ہوں اور علی (ع) اس کا دروازہ ہیں۔ جو حکمت چاہتا ہے، وہ دروازہ سے آئے۔ یہ فضائل حضرت علی (ع) صرف انهیں کی ذات مبارک سے مخصوص ہیں۔

٣۔مذکورہ دو روایات کے ہم معنی یہ روایت بھی فضائل حضرت علی (ع) میں سے ہے، جس میں پیغمبر (ص) نے فرمایا: "قُسِّمَتِ الحِکْمَةُ عَشْرَةَ أَجْزَاءٍ فَأُعطِيَ عَلِيّ تِسْعَةَ أَجْزاءٍ، وَ النَّاسُ جُزْءاً وَاحِدا"[6] حکمت کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے نو حصے علی (ع) کو اور ایک حصہ بقیہ لوگوں کو عطا کیا گیا ہے۔

۳۔ رسول اور حضرت علی (ع) کا ایک ہی شجرہ طیبہ سے ہونا

فضائل حضرت علی (ع) بیان کرتے ہوئے، رسول خدا (ص) نے بارہا فرمایا ہے: "میں اور علی (ع) ایک ہی شجرہ سے ہیں” اس سلسلہ میں جو احادیث آپ سے منقول ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

١۔ جابرابن عبد اللہ انصاری نے روایت کی ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کو حضرت علی (ع) کے لئے یہ کہتے ہوئے سنا: "یَا عَلِي النَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتَّی وَ أَنَا وَ أَنْتَ مِنْ شجَرَةٍ وَاحِدَةٍ”[7] اے علی لوگ مختلف شجروں سے ہیں،( لیکن) میں اور آپ ایک ہی شجرہ سے ہیں۔

پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: {وَ فِی ٱلۡأَرۡضِ قِطَعٌ مُّتَجَٰوِرَٰتٌ وَ جَنَّٰتٌ مِّنۡ أَعۡنَٰبٍ وَ زَرۡعٌ وَ نَخِيلٌ صِنۡوَانٌ وَ غَيۡرُ صِنۡوَانٍ يُسۡقَیٰ بِمَآءٍ وَٰحِدٍ وَ نُفَضِّلُ بَعۡضَهَا عَلَیٰ بَعۡضٍ فِی ٱلۡأُكُلِ ۚ إِنَّ فِی ذَٰلِكَ لَأَيَٰتٍ لِّقَوۡمٍ يَعۡقِلُونَ}[8]

اور زمین کے متعدد ٹکڑے آپس میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریں ہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبانِ عقل کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔

٢۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "أنَا وَ عَلِي مِنْ شَجَرَةٍ وَاحِدةٍ وَ النَّاسُ مِنْ أَشْجَارٍ شَتیَّ”[9] میں اور علی ایک ہی شجرہ سے ہیں اور لوگ مختلف شجروں سے۔

۴۔ حضرت علی (ع) انبیاء کی شبیہ

دیگر خصوصیات و فضائل حضرت علی (ع) میں سے یہ بھی ہے کہ آپ اللہ کے تمام انبیاء سے مشابہ ہیں۔ اس فضائل حضرت علی (ع) کو پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے اصحاب سے ان الفاظ میں بیان فرمایا: "إنْ تَنْظُرُوا إلَیٰ آدَمَ فِي عِلْمِہ وَ نُوحٍ فِي حِکمَتِہ و إبْرَاہِیْمَ فِيْ خُلْقِہ وَ مُوسیٰ فِيْ مُنَاجَاتِہ و عیسیٰ في سِنِّہ وَ مُحَمَّدٍ فِيْ ھَدْیِہ وَ حِلْمِہ فَانْظروا إلَیٰ هذَا المُقبِلِ”[10]

اگر آدم (ع) کو ان کے علم میں، نوح (ع) نص شد نه حکمت میں، ابراہیم (ع) کو ان کے اخلاق، موسیٰ (ع) کو ان کی مناجات میں، عیسیٰ (ع) کو ان کی طولانی عمر میں اور محمد مصطفی کو ان کے حلم و کردار میں دیکھنا چاہتے ہو، تو اس آنے والے (علی (ع)) کی طرف نگاہ کرو۔ زبان پیغمبر (ص) سے جب یہ جملے جاری ہوئے، تو تمام اصحاب نے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا شروع کیا، اب جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ آنے والا حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے سوا کوئی اور نہ تھا۔

۵۔ اللہ کی محبوب ترین مخلوق حضرت علی (ع)

فضائل حضرت علی (ع) کے باب میں شیعہ سنی سبھی نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) کے خادم اَنَس کا کہنا ہے کہ ایک روز میں نے رسول خدا (ص) کی خدمت میں بھنے ہوئے پرندہ کا گوشت پیش کیا آپ نے بسم اللہ کہہ کر کھانا شروع کیا۔ ابھی ایک ہی لقمہ کھایا تھا کہ آپ نے دعا کی: "اللَّھُمَّ ائتِنِي بِأحبِّ الخَلْقِ اِلَیْکَ” خدایا اپنی محبوب ترین مخلوق کو بھیج دے۔

ابھی پیغمبر (ص) کی دعا تمام بھی نہ ہوئی تھی کہ دق الباب ہوا۔ میں نے کہا: کون؟

آنے والے نے کہا: میں علی (ع)۔

میں نے کہا: رسول اللہ (ص) کسی کام میں مشغول ہیں۔

رسول خدا (ص) نے دوسرا لقمہ کھایا اور پھر وہی دعا کی۔ اتنی دیر میں پھر کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا کون؟ آنے والے نے کہا: میں علی (ع)، پھر میں نے کہا رسول خدا (ص) کوئی ضروری کام انجام دے رہے ہیں۔

رسول خدا (ص) نے تیسرا لقمہ تناول فرمایا اور پھر وہی دعا کی۔ اب حضرت علی (ع) نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "یَا اَنَسُ اِفتَح البَابَ” اے انس دروازہ کھول دو۔

میں نے دروازہ کھولا اور حضرت علی (ع) داخل ہو گئے۔ رسول خدا (ص) نے جیسے ہی حضرت علی (ع) کو دیکھا مسکرائے اور فرمایا: الْحَمْدُ لِلَّہِ الذِيْ جَاءَ بِکَ، فَانِّي أَدْعُو فِي کُلٍ لُقْمَةٍ أَنْ یَأتِیَنِي اللَّہُ بِأحَبِّ الخَلْقِ إلَیْہِ وإليَّ فَکُنْتَ أَنْتَ” تمام تعریفیں اس خدا سے مخصوص ہیں، جس نے تم کو بھیجا ہے۔ میں ہر لقمہ پر اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ وہ میرے پاس اُس شخص کو بھیجے، جو تمام مخلوق میں اس کے اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو اور وہ تم ہو۔

حضرت علی (ع) نے فرمایا: "وَ الذِّي بَعَثَکَ بِالحَقِّ إنِّي لأَضْرِبُ البَابَ ثَلاثاً وَ یَرُدُّنِي أنَس” اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے تین بار دق الباب کیا، لیکن مجھ کو اَنَس نے واپس کردیا۔

پیغمبر (ص) نے فرمایا: "لِمَا رَدْدَتہُ” اَنس تم نے ان کو کیوں واپس کیا؟

اَنس نے کہا میں چاہتا تھا کہ وہ محبوبترین شخص انصار میں سے ہو۔ رسول خدا (ص) یہ سن کر مسکرائے اور آپ نے فرمایا: "مَا یُلاَم ُالرَّجُلُ عَلٰی حُبِّ قَومِہ” اپنی قوم کی محبت پر کسی کو ملامت نہیں کی جاتی۔[11]

۶۔ حضرت علی (ع) کی اطاعت رسول خدا (ص) کی اطاعت

فضائل حضرت علی (ع) میں یوں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) نے مختلف مقامات پر اس بات کی تاکید کی ہے کہ علی (ع) کی اطاعت خدا اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ آپ نے فرمایا: "مَنْ أطاعَنِي فَقَد أَطَاعَ اللَّہ، وَ مَنْ عَصَانِيْ فَقَد عَصَیَ اللَّہُ، وَ مَنْ أَطَاعَ عَلِیّاً فَقَد أَطَاعَنِيْ، وَ مَنْ عَصَی عَلِیاً فَقَد عَصانِيْ”[12]

جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی ہے۔  جس نے علی کی اطاعت کی اس نے درحقیقت میری اطاعت کی ہے اور جس نے علی (ع) کی نافرمانی کی، اس نے درواقع میری نافرمانی کی ہے۔

۷۔ حضرت علی (ع) کا دوست خدا کا دوست

رسول خدا (ص) نے بہت سی احادیث میں اس فضائل حضرت علی (ع) کا اعلان فرمایا ہے کہ: علی (ع) کو دوست رکھنے والا، در حقیقت خدا کا دوست ہے۔ ہم ان احادیث میں سے بعض یہاں پر ذکر کررہے ہیں:

١۔رسول خدا (ص) نے فرمایا: "أُوْصِي مَنْ آمَنَ بِيْ وَ صَدَّقَنِيْ بِوِلایَةِ عليّ بنِ أبِي طَالِبٍ، فَمَنْ تَولَاہُ فَقَد تَوَلّانِيْ، وَ مَنْ تَوَلَّانِيْ فَقَد تَوَلَّی اللَّہ، وَ مَنْ أَحَبَّہُ فَقَدْ أَحَبَّنِيْ، وَ مَنْ أَحَبَّنِيْ فَقَد أَحَبَّ اللَّہَ، وَ مَنْ أَبْغَضَہُ فَقَد أَبْغَضَنِيْ، وَ مَنْ أَبْغَضَنِيْ فَقَد أَبْغَضَ اللَّہ عَزَّ وَجَلَّ”[13]

جو شخص مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی، میں اس کو ولایت علی بن ابی طالب کی وصیت کرتا ہوں۔ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھے دوست رکھا، اس نے درحقیقت خدا کو دوست رکھا ہے۔ جس نے علی (ص) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے خدا سے محبت کی ہے۔ جس نے علی کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا اور جس نے مجھے غضبناک کیا اس نے خدا عزوجل کو غضبناک کیا۔

٢۔ یہ بھی فضائل حضرت علی (ع) میں سے مخصوص ہے کہ جس وقت رسول خدا (ص) نے ابوبکر کو سورۂ برائت دے کر مکہ کی طرف روانہ کیا تاکہ مشرکین کے سامنے اس کی تلاوت کرے۔ لیکن راستہ میں ہی خدا کے حکم سے اس کو معزول کیا اور حضرت علی (ع) کو اس اہم کام کے لئے روانہ کیا۔

اس وقت آپ سے فرمایا: "مَنْ أَحَبَّکَ أَحَبَّنِيْ، وَ مَنْ أَحَبَّنِيْ أَحَبَّ اللَّہ عَزَّ وَجَلّ، وَ مَنْ أَحَبَّ اللَّہ أَدْخَلَہُ الجَنَّة” [14] جس نے آپ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جو اللہ سے محبت کرے گا، اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔

٣۔ ایک روز رسول خدا (ص) حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور فرمایا: "ألَاَ مَنْ أَبْغَضَ هذا فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ، وَ مَنْ أَحَبَّ ھٰذا فَقَدْ أَحَبَّ اللَّہَ وَ رَسُوْلَہُ”[15] جس نے ان سے بغض کیا اس نے خدا و رسول سے بغض کیا اور جس نے ان کو دوست رکھا اس نے خدا و رسول کو دوست رکھا۔

حضرت علی (ع) کی محبت ایمان اور بغض نفاق

اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: علی (ع) کی محبت ایمان، تقوی اور اللہ کی اطاعت ہے اور ان سے بغض رکھنا معصیت، نفاق اور دین سے خارج ہونا ہے۔ اس مطلب پر مشتمل چند حدیثوں کو ہم آپ کے سامنے ذکر کر رہے ہیں:

١۔ ام المومنین ام سلمیٰ نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے سنا کہ: "لَا یُحِبُّ عَلِیاً مُنافِق، وَلَا یَبغُضُہ مَؤمِن”[16] منافق علی (ع) سے محبت اور مومن علی (ع) سے دشمنی نہیں کرسکتا۔

٢۔ رسول خدا (ص) نے فرمایا: "لا یُحِبُّکَ إلاَّ مَؤْمِن، وَ لاَ یُبْغِضُکَ إلاَّ مُنَافِق وَ مَنْ أَحَبَّکَ فَقَد أحَبَّنِي و مَنْ أَبْغَضَکَ فَقَدْ أَبْغَضَنِيْ، وَ حُبِّي حُبُّ اللَّہ، وَ بُغضِي بُغْضُ اللّٰہ وَیل لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيْ”[17]

مومن کے سوا کوئی آپ کو دوست نہ رکھے گا اور منافق کے سوا کوئی آپ کو دشمن نہ رکھے گا اور جس نے آپ کو دوست رکھا گویا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے آپ کو دشمن رکھا گویا اس نے مجھے دشمن رکھا. اور مجھ سے محبت خدا سے محبت ہے اور مجھ سے دشمنی خدا سے دشمنی ہے۔ لعنت ہو اس پر جو میرے بعد آپ سے بغض و عداوت رکھے۔

۳۔ رسول خدا (ص) نے فضائل حضرت علی (ع) ذکر کرتے ہوئے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "حُبُّکَ إیْمَانٌ و بُغْضُکَ نِفَاقٌ، وَ أَوَّلُ مَنْ یَدْخُل الجَنَّةَ مُحِبُّکَ، وَ أوّلُ مَنْ یَدْخُلُ النَّار مُبْغِضُکَ”[18] آپ کی محبت ایمان اور آپ کا بغض نفاق ہے۔ جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والا آپ کا محب اور دوزخ میں سب سے پہلے داخل ہونے والا آپ کا دشمن ہے۔

۴۔ اَنَس کا بیان ہے کہ خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے میں نے رسول خدا (ص) کو کہتے ہوئے سنا ہے "عنوان صَحِیْفَةِ المُومِنْ حُبُّ عَلِيِّ بن أبي طالب"[19] مومن کے نامہ اعمال کا عنوان، علی بن ابی طالب (ع) کی محبت ہے۔

خاتمہ

اس تحریر سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ جس کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت ہو اور وہ ان کے نزدیک محبوب ترین انسان ہو، جو رسول خدا کے علم و حکمت کا دروازہ ہو، جو تمام انبیاء سے مشابہت رکھتا ہو اور اس کی محبت ایمان اور اس کا بغض نفاق کی ہو؛ صرف ایسا صاحب فضائل شخص ہی خلیفہ اور جانشین رسول ہو سکتا ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ فضائل حضرت علی (ع) شمار نہیں کئے جاسکتے، ایک اور روایت کے مطابق فضائل حضرت علی (ع) کو بیان کرنا، لکھنا، دیکھنا اور سننا عبادت ہے اور گناہوں کی بخشش کا باعث ہے۔

حوالہ جات

[1]۔ حسكاني، شواہد التنزیل، ج۱، ص١٠٤؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۲، ص۳۷۷۔
[2]۔ متقي، کنز العمال، ج۶، ص۴۰۱؛ قندوزی، ینابیع المودة، ج۱، ص١٣٨؛ امینی، الغدیر، ج۱، ص٧٩۔
[3]۔ متقي، کنز العمال، ج۱۱، ص٦١٤ و ٦١٥؛ عجلونی، کشف الخفاء، ج۱، ص٢٠٤؛ قندوزی، ینابع المودة، ج۲، ص٢٤٠؛ الاربلی، كشف الغمة، ج۱، ص٩٢؛ صالحى، سبل الہدی، ج۱۱، ص٢٩٣؛ إبن حجر هيثمي، الصواعق المحرقة، ص۷۲۔
[4]۔ ترمذی، سنن الترمذي، ج۲، ص۲۹۹، ‌ ترمذی، تحفة الاحوذی، ج۱۰، ص١٥٥؛ متقي، کنز العمال، ج۶، ص۴۰۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۲، ص٣٧٨؛ الاربلی، كشف الغمة، ج۱، ص١١١؛ نصیبی، مطالب السؤول، ص١٣٠۔
[5]۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۲۰۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۵، ص۲۰۴۔
[6]۔ ابونعیم، حلیة الأولیاء، ج۱،ص۶۴؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ج۱، ص۱۳۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۲، ص۳۸۴؛ سیوطی، فیض القدیر، ج۳، ص۶۰۔
[۷]۔ مناوی، کنوز الحقائق، ص۱۵۵؛ حاکم نیشابوری، مستدرک الحاکم، ج۲، ص٢٤١؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص١٠٠۔
[8]۔ رعد: ٤۔
[9]۔ حسکانی، شواہد التنزیل، ج۱، ص٣٧٧ ؛ متقی، کنز العمال، ج۶، ص۱۵۴، مجلسی، بحار الانوار، ج۳۵، ص٣٠١۔
[10]۔ امینی، الغدیر، ج۳۔ ص٣٥٥؛ طوسی، الامالی، ص٤١٧۔
[11]۔ طبری، ذخائر العقبی، ص٦٢؛ ابن اثير، أسد الغابة، ج۴، ص۳۰؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص١٢٥؛ طبرانی، المعجم الاوسط، ج۶، ص٣٦٦۔
[12]۔ حاکم نیشابوری، مستدرک الحاکم، ج٣، ص۱۲۴۔
[13]۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص١۰۸؛ طبری‌، الریاض النضرۃ، ج۲، ص۱۶۹؛ متقی، کنز العمال، ج۱۱، ص٦١٠؛ قندوزی، ینابیع المودة، ج۱، ص٢٧٢۔
[14]۔ متقی، کنز العمال، ج۶، ص۳۹۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۷، ص٢٩٢۔
[15]۔ قرشی، موسوعة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام، ج۱، ص۱۱۴۔
[16]۔ ترمذی، سنن الترمذی، ج۵، ص٢۰۱؛ متقی، کنزالعمال، ج۱۱، ص٥٥٩؛ ابن عساکر، تاریخ مدینة دمشق، ج۴۲، ص٢٨٠؛ نصیبی، مطالب السؤول، ص١٣٠؛ قندوزی، ینابیع المودة، ج۱، ص١٣٠۔
[17]۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۳۳؛ ترمذی، سنن الترمذی، ج۲، ص۱۹۹؛ طبرانی، المعجم الاوسط، ج۵، ص٨٧۔
[18]۔ ھیثمی، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۲۳؛ علوی، النصائح الکافیہ، ص٩٣؛ ابن صباغ، الفصول المھمة، ج۱، ص٥٩٢۔
[19]۔ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۵، ص۴۷۰؛ علوی، النصائح الکافیة، ص٩٤؛ قندوزی، ینابیع المودة، ج۱، ص٢٧٢؛ قمی، الکنی و الالقاب، ج۲، ص٤٧٥۔

مآخذ و مصادر

1‌. قرآن کریم
2. ابن اثیر، علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ١٣٨٦ھ۔
3. ابن اثير، علي، أسد الغابة في معرفة الصحابة، بيروت، دار الفكر، ۱۴۰۹ھ۔
4. إبن حجر هيثمي، أحمد، الصواعق المحرقة على أهل الرفض و الضلال و الزندقة، بيروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۹۷ء۔
5. ابن صباغ، علی، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، محقق: غریری، سامی، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دار الحديث، ۱۴۲۲ھ۔
6. ابن عساکر، علی، تاریخ مدینة دمشق، محقق: شیری، علی و عمروی، عمر، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ۔
7. ابو نعیم، احمد بن عبدالله، حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء، بیروت، دار الکتاب العربي، ۱۴۰۷ھ۔
8. الاربلی، على‏، كشف الغمة في معرفة الأئمة، تبريز، بنى هاشمى‏، ۱۳۸۱ھ۔
9. امینی، عبد الحسین، الغدیر في الكتاب و السنة و الأدب، قم، مرکز الغدير للدراسات الإسلامية، ۱۴۱۶ھ۔
10. ترمذی، محمد، تحفة الأحوذي؛ شارح: مبارکفوری‌، محمد عبد الرحمن، مصحح: صبا‌بطی‌، عصا‌م‌ الدین، قاهره، ‌دار الحدیث، ۱۴۲۱ھ۔
11. ترمذی، محمد، سنن الترمذي، محقق: شاکر، احمد محمد، قاهره، دار الحدیث، ۱۴۱۹ھ۔
12. حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین؛ محقق: محمد، حمدی‌ دمرداش‌، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۰ھ۔
13. حسكاني، عبيد الله، شواهد التنزيل لقواعد التفضيل‏، تهران‏، مجمع إحياء الثقافة الإسلامية، ۱۴۱۱ھ۔
14. خطیب بغدادی، احمد، تاریخ بغداد أو مدینة السلام، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۱۷ھ۔
15. سیوطی، عبد الرحمن، فيض القدير، شارح: مناوی، محمد عبد الرؤوف، بیروت، دار المعرفة، ۱۳۹۱ھ۔
16. صالحى، محمد، سبل الهدى و الرشاد، بيروت، دارالكتب العلمية، ۱۴۱۴ھ۔
17. طبرانی، سلیمان، المعجم الأوسط، مصحح: طحان، محمود ریاض، مکتبة المعارف، ۱۴۰۵ھ۔
18. طبری‌، احمد، الریاض النضرة، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۲۴ھ۔
19. طبری‌، احمد، ذخائر العقبی في مناقب ذوي القربی، قاهره، مکتبة القدس، ۱۳۵۶ھ۔
20. طوسی، محمد، الأمالي، قم، مکتبة الداوري، بغیر تاریخ۔
21. عجلونی، اسماعیل بن محمد، کشف الخفاء و مزيل الإلباس، محقق: هنداوی، عبد الحمید، بیروت، المکتبة العصرية، ۱۴۲۷ھ۔
22. علوی، محمد، النصائح الکافیة، محقق: شابندر، غالب، بیروت، موسسة الفجر، ۱۴۱۲ھ۔
23. قرشی، باقر شریف، موسوعة الإمام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب عليه السلام، محقق: قرشی، مهدی، قم، دهکده جهانی آل محمد (ص)، ۱۴۲۹ھ۔
24. قمی، عباس، الکنی و الألقاب، تهران، مکتبة الصدر، ۱۳۶۸ش۔
25. قندوزی، سلیمان، ینابیع المودة، محقق: اشرف، علی، قم، منظمة الاوقاف و الشؤون الخیریة. دار الأسوة للطباعة و النشر، ۱۴۲۲ھ۔
26. متقي، علي، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، بيروت، مؤسسة الرسالة، ۱۹۸۹ء۔
27. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار( ع)، بيروت‏، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۴ھ۔
28. مناوی، محمد عبد الرؤوف، کنوز الحقائق من حديث خير الخلائق، محقق: عویضه، صلاح محمد، بیروت، دار الکتب العلمية، ۱۴۱۷ھ۔
29. نصیبی، محمد بن طلحه، مطالب السؤول في مناقب آل الرسول؛ مصحح: الطباطبایی، عبد العزیز، بیروت، مؤسسة البلاغ، ۱۴۱۹ھ۔
30. هیثمی، علی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بيروت، دار الفكر، ۱۴۱۲ھ۔

مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ):

قرشی، باقر شریف، سقیفہ کانفرنس، مترجم: ذیشان حیدر عارفی، تصحیح: سيد محمد سعيد نقوی، نظر ثانی: سید مبارک حسنین زیدی، مجمع جہانی اہل بیت، ۱۴۴۲ھ۔ ق،۲۰۲۱ء، ص۱۰۳-۱۱۴۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے