عباسی خلفاء کی شیعہ رہبروں پر کڑی نگرانی

عباسی خلفاء کی شیعہ رہبروں پر کڑی نگرانی

2025-09-30

18 بازدید

کپی کردن لینک

عباسی خلفاء کے مختلف ادوار میں شیعہ سیاست اور حالات میں مد و جزر دیکھنے کو ملتا ہے۔ منصور، ہارون رشید، اور متوکل جیسے سخت گیر خلفاء نے شیعوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے، جبکہ مہدی عباسی اور مامون جیسے حکمرانوں نے نسبتاً نرم رویہ اپنایا۔ اس کے باوجود، عباسی خلفاء کا مجموعی رجحان یہی تھا کہ وہ شیعہ رہیری کو محدود کریں اور انہیں حکومتی معاملات میں اثر و رسوخ حاصل نہ ہونے دیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ تشیّع کو عباسی دور میں مسلسل دباؤ اور سختیوں کا سامنا رہا۔

عباسی حکومت نے ٣٢٩ھ تک کلی طور پر ایرانی وزراء اور افسروں نیزترک فوجیوں کی برتری کے دو دور گزارے ہیں، اگرچہ ترکوں کے دور میں خلافت کی باگ ڈور ضعیف رہی اور زیادہ تر عباسی خلفاء کے افسر اور نمائندے ترک تھے، اور کلی طور پر حکومت کی سیاست شیعوں کے خلاف تھی۔

عباسی خلفاء کے دور میں تشیّع کے زیادہ پھیلنے کی بنا پر عباسی خلفاء کی سیاست یہ تھی کہ شیعہ قائدین پر سخت نظر رکھی جائے، اگرچہ شیعوں کے سلسلہ میں عباسی خلفاء کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف تھا بعض ان میں سے جیسے منصور، ہادی، رشید، متوکل، مستبد حد درجہ سخت گیر اور خون بہانے والے تھے۔

ان میں سے بعض دوسر ے جیسے مہدی عباسی، مامون واثق اپنے پہلے عباسی خلفاء کی طرح بہت زیادہ سخت گیر نہیں تھے اور ان کے زمانہ میں شیعہ کسی حد تک آرام کی سانس لے رہے تھے۔

۱۔ منصور عباسی اور شیعہ قیادت

جس وقت منصور عباسی کو محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم کی طرف سے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے ان کے باپ، بھائیوں، اور چچاؤں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔[1] منصور نے بارہا امام صادق (ع) کو دربار میں بلوایا اور ان کے قتل کا ارادہ کیا، لیکن اللہ کا ارادہ کچھ اور تھا۔

ابن جوزی نقل کرتا ہے کہ جس وقت منصور مکہ کے ارادے سے مدینہ میں وارد ہوا، ربیع حاجب سے کہا، جعفر بن محمد (ع) کو حاضر کرو۔ خُدا مجھ کو مار ڈالے اگر میں ان کو قتل نہ کروں۔ ربیع نے حضرت (ع) کے حاضر کرنے میں سُستی برتی، منصور کے فشار کی وجہ سے ربیع نے حضرت کو حاضر کیا۔

جس وقت امام (ع) حاضر ہوئے اس وقت آپ نے آہستہ آہستہ اپنے لبوں کو حرکت دی، جب منصور کے نزدیک پہنچے اور آپ نے سلام کیا تو منصور نے کہا: اَے خُدا کے دشمن! نابود ہو جا، ہماری مملکت میں خلل واقع کرتا ہے۔ خُدا مجھ کو مار ڈالے، اگر میں تم کو قتل نہ کروں، امام صادق (ع) نے فرمایا:

سُلیمان پیغمبر (ع) کو سلطنت ملی تو نہوں نے خدا کا شکر ادا کیا، ایوب (ع) نے مصیبت دیکھی اور صبر کیا، یوسف (ع) مظلوم واقع ہوئے تو ظالموں کو بخش دیا، تم ان کے جانشین ہو، بہتر ہے کہ ان سے عبرت حاصل کرو۔ منصور نے اپنے سر کو نیچے جھکا لیا۔ دوسری بار اپنے سر کو اُٹھا کر یہ کہا:

آپ ہمارے قرابت داروں اور رشتہ داروں میں سے ہیں، اس کے بعد اس نے حضرت (ع) کو عزّت دی، معانقہ کیا اور آپ کو اپنے نزدیک بٹھا کر آپ سے بات کرنے میں مشغول ہوگیا۔ پھر ربیع سے کہا: جتنی جلدی ہو سکے، انعام و اکرام اور جعفر بن محمد (ع) کے لباس کو لے آؤ اور ان کو رخصت کرو۔ جس وقت حضرت (ع) باہر نکلے ربیع آپ کے پیچھے پیچھے آیا اور آپ سے کہا:

میں تین دن سے آپ کی طرف سے دفاع اور مدارا کر رہا تھا۔ آپ (ع) جب آئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کے لب حرکت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے منصور آپ کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکا۔ چونکہ میں سُلطان کا کارندہ ہوں اِس دُعا کا محتاج ہوں، چاہتا ہوں کہ آپ مجھ کو یہ دُعا تعلیم فرمائیں حضرت نے فرمایا: یہ کہہ:

اَللّهمّ احرِسنی بِعینِکٔ الّتِی لَا تنام وَ اَکنِفنِی بکنَفِکٔ الّذِی لَا یرامُ اَو یَضامُ وَ اغْفِر لِی بِقْدرَتِکَٔ عَلیَّ وَ لا اَهْلِکٔ وَ اَنْتَ رَجَائیِ اللّهُمَ اِنَّکَٔ اَکْبَرُ وَ اَجَلُّ مِمَّنْ اخَافُ وَ اَحذَرُ اَللّهُمَ بِکَٔ اَدفَعُ فِی نَحْرِهِ و اَ سْتعِیذ بِکَٔ مِنْ شَرِه

بارالٰہا! تیری آنکھوں کی قسم! کہ جو سوتی نہیں، میری حفاظت کر اور تجھے اس قدرت کا واسطہ! کہ جو ہدف بلا قرار نہیں پاتی۔ مجھے اس چیز سے محفوظ رکھ اور میں ہلاک نہ کیا جاؤں۔ کیونکہ تو ہی میری اُمید کا سر چشمہ ہے۔ بارالٰہا! وہ فراوان نعمتیں کہ جو تو نے مجھے دی ہیں، میں ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرسکا اور تو نے مجھ کو ان نعمتوں سے محروم نہیں کیا۔

بہت سی وہ بلائیں کہ جس میں تو نے مجھے مبتلا کیا اور میں نے کم صبری کا مظاہرہ کیا، اس سے تومجھے نجات دے، بار الٰہا! تیری قدرت کے دفاع اور پشت پناہی سے ہی اس کے شر سے محفوظ رہ سکتا ہوں اور اس کے شر سے تجھ سے پناہ چاہتاہوں۔[2]

مجموعی طور عباسی خلفاء کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ شیعہ رہنماؤں کو، جو ان کے رقیب ہوا کرتے تھے، راستے سے ہٹا دیں۔ یہاں تک کہ منصور نے ابن مہاجر نامی ایک شخص کو کچھ رقم دے کر مدینہ بھیجا تاکہ وہ عبداللہ ابن حسن، امام صادق (ع)، اور دیگر علویوں کے پاس جائے اور ان سے کہے کہ وہ خراسان کے شیعوں کی طرف سے آیا ہے اور رقم ان کے حوالے کر کے ان سے دستخط لے لے۔

امام صادق (ع) نے اس کو اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ تم کو منصور نے بھیجا ہے اور اس سے تاکید کی کہ منصور سے جا کر کہنا: علویوں کو ابھی کچھ عرصہ سے مروانی حکومت سے نجات اور راحت ملی ہے اور انہیں ابھی اس کی ضرورت ہے، ان کے ساتھ حیلہ اور فریب نہ کر۔[3]

اسد حیدر کہتے ہیں: منصور نے امام صادق (ع) کو ختم کرنے کے لئے مختلف وسیلوں کا سہارا لیا اور شیعوں کی طرف سے ان کو خط لکھوایا اور ان کی طرف سے آپ کی خدمت میں کچھ مال بھیجا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔[4]

جس وقت منصور کو امام صادق (ع) کی شہادت کی خبر ملی تو اس نے مدینہ کے حاکم محمد بن سلیمان کو خط لکھا کہ اگر جعفر بن محمد (ع) نے کسی معین شخص کو اپنا وصی قرار دیا ہے تو اس کو پکڑ لیا جائے اور اس کی گردن اُڑا دی جائے، تو مدینہ کے حاکم نے اس کے جواب میں لکھا: جعفر بن محمد (ع) نے ان پانچ افراد کو اپنا وصی قرار دیا ہے: ابو جعفر منصور، محمد بن سلیمان عبداللہ، موسیٰ اور حمیدہ، اس وقت منصور نے کہا: تب ان کو قتل نہیں کیا جاسکتا۔[5]

۲۔ مہدی عباسی کا دور اور شیعہ قیادت کی حالات

مہدی عباسی اپنے باپ کی طرح شیعوں اور علویوں کے لئے سخت گیر نہیں تھا۔ یعقوبی نقل کرتا ہے: مہدی جب خلیفہ ہوا تو اس نے دستور دیا جتنے بھی علوی زندان میں ہیں ان کو آزاد کر دیا جائے۔[6] اس وجہ سے اس کے زمانے میں کوئی بھی علوی قیام وجود میں نہیں آیا۔

ابوالفرج اصفہانی نے فقط دو کا ذکر کیا ہے کہ جو اس کے زمانے میں مارے گئے؛ ایک علی عبّاس حسنی کہ جن کو زہر کے ذریعہ قتل کیا گیا۔ دوسرے عیسیٰ بن زید کہ جن کی نامعلوم طریقہ سے موت واقع ہوئی۔ وہ منصور کے زمانے سے پوشیدہ طور پر زندگی بسر کر رہے تھے۔[7]

۳۔ ہادی عباسی کا دور اور شیعہ قیادت پر سختیاں

ہادی عباسی کے زمانے میں علویوں اور شیعوں کے بڑے قائدین پر شدید فشار تھا۔ جیسا کہ یعقوبی نے لکھا ہے: ہادی نے شیعوں اور طالبیوں پر بہت سختی کر رکھی تھی اور ان کو بہت زیادہ ڈرا رکھا تھا اور وہ وظائف اور حقوق کہ جو مہدی نے اپنے زمانے میں ان کے لئے مقرر کئے تھے ان کو قطع کر دیا اور شہروں کے حاکم اور فرمانرواؤں کو یہ لکھ بھیجا کہ طالبیوں کا تعاقب کریں اور ان کو گرفتار کر لیں۔[8]

اس غلط رویے کے خلاف اعتراض کرتے ہوئے حسین بن علی (شہید فخ) نے جو سادات حسنی سے تعلق رکھتے تھے، قیام کیا اور اس جنگ میں حسین کے علاوہ بہت سے علوی شہید ہوئے۔[9]

یہ جنگ امام کاظم (ع) پر شدید فشار کا باعث بنی۔ ہادی عباسی نے حضرت (ع) کو ڈرایا اور اس طرح سے کہا: خُدا کی قسم حسین (شہید فخ) نے موسیٰ بن جعفر (ع) کے دستور کی بنا پر میر ے مقابل قیام کیا ہے اور وہ اس نے ان کے تابع اور پیرو ہیں۔

کیوں کہ اس خاندان کا امام اور پیشوا موسیٰ بن جعفر (ع) کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ خُدا مجھے موت دیدے، اگر میں ان کو زندہ چھوڑدوں،[10] لیکن وہ اپنی موت کا وقت قریب آنے سے اپنے ارادہ کو نافذ نہ کر سکا۔

۴۔ ہارون رشید کا دور اور شیعہ قیادت پر سختیاں

دوسری صدی ہجری میں منصور کے بعد ہارون رشید علویوں اور شیعہ قائدین کے لئے سخت ترین خلیفہ تھا۔ ہارون علویوں کے ساتھ بے رحمانہ رفتار رکھتا تھا۔ اس نے یحییٰ بن عبداللہ محمد، نفس زکیہ، کے بھائی کو امان دینے کے بعد بے رحمانہ طریقہ سے زندان میں ڈالا اور قتل کروا دیا۔[11]

اسی طرح ایک داستان عیون اخبار الرضا میں ذکر ہوئی ہے جو ہارون رشید کی بے رحمی کی حکایت کرتی ہے، حمید بن قحطبہ طائی طوسی نقل کرتا ہے: ہارون نے ایک شب مجھ کو بلوایا اور حکم دیا کہ اس تلوار کو پکڑو اور اس خادم کے دستور پر عمل کرو۔

خادم مجھے ایک گھر کے پاس لایا جس کا دروازہ بند تھا، اس نے دروازہ کو کھولا اس گھر میں تین کمرے اور ایک کنواں تھا، اس نے پہلے کمرہ کو کھولا اور اس میں سے بیس سیّدوں کو باہر نکالا جن کے بال بلند اور گھنگھریلے تھے، ان کے درمیان بوڑھے اور جوان دکھائی دے رہے تھے اور ان سب کو زنجیر وں میں جکڑا گیا تھا۔

ہارون کے نوکر نے مجھ سے کہا: امیر المومنین کا دستور ہے کہ ان سب کو قتل کر دو۔ یہ سب اولاد علی (ع) اور اولاد فاطمہ (س) سے ہیں، میں ایک کے بعد دوسرے کو قتل کرتا گیا اور نوکر ان کے بدن کو سروں کے بل کنویں میں ڈالتا رہا، اس کے بعد اس نے دوسرے کمرہ کو کھولا اس کمرہ میں بھی بیس افراد اولاد علی (ع) اور اولاد فاطمہ (س) میں سے تھے میں نے ان کو بھی پہلے افراد کی طرح ٹھکانے لگا دیا۔

اس کے بعد تیسرے کمرہ کو کھولا اس میں دوسرے بیس افراد اہل سادات تھے۔ میں نے ان کو بھی پہلے والے چالیس افراد کے ساتھ ملحق کر دیا، صرف ایک بوڑھا شخص باقی رہ گیا تھا، وہ میری طرف متوجہ ہوا اور اس نے مجھ سے کہا:

اے منحوس آدمی! خُدا تجھے نابود کرے۔ روز قیامت ہمارے جد رسول خُدا (ص) کے سامنے کیا عذر پیش کرے گا۔ اس وقت میرے ہاتھ کانپنے لگے تو نوکر نے غضبناک آنکھوں سے مجھے دیکھا اور دھمکی دی تو میں نے بوڑھے آدمی کو بھی قتل کر دیا اور نوکر نے اس کا بدن بھی کنویں میں ڈال دیا۔[12]

آخرکار ہارون رشید نے امام کاظم (ع) کو باوجود اس کے کہ وہ ان کے مقام و مرتبہ کا قائل تھا، گرفتار کیا اور زندان مین ڈال دیا اور آخر میں ز ہر دے کر آپ کو شہید کردیا۔[13]

امام کاظم (ع) کی شہادت کے بعد ہارون رشید نے اپنے سرداروں میں سے ایک جلودی نامی شخص کو مدینہ بھیجا تاکہ آل ابی طالب کے گھروں پر حملہ کرے، اورعورتوں کے لباس لوٹ لے۔ ہر عورت کے لئے صرف ایک لباس چھوڑ دے۔ امام رضا (ع) دروازے پر کھڑے ہوگئے اور آپ نے عورتوں کو حکم دیا کہ تم اپنے اپنے لباس ان کے حوالے کرو۔[14]

۵۔ مامون عباسی کی چالاکیاں اور شیعہ قیادت کی حکمت عملی

مامون، عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ سیاست مدار تھا کہ جس نے شیعہ اماموں اور رہبروں پر پابندی کے لئے ایک نئی روش اختیار تاکہ ائمہ اطہار (ع) کو زیر نظر رکھ سکے۔ مامون کے مہم ترین انگیزوں میں سے ایک انگیزہ امام رضا (ع) کی ولی عہدی اسی مقصد کے لئے تھی۔

جیسا کہ مامون نے اِس سیاست کو دوسری بار امام جواد (ع) کے لئے بھی انجام دیا اور اپنی بیٹی کی شادی آپ کے ساتھ کر دی تاکہ مدینہ میں آپ کی فعالیت و سرگرمی پر نظر رکھ سکے۔

۶۔ مامون کے بعد آنے والے عباسی خلفاء کا رویہ

مامون کے بعد والے عباسی خلفاء نے بھی اس روش کو اختیار کیا اور ہمیشہ ائمہ معصومین (ع) حکومت کے جبر سے مرکز خلافت میں زندگی بسر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ دسویں اور گیارہویں امام (ع) سامرہ میں زندگی گزارنے کی وجہ سے جو ایک فوجی شہر تھا عسکریین (ع) کے نام سے مشہور ہو گئے۔

خاتمہ

عباسی خلفاء کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ان کے دور میں شیعہ ہمیشہ ایک سیاسی اور نظریاتی خطرہ سمجھے جاتے رہے، اور ان پر مختلف طریقوں سے نظر رکھی جاتی تھی۔ کبھی عباسی خلفاء نے براہِ راست قتل و غارت گری کا سہارا لیا، تو کبھی فریب اور چالاکی کے ذریعے انہیں نقصان پہنچایا گیا۔ لیکن اس کے باوجود، تشیّع کی تحریک نے اپنے سفر کو جاری رکھا اور بعد کے ادوار میں مزید مضبوطی کے ساتھ ابھری۔

 

حوالہ جات

[1]۔ مسعودی، مروج الذھب، ص٣٢٤۔

[2]. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ص٣٤٤۔

[3]۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج٤، ص٢٢٠۔

[4]۔ حیدر، الامام الصادق و المذاھب الاربعۃ، ج١، ص٤٦۔

[5]۔ طبرسی، اعلام الوریٰ، ج٢، ص١٣۔

[6]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٩٤۔

[7]۔ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص٣٤٢ ۔ ٣٦١۔

[8]۔ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ص٤٠٤۔

[9]۔ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص٣٦٦۔

[10]۔ مجلسی، بحار الانوار، ج٤٨، ص١٥١۔

[11]۔ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین، ص٣٨١ ۔ ٤٠٤۔

[12]۔ صدوق، عیون اخبار الرضا، ص١٠٩۔

[13]۔ طبرسی، اعلام الوریٰ، ج٢، ص٣٤۔

[14]۔ امین، اعیان الشیعۃ، ص٢٩۔

 

کتابیات

۱۔ ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، تذکرة الخواص، نجف اشرف عراق، المطبعة الحیدریۃ ومکتبتھا، ۱۳۸۳ھ۔
۲۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم ایران، مؤسسہ انتشارات علامہ، تاریخ ندارد۔
۳۔ ابن واضح، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، قم ایران، منشورات شریف الرضی، ۱۴۱۴ھ۔
۴۔ ابو الفرج اصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبین، قم ایران، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۶ھ۔
۵۔ امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت لبنان، دار التعارف للمطبوعات، ۱۹۸۳ء۔
۶۔ حیدر، اسد، الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ، بیروت لبنان، دار الکتاب العربی، ۱۴۰۳ھ۔
۷۔ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون اخبار الرضا، قم ایران، دار العلم، ۱۳۷۷ھ۔
۸۔ طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوریٰ، قم ایران، مؤسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، ۱۴۱۷ھ۔
۹۔ مجلسی، محمد باقر، بِحارُ الاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، بیروت لبنان، مؤسسۃ الوفاء، ۱۹۸۳ء۔
۱۰۔ مسعودی، علی بن حسین، مُروجُ الذَّهَب و مَعادنُ الجَوهَر، بیروت لبنان، منشورات الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۸۹ء۔

 

مضمون کا مأخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)

محرّمی، غلام حسن، تاریخ تشیّع ابتدا سے غیبت صغری تک، مترجم: سید نسیم رضا آصف، قم، مجمع جہانی اہل بیت (ع)، ١٤٢٩ھ ۔ ٢٠٠٨ء۔ (نسخہ اردو توسط شبکہ الامامین الحسنین)۔

کوئی تبصرہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے