- اسلام
- قرآن
- پیغمبراکرم اور اهل بیت
- اهل بیت(ع) کے بارے میں
- پیــغمبر اکرم(ص)
- حضرت امـــــام علــی(ع)
- حضرت فــاطمــه زهــرا(س)
- حضرت امـــام حســـن(ع)
- حضرت امام حسین(ع)
- حضرت امـام سجاد(ع)
- حضرت امام باقر(ع)
- حضرت امـــام صـــادق(ع)
- حضرت امــام کاظم(ع)
- حضرت امـام رضـا(ع)
- حضرت امــام جــــواد(ع)
- حضرت امـــام هـــادی(ع)
- حضرت امــام عســکری(ع)
- حضرت امـام مهـــدی(عج)
- نسل پیغمبر
- موضوعی آحادیث
- شیعہ
- گھرانہ
- ادیان اور مذاهب
- سوالات و جوابات
- کتاب شناسی
- ڈیجیٹل لائبریری
- ملٹی میڈیا
جناب مسلم بن عقیل کی زندگی پر ایک نظر
پیغمبراکرم اور اهل بیت , اهل بیت(ع) کے بارے میں , حضرت امام حسین(ع) , آپکےخطبے اور خطوط , آپ کا خانــدان- زمان مطالعه : 9 دقیقه
- توسط : سیدعلی حیدر رضوی
- 2024/09/19
- 0 رائ
اللہ سبحانہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ھزار نبیوں، بارہ اماموں کو بھیجا تاکہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چل کر اللہ کے مخلص بندہ بن سکیں، اور کچھ ایسے خاصانِ خدا بھی اس دنیا میں تشریف لائیں جو ائمہ معصومین علیھم السلام کے ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا ہدف اور مقصد بھی انسانوں کی ہدایت و نجات دینا تھا۔ جس میں سے ایک ذات جناب مسلم بن عقیل کی ہے۔ جناب مسلم بن عقیل کی شخصیت، قیام امام حسینؑ میں ایک اہم رول ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
جناب مسلم کون ہے؟
جناب مسلم، جناب عقیل بن ابی طالب کے بیٹے، حضرت امام علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ کے اصحاب میں سے ہیں اور حضرت رقیہ [1] بنت علیؑ کے شوہر ہیں۔ اور جنگ صفین میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور عبد اللہ بن جعفر کے ہمراہ لشکر امیر المومنینؑ کے ایک دستہ کے کمانڈر تھے۔ [2]
جناب مسلم بن عقیل کا مقام و منزلت
مرحوم آیت اللہ خوئی فرماتے ہیں: “جناب مسلم بن عقیل کا مقام و منزلت اس سے کہیں زیادہ بالاتر ہے کہ ان کی توصیف کی جاسکے وہ جنگ صفین میں لشکر امیر المومنینؑ کے دائیں بازو کے دستہ کے کمانڈر تھے”۔ [3]
اس بنا پر بعید نظر آتا ہے جسے آقای مامقانی نے تحریر کیا ہے کہ کوفہ روانگی کے وقت جناب مسلم بن عقیل کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ [4]
اس لئے کہ جنگ صفین ۳۷ ہجری میں ہوئی اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنگ صفین میں ان کی عمر ۱۰/سال سے بھی کمتر ہو !
دوسری طرف رسول خداﷺ نے حضرت علیؑ کو یہ خبر دی تھی کہ مسلم بن عقیل، حضرت امام حسینؑ کی محبت میں مارا جائے گا۔
شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب امالی میں یوں نقل کیا ہے کہ: “حضر ت علیؑ نے رسول خداﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا آپ عقیل سے محبت کرتے ہیں؟ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: ہاں! میں عقیل سے دو اعتبار سے محبت کرتا ہوں، ایک خود اس کی وجہ سے محبت کرتا ہوں اور ایک اس لئے کہ میرے چچا جناب ابوطالبؑ ان سے محبت کرتے تھے، اور اے علیؑ، عقیل کا فرزند مسلم، تمہارے فرزند حسینؑ کی راہ میں مارا جائے گا۔ مؤمنین اس پر اشک بہائیں گے اور خداوند متعال کی درگاہ میں سب سے مقرب فرشتے اس پر درود بھیجیں گے۔ اتنے میں رسول خداﷺ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو کر آپ کے سینہ مبارک پر بہنے لگے اور پھر رسول خداﷺ نےفرمایا: خدایا! میں اپنے بعد اپنے خاندان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر تیری بارگاہ میں شکایت کرتا ہوں”۔ [5]
جناب مسلم بن عقیل اور شجاعت
جناب مسلم بن عقیل، اخلاق اسلامی خصوصاً شجاعت، دلاوری اور جرائت کے پیکر تھے۔ جس کا نمونہ کوفہ میں دکھائی دیتا ہے۔ جب جناب مسلم بن عقیل کے دشمن محمد بن اشعث نے جناب مسلم بن عقیل کی تعریف کرتے ہوئے ابن زیاد سے کہا: “اے امیر! کیا تو نہیں جانتا کہ مجھے پوری انسانیت میں سے افضل ترین خاندان کے بہادر، شجاع شخص کی طرف بھیج رہا ہے جو کاٹنے والی شمشیر اور چنگھاڑ نے والے شیر کی طرح ہے۔؟ [6]
فضائل و مناقب کی بعض کتب کے اندر ذکر ہوا ہے کہ جناب مسلم بن عقیل، شیر کے مانند تھے اور ان کی طاقت کی علامت یہ تھی کہ ایک شخص کو بازو سے پکڑ کر چھت پر پھینک دیتے تھے۔ [7]
ایک اور مقام پر نقل ہوا ہے کہ حضرت امام حسینؑ نے جناب مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا اور وہ شیرکے مانند تھے۔ [8]
ان کی ہاشمی شجاعت کو بیان کرنے والے موارد میں سے ایک مورد وہ ہے کہ جب معاویہ نے مسلم بن عقیل سے کہا کہ مال دے دیں اور زمین لے لیں تو مسلم بن عقیل نے جواب میں فرمایا: مجھ سے دور رہ، جب تک کہ تلوار سے تیری گردن نہ اڑا دوں [9]!
کیا جناب مسلم کوفہ کی سفارت سے منصرف ہونا چاہتے تھے؟
طبری نے اپنی تاریخ اور شیخ مفیدؒ نے اپنی کتاب ارشاد میں لکھا ہے کہ جناب مسلم بن عقیل نے کوفہ جاتے وقت دوران سفر ایک شخص کو امام حسینؑ کے پاس بھیجا اور ان سے کوفہ کی سفارت سے عذر خواہی کی۔ اس داستان کا متن طبری کی روایت کے مطابق یوں ہے:
“جناب مسلم بن عقیل چلے یہاں تک کہ مدینہ جا پہنچے، مسجد النبیﷺ میں داخل ہوئے اور نماز ادا کی اپنے عزیز خاندان کو الوداع کیا اور پھر قبیلہ قیس کے دو افراد کو اجیر کیا تاکہ ان کی راہنمائی کریں۔ وہ دونوں راہنما مسلم بن عقیل کو لے کر چلے یہاں تک کہ راستہ بھٹک گئے اور ان پر پیاس نے غلبہ کیا تو کہنے لگے: آپ اس راستہ سے جائیں تاکہ پانی تک پہنچ جائیں اور نزدیک تھا کہ وہ دونوں پیاس کی شدت سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں”۔
شیخ مفیدؒ کی کتاب ارشاد کی روایت کے مطابق وہ دونوں راہنما راستہ میں ہی پیاس سے مر گئے تھے۔ اس وقت مسلم بن عقیل نے قیس بن مسہر صیداوی کو ایک نامہ لکھ کر امام حسینؑ کے پاس بھیجا؛ یہ حادثہ بطن خُبیت اور ارشاد کی روایت کے مطابق بطن خبت میں پیش آیا۔
(نامہ کا متن یوں تھا):
میں مدینہ سے دو راہنما ساتھ لیکر چلا لیکن وہ دونوں راستہ کھو بیٹھے اور پیاس نے ہم پر یوں غلبہ کیا کہ قریب تھا کہ اپنی جان دے بیٹھیں۔ لیکن آخری سانسیں تھیں کہ پانی تک جا پہنچے۔ یہ پانی بطن خبیت نامی گھاٹی میں ہے۔ میں نے اس حادثہ کو فال بد گمان کیا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو مجھے اس ذمہ داری سے معاف فرما کر کسی اور کو سفیر بنا کر بھیج دیں۔ والسلام
امام حسینؑ نے جواب میں یوں لکھ بھیجا:
مجھے خوف ہو رہا ہے کہ کہیں تمہارا یہ نامہ لکھنے اور ایسا مطالبہ کرنے کا مقصد صرف اور صرف خوف نہ ہو۔ لہذا آپ کو جہاں جانے کے لیے بھیجا گیا ہے اس کی طرف بڑھو۔ والسلام
مسلم بن عقیل نے نامہ پڑھنے والے سے (اور ارشاد کی روایت کے مطابق نامہ پڑھنے کے بعد) کہا: میں نے یہ بات اپنی جان کے خوف سے نہیں کہی تھی۔ [10]
جو شخص بھی جناب مسلم بن عقیل کے زندگی نامہ (اگرچہ کتب میں بہت ہی مختصر ذکر کیا گیا ہے) کا مطالعہ کرے اور پھر اس زمانہ کے عربوں کے عرف اور بنو ہاشم کی صفات سے تھوڑی سی بھی آشنائی رکھتا ہو تو وہ اس داستان کے دشمنان اہل بیت علیہم السلام کی جانب سے گھڑے جانے میں کبھی شک و تردید کا شکار نہیں ہوگا۔ جنہوں نے اس عظیم سفیر کی غلط تصویر پیش کرنے کے لیے ایسا کیا۔
جناب مسلم بن عقیل، حضرت علیؑ کی فوج میں میمنہ کے سپہ سالار تھے۔ جناب مسلم بن عقیل وہ شخص تھے جنہوں نے اس زمانہ میں اسلامی مملکت کے مطلق العنان حاکم معاویہ سے کہا کہ خاموش رہ ورنہ تیرا سر تن سے جدا کر دوں گا! جناب مسلم بن عقیل ایسے شخص تھے کہ جب امام حسینؑ سے یہ بات سنی کہ: امید ہے میں اور تم دونوں درجہ شہادت پر فائز ہوں۔ تو یہ یقین کر لیا کہ شہادت کی جانب بڑھ رہے ہیں اور امامؑ سے یوں الوداع کیا کہ گویا دوبارہ جنت میں ملاقات ہو گی۔ کیا ایسا دل جو سعادت سے ہمکنار ہونے کا یقین رکھتا ہو پھر بھی ڈرے گا؟ کیا ایسا شخص جو اپنے پروردگار، رسول خداﷺ اور اہل بیتؑ میں سے چلے جانے والے گذشتہ دوستوں کے دیدار کا مشتاق ہو وہ موت کے آثار کو دیکھ کر اسے فال بد قرار دے گا؟ کیا ایک لمحہ کے لیے بھی جناب مسلم بن عقیل گھبرائے ہیں؟ کوفہ میں جناب مسلم بن عقیل کا کرادار ان کے ثابت قدم اور مطمئن ہونے کی دلیل ہے اور وہ اپنے کام پر مکمل ایمان رکھتے تھے کہ جس میں سوائے معصوم امامؑ کے کوئی ان کی برابری نہیں کر سکتا۔ کیا ایک عقلمند انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ امام حسینؑ اس اہم ذمہ داری کو ایک ایسے ڈرپوک آدمی کے حوالے کردیں گے جو مسافروں کو پیش آنے والے روزمرہ کے حوادث کو دیکھ کر فال ہر سمجھ بیٹھے؟ اورپھر یہ کہ کیا یہ خُلق حسینی سے سازگار ہے کہ وہ اپنے چچازاد کو یوں خطاب کریں اور اسے ڈرپوک ہونے سے متہم کریں؟
جناب مقرم کہتے ہیں: جو شخص بھی جناب مسلم بن عقیل کی ولایت سید الشہداء کے بارے میں ذرا سا بھی غور کرے گا تو وہ ان کی ثابت قدمی، اطمینان، بے باکی اور ان کے موت سے نہ ڈرنے کا یقین کرلے گا۔ خاندان ابو طالب کے لیے راہ خدا میں مارے جانے اور شہادت سے بڑھ کر اور کون سی چیز اس قدر اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے؟ اگر جناب مسلم بن عقیل جنگوں میں خوف کھانے والے ہوتے تو سید الشہداء اس پر افتخار منصب سفارت کو کبھی بھی ان کے سپرد نہ کرتے جس کا لازمہ ان سب شرائط کا پایا جانا تھا۔
یہ داستان جسے راویوں نے نقل کیا اور ابن جریر طبری نے بھی جناب مسلم بن عقیل کا مقام کم کرنے کی خاطر اسے درج کردیا، سرے ہی سے بے اساس ہے اس لیے کہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کی تعلیمات کے سایہ میں ہدایت پانے والے افراد فال بد پر یقین ہی نہیں رکھتے اور نہ اسے اہمیت دیتے ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ایسی بات درست ہو؟
طبری کا جناب مسلم کے مقام کو مجروح کرنے کے لیے ایسی داستان نقل کرنا تعجب آور نہیں ہے۔ اس لیے کہ خاندان علیؑ کے بارے میں ایسے مطالب نقل کرنا ان کی عادت رہی ہے۔ لیکن تعجب انگیز یہ ہے کہ کس طرح صاحب نظر اور صاحب دقت محقق پر یہ بات مخفی رہی جبکہ وہ معتقد ہیں کہ ایسی داستانیں آل زبیر اور ان کے پیروکاروں کی گھڑی ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود اسے اپنی کتاب میں نقل کر دیا۔ [11]
ایسا لگتا ہے کہ جناب مقرم اصل داستان، راہنماؤں کے راستہ میں مر جانے اور جناب مسلم کے امام حسینؑ کو نامہ لکھنے اور امامؑ کے اس نامہ کے جواب کو قبول کرتے ہیں کیا لیکن فال اور جناب مسلم بن عقیل کی طرف ڈر و خوف کی نسبت کو من گھڑت اور بے بنیاد سمجھتے ہیں۔[12] جبکہ باقر قرشی اصل نامہ اور اس کے جواب کو ہی نہیں مانتے بلکہ اسے جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
ا۔ خبت نامی گھاٹی جہاں سے جناب مسلم بن عقیل نے امام حسینؑ کو نامہ لکھا۔ حمومی کے بقول وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے جبکہ روایت میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جناب مسلم نے مدینہ سے راہنما اجیر کیے تھے اور وہاں سے عراق کی جانب نکلے، راستہ کھو بیٹھے اور وہیں پر مر گئے۔ اس بنا پر واضح ہے کہ یہ حادثہ مدینہ اور عراق کے درمیان پیش آیا ہو نہ کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان۔ [13]
۲۔ چنانچہ اگر مدینہ اور عراق کے درمیان کوئی ایسا مقام ہو جس کا حموی نے ذکر نہیں کیا تو وہاں سے مکہ مکرمہ تک دس روز کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ جبکہ مورخین نے جناب مسلم بن عقیل کے سفر کو معین کرتے ہوئے ۲۰ دن بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ: انہوں نے پندرہ رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ سے سفر کا آغاز کیا اور پانچ شوال کو کوفہ جا پہنچے، جو مجموعا ۲۰ دن بنتے ہیں۔ اور یہ کمترین مدت ہے جس میں ایک مسافر مکہ سے مدینہ (اور وہاں سے کوفہ ) پہنچتا ہے۔ اگر اس مدت سے جناب مسلم بن عقیل کے قاصد کے آنے جانے کی مدت کو استثنا کیا جائے تو جناب مسلم بن عقیل کے مکہ سے کوفہ پہنچنے کی مدت دس دن سے بھی ہو جائے گی اور اس مدت میں اتنی مسافت طے کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہے۔
۳۔ اس نامہ میں امام حسینؑ نے انہیں ڈرپوک لکھا ہے جبکہ یہ مطلب امام حسینؑ کے اس نامہ کے مخالف ہے جو اہل کوفہ کو لکھا اور اس میں یہ کہا کہ میں تمہارے پاس ایسے شخص کو بھیج رہا ہوں میرے خاندان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والا اور میرے لیے قابل اعتماد ہے کیسے ممکن ہے کہ امام حسینؑ ان صفات کے باوجود انہیں ڈرپوک کہیں؟
جناب مسلم بن عقیل کو ڈرپوک کہنا ان کی عملی زندگی سے تناقض رکھتا ہے اس لیے کہ اس بہادر پہلوان نے اپنی بہادری اور شجاعت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا جب دشمن نے کوفہ میں آپ پر حملہ کیا تو کوئی آپ کی مدد کرنے والا نہیں تھا مگر اس کے باوجود اس جرأت سے لڑے کہ دشمن کے لشکر کی کثیر تعداد کو قتل کیا اور انہیں وحشت زدہ کر دیا۔ اور پھر جب انہیں اسیر کر کے ابن زیاد کے پاس لایا گیا تب بھی خوف اور شکست کا کوئی اثر آپ کے وجود پر ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔
بلاذری نے جناب مسلم بن عقیل کے بارے میں لکھا ہے کہ: وہ بنی عقیل کے شجاع ترین فرد تھے۔ [14] بلکہ ائمہ علیہم السلام کے بعد تاریخ ہاشمی میں ان سے بڑھ کر کوئی شجاع نہیں ہے۔ لہذا یہ ایک جعلی داستان ہے جسے عرب اور اسلام کے اس عظیم کمانڈر کے مقام کو پست دکھانے کے لیے گھڑا گیا۔ [15] “اس اعتبار سے ہم قرشی کے نظریہ کو مقرم کے نظریہ پر ترجیح دیتے ہیں اور ہمیں یہ یقین ہے کہ اصل نامہ، اس کا جواب اور بلکہ ایک قومی احتمال کے مطابق اصل داستان بھی درست نہیں ہے۔
نتیجہ
جناب مسلم بن عقیل شجاع اور بہادر خاندان سے تھے اور خود بھی بہادر اور شجاع تھے۔ اور بڑی عظمتوں کے حامل تھے اور مورد اعتماد شخص تھے جس کی وجہ سے امام حسینؑ نے انہیں اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا اور جناب مسلم بن عقیل کے خط کے سلسلہ میں جو مطالب بیان کئے گئے، دشمن ان کی عظمت کو پارہ پارہ کرنا چاہتا ہے اس وجہ سے غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے، جیسا کہ بعض دوسرے مورخین نے بھی ان کی شجاعت کی گواہی دی ہے اور جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے جو نامہ امام حسینؑ کو لکھا تھا وہ موت سے خوف کی وجہ سے نہیں تھا۔
حوالہ جات
[1]عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص۱۸، بلاذری،انساب الاشراف، ج۲، ص۸۳۰
[2]مجلسی،بحار الانوار، ج ۴۳، ص۹۳
[3]خوئی، معجم رجال الحدیث، ج ۱۸، ص۱۵۰
[4]مامقانی، تنقیح المقال، ج۳، ص۲۱۴
[5]مجلسی،بحار الانوار، ج ۲۲، ص ۲۸۸؛ صدوق، امالی، ص ۱۱۱
[6]قمی،نفس المهموم، ص 111
[7]قمی، نفس المهموم، ص 111
[8]مجلسی، بحار الانوار، ج ۴۴۴، ص۳۵۴
[9]مجلسی، بحار الانوار، ج۴۲، ص۱۱۶
[10]طبری،تاریخ طبری، ج۳، ص ۲۷۸؛ مفید،الارشاد، ص۱۲۰۴، دینوری، الاخبار الطوال،ص۲۳
[11]مقرم، مسلم بن عقیل، ص۱۳۸
[12]مقرم، مسلم بن عقیل، ص۱۱۱-۱۱۳
[13]یاقوت حموی، معجم البلدان، ج۲، ص۳۴۳
[14]بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۸۳۶
[15]قرشی، حياة الامام الحسین، ج۲، ص۳۴۳- ۳۴۴
منابع
۱-ابن بابویه، محمد بن علی، امالی، کتابچی، دسویں اشاعت، ۱۳۹۰
۲-بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، محمودی، محمد باقر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۰۰
۳-خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواة، مؤسسة الخوئي الإسلامية، 1372
۴-دینوری، ابوحنیفه احمدبنداود، الاخبار الطوال، منشورات الشريف الرضي، قم، ۱۳۷۳
۵-طبری، محمد بن جریر،تاریخ الطبری، اساطیر، تھران،۱۳۶۲
۶-علامہ مجلسی، بحار الانوار لدر الاخبار الائمۃ الاطھار، دار المعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۲۱
۷-عمری، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، کتابخانه عمومی حضرت آيت الله العظمی مرعشی نجفی (ره)، قم، 1380
۸-قرشی، باقر شریف، حياة الامام الحسینؑ، درسة العلمية الإيرواني، قم، 1413
۹-قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، دار الھجۃ البیضاء، بیروت، بغیر تاریخ کے
۱۰-مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، آل البیت، قم، ۱۳۹۲
۱۱-مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، المؤتمر العالمي لألفية الشيخ المفيد، قم، 1413
۱۲-مقرم، سید عباس رزاق، مسلم بن عقیل، سسة الخرسان للمطبوعات، بیروت، ۱۴۲۶.
۱۳-یاقوت حموی، یاقوت بن عبد اللہ، معجم البلدان، سازمان میراث فرهنگی کشور، اداره کل آموزش، انتشارات و تولید فرهنگی، تھران، ۱۳۸۰
مضمون کا مآخذ
امام حسینؑ کے مکّی ایّام، شیخ نجم الدین طبسی، ترجمہ ناظم حسین اکبر، دلیل ما، ۱۳۹۲