مدینے کی خواتین؛ خطبہ فاطمی (س) کی مخاطبین (ترجمہ و تجزئہ)

مدینے کی خواتین؛ خطبہ فاطمی (س) کی مخاطبین (ترجمہ و تجزئہ)

کپی کردن لینک

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا یہ خطبہ جو مدینے کی خواتین کے سامنے پیش کیا گیا، جس میں آپ نے دینی، سیاسی اور سماجی مسائل پر گہری باتیں کیں۔ یہ خطبہ نہ صرف اپنے وقت کی سیاسی حقیقتوں کا آئینہ دار تھا بلکہ مدینے کی خواتین کے لئے ایک بیداری کا پیغام بھی تھا۔ اس خطبے میں آپ نے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت کو بیان کیا اور خواتین کو سماجی تبدیلی میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ یہ خطبہ آج بھی تمام خواتین بلکہ پورے انسانوں کے لئے ایک رہنمائی کا نقشہ راہ ہے۔

 

الف: خطبے کا سلیس ترجمہ

سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب جناب فاطمہ زہرا (س) بیمار ہوئیں اور آپ کا مرض اتنا بڑھا کہ اسی مرض میں آپ اس دنیا سے رحلت کر گئیں، اس وقت مہاجرین اور انصار کی عورتیں بی بی کی عیادت کے لئے آئیں اور جناب سیدہ کو سلام کیا اور آپ کی احوال پرسی کی تو آپ نے ان سے مخاطب ہو کر پہلے خداوند عالم کی حمد و ثنا کی اور اپنے والد رسول اکرم (ص) پر درود و سلام بھیجا اور فرمایا:

"بخدا میری زندگی اس حال میں ہے کہ میں تمھاری زندگی کو دوست نہیں رکھتی اور تمھارے مردوں سے بیزار ہوں، انہیں آزمانے کے بعد چھوڑ دیا ہے اور ان کی بدنیتیوں اور بری عادتوں کی بنا پر ان سے دوری اختیار کر لی ہے۔”

کتنی بری بات ہے کہ انسان ہدایت یافتہ ہونے کے بعد بھی ضلالت و گمراہی کے راستے پر چلے، حق اور نور و ہدایت کو حاصل کرنے کے بعد ظلمتوں اور تاریکیوں میں جا پھنسے، وائے ہو ان لوگوں پر جو حق و حقیقت کی راہ اور پیغمبر اکرم کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں! اور پیغمبر اکرم (ص) کے ابن عم (علی) (ع) سے کنارہ کشی کر لیں، وہ علی (ع) جو باب مدینة العلم، مظہر تقویٰ و عدالت، صاحب شجاعت و حقیقت ہیں۔

"کس قدر برا ہے (دنیا میں بھی) کہ خدا ان پر غضبناک ہوا اور آخرت میں بھی وہ عذاب میں رہیں گے۔”

ان لوگوں نے کس طریقے سے میرے ابن عم علی ابن ابی طالب (ع) کو تنہا چھوڑ کر خلافت کی مہار دوسروں کے گلے میں ڈال دی اور آپ کی مخالفت کر کے جدا ہو گئے، اور ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

واقعاً افسوس کا مقام ہے کہ میرے ابن عم کو خانہ نشین بنا دیا اور ان کے قتل کے درپے ہو گئے، اور واقعاً تعجب ہے کہ انھوں نے رسالت کے ستون اور بنیاد کو چھوڑ دیا، وحی کی جگہ نزول کو ترک کر دیا اور دنیا کے لئے دین میں اختلاف کر ڈالا، "آگاہ ہو جاؤ کہ یہی لوگ خسارے میں ہیں۔”

خدا کی قسم! ان سے دوری کی وجہ ان کی تلوار سے خوف و وحشت تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت علی (ع) قوانین اسلامی کو جاری کرنے اور حق و حقیقت کے فیصلے کرنے میں ذرہ برابر بھی رعایت نہیں کرتے ہیں، اور تمام تر شدت اور کمالِ شجاعت و استقامت سے خداوند عالم کے احکام کو تمام چیزوں میں جاری کرتے ہیں۔

اور اگر وہ لوگ حضرت کی پیروی کرتے تو وہ راہِ مستقیم اور ہمیشہ کی سعادت و دائمی خوشبختی کی طرف ہدایت کرتے، اور دیکھتے کہ علی ابن ابی طالب (ع) ان کو بہترین طریقہ سے سیراب کرتے اور ان کو بھوک سے نجات دیتے، اور ان کی مشکلات کو دور کرتے، اس طرح سے لوگوں کے ساتھ برتاؤ کرتے کہ صادق اور کاذب (جھوٹے) میں تمیز ہو جاتی اور زاہد اور لالچی میں پہچان ہو جاتی۔

"اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور پرہیزگار بنتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں (کے دروازے) کھول دیتے، مگر (افسوس) ان لوگوں نے (ہمارے پیغمبروں کو) جھٹلایا تو ہم نے بھی ان کی کرتوتوں کی بدولت ان کو (عذاب میں) گرفتار کیا۔”

"اور جن لوگوں نے نافرمانیاں کی ہیں، انہیں بھی اپنے اپنے اعمال کی سزائیں بھگتنی پڑیں گی اور یہ لوگ خدا کو عاجز نہیں کر سکتے۔”

"آگاہ ہو جاؤ کہ مجھے زمانے پر تعجب نہیں ہے اور اگر تمہیں تعجب ہے تو دیکھ لو کہ (حق سے منحرف) ان لوگوں نے کس راستے کا انتخاب کیا، کس دلیل کے ذریعے استدلال کیا اور کن باتوں پر بھروسہ کیا، اور کس بل بوتے پر اقدام کیا اور غالب ہو گئے، کس کا انتخاب کیا اور کس (عظیم شخصیت) کو چھوڑ دیا۔”

"بے شک ایسا مالک بھی برا ہے اور ایسا رفیق بھی برا ہے۔”

"اور ظالموں کو برا ہی بدلا دیا جائے گا۔”

"تم لوگوں نے کمزوروں کو طاقتور بنا دیا اور کمزوری کو طاقت سے بدل دیا، مغلوب اور ذلیل وہ قوم جو اس خیال خام میں ہے کہ وہ یقیناً اچھے اچھے کام کر رہے ہیں۔”

"بے شک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔”

"جو تمہیں دینِ حق کی راہ دکھاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کی جائے یا وہ شخص جو (دوسرے) کی ہدایت تو درکنار، خود ہی جب تک دوسرا اسے راہ نہ دکھائے، راہ دیکھ نہیں پاتا، تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟”

"اپنی جان کی قسم، ان لوگوں کے کارناموں کے نتائج برے نکلے، جس کی بنا پر انہیں شدید فتنہ و فساد سے دوچار ہونا پڑا، اور زہرِ ہلاہل پینا پڑا، پس باطل خسارے میں ہیں اور باطل کے چہرے بے نقاب ہوگئے، آخرکار اس فتنہ و فساد کی بنیاد ڈالنے والے خود ہی اس کا مزہ چکھیں گے، وہ یہ فتنہ برپا کرکے مطمئن ہوگئے۔‘‘

’’کیونکہ ظالموں نے ہی اس آگ کو بھڑکایا، ننگی تلواریں چھوڑیں، یہاں تک کہ ایک دوسرے پر غلبہ کرنے لگے، اور تمہارے گروہ کو حقیر سمجھا گیا اور تمہارا سب کچھ برباد کر دیا گیا، واقعاً افسوس کا مقام ہے، خدا تمہاری ہدایت کرے، تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں، ‘تو کیا میں اس کو (زبر دستی) تمہارے گلے میں منڈھ سکتا ہوں؟'”

"سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ یہ خطبہ سن کر عورتیں واپس چلی گئیں اور سب کچھ اپنے مردوں سے بیان کیا، تو ان میں سے مھاجرین و انصار کے بعض لوگ عذر خواہی کے لئے بی بی دو عالم کے پاس آئے اور کہا: ‘اے سیدۃ نساء العالمین، اگر ہماری بیعت سے پہلے ابوالحسن نے ہم کو یہ سب کچھ بتایا ہوتا تو پھر ہم ایسا نہ کرتے اور آپ سے دور نہ ہوتے، (یعنی سقيفہ میں بیعت نہ کرتے)’۔”

"تب حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا: تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ کیونکہ تمہاری خطائیں قابلِ بخشش نہیں ہیں۔”

 

ب: خطبے کے اہم موضوعات

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ جو انھوں نے مدینے کی خواتین کے سامنے دیا، ان کے زمانے کی سیاسی و اجتماعی صورتحال کا گہرا تجزیہ تھا، اور اس میں کئی اہم نکات اور پیغامات موجود ہیں جو آج بھی انسانوں کے لئے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ مدینے کی خواتین کو دیے گئے اس خطبے میں حضرت فاطمہ زہرا (س) نے کئی اہم موضوعات پر روشنی ڈالی، جن کا مفہوم نہ صرف ان کے دور کے لوگوں کے لئے تھا، بلکہ اس میں آج کے انسانوں کے لئے بھی عبرت اور رہنمائی موجود ہے۔

۱۔ دنیوی زندگی سے بیزاری

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مدینے کی خواتین کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ دنیوی زندگی سے بے زار ہیں اور اس کی فریبکاری کی وجہ سے اس سے مکمل طور پر کنارہ کش ہوچکی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ دنیا کی فانی حیثیت انسان کو آخرت کی تیاری کی جانب متوجہ کرتی ہے اور انسان کو اس کی مادی لذتوں کے بجائے روحانی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔

۲۔ ظالموں کی مذمت

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس خطبے میں ان لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو ظالموں کے پیچھے چل پڑے تھے اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ حضرت فاطمہ (س) نے ان لوگوں کو فاسق اور ظالم قرار دیا، جو حضرت علی (ع) کی امامت کو چھوڑ کر دیگر لوگوں کی پیروی کرنے لگے تھے۔

۳۔ حضرت علی (ع) کی عظمت کا ذکر

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مدینے کی خواتین کے سامنے حضرت علی (ع) کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر لوگ حضرت علی (ع) کی رہنمائی میں چلتے تو وہ سچائی اور عدل کی راہ دکھاتے۔ حضرت علی (ع) کی شجاعت، صداقت، اور دین کے لئے ان کی پابندی کا ذکر کرتے ہوئے، حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ان کی رہبری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

۴۔ نافرمانوں کی سزا کا تذکرہ

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے واضح کیا کہ جن لوگوں نے خدا اور اس کے پیغمبر (ص) کے راستے کو چھوڑا، ان کے اعمال کا نتیجہ بھیانک ہوگا اور اللہ کی جانب سے انھیں سزا ملے گی۔ انھوں نے مدینے کی خواتین کو متنبہ کیا کہ جو لوگ اس فریب میں آ کر ظلم کرتے ہیں، ان کے لئے دنیا و آخرت میں سزا تیار ہے اور یہی عذات دنیا میں گمراہی اور آخرت میں جہنم کی صورت میں ملے گا۔

۵۔ معاشرتی اور سیاسی تنقید

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس وقت کی سیاسی صورتحال پر تنقید کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ کس طرح خلافت اور حکومتی معاملات کو لوگوں نے اپنی خواہشات کے مطابق چلایا۔ انھوں نے بتایا کہ حضرت علی (ع) کی حقانیت کو نظر انداز کرکے، لوگ خود کو ظلم اور فساد کی طرف دھکیل چکے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) تعجب کا اظہار کرتی ہے کہ راندگان درگاہ حق سے ہدایت کی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔

۶۔ خلافت اور امامت کا حق

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا یہ پیغام تھا کہ خلافت اور امامت کا حق حضرت علی (ع) کو حاصل تھا اور لوگوں کا ان سے انکار کرنا در اصل اللہ کی مرضی کے خلاف تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر لوگ حضرت علی (ع) کی رہنمائی میں ہوتے تو دنیا اور دین میں ان کے لئے برکتیں اور کامیابیاں ہوتیں اور اس طرح انھیں دنیا میں خوشیاں ملتی اور آخرت میں سعادت۔

۷۔ منافقوں کی حقیقت

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے منافقوں کے کردار کو بے نقاب کیا اور ان کی حقیقت کو مدینے کی خواتین کے سامنے پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ دین کے علم کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ درحقیقت جھوٹے ہیں اور ان کے اندر تقویٰ اور صداقت کا فقدان ہے۔

اہم نکتہ و درس: حضرت فاطمہ زہرا (س) کا یہ خطبہ ان کی فطرت، صداقت، شجاعت، اور علم کی گواہی ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے پیروکاروں کو عدل، صداقت، اور اللہ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا پیغام دیا ہے۔ اس خطبے میں جو پیغام تھا، وہ آج بھی انسانوں کے لئے ایک عقیدتی اور فکری رہنمائی کا ذریعہ بنے گا۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی یہ باتیں مدینے کی خواتین کے لئے ایک عہد کی پختگی اور قیادت کی اہمیت کو سمجھانے کا ذریعہ تھیں اور ان کی زندگی کا یہ درس ہمیشہ ہمارے لئے رہنمائی کا سبب رہے گا۔

 

ج: خطبے کے ممکنہ سیاسی نتائج

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ مدینے کی خواتین کے سامنے، ان کے دور کے سیاسی اور سماجی مسائل پر گہرا اثر چھوڑا۔ اس خطبے کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) نے اپنی قوم کو دینی اور اخلاقی رہنمائی فراہم کی اور ایک مضبوط سیاسی پیغام بھی دیا۔

۱۔ خلافت و امامت کے مسئلے کی وضاحت

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مدینے کی خواتین کے سامنے خلافت و امامت کے مسئلے کو واضح کیا اور بتایا کہ خلافت کا حق حضرت علی (ع) کا ہے۔ آپ نے اس بات کو کھل کر بیان کیا کہ حضرت علی (ع) کے علاوہ کوئی اور شخص خلافت کے لئے اہل نہیں تھا۔ اس خطبے کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) نے مدینے کی خواتین کو اس بات کا شعور دیا کہ خلافت کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی بنیادوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پیغام نے ان لوگوں کے ظلم و فساد کو بے نقاب کیا جو غیر قانونی طور پر خلافت پر قابض ہو گئے تھے۔

اس خطبے کے ذریعے حضرت فاطمہ (س) نے مسلمانوں کو ایک درست سیاسی سمت دینے کی کوشش کی اور ان کے ذہنوں میں خلافت کے حقیقی حق کو اجاگر کیا۔

۲۔ علی (ع) کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنا

حضرت فاطمہ (س) نے مدینے کی خواتین کے سامنے حضرت علی (ع) کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے حضرت علی (ع) کی شجاعت، عدلت اور علمیت کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ ایک حقیقی رہنما ہیں جن کی پیروی کرنا مسلم معاشرت کی فلاح کے لئے ضروری ہے۔ حضرت فاطمہ (س) کے اس پیغام سے حضرت علی (ع) کی سیاسی حیثیت مضبوط ہوئی، اور مدینے کی خواتین میں ان کے رہنما کے طور پر مقام مزید مستحکم ہوا۔

۳۔ ظلم و فساد کے خلاف احتجاج

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مدینے کی خواتین کے سامنے اس بات کا واضح اظہار کیا کہ ظلم و فساد کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تک ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے، انصاف کا قیام ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اںصاف حاصل کرنے کی قیمت ادار کرنا ضروری ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے مدینے کی خواتین کو بتایا کہ خاموش رہنا ظلم کا مقابلہ نہیں ہے۔ اس خطاب نے مدینے کی خواتین میں ظلم و فساد کے خلاف ایک سیاسی بیداری پیدا کی اور لوگوں میں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کا جذبہ پیدا ہوا۔

۴۔ عوام کی سیاسی بصیرت میں اضافہ

حضرت فاطمہ (س) نے مدینے کی خواتین کو سیاسی بصیرت سے آراستہ کرنے کی کوشش کی۔ آپ نے واضح طور پر بتایا کہ سیاسی فیصلے کس طرح فرد یا گروہ کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ عوام کی خاموشی اور عدم شرکت ظلم و فساد کو جنم دیتی ہے۔ یوں ظالموں کی ہمت بڑھ جاتی ہے اور مظلوموں کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔

اس خطاب نے مدینے کی خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا اور انھیں اس بات کا احساس دلایا کہ سیاست اور حکمرانی صرف حکمرانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔ حضرت فاطمہ (س) نے انھیں بتایا کہ وہ اپنے رہنماؤں کو درست طریقے سے منتخب کریں اور سیاست میں حصہ لیں۔

۵۔ خواتین کو سیاسی میدان میں شامل کرنا

حضرت فاطمہ زہرا (س) نے مدینے کی خواتین کو خاص طور پر مخاطب کیا تاکہ وہ اپنے سیاسی اور دینی حقوق سے آگاہ ہوں اور اس میں شریک ہوں۔ آپ نے مدینے کی خواتین کو یہ باور کرایا کہ ان کا کردار صرف گھریلو سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ سیاسی میدان میں بھی مؤثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

حضرت فاطمہ (س) کے اس خطاب نے مدینے کی خواتین میں سیاسی شعور پیدا کیا اور انھیں ترغیب دی کہ وہ صرف گھریلو سطح تک محدود نہ رہیں بلکہ اجتماعی معاملات میں بھی فعال کردار ادا کریں۔ اس سے خواتین کی سیاسی حیثیت میں اضافہ ہوا اور انھوں نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا شروع کی۔

۶۔ خودمختاری اور انصاف کا مطالبہ

حضرت فاطمہ (س) نے اپنے خطبے میں حق اور انصاف کا مطالبہ کیا اور نیز مسلمانوں کو اپنے حقیقی اور واقعی اصولوں پر قائم رہنے کی ترغیب دی۔ آپ نے ظلم و فساد کے خاتمے کے لئے خودمختاری کا مطالبہ کیا اور لوگوں کو ان کے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔ حضرت فاطمہ (س) کا یہ خطاب ایک تحریک بن گیا جس نے مسلم معاشرے میں خودمختاری، انصاف اور برابری کے اصولوں کو اہمیت دی۔ اس سے مدینے کی خواتین اور دیگر افراد میں سیاسی طور پر متحد ہونے کا جذبہ پیدا ہوا۔

اہم نکتہ و درس: حضرت فاطمہ (س) کا یہ خطبہ مدینے کی خواتین کے لئے ایک سیاسی، سماجی، اور مذہبی نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے اس کے ذریعے دینی اور اخلاقی طور پر بیداری پیدا کی اور نیز ایک مضبوط سیاسی پیغام بھی دیا۔ اس کے ممکنہ نتائج نے مسلم معاشرے میں اہم تبدیلیاں لائیں، اور لوگوں کو اپنی سیاسی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ مدینے کی خواتین کے لئے یہ خطبہ ایک سنگ میل تھا جس نے انھیں اپنے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا اور ان کی سیاسی حیثیت کو مستحکم کیا۔

خاتمہ

حضرت فاطمہ زہرا (س) کا خطبہ مدینے کی خواتین کے لئے ایک اہم پیغام تھا جس نے نہ صرف ان کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا بلکہ انہیں اپنے حقوق اور فردی ذمہ داریوں کا شعور بھی دیا۔ آپ نے اس خطبے کے ذریعے خواتین کو یقین دلایا کہ وہ صرف گھریلو امور تک محدود نہیں بلکہ ان کا کردار سیاسی و اجتماعی میدان میں بھی بہت اہم ہے۔ حضرت فاطمہ (س) کی یہ باتیں آج بھی مدینے کی خواتین کی طرح ہم سب کے لئے ایک رہنمائی کا ذریعہ ہیں، جو ہمیں ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنے حقوق کے لئے لڑنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

تألیف

برکت اللہ سینوی؛
کتاب خطبات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، ترجمہ اقبال حیدر حیدری، قم ایران، موسسہ امام علی علیہ السلام (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین) سے اقتباس کرتے ہوئے۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے