حضرت فاطمہ زہراء (ع) کی معنوی شخصیت ہمارے ادراک و توصیف سے بالاتر ہے۔ آپ (ع) کی معنوی شخصیت سمجھنے کے لئے ہم ان معصوم ہستیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو آپ (ع) کی معنوی شخصیت کو بہتر سمجھتی اور جانتی ہیں۔
تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ زہراء (ع) كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہے۔ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے۔ اور ان كا غصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اس كى ناراضگى شمار ہوتى ہے۔[1] ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميں كيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں؟
اس بناء پر، حضرت فاطمہ زہراء (ع) كى معنوی شخصيت كو معصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے۔ لہذا ہم آپ كى خدمت ميں حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے بارے ميں ائمہ معصومين (ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں:
1_ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: جبرئيل نازل ہوئے اور انہوں نے بشارت دى كہ ”حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں۔” [2]
2_ آنحضرت (ص) نے فرمايا: ”دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں: مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم۔ ( فرعون كى بيوي)” [3]
3_ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: ”خدا، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے۔”[4]
4_ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: ”اگر خدا، اميرالمؤمنين (ع) كو خلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا۔” [5]
5_ امام جعفر صادق (ع) سے سوال ہوا كہ: ”حضرت فاطمہ زہراء (ع) كا نام ”زہرا” يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ (ع) نے فرمايا كہ: ”جب آپ (ع) محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور، زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے۔” [6]
حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے پيغمبر (ص) كى مہر و محبت
حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے ساتھ پيغمبر اعظم (ص) كى مہر و محبت اتنى شديد تھى كہ اس كو پيغمبر (ص) كى زندگى كى تعجب خيز باتوں ميں سمجھنا چاہئے۔ رسول خدا (ص) تمام امور ميں معيار حق اور ميزان عدل و اعتدال تھے ان كى تمام حديثيں اور ان كے تمام اعمال يہاں تك كہ تقرير پيغمبر (ص) (يعني: ہر وہ كام كہ جس كو ديكھ كر آپ (ص) اپنى خاموشى سے اس كى تصديق كر ديتے) بھى شريعت كا حصہ اور حجت ہے، اور ضرورى ہے كہ يہ چيزيں، سارى امت كے اعمال كا قيامت تك نمونہ قرار پائيں۔ اس نكتہ پر توجہ كر لينے كے بعد، حضرت فاطمہ زہراء (ع) كى معنوى شخصیت اور كردار كى بلندى كو زيادہ بہتر طريقہ سے سمجھا جاسكتا ہے۔
پيغمبر اکرم (ص) اپنے خاندان حتى غيروں كے ساتھ بھى بڑى مہربانى اور نيكى سے پيش آتے تھے ليكن حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے آپ (ص) كو خصوصى محبت تھى اور فرصت كے مختلف لمحات ميں اس محبت كا صريحاً اعلان اور اس كى تاكيد فرماتے تھے۔
يہ اس بات كى سند ہے كہ حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور آنحضرت (ص) كے گھرانے كى سرنوشت، اسلام كے ساتھ ساتھ ہے اور پيغمبر اکرم (ص) اور حضرت فاطمہ زہراء (ع) كا تعلق صرف ايك باپ اور بيٹى كا ہى نہيں ہے۔ بلكہ پورى كائنات كے لئے آپ (ص) كى عملى تبليغ كا شعبہ آپ (ص) كى عملى سيرت سے ہى مكمل ہوتا ہے۔
اس مقام پر پيغمبر اکرم (ص) كى حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے مہر و محبت كے چند نمونوں كا ذكر كر دينا مناسب ہے۔
1_ امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں: پيغمبر اكرم (ص) ہميشہ سونے سے پہلے حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے چہرے كا بوسہ ليتے، اپنے چہرہ كو آپ (ع) كے سينہ پر ركھتے اور آپ (ع) كے لئے دعا فرماتے۔[7]
2_ پيغمبر اكرم (ص) نے حضرت فاطمہ زہراء (ع) كا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں ليكر فرمايا: ”جو انھيں پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا (وہ پہچان لے كہ) يہ فاطمہ محمد (ص) كى بيٹى ہيں، يہ ميرے جسم كا ٹكرا اور ميرا قلب و روح ہيں۔ جو ان كو ستائے گا وہ مجھے ستائے گا اور جو مجھے ستائے گا وہ خدا كو اذيت دے گا۔”[8]
3_ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں: ”رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ زہراء (ع) كو بوسہ ديتے تھے، جناب عائشہ نے اعتراض كيا، تو پيغمبر اکرم (ص) نے جواب ديا، ميں جب معراج پر گيا اور جنت ميں پہنچا تو ميں نے طوبى كے پھل كھائے اور اس سے نطفہ پيدا ہوا اور جب ميں زمين پر پلٹ كر آيا اور خديجہ (ع) سے ہمبستر ہوا تو فاطمہ (ع) كا حمل قرار پايا۔ اس لئے جب ميں فاطمہ كا بوسہ ليتا ہوں تو مجھے ان سے شجرہ طوبى كى خوشبو محسوس ہوتى ہے۔”[9]
حضرت فاطمہ زہراء (ع) کا ايمان و عبادت
پيغمبر اكرم (ص) نے حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے ايمان كے بارے ميں فرمايا: ”ان كے دل كى گہرائي اور روح ميں ايمان اس طرح نفوذ كئے ہوئے ہے كہ عبادت خدا کے لئے وہ اپنے آپ كو تمام چيزوں سے جدا كر ليتى ہيں۔”[10]
امام حسن مجتبى (ع) فرماتے ہيں: ”ميں نے اپنى والدہ ماجدہ، حضرت فاطمہ زہراء (ع) كو ديكھا كہ شب جمعہ محراب ميں سپيدہ سحرى تك عبادت ركوع و سجود ميں مشغول رہتى تھيں۔ ميں نے سنا كہ آپ (ع) صاحب ايمان مردوں اور عورتوں كے لئے تو دعا كرتى تھيں۔ مگر اپنے لئے كوئي دعا نہ مانگتى تھيں۔ ميں نے ان سے عرض كيا كہ جس طرح آپ دوسروں كے لئے دعا كرتى ہيں ويسے ہى اپنے لئے دعا كيوں نہيں فرماتيں؟ فرمانے لگيں ميرے لال، پہلے ہمسايہ پھر اپنا گھر۔”[11]
حسن بصرى كہا كرتے تھے كہ امت اسلامى ميں حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے زيادہ عبادت كرنے والا، كوئي اور پيدا نہيں ہوا وہ عبادت حق تعالى ميں اس قدر كھڑى رہتى تھيں كہ ان كے پائے مبارك ورم كر جاتے تھے۔[12]
حضرت فاطمہ زہراء (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے بعد
پيغمبر اكرم (ص) كى وفات كے وقت ان كا سر اقدس حضرت علي (ع) كى گود ميں تھا اور حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور حسن (ع) و حسين (ع) آپ (ص) كے چہرہ اقدس كو ديكھ ديكھ كر رو رہے تھے، آپ (ص) كى آنكھيں بند اور زبان حق خاموش ہوچكى تھى اور روح عالم ملكوت كو پرواز كر چكى تھي۔
رسول اكرم (ص) كى رحلت كے سبب، حضرت فاطمہ زہراء (ع) پر سارے جہاں كا غم و اندوہ ٹوٹ پڑا، حضرت فاطمہ زہراء (ع) جنہوں نے اپنى عمر كو مصيبت و آلام ميں گذارا تھا اور تنہا ان كى دلى مسرت باپ كا وجود تھا اس تلخ حادثہ كے پيش آنے كے بعد آپ (ع) كى سب اميديں اور آرزوئيں تمام ہوگئيں۔
حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے مجاہدات
ابھى رسول خدا (ص) كا جسم اقدس زمين پر ہى تھا كہ ابوبكر كى خلافت و جانشينى كى تعيين کے لئے لوگوں كے اجتماع سے حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے ذہن كو جھٹكا لگا، اس غم و غصہ كى كيفيت ميں تھكے ہوئے اعصاب كو چوٹ پہنچي۔
حضرت فاطمہ زہراء (ع) كہ جنہوں نے توحيد و خدا پرستي، مظلوم كے دفاع اور ظلم و ستم سے مقابلہ كرنے كے لئے تمام سختيوں، دشواريوں، بھوک اور وطن سے دور ہوجانے كى مصيبت كو برداشت كيا تھا وہ اس انحرافى روش كو برداشت نہ كرسكيں۔
حضرت فاطمہ زہراء (ع) اور على (ع) جب پيغمبر (ص) كے كفن و دفن سے فارغ ہوئے اور مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں انجام شدہ عمل سے دوچار ہوئے تو آپ لوگوں نے مدبرانہ اور زبردست مبارزہ كا ارادہ كيا تاكہ اسلام كو ختم ہونے اور مٹ جانے كے خطرہ سے بچاليا جائے ان كے مبارزات كے چند مراحل، ملاحظہ ہوں۔
پہلا مرحلہ
حضرت على (ع) نے يہ ارادہ كيا كہ خليفہ وقت كى بيعت نہيں كريں گے اور اس طرح آپ (ع) نے سقيفہ كى انتخابى حكومت كى روش سے اپنى مخالفت كا اظہار كيا۔ حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے بھى اس نظريہ كى تائيد فرمائي اور اس بات كا مصمم ارادہ كر ليا كہ شوہر پر آنے والے ہر ممكنہ خطرہ اور حادثہ كا واقعى دفاع كريں گي۔
انہوں نے اپنى اس روش كے ذريعہ ثابت كر ديا كہ تمام جنگيں تير و تلوار سے ہى نہيں ہوتيں، سب سے پہلے اسلام كا اظہار كرنے والے شخص كے خاندان كے افراد اور قريبى افراد كى بے اعتنائي اور حكومت وقت كى تائيد نہ كرنا اس كے غير قانونى ہونے كى سب سے بڑى اور بہترين دليل ہے۔
حضرت فاطمہ زہراء (ع) جانتى تھيں كہ على (ع) كے حق كے دفاع ميں اس طرح كى جنگ كا نتيجہ رنج اور تكليف ہے۔ ليكن انہوں نے تمام دكھوں اور تكليفوں كو خندہ پيشانى سے قبول كيا اور اس جنگ كو آخرى مرحلہ تك پہنچايا۔
دوسرا مرحلہ
حضرت فاطمہ زہراء (ع) و حضرت على (ع)، جناب امام حسن (ع) و حسين (ع) كى انگلى پكڑے ہوئے مدينہ كے بزرگوں اور نماياں افراد كے پاس جاتے اور ان كو اپنى مدد كى دعوت ديتے اور انہيں پيغمبر اكرم (ص) كى وصيتوں اور ارشادات كو ياد دلاتے تھے۔[13]
حضرت فاطمہ زہراء (ع) فرماتى تھيں ”اے لوگو كيا ميرے باپ (ص) نے على (ع) كو خلافت كے لئے معين نہيں فرمايا تھا؟ كيا تم ان كى قربانيوں كو بھول گئے؟ … كيا ميرے باپ (ص) نے يہ نہيں فرمايا تھا كہ، ميں تمہارے درميان سے جارہا ہوں مگر دو گرانقدر چيزيں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان سے تمسك كرو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوں گے ايك كتاب خدا، اور دوسرے ميرے اہل بيت (ع) ہيں، اے لوگو كيا يہ مناسب ہے كہ تم ہم كو تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ اٹھا لو؟”[14]
تيسرا مرحلہ
زمام حكومت سنبھالنے كے بعد ابوبكر نے حضرت فاطمہ زہراء (ع) سے ”فدك”[15] لينے كا ارادہ كيا اور حكم ديا كہ فدك ميں كام كرنے والوں كو نكال باہر كيا جائے اور ان كى بجائے دوسرے كاركنوں كو وہاں مقرر كر ديا۔[16]
فدك كو قبضہ كرنے كے وجوہات ميں سے ايك وجہ يہ تھى كہ وہ لوگ اس بات كو بخوبى جانتے تھے كہ حضرت على (ع) كے ذاتى فضائل و كمالات، ان كا علمى مقام اور ان كى فداكارياں قابل انكار نہيں ہيں، اور ان كے بارے ميں پيغمبر اکرم (ص) كى وصيتيں بھى لوگوں كے درميان مشہور ہيں اگر ان كى اقتصادى حالت بھى اچھى ہوگئي اور ان كے پاس پيسے آگئے تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كے ساتھ ہو جائے اور پھر خلافت كے لئے خطرہ پيدا ہو جائے۔
اس نكتہ كو ان باتوں ميں ديكھا جا سكتا ہے جو ابوبكر كو مخاطب كر كے عمر نے كہى ہيں: ”لوگ دنيا كے بندے ہيں اور سوائے دنيا كے ان كا كوئي مقصد نہيں ہے اگر خمس و بيت المال اور فدك كو على (ع) سے چھين لو تو پھر لوگ خود بخود ان سے عليحدہ ہو جائيں گے۔”[17]
جب حضرت فاطمہ زہراء (ع) ابوبكر كے اس اقدام سے مطلع ہوئيں تو انہوں نے سوچا كہ اگر اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ يہ سمجھ بيٹھيں گے كہ حق سے چشم پوشى اور ظلم كے بوجھ كے نيچے دب جانا ايك پسنديدہ كام ہے۔ يا يہ تصور كريں گے كہ حق، ابوبكر كے ساتھ ہے۔ جيسا كہ اس وقت ان تمام مبارزوں كے باوجود ابوبكر كے پيروكار، ابوبكر كى اس روش كو حق بنا كر پيش كرتے ہيں۔
ان سب باتوں كے پيش نظر، حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے ممكنہ حد تك اپنے حق كے دفاع كا ارادہ كيا۔
البتہ جس بى بى (ع) كا باپ تازہ ہى دنيا سے رخصت ہوا ہو اور جس كا بچہ تازہ ہى سقط ہوا ہو نيز جس نے اور بہت سے مصائب برداشت كئے ہوں اس كے لئے يہ سب كام سہل اور آسان نہيں تھے، ان حادثات ميں سے ايك حادثہ ہى ايك عورت كو ہميشہ کے لئے ستمگروں سے مرعوب كرنے كے لئے كافى تھا۔ ليكن فاطمہ، كہ جنہيں فداكارى اور شجاعت كى خو ماں اور باپ سے وراثت ميں ملى تھيں اور جنہوں نے فداكار افراد كے درميان زندگى گذارى تھي، انہيں يہ چھوٹى چھوٹى دھمكياں خوفزدہ نہيں كر سكتى تھيں۔
اس مرحلہ ميں حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے مبارزات كا خلاصہ مندرجہ ذيل ہے۔
1_ بحث و استدلال
حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے ابوبكر سے گفتگو كے دوران قرآنى آيات كى شہادت و گواہياں پيش كر كے برہان و استدلال سے ثابت كيا كہ فدك ان كى ملكيت ہے اور خلفاء كا يہ اقدام غير قانونى ہے۔
2_ مسجد بنوي (ص) ميں تقرير
حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے دلائل اور براہين كے ذريعہ خلافت كى مذمت اور اپنى حقانيت ثابت كرنے كے بعد يہ ارادہ كيا كہ مسجد ميں جائيں اور لوگوں كے سامنے حقائق كو بيان كريں۔
حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے مسجد ميں مہاجرين و انصار كے كثير مجمع كے درميان ايك مفصل خطبہ ديا۔ آپ (ع) نے لوگوں كو خدا كى طرف دعوت دي۔ پيغمبر اكرم (ص) اور ان كى رسالت كى تعريف كى فلسفہ احكام كے بارے ميں گفتگو فرمائي، ولايت اور رہبر و قائد كى عظمت كى تشريح فرمائي اور دوسرے بہت سے اہم مسائل پر روشنى ڈالنے كے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئيں كہ جو كہنے كى باتيں تھيں ميں نے وہ كہديں۔
آخر ميں فرمايا: ”اے لوگو جو كہنا چاہئے تھا وہ ميں كہہ چكي، باوجود اس كے كہ مجھے معلوم ہے كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے، تمہارے بنائے ہوئے نقشے مجھ سے پوشيدہ نہيں ہيں ليكن ميں كيا كروں يہ ايك درد دل تھا جس كو ميں نے شدت غم كى بنا پر بيان كر ديا تا كہ تمہارے اوپر حجت تمام ہوجائے۔” [18]
3_ ترك كلام
حضرت فاطمہ زہراء (ع) نے مبارزہ كو جارى ركھنے كے لئے ترك كلام كو منتخب فرمايا اور ابوبكر سے كھلے عام كہديا كہ اگر فدك كو واپس نہ كرو گے تو ميں جب تك زندہ رہوں گى تم سے كلام نہيں كرونگى، جہاں بھى ابوبكر سے سامنا ہوتا اپنا رخ ان كى طرف سے پھير ليتيں اور ان سے بات نہ كرتيں۔[19] اس بى بى (ع) نے جو پيغمبر (ص) كے قول كے مطابق رضائے خدا كے بغير كبھى غضبناك نہيں ہوتى تھيں، اپنى اس روش كے ذريعہ امت كے جذبات و احساسات كى موج كو نظام خلافت كے خلاف ابھارا۔
4_ رات ميں تدفين
نہ صرف يہ كہ شہزادى نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات تك مبارزہ كو جارى ركھا بلكہ آپ (ع) نے اسے قيامت كى سرحدوں سے ملا ديا۔ اپنے شوہر حضرت على (ع) كو وصيت كرتے ہوئے كہا كہ ”اے على (ع) مجھ كو رات ميں غسل دينا، رات ميں كفن پہنانا اور پوشيدہ طور پر سپرد خاك كردينا، ميں اس بات سے راضى نہيں ہوں كہ جن لوگوں نے مجھ پر ستم كيا ہے وہ ميرے جنازہ كى تشييع ميں شريك ہوں۔ حضرت على (ع) نے بھى شہزادى كى وصيت كے مطابق ان كو راتوں رات دفن كر ديا اور ان كى قبر كو زمين كے برابر كر ديا اور چاليس نئي قبروں كے نشان بنا ديئے كہيں ان كى قبر پہچان نہ لى جائے۔[20]
حضرت فاطمہ زہراء (ع) کی شہادت
پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كا رنج اور خلافت اميرالمؤمنين (ع) غضب كرنے والوں كى روش نے بھى حضرت فاطمہ زہراء (ع) كے وجود اور ان كے جسم و جان كو سخت تكليف پہنچائي، حضرت فاطمہ زہراء (ع) پيغمبر (ص) كے بعد، مسلسل گريہ كناں اور غمزدہ رہتيں۔ كبھى باپ كى قبر كى زيارت كو تشريف لے جاتيں اور كبھى شہداء كے مزار پر جا كر گريہ فرماتيں۔[21] نيز گھر ميں گريہ و عزادارى ميں مصروف رہتى تھيں۔
آخر كار، شہزادى دو عالم كى طاقت كو كم كر دينے والے غم اور ديگر پہنچنے والے صدموں نے آپ كو مضمحل اور صاحب فراش بنا ديا۔ بالاخر انہيں صدمات كے نتيجے ميں آپ 13 جمادى الاولى[22] يا سوم جمادى الثانيہ[23] 11 ھ ق يعنى رسول اكرم (ص) كى رحلت كے 75 يا 95 دن بعد، دنيا سے رخصت ہوگئيں اور آپ (ع) نے اپنى شہادت سے اپنے پيروكاروں كے دلوں كو ہميشہ کے لئے غم و الم ميں مبتلا كر ديا۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ زہراء (ع) ایک معصوم ہستی ہونے کی ناطے آپ (ع) کی معنوی شخصیت سمجھنے کے لئے ہم ان معصوم ہستیوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جو آپ (ع) کی معنوی شخصیت کو بہتر جانتی ہیں۔ جن میں سر فہرست پیغمبر اکرم (ص) کی ذات گرامی ہے۔ آپ (ص) کی فرمایش کے مطابق حضرت فاطمہ زہراء (ع) کو خدا متعال نے تمام عورتوں كا سردار، آپ (ع) اور آپ (ع) كے خاندان كى محبت و ولايت کو دينى فريضہ، آپ (ع) كی ناراضگى خدا كی ناراضگى قرار دیا گیا ہے۔ یہ مقام آپ (ع) کو خدا کی راہ میں مسلسل جدوجہد سے حاصل ہوا جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
حوالہ جات
[1] مجلسی، بحارالانوار، ج۳۴، ص۱۹ و ۲۶؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۵۸؛ امینی، الغدیر، ج۳، ص۲۰۔
[2] مفید، الأمالي، ص۳؛ طوسی، الأمالي، ج۱، ص۸۳؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص۴۵۶۔
[3] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۹ و ۲۶؛ مفید، الأمالي، ص۳؛ طوسی، الأمالي، ج۱، ص۸۳؛ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۳، ص۳۲۲۔
[4] مجلسی، بحارالانوار، ج۳۴، ص۹؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص۴۶۷۔
[5] مجلسی، بحارالانوار، ج۳۴، ص۱۹و۲۶؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۷۳۔
[6] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۲؛ ابن بابویہ، علل الشرائع، ص۱۸۱: ”قال: سئلت ابا عبدالله عن فاطمة، لمَ سميّت زهراء؟ فقال: لانّها كانت اذ اقامت فى محرابها زهر نورها لاهل السماء كما يزهر نور الكواكب لاهل الارض۔”
[7] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۴۲؛ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۳، ص۳۳۴ ”… أَنَّهُ کَانَ النَّبِیُّ ص لَا یَنَامُ حَتَّى یُقَبِّلَ عُرْضَ وَجْهِ فَاطِمَةَ یَضَعُ وَجْهَهُ بَیْنَ ثَدْیَیْ فَاطِمَةَ وَ یَدْعُو لَهَا وَ فِی رِوَایَةٍ حَتَّى یُقَبِّلَ عُرْضَ وَجْنَةِ فَاطِمَةَ أَوْ بَیْنَ ثَدْیَیْهَا…”
[8] اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص4۶۷؛ ابن صباغ، الفصول المهمة، ص146؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۴۲؛ امینی، الغدير، ج۳، ص20 ”… من عرف هذه فقد عرفها و من لم يعرفها فهى فاطمة بنت محمد صلى الله عليه و آله و سلم و هى بضعة منّى و هى قلبى الذى بين جنبى فمن آذاها فقد آذانى و من آذانى فقد آذى الله۔”
[9] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۶ منقول از تفسير على بن ابراہيم؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۵۹۔
[10] مجلسی، بحارالانوار، ج۳۳، ص۴۶۔
[11] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۸۲؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۶۸ ”… فقالت يا بنى الجار ثم الدار۔”
[12] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۷۶ و ۸۴ ”ما كان فى هذه الامة اعبد من فاطمة كانت تقوم حتى تورّم قدماها۔”
[13] ابنقتیبه، الإمامة و السياسة، ج۱، ص۱۹۔
[14] منقول از امینی، بانوی نمونہ اسلام، ص۱۴۴۔
[15] ”فدك” مدينہ سے چند فرسخ كے فاصلہ پر ايك ديہات تھا جو ۷ ھ ميں رسول خدا (ص) اور يہوديوں كے درميان صلح كے معاہدہ ميں بغير كسى خونريزى كے رسول خدا (ص) كو ملا تھا اور يہ صرف رسول خدا (ص) كا حق تھا چنانچہ آپ (ص) نے خدا كے حكم كے مطابق فدك كو اپنى بيٹى حضرت فاطمہ (ع) كو بخش ديا تھا۔
[16] حویزی، تفسير نور الثقلين، ج۳، ص۱۵۴۔ مطبوعہ حكمت قم اصول مالكيت ج۳ موضوع فدك والا حصہ ملاحظہ ہو۔
[17] سپهر کاشانی، ناسخ التواريخ، ص۱۲۲۔
[18] اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج1، ص4۹۱؛ طبرسی، الاحتجاج، ج۱، ص۱۴۱ ”ألا قد قلت ما قلت هذا على معرفة منى بالجذلة التى خامرتكم و العذرة التى استشعرتها قلوبكم ولكنّها فيضة النفس و نفثة الغيظ…”
[19] ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغة، ج۶، ص46؛ اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۴۷۷۔
[20] طبری صغیر، دلائل الامامة، ص۴۶؛ ابن شهر آشوب، المَناقِب، ج۳، ص۳۶۳۔ يہ حصہ ابراہيم امينى كى كتاب ”بانوى نمونہ اسلام” كا اقتباس ہے۔
[21] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۹۵۔
[22] مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۹۵۔
[23] اربلی، کَشْفُ الغُمَّة، ج۱، ص۵۰۳؛ طبری صغیر، دلائل الامامة، ص۴۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۴۳، ص۱۹۶۔ منقول از اقبال الاعمال۔
فہرست منابع
۱: ابن ابي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۷۵ش۔
۲: ابن بابویه، محمد بن علی، علل الشرائع، بیروت، مؤسسه الاعلمی، ۱۴۰۸ھ ق-۱۹۸۸م۔
۳: ابن شهر آشوب، مَناقِبُ آلِ أبی طالب، قم، المکتبة الحیدریة، ۱۳۷۶ھ ق۔
۴: ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المهمة في معرفة الأئمة، قم، مؤسسه علمی فرهنگی دار الحديث، ۱۴۲۲ھ ق۔
۵: ابن قتیبة، عبدالله بن مسلم، الإمامة و السياسة، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۰ ھ ق- ۱۹۹۰م۔
۶: اربلی، علی بن عیسی، کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة، دار الاضواء، بیروت، ۱۴۰۳ھ ق.
۷: امینی، ابراہیم، بانوی نمونہ اسلام، قم، شفق، ۱۳۹۴ ھ ش۔
۸: امینی، عبد الحسین، غَدیر فِی الْکِتابِ وَ السُّنّة وَ الْاَدَب، بیروت، موسسة الاعلمی، ۱۴۲۶ھ ق.
۹: حویزی، عبد علی بن جمعه، تفسير نور الثقلين، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ھ ق۔
۱۰: سپهر کاشانی، محمد تقی، ناسخ التواريخ، قم، مدین، ۱۴۲۷ ھ ق۔
۱۱: طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد مقدس، نشر المرتضی، ۱۴۰۳ھ ق۔
۱۲: طبری صغیر، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، مؤسسه بعثت، ۱۴۱۳ ھ ق.
۱۳: طبری صغیر، محمد بن جریر، تاریخُ الطبری، بیروت، موسسة الاعلمی، ۱۴۰۱ ھ.ق۔
۱۴: طوسی، محمد بن حسن، الأمالي، قم، دار الثقافة، ۱۴۱۴ ھ ق.
۱۵: مجلسی، محمد باقر، بِحارُالاَنوار الجامِعَةُ لِدُرَرِ أخبارِ الأئمةِ الأطهار، تہران، دار الکتب الاسلامیة، ۱۳۱۵ ھ.ق۔
۱۶: مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، قم، مؤسسة آل البيت عليهم السلام، ۱۴۱۳ھ ق۔
مضمون کا مآخذ (تلخیص اور ترمیم کے ساتھ)
مركز تحقيقات اسلامي، تاريخ اسلام جلد۴ (حضرت فاطمہ اور ائمہ معصومين عليهم السلام كى حيات طيبہ)، مترجم: معارف اسلام پبلشرز، نور مطاف، ۱۴۲۸ ھ ق؛ ص ۴۸ الی ۶۰.